۸ ؍مارچ عالمی یوم خواتین، عورتوں کی آزادی،مساوات،سماجی برابری اور کامیابی و ترقی کی توقعات لیے ہر سال آتا ہے۔ اسے بڑے بے زور و شور سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔ صنفی مساوات اور عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔کہا جاتا ہےکہ عورت آزاد ہو گئی ہے ۔ مضبوط ہو چکی ہے۔اس نے سماج میں ہر جگہ اپنی قدر، قیمت، ہمّت و حوصلہ اور محنت و بہادری سے منوالی ہے۔ وہ ایک اچھی معلمہ، پرنسپل، ڈاکٹر، ڈائریکٹر، انجینئر، آئی ایس آفیسر، حتی کہ پائلٹ اور پارلیمنٹ کی کرسی سے لے کر جج اور وکیل کے عہدے کو بھی اس نے خالی نہیں چھوڑا۔ وہ ایک اچھی سیاست داں، منسٹر، ایم پی، ایم ایل اے کے مقام کو بھی پُر کرچکی ہے۔کچھ دہائیوں پہلے کی بات کریں تو شاید بہت سے میدان خالی نظر آئیں گے۔ لیکن زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ خواتین نے ہر مقام پر اپنی اہمیت اور شراکت داری کی مثال قائم کردی ہے اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں ساری دنیا سے ملنے والی خبریں یہ بتارہی ہے کہ خواتین نے کسی شعبہ کو اچھوتا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اور وزیراعلی اور صدرِ مملکت کے عہدوں پر بھی موجود ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اِس وقت جب کہ ہم عورت کی آزادی ، سماجی برابری اور لبریشن کی بات کر تے ہیں تو اس کے عہدے ،اس کےکام یا پیشے سے جوڑ کر دیکھیں تو کوئی کمی کہیں نظر آتی۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا عورت کی آزادی اِسی کا نام ہے؟ سماج میں ان کے پیشہ یا نوکری میں ان کی بھرتی کو دیکھ کر ہم اسے ترقی کی نشانی سمجھیں؟ دراصل آزادی، مساوات اور برابری کے یہ غلط معنی سماج کو کس طرح غیر متوازن کررہے ہیں،کیا ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ ٹوٹتے گھر، بکھرتے خاندان، رشتوں کی ناقدری، سماج میں خواتین کی عزت کو خاک آلودہ کرتی کرائم کی رپورٹیں………آخر یہ سب کیا ہے؟ خاندان جوکہ ایک ادارہ ہے، جہاں سے انسان ڈھل کر نکلتے ہیں ،معاشرے کی تعمیر میں جہاں عورت کا اہم رول ہے، آج وہاں بے سکونی اور بے اعتمادی پائی جاتی ہے۔ سماج تباہی اور بربادی کے اُس دہانے پر کھڑا ہے، جہاں مجرم کو سزا تو درکنار، خواتین کے خلاف جرائم کو جرم بھی نہیں کہا جاتا اور اس وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورتوں کی عزتیں نیلام ہورہی ہیں، سائبر کرائم کے واقعات بھی آئے دن کبھی صلی ڈیل، کبھی بلی بائی ایپ کے نام سے شرمسار کر دیتے ہیں۔ کسی بھی وقت رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں عورت کی عزت کو روندتے ہوئے درندے قانون کی گرفت سے دور نظر آتے ہیں۔خواتین کو نام و نہاد آزادی دینے والے اور مساواتِ مرد و زن کے نعرے لگانے والوں نے آزادی و مساوات کو کس نظر سے دیکھا ہے ، اِس پر غور کر کے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کو جو معنیٰ آج دیے جارہے ہیں، وہ مغرب سے آئی ہوئی اصطلاح ہے۔ دراصل یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ صنفی برابری کے اس فنڈے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس برابری کی لڑائی کا حصہ بننے سے پہلے ہمیں اس کی اصل کو سمجھنا چاہیے۔ اس نعرے کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آزادئ نسواں کے نعرے لگانے والوں کی طرح مرد و عورت دونوں کو ایک ہی دائرے میں رکھ کر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج مغرب نے مساوات کے نام پر اِنسانیت کو بانٹنے کا کام کیا ہے۔ اس نے عورت کو برابر کا حصہ دینے کی بات تو کی ہے، لیکن اسے اس کے پورے حقوق نہیں دیے۔یعنی پہلے اسے حق سے محروم کیا اور پھر اُسے کم حق دے کر اسے برابر کا کام کرنے کے لیے تیار کیا اور اسے گھر سے باہر نکال کر نوکریوں اور مختلف پیشوں سے جوڑ دیا۔ ان تمام کاموں میں اسے لگاکر کم اجرت پر کام دیا گیا۔ وہاں اُن سے بارہ بارہ گھنٹے محنت کروایا گیا۔ اب آزادی اور برابری کی جو لالچ دے کر اسے گھر سے باہر نکالا گیا تھا،اُسے امپاورمنٹ کا نام دے کر اس کا استحصال کیاگیا ۔ پھر ہیومن لبریشن کی ایک جنگ چھیڑ دی گئی اور اسے جن حقوق سے محروم کیا گیا تھا، اُسے لینے کے لیے تیار کیا گیا ۔ یہی نہیں، گھروں کو خیر آباد کہنے کے بعد اُسے باہر نکال کر مردوں کے لیے سیر و تفریح کا سامان بنادیا گیا۔کہیں وہ ماڈلنگ کی دنیا میں آزمائی گئی، کہیں لوگوں کے لیے سامان بیچنے کا ذریعہ بنی، تو کہیں صارفین نے اُسے ہدف بنا یا۔ رہی سہی کسر مال کے کلچر نے پوری کردی، جہاں اُسے سیلز گرل کے نام پر گراہکوں کا دل بہلانے اور لبھانے والی ذمےداری دے کر وہاں بھی اس کا استحصال کیا گیا۔
کہیں کہیں تو اسے شادی اور میٹرنٹی لیوس بھی نہیں ملتی ۔ گویا وہ لوگوں کے لیے ایک نوالہ تر بنتی اپنی آزادی کو جنگ لڑتی رہی اور گھر کو چھوڑ کر وہ باہری دنیا میں قدم رکھنے کے بعد بھی آج تک صنفی مساوات کی لڑائی میں مصروف ہے۔کبھی وہ مردوں کے تشخص کے سامنے اپنی اہمیت منوانے کے لیے مرد اور عورت کی برابری کی بات منوانے کی مانگ کرتی ہے کہ ہم مرد کی حاکمیت کے مخالف ہیں۔ہمیں ایسا سماج اور سوسائٹی نہیں چاہیے، ہم بدلہ اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ہم تمہارے بچے کیوں پالیں؟ ہم تمہارے انڈر ویئر کیوں دھوئیں؟ اس طرح کے نعرے اکثر و بیشتر سننے کو مل جاتے ہے۔گھر اور خاندان جو ایک ادارہ تھا،وہاں سے تہذیبیں پروان چڑھتی تھیں، جہاں انسان بن کر نکلتے تھے،جہاں خاندانی رشتوں کی قدرو قیمت تھی، ماں ، باپ، بھائی ، بہن ، بیوی، بچے سب کے حقوق ادا کیے جاتے تھے، یہ سب کے سب ٹوٹ کر بکھرتے نظر آرہے ہیں اور ان کو امریکن کلچر یا نیوکلیر فیملی کا نام دے کر دل کو تسکین دی جانےلگی ہے۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھاہے
یہاں مندرجہ بالا چند باتوں کو صنفی مساوات کے ضمن میں عرض کیا گیا، لیکن اس وقت فی زمانہ پوری دنیا میں خواتین کے مساوات کی ایک دھوم مچی ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اس نے سماج میں ہر مقام پر اپنی جگہ بنائی ہے اور مرد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اس کی آنکھ میں آنکھ ملا کر وہ دیکھنے کے قابل تو ضرور ہوچکی ہے، اس سے بھلا کسی کو کیا انکار ہوسکتا ہے۔لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ آئیے دوسرا رخ بھی دیکھیں جوکہ بڑا ہی دل دہلانے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج وہ کہیں بھی اپنی عزت اور پاک دامنی کی ضمانت کےساتھ نہیں رہ پارہی ہے ۔ اُسے سب سے پہلے یہ فکر ستاتی ہے کہ کیا صبح گھر سے نکلنے کے بعد شام کو وہ بحفاظت گھر واپس آسکے گی؟
اسکول،کالج، کیمپس، آفسوں میں، راستے میں، چلتی ٹرین میں، بسوں میں، تنہائی یا بھرے ماحول میں، حد تو یہ ہے کہ مندروں میں، کھیتوں میں حتی کہ گھروں تک میں بھی وہ محفوظ نہیں ہے ۔اسکول کا ٹیچر ، پرنسپل، آفس کے بوسیز ،محلے کے اوباش ، گھروں کے مقدس رشتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے درندے، کبھی بھائی بن کر، کبھی باپ بن کر، کبھی چچا تو کبھی دادا اور سسر کے روپ میں بھیڑیے بن کر اُبھرتے ہیں۔ نتیجے میں بیٹیوں کی پیدائش سماج میں مصیبت سمجھی جانے لگتی ہے اور معصوم بچیاں پیدا ہونے کے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں مار دی جاتی ہیں۔ اگر پیدا بھی ہوجائیں غلطی سے تو اسے گٹر میں کوڑے کے ڈھیر پر اکسر وبیشتر دیکھا جا تا ہے۔نتیجہ آج میٹرو شہروں سے لے کر گاؤں میں لڑکیوں کی تعداد کا گھٹتا ہوا اشاریہ 1000 لڑکوں پر 750 یا 800 لڑکیوں پر ریشو پہنچ جاتا ہے، جو کہ ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے ۔ اتنی کم تعداد کے بعد جب وہ پل کر بڑی ہوتی ہے تو کبھی ظالم شوہر، کبھی سسرال والوں کی جہیز کی مانگ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، پھر خواہ وہ احمد آباد کی عائشہ ہو، جوکہ سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا دیتی ہے، خواہ پھر کوئی کرن یا سُمن۔
آخر ہم کس بھارت میں رہ رہے ہیں ؟ اور کس صدی کی بات کرتے ہیں؟ اکیسویں صدی کے 2021 کی کرائم رپورٹس اگر ہم پڑھ لیں تو ہم ’بیٹی پڑھاؤ کو‘ چھوڑ کر صرف ’بیٹی بچاؤ‘ کے نعرے کو زبان سے لگانے پر مجبور ہوں گے۔ جب ہماری بیٹیاں بچیں گی، تبھی تو وہ پڑھ سکیں گی۔ آج اس نعرے کے ساتھ ہی مجروح ہوتی بیٹیاں، جن کا کبھی حجاب اتروایا جاتا ہے،کبھی جن کے پردے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اپنے حقوق کو مانگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بات سیکیورٹی کی ہو، مذہبی تشخص کی ہو یا تحفظ کی ہو، سبھی اس زمرے میں آتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے سال 2021میں کل 31000 کی تعداد میں درج کرائے گئے جوکہ 2014 کے بعد سے کبھی اتنے نہیں بڑھے تھےاور ان میں سے 5 فیصد صرف یوپی میں درج ہوئے ہیں۔ نیشنل کمیشن آف ویمن (NCW) کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے مقابلے 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد بڑھ کر 30684 تک پہنچ گئی۔ اس میں سب سے زیادہ شکایات 11013 خواتین کے خلاف عزت وقار سے جڑے ہوئے تھے۔ 6633 واقعات گھریلو تشدّد اور 4589 کیس جہیز سے جُڑے تھے۔ یہ رپورٹس بتارہی ہیں کہ عورتوں کا وقار اور ان کی عزت انہیں نہیں مل رہی ہے۔
بات خواہ پولیس کانسٹیبل رابعہ سیفی کی ہو ،جسےڈیوٹی کرتے ہوئے اغوا کرکے اس کی عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا، خواہ کسی اور بیٹی کی ہو، جسے شاہدرہ دہلی میں، جو ملک کی راجدھانی ہے، وہاں اس کے بال کاٹ کر اُسے جوتے چپل کا ہار پہنا کر ننگا کر کے سڑکوں پر صرف اس لیے گھمایا گیا کہ اس نے اپنے عاشق کی بات نہیں مانی اور یہ کہا کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرا ایک بچہ بھی ہے، جو اپنی جان بچاتی پھری، مگر گھر میں معذور باپ اور ایک بہن کے علاوہ کوئی نہیں تھا، اس کی ایک نہ سنی۔
سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کی کیا تصویر پیش کررہے ہیں؟ کس وقار اور عزت اور امپاورمنٹ کی بات کرنے جارہے ہیں ؟ آنے والا یہ 8 ؍مارچ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے۔اس کا کیا جواب ہے ہمارےپاس ؟اس اہم گفتگو کو مکمل کرنے سے پہلے پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ ظُلم و تشدّد کا بڑھتا ہوا رجحان، خواتین پر تشدّد اور جنسی ہراسانی کے واقعات جو کہ انتہائی افسوس ناک اور پورے دنیا کے لیے باعثِ شرم ہیں، ان کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنائے جانے چاہیے اور اُسے لاگو بھی کرنا چاہیے۔
جنسی جرائم کے سدباب کے لیے صرف زنا پر سخت سزا کو کافی نہ سمجھتے ہوئے زنا پر اکسانے والے تمام محرکات، جیسے شراب پر اور دیگر نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد کی جائے۔ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو حتی المقدور روکا جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو ساتر اور شائستہ لباس پہننے کی ترغیب دی جائے۔ ایسے لباس زیب تن کرنے سے روکا جائے جو سماج میں بےحیائی کی طرف لے جانےاور جذبات کو بھڑکانے والے نہ ہوں۔فحش فلموں، میڈیا کے ناشائستہ پروگراموں کو روکا جائے۔ خواتین کے لیے نائٹ ڈیوٹی کو ممنوع قرار دیا جائے۔ نکاح کی عمر پر پابندی ختم کی جائے۔ زنا، چاہے جبراً ہوں یا رضامندی کے ساتھ، اس پر سخت سزا مقرر کی جائے۔اس طرح کی آزادی اور مساوات، جو اپنی تفصیلات کے ساتھ قانون فطرت کے خلاف ہے اور جب بھی انسان اس سے ٹکراتا ہے تو پھر تباہی و بربادی ہاتھ آئی ہے، جس کی مثال ایڈز اور دوسری جان لیوا بیماریاں ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کو سمجھانا چاہیے کہ قانونِ فطرت سے ٹکرانا کتنا خطرناک ہے۔ اس کے برعکس خالقِ فطرت کا قانون اور عورت و مرد کے مساویانہ تفریق عدل و انصاف کے ساتھ خالق کائنات نے کی ہے،اسے تسلیم کیا جائے اور دونوں کو اس کے دائرے کار میں رکھتے ہوئے ان کے کام متعین کیے جائیں۔ جہاں ہر ایک خاتون اپنی عزت و عصمت کے تحفظ کے ساتھ ایک اچھی معلمہ، ایک کامیاب ڈاکٹر، مینیجر اور بزنس پرسن بن سکتی ہے اور دنیا کے سامنے مثال پیش کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کچھ بھی مُشکِل اور ناممکن نہیں ہے۔ وہ گھر بیٹھے ایسے کام اور کاروبار کرسکتی ہے ۔ ویب سائٹ کے ذریعے بڑے بڑے بزنس میں شراکت داری کرکے کامیاب اور مضبوط خاتون بن سکتی ہے،امپاور ہو سکتی ہے اورسماج کی تعمیر وترقی میں ایک اچھا رول ادا کر سکتی ہے۔ لہٰذا اس پر توجہ مرکوز کر نی چاہیے ،کوئی ایک ڈے کے منانے سے تبدیلی لانے کا خواب خام خیالی ہی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
کچھ نہ بدلے گا اگر آپ نہ بدلیں خود کو
پیرہن کیا ہے، اسے لاکھ بدلتے رہیے
مگر میرا ایک سوال ہے کہ بحیثیت امت مسلمہ ہم نے کیا کیا ہے؟؟