امی کمرے کی حالت دیکھ بہت مایوسی تھیں۔ کپڑے فرش پر پڑے ہوئے تھے۔ بیڈ کی چادر آدھی اتری ہوئی تھی۔ کھلونے بکھرے ہوئے تھے۔ چپس کے پیکٹ بھی کمرے کے ڈسٹبن کے باہر ہی پڑے تھے۔ ریاض ایک بہت چست اور پھرتیلا بچہ تھا۔ روزانہ صبح سویرے جلدی اٹھتا، ضروریات سے فارغ ہوکر برش کرتا، نہاتا اور اپنے کپڑے بڑے ہی سلیقے سے میلے کپڑوں کی باسکٹ میں رکھتا۔ اسکول سے لوٹنے پر یونیفارم بھی اسی باسکٹ میں ڈالتا۔ پھر ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ بدل گیا تھا۔
بہت دنوں پہلے کی بات ہے، جب ٹیچر نے کلاس میں ایک ہفتے کی تعطیلات کا اعلان کیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگ رہا ہے، اسکول ایک ہفتہ بند رہے گا۔ لیکن ایک ہفتہ، ایک مہینے میں بدل گیا اور مہینہ سال میں۔ اس دوران آن لائن اسکول تو شروع ہی تھے، پھر بھی روٹین تو روٹین تھا، جو ٹوٹ چکا تھا۔ گھر رہ رہ کر آہستہ آہستہ ریاض سست ہوا جارہا تھا۔ صبح میں آن لائن کلاس ہوتی، بعد میں موبائیل میں ویڈیو گیمیز ۔ ابو ایک ہی جگہ دیر تک بیٹھے رہنے سے اور گھنٹوں موبائیل کے استعمال سے اسے تنبیہ کر چکے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے بڑھتے وقت کے ساتھ انھیں یہی لگنے لگا کہ بچہ آخر کرے بھی کیا۔ وہ کھیلنے باہر بھی جاتا، مگر سوسائٹی کے بینچ پر بیٹھ کر پپ جی اور کار ریس جیسے ہی گیمز میں لگا رہتا ۔
امی گزشتہ ایک مہینے سے پریشان تھیں۔ اس کی دلچسپی پڑھائی سے بھی ختم ہو رہی تھی ۔ اس کا کمرہ صاف کرتے کرتے ان کو چیونٹیوں کی لمبی قطار نظر آئی۔ بلا ناغہ چیونٹیاں روزانہ آنے لگی تھیں۔ امی صفائی بھی کرتیں، لیکن وہ منھ چڑانے آہی جاتیں۔ آج امی انھیں دیکھ کر مسکرائیں۔’’ریاض بیٹا! ذرا یہاں آؤ۔‘‘ ریاض ابھی باہر جانے ہی لگا تھا کہ اسے پلٹنا پڑا۔’’جی امی۔‘‘
’’چلو آج ہم دونوں مل کر ایک ایڈوینچر کرتے ہیں، ریڈی؟‘‘
’’امی مجھے آج ٹورنامنٹ کھیلنا ہے، پلیز کل کریں کیا؟‘‘ اسے جانا تھا۔
’’زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
’’ہممم! ٹھیک ہے۔ بولیے پھر کرنا کیا ہے۔‘‘ وہ منع نہیں کرپا رہا تھا۔
’’یہ چیونٹیاں آتی کہاں سے ہیں؟ چلو ہم انہیں دیکھیں گے۔‘‘
وہ کندھے اچکانے لگا۔’’امی! آپ بھی نا ….‘‘
’’چلو تو سہی۔‘‘ امی تو پرجوش تھیں۔
دونوں غور کرتے کرتے قطار کے آخری سرے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھڑکی کے نیچے سے یہ چیونٹیاں آتی ہیں۔
’’کتنی لمبی قطار ہے! میں سوچ رہی ہوں کل کتنے ہوں گی؟‘‘
’’پچاس شاید۔‘‘
’’ تمہارا محدب شیشہ لاؤ۔ دیکھیں تو کیا کیا لے جاتی ہیں۔‘‘
ریاض کو محدب شیشے سے چیونٹیوں کی حرکتیں دیکھنے میں مزہ آنے لگا۔ امی کہنے لگیں:’’پتا ہے تمہیں، چیونٹی کے نام کی ایک سورہ، نمل کے نام سے قرآن مجید میں ہے، جس میں حضرت سلیمان ؑ کا قصہ ہے۔ جب ان کا لشکر آیا، تب چونٹیوں کی سردار نے انہیں اپنے تحفظ کی اطلاع دی۔ ‘‘
’’ہاں! مجھے وہ قصہ بہت اچھےسے یاد ہے۔‘‘ ریاض محدب شیشے سے مختلف زاویوں سے قطار کا جائزہ لے رہا تھا۔
’’ اس قصے کا کئی جاہلوں نے مذاق اڑایا کہ اگر قرآن آسمانی کتاب ہے تو چیونٹی کا ذکر کیوں کرتی ہے؟ بھلا چیونٹی کی کیا حیثیت ہے۔ ‘‘
ریاض نے شیشہ ایک چیونٹی کے قریب کرکے کہا:’’ہاں امی، اتنی سی تو ہے یہ ، جسے ہم مارکر پھینک بھی دیتے ہیں۔‘‘
امی اس کی توجہ سے خوش تھیںاور تو اور قرآن پر شک کرنے والوں کو ہنسی بھی آئی کہ بھلا چیونٹی کی رانی بھی ہوتی ہے؟‘‘
پھرپھر کیا…..’’ ایک عرصے بعد سائنس نے دریافت کیا کہ چیونٹیوں کی کالونی ہوتی ہے۔ وہاں وہ سیکڑوں کی تعداد میں بڑے ہی منظم انداز میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی رانی ہوتی ہے۔ کالونی میں کچھ چیونٹیاں سپاہی ہوتی ہیں ، کچھ بچے سنبھالنے پر معمور ہوتی ہیں اور کچھ کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں؟‘‘
وہ دل چسپی سے سن رہا تھا اور غور بھی کر رہا تھا۔ اس سوال پر فوراً کہنے لگا: ’’ہاں دیکھیے نا!‘‘
’’ ان چیونٹیوں میں بات چیت کرنے کا سلیقہ پایا جاتا ہے، اس لیے وہ کبھی ایک دوسرے سے ملے بنا آگے نہیں جاتی۔ پھر ایک چیونٹی دوسری چیونٹی کو بتاتی ہے کہ آگے کھانا کہاں ہے؟ اس طرح یہ سب دن بھر کھانا تلاش کرکے شام ہونے تک گھر لے جاتی ہیں۔‘‘
پھر امی دیوار کی طرف گئیں۔ ’’یہاں آؤ! دیکھو کیسے کھانا لے کر چڑھ رہی ہیں۔‘‘
ریاض قریب آتے ہوئے کہنے لگا: ’’ دیکھیے کتنی چھوٹی ہیں اور کیسی دیوار پار جاتی ہیں۔ کھانا بھی تحفظ سے لیے جا رہی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں بیٹا ! کیا اب تم اللہ کی اس ننھی مخلوق کی اہمیت سمجھتے ہو۔ یہ انسانوں کے گھروں میں آتی ہیں اور اتنی ننھی منی ہمیں سلیقہ سکھاتی ہے۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘ اب وہ امی کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔
’’اور دیکھو، کیسے لگن سے اپنا کام کرتی ہیں۔ کیا کبھی کسی چیونٹی کو قطار کے درمیان سے کام چھوڑ کر یہاں وہاں جاتے دیکھا ۔‘‘
وہ سوچ میں پڑگیا۔ ’’میں کبھی اتنا غور نہیں کرسکا ۔ مگر ہاں ان کی قطاریں نہیں ٹوٹتیں، یہ میں کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں میرے بیٹے! قرآن بھی اللہ کی مخلوق پر غور کرنے کہتا ہے۔ یہ انوکھی مخلوق ہمیں سکھاتی ہے کہ پورے خلوص سے کام کو انجام دینا اور کام کی تکمیل تک اپنا جذبہ کو برقرار رکھنا ہے۔ ‘‘
’’ہممم! اس لیے اس پر سورۃ بھی ہے۔ شکریہ امی۔ یہ ایڈونچر تو ڈسکوری سے بھرا ہوا تھا۔‘‘
’’مجھے خوشی ہے تمہیں یہ پسند آیا۔ لیکن کیا تم نے جو سیکھا، اس پر عمل…….‘‘
’’جی بالکل! ‘‘ وہ کھڑا ہوا۔ ’’ مجھے احساس ہے کہ میں کیا کرتا رہا ہوں۔ مگر اب کوشش کروں گا کہ پھر سے ایک اچھا روٹین بنالوں۔‘‘
وہ کھیلنے چلا گیا اور امی کو سکون ہی سکون محسوس ہوتا رہا۔
بہت دنوں پہلے کی بات ہے، جب ٹیچر نے کلاس میں ایک ہفتے کی تعطیلات کا اعلان کیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگ رہا ہے، اسکول ایک ہفتہ بند رہے گا۔ لیکن ایک ہفتہ، ایک مہینے میں بدل گیا اور مہینہ سال میں۔ اس دوران آن لائن اسکول تو شروع ہی تھے، پھر بھی روٹین تو روٹین تھا، جو ٹوٹ چکا تھا۔ گھر رہ رہ کر آہستہ آہستہ ریاض سست ہوا جارہا تھا۔ صبح میں آن لائن کلاس ہوتی، بعد میں موبائیل میں ویڈیو گیمیز ۔ ابو ایک ہی جگہ دیر تک بیٹھے رہنے سے اور گھنٹوں موبائیل کے استعمال سے اسے تنبیہ کر چکے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے بڑھتے وقت کے ساتھ انھیں یہی لگنے لگا کہ بچہ آخر کرے بھی کیا۔ وہ کھیلنے باہر بھی جاتا، مگر سوسائٹی کے بینچ پر بیٹھ کر پپ جی اور کار ریس جیسے ہی گیمز میں لگا رہتا ۔
امی گزشتہ ایک مہینے سے پریشان تھیں۔ اس کی دلچسپی پڑھائی سے بھی ختم ہو رہی تھی ۔ اس کا کمرہ صاف کرتے کرتے ان کو چیونٹیوں کی لمبی قطار نظر آئی۔ بلا ناغہ چیونٹیاں روزانہ آنے لگی تھیں۔ امی صفائی بھی کرتیں، لیکن وہ منھ چڑانے آہی جاتیں۔ آج امی انھیں دیکھ کر مسکرائیں۔’’ریاض بیٹا! ذرا یہاں آؤ۔‘‘ ریاض ابھی باہر جانے ہی لگا تھا کہ اسے پلٹنا پڑا۔’’جی امی۔‘‘
’’چلو آج ہم دونوں مل کر ایک ایڈوینچر کرتے ہیں، ریڈی؟‘‘
’’امی مجھے آج ٹورنامنٹ کھیلنا ہے، پلیز کل کریں کیا؟‘‘ اسے جانا تھا۔
’’زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
’’ہممم! ٹھیک ہے۔ بولیے پھر کرنا کیا ہے۔‘‘ وہ منع نہیں کرپا رہا تھا۔
’’یہ چیونٹیاں آتی کہاں سے ہیں؟ چلو ہم انہیں دیکھیں گے۔‘‘
وہ کندھے اچکانے لگا۔’’امی! آپ بھی نا ….‘‘
’’چلو تو سہی۔‘‘ امی تو پرجوش تھیں۔
دونوں غور کرتے کرتے قطار کے آخری سرے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھڑکی کے نیچے سے یہ چیونٹیاں آتی ہیں۔
’’کتنی لمبی قطار ہے! میں سوچ رہی ہوں کل کتنے ہوں گی؟‘‘
’’پچاس شاید۔‘‘
’’ تمہارا محدب شیشہ لاؤ۔ دیکھیں تو کیا کیا لے جاتی ہیں۔‘‘
ریاض کو محدب شیشے سے چیونٹیوں کی حرکتیں دیکھنے میں مزہ آنے لگا۔ امی کہنے لگیں:’’پتا ہے تمہیں، چیونٹی کے نام کی ایک سورہ، نمل کے نام سے قرآن مجید میں ہے، جس میں حضرت سلیمان ؑ کا قصہ ہے۔ جب ان کا لشکر آیا، تب چونٹیوں کی سردار نے انہیں اپنے تحفظ کی اطلاع دی۔ ‘‘
’’ہاں! مجھے وہ قصہ بہت اچھےسے یاد ہے۔‘‘ ریاض محدب شیشے سے مختلف زاویوں سے قطار کا جائزہ لے رہا تھا۔
’’ اس قصے کا کئی جاہلوں نے مذاق اڑایا کہ اگر قرآن آسمانی کتاب ہے تو چیونٹی کا ذکر کیوں کرتی ہے؟ بھلا چیونٹی کی کیا حیثیت ہے۔ ‘‘
ریاض نے شیشہ ایک چیونٹی کے قریب کرکے کہا:’’ہاں امی، اتنی سی تو ہے یہ ، جسے ہم مارکر پھینک بھی دیتے ہیں۔‘‘
امی اس کی توجہ سے خوش تھیںاور تو اور قرآن پر شک کرنے والوں کو ہنسی بھی آئی کہ بھلا چیونٹی کی رانی بھی ہوتی ہے؟‘‘
پھرپھر کیا…..’’ ایک عرصے بعد سائنس نے دریافت کیا کہ چیونٹیوں کی کالونی ہوتی ہے۔ وہاں وہ سیکڑوں کی تعداد میں بڑے ہی منظم انداز میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی رانی ہوتی ہے۔ کالونی میں کچھ چیونٹیاں سپاہی ہوتی ہیں ، کچھ بچے سنبھالنے پر معمور ہوتی ہیں اور کچھ کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں؟‘‘
وہ دل چسپی سے سن رہا تھا اور غور بھی کر رہا تھا۔ اس سوال پر فوراً کہنے لگا: ’’ہاں دیکھیے نا!‘‘
’’ ان چیونٹیوں میں بات چیت کرنے کا سلیقہ پایا جاتا ہے، اس لیے وہ کبھی ایک دوسرے سے ملے بنا آگے نہیں جاتی۔ پھر ایک چیونٹی دوسری چیونٹی کو بتاتی ہے کہ آگے کھانا کہاں ہے؟ اس طرح یہ سب دن بھر کھانا تلاش کرکے شام ہونے تک گھر لے جاتی ہیں۔‘‘
پھر امی دیوار کی طرف گئیں۔ ’’یہاں آؤ! دیکھو کیسے کھانا لے کر چڑھ رہی ہیں۔‘‘
ریاض قریب آتے ہوئے کہنے لگا: ’’ دیکھیے کتنی چھوٹی ہیں اور کیسی دیوار پار جاتی ہیں۔ کھانا بھی تحفظ سے لیے جا رہی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں بیٹا ! کیا اب تم اللہ کی اس ننھی مخلوق کی اہمیت سمجھتے ہو۔ یہ انسانوں کے گھروں میں آتی ہیں اور اتنی ننھی منی ہمیں سلیقہ سکھاتی ہے۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘ اب وہ امی کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔
’’اور دیکھو، کیسے لگن سے اپنا کام کرتی ہیں۔ کیا کبھی کسی چیونٹی کو قطار کے درمیان سے کام چھوڑ کر یہاں وہاں جاتے دیکھا ۔‘‘
وہ سوچ میں پڑگیا۔ ’’میں کبھی اتنا غور نہیں کرسکا ۔ مگر ہاں ان کی قطاریں نہیں ٹوٹتیں، یہ میں کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں میرے بیٹے! قرآن بھی اللہ کی مخلوق پر غور کرنے کہتا ہے۔ یہ انوکھی مخلوق ہمیں سکھاتی ہے کہ پورے خلوص سے کام کو انجام دینا اور کام کی تکمیل تک اپنا جذبہ کو برقرار رکھنا ہے۔ ‘‘
’’ہممم! اس لیے اس پر سورۃ بھی ہے۔ شکریہ امی۔ یہ ایڈونچر تو ڈسکوری سے بھرا ہوا تھا۔‘‘
’’مجھے خوشی ہے تمہیں یہ پسند آیا۔ لیکن کیا تم نے جو سیکھا، اس پر عمل…….‘‘
’’جی بالکل! ‘‘ وہ کھڑا ہوا۔ ’’ مجھے احساس ہے کہ میں کیا کرتا رہا ہوں۔ مگر اب کوشش کروں گا کہ پھر سے ایک اچھا روٹین بنالوں۔‘‘
وہ کھیلنے چلا گیا اور امی کو سکون ہی سکون محسوس ہوتا رہا۔
’’ ایک عرصے بعد سائنس نے دریافت کیا کہ چیونٹیوں کی کالونی ہوتی ہے۔ وہاں وہ سیکڑوں کی تعداد میں بڑے ہی منظم انداز میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی رانی ہوتی ہے۔
کالونی میں کچھ چیونٹیاں سپاہی ہوتی ہیں ، کچھ بچے سنبھالنے پر معمور ہوتی ہیں
اور کچھ کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ایک
دوسرے سے ملتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں؟‘‘
Comments From Facebook
0 Comments