پر دہ کولغت عرب میں حجاب کہا جا تا ہے۔لفظ حجاب پہناوا اور پردہ دونوں مفہوم میں آیا ہے، لیکن زیادہ تر پردے ہی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس لفظ کو پہناوے کے مفہوم میں اس لیے لایا گیا ہے کہ پر دہ پہناوے کا ذریعہ ہے اور اصل لغت کے اعتبار سے ہر پہناوا حجاب نہیں ہے۔ بلکہ وہی پہناوا حجاب ہو گا، جو چہرے کو ڈھانپ دے۔ حضرت سلیمانؑ کے واقعے سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے : حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِٱلْحِجَابِ’’یہاں تک کہ سورج پس پردہ چپ گیا ۔‘‘(1)عورتوں کے حجاب سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی ؒفرماتے ہیں :’’ عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے کہ ( یعنی وہ اس طرح پر دو کریں) مردانہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔‘‘
(2) عورت کا مطلب ہے: مـا يـعـار فـي اظهاره۔ یعنی( جسم کا وہ حصہ ) جس کا ظاہر ہو نا قابل عا رو شرم ہو ۔(3) ایک اور روایت میں ہے: الـمـرأة عورة۔ ’’ عورت عورت ہے۔‘‘ (4) مطلب یہ ہے کہ عورت، مرداجنبی کے لیے سر سے پاؤں تک لائق پردہ (یعنی چھپانے کی چیز )ہے اور چھپا یا اس چیز کو جا تا ہے، جس کو غیر کی نظروں سے بچانا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے جامع تر ندی میں ارشاد ہے کہ عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے: فاذاخرجت استشھرفھا الشیطان ۔’’یعنی جس وقت وہ باہرنکلتی ہے تو شیطان اسے نگاہ اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہے ۔‘‘(5)پردہ عورت کے لیے انعامِ خداوندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے جو کہ عورت کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے ۔ اسی پردے میں عورت کی عزت ہے۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جوعورت پردہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کی بے شمارنعمتیں عطا کرتا ہے، جن میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی عورت سے راضی ہو جا تا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے اس سے بڑھ کر نعمت اور خوشی کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے۔ اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں جو حیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ، یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اور ستم رسید و تھا۔ ان کوظلم وستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی ۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (النور :33)’
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (الاحزاب:32)
اس کے فورا بعد ارشاد ہوا
ان آیات سے پردے کے متعلق درج ذیل احکام نکلتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عورتوں کو عام حالات میں نامحرم مردوں سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے ۔ پھر مردوں کو بتایا ہے کہ اگر ان کو پیغمبر ﷺ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جانا پڑے تو ان کو کن آداب کا لحاظ رکھنا چا ہے۔
کسی مسلمان کو اپنے کسی مسلمان بھائی کے گھر دعوت وغیرہ کے سلسلے میں جانا پڑے تو گھر میں اجازت کے بعد داخل ہواور اس کو چاہیے کہ وقت کے وقت پہنچے اور کھانا کھا کر فورا واپس ہو جائے۔ یہ نہ کرے کہ گھنٹوں پہلے سے دھرنا دے کر بیٹھ جائے اور پھر کھانے کے بعد گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آ تا۔ انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ صاحبِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے۔ نا شائستہ لوگ اپنی اس عادت کی وجہ سے نبیﷺ کو تنگ کرتے رہتے تھے اور آپؐ اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے (11)اس کے بعد سورۃ النور میں غلاموں، باندیوں اور بلوغت کے قریب لڑ کے لڑکیوں کے لیے اجازت لینے کے سلسلے میں فرمایا کہ غلاموں اور نابالغ بچوں کے لیے ہر وقت اجازت لینا ضروری نہیں ہے، صرف ان اوقات میں اجازت لینا ضروری ہے جو اوقات خاص پردے کے ہیں اور جن میں ان کا اچانک آ جانا ان کے لیے بھی اور گھر والوں کے لیے بھی احتیاط اور حیا کے منافی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
شرعی پردہ در اصل دو پردوں پرمشتمل ہے۔ ایک گھر سے باہر کا پردہ،جس کے بارے میں سورۃ الاحزاب میں احکامات وارد ہوئے ہیں اور یہ احکامات حجاب کہلاتے ہیں۔ دوسرا گھر کے اندر کا پردہ، جس کے بارے میں سورۃ النور میں احکامات بیان ہوئے ہیں ، ان کو احکامات ’ستر‘ کہا جا تا ہے ۔ (جاری)
۲۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ، فتح الباری، کتاب التفسیر، باب قولہ ولو اذ سمعتموہ قلتم، حدیث نمبر ۴۷۵۰۔
۳۔مراۃ لمناجیح، پردے کے احکام، فصل دوم، ۵؍۱۶۔
۴۔سنن ترمذی،کتاب الرضاع، باب ۱۸، حدیث نمبر ۱۱۷۳۔
۵۔ نفسِ مصدر
۶۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد سوم، سورۃ النور، آیت ۳۳، ص۴۰۳۔
۷۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۃ الاحزاب، آیت ۳۲، ص ۸۹۔
۸۔ نفس مصدر، سورۃ الاحزاب، آیت ۳۳، ص ۹۰۔
۹۔ مولانا ادریس کاندہلویؒ، تفسیر معارف القرآن، جلد ششم، مکتبۃ المعارف دار العلوم حسینیہ، شہداد پور، پاکستان، ۱۴۲۲،ص ۲۵۷۔
۱۰۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۃ الاحزاب، آیت ۵۳، ص۱۱۹۔۱۲۰۔
۱۱۔ نفسِ مصدر، ص ۱۲۰۔
۱۲۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد سوم، سورۃ النور، آیت ۵۸، ص۴۲۰۔۴۲۱۔
شرعی پردہ در اصل دو پردوں پرمشتمل ہے۔ ایک گھر سے باہر کا پردہ،جس کے بارے میں سورۃ الاحزاب میں احکامات وارد ہوئے ہیں اور یہ احکامات حجاب کہلاتے ہیں۔ دوسرا گھر کے اندر کا پردہ، جس کے بارے میں سورۃ النور میں احکامات بیان ہوئے ہیں ، ان کو احکامات ’ستر‘ کہا جا تا ہے ۔
ماشاءاللہ کافی عمدہ اور تحقیقی مقالہ ہے آنے والی قسط کا انتظار ہے ۔