خواتین کا حصول معاش حدود اور تقاضے
ملت کے بعض گھرانوں میں خواتین کا معاشی جدوجہد کرنا پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اگر خاتون کوئی ذریعہ معاش اختیارکر تی ہے توگھر کے مردوں کو لعن طعن کیا جاتا ہے۔ عورتوں کی کمائی کھانے والے ’نکمے مرد‘ کا خطاب ملتا ہے۔ حتیٰ کہ عورت کے کمانے کو بعض گھروں میں حرام بھی سمجھا جاتا ہے ۔ غرض طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔
معاشرے کی اس سوچ کو دیکھ کر بہت سارے مرد معاشی پریشانی اٹھاتے ہیں، لیکن گھر کی خواتین کو کسی بھی قسم کا ذریعہ معاش اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ جدت پسند طبقے نے آزادی و مساوات کے نام پر ترقی اور ماڈرن ازم کے نام پر خواتین پر دوہری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ اب وہ گھر بھی سنبھالے اور معاشی جدوجہد بھی کرے۔
عورت جب معاشی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو اسے مختلف مسائل پیش آتے ہیں ۔ ہر میدان کے الگ الگ مسائل ہوتے ہیں، مثلاً کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین، مٹی اور پتھر اٹھانے والی خواتین، مزدور و ملازمت پیشہ خواتین، ملازمت یا کاروبار کرنے والی خواتین، آفسوں و فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین، وغیرہ۔ انہیں عام طور پر جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے، ان میں مزدور پیشہ خواتین کو مردوں سے کم اجرت کا دیا جانا(حالاں کہ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہیں)،ہراساں کرنا،چھیڑ خانی، جنسی استحصال ، بلیک میل اورڈرانا دھمکانہ وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ مسائل زیادہ تر وطنی بہنوں کو پیش آتے ہیں۔ لیکن اگر مسلم خواتین معاش کے تعلق سے اسلام کے حدود و شرائط سے ناواقف ہوں تو ملک کی رنگا رنگی تہذیب میں خلط ملط ہونے کے باعث فتنے میں پڑھ سکتی ہیں اور خدانخواستہ غلط نتائج کےپیدا ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملت کی باشعور بہنیں، خواتین کے لیے معاش سے متعلق اسلام کی تعلیمات کو صرف ملت ہی نہیں بلکہ ملک کی ہم وطن بہنوں تک بھی پہنچا نے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰتٌ حَٰفِظَٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَهُ (سورۃ النساء:34)

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
شریعت نے خواتین پر معاش کی ذمہ داری نہیں رکھی،حتیٰ کہ خود اس کی اپنی بھی نہیں۔ اسی لیے اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ بیٹی کی شکل میں والد ذمہ دار، بہن کی شکل میں بھائی ذمہ دار، بیوی کی شکل میں شوہر ذمہ دار اور ماں کی شکل میں بیٹا ذمہ دار ہوتا ہے۔ بالفرض ان میں سے کوئی رشتہ موجود نا ہو تو قریبی رشتہ دار کی ذمہ داری میں ہوگی اور خدا نخواستہ قریبی رشتہ دار بھی نا ہوں تو حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ اسے ضروریات زندگی فراہم کریں۔
خواتین کی معاشی جدوجہد کے جواز کی جائز وجوہات
معاشی تنگی دور کرنے کے لیے، اپنی صلاحیت و دلچسپی کے میدان میں انسانیت کی بھلائی کے لیے،اپنے وقت کا مناسب و کارآمد استعمال کے لیے، کسی سماجی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے اپنی مرضی اور خوشی سے سرپرست کی اجازت کے ساتھ ہر جائز ذریعۂ معاش اختیار کر سکتی ہیں ۔ اس پر کوئی زبردستی نہیں وہ جب تک چاہے کریں اور جب چاہے چھوڑ دے۔عورت پر کفالت کی ذمہ داری نہیں، لیکن اسے بے کار یا اضافی بوجھ کی طرح نہیں رکھا گیا، بلکہ اسے وراثت، حق مہر اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائیداد بنانے کا حق دیا ہے۔ وہ اپنی آمدنی کو خود پر اور بچوں پر اپنی مرضی سے آزادانہ خرچ کرسکتی ہے، اس پر اسی کا حق اور اختیار ہوگا۔ عورت اسلامی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی مرضی و پسند کا ذریعۂ معاش اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام معاشی جدو جہد کے لیے جو حدود مقرر کرتا ہے، اس میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ حلال روزی اختیار کریں،حرام سے بچیں۔( یہ حدود مردوں و خواتین، دونوں کے لیے ہیں۔) خواتین کو پردہ کا اہتمام کرنا ہوگا،نامحرم سے لچھے دار گفتگو سے بچنا، لب ولہجہ میں احتیاط ،تنہائی میں ملاقات و سفر سے اجتناب، خوشبو، زیور کی جھنکار،بناؤ سنگار کے اظہار سے پرہیز کرنا ہوگا۔
یہ اسلامی احکا مات و حدود ہیں، جو خواتین کی عصمت و عزت کے تحفظ کے لیے لازمی ہیں۔ہمارے ملک میں بھی عورتوں کے لیے حکومت کی جانب سے منظور شدہ فیکٹری ایکٹ کے تحت شام 6 بجے کے بعد خواتین کو نائٹ شفٹ لازمی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جدت پسند طبقہ نے آزادی و مساوات کے نام پر خواتین کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا ہےا ور خواتین آزادی کے فریب میں دوہری ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
دور نبویؐ کی خواتین نے اسلامی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مختلف ذریعۂ معاش اختیار کیے، ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیار کیا،تجارت کی اور اپنی مرضی سے خرچ کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ کاریگری کے ذریعے اپنے شوہر و بچوں اخراجات پورے کرتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے حضورﷺ سے عرض کیا: میں کاریگر ہوں۔ مال تیار کر کے فروخت کرتی ہوں۔ میرے شوہر اور بچوں کے پاس کچھ نہیں ہے، نہ کوئی ذریعۂ آمدنی ہے۔ کیا میں اپنے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟ آپؐنے فرمایا:’’ ہاں تم کو اس کااجر ملے گا۔‘‘
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی خالہ جو مطلقہ تھیں، انہوں نے دوران عدت کھیت میں جا کر کھجور کے درخت کاٹنے کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا۔ وہ اس مسئلے کو لے حضور ﷺ کے پاس گئیں اور دریافت کیا کہ کیا وہ ایسا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ تو حضور ﷺ نے جواب دیا :
کھیت جاؤ اور اپنے کھجور کے درخت کاٹو۔ اس رقم سے ممکن ہے کہ تم صدقہ و خیرات یا اور کوئی بھلائی کا کام کر سکو ۔ ( ابو داود۔ )
حضرت خدیجہ ؓ تاجر تھیں۔حضرت سودہ د ستکار تھیں۔ چمڑے کی دباغت کا کام کرتی تھیں۔ یعنی لیدر ٹیکنالوجی سے بہرہ مند تھیں۔ حضرت عائشہ ؓخطیبہ بھی تھی اور طبیبہ بھی۔نیز تاریخ و شعر و ادب اور تدریس کا کام انجام دیتی تھیں۔ حضرت خولہ بنت قیس اور اسماء بنت مخزمہ عطر کا کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت زینب بنت جحش مختلف چیزیں تیار کر کے فروخت کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ کئی صحابیات طبیبہ تھیں، کئی خواتین رضاعت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ بہرحال تاریخ میں کئی خواتین کی معاشی جدوجہد کی مثالیں ملتی ہیں۔
خواتین خود کو امپاور کرنے کے لیے کوئی ذریعۂ معاش اختیار کریں یا اور کسی وجہ سے، وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان کے طرز عمل سے یہ ظاہر نہ ہو کہ اب وہ مرد کی سرپرستی سے بے نیاز ہیں یا انھیں کسی تحفظ کی ضرورت نہیں ، وہ نا مردوں کی برابری کی خواہش مند ہیں اور نہ ہی ان سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں،وہ اپنی کمائی کا رعب جمانا چاہتی ہیں اور نہ ہی مردوں کی حریف بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے نہ مال کی ہوس و لالچ میں کوئی پیشہ و ملازمت اختیار کی ہے، نہ مغربی تہذیب پر فریفتہ ہیں۔ بلکہ کسب معاش میں مصروف خواتین کے طرز عمل سے ظاہر ہونا چاہیے وہ کہ صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں، جیسے انہوں نے اسلامی حدود میں رہ کر معاشی تنگی کو دور کرنے کے لیے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے معاشی جدوجہد کی۔ جس میدان کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی تھیں، اس میدان میں کام کر کے اسلامی تاریخ کو روشن کیا۔
ابتدامیں کم سرمایہ لگا کر چھوٹے پیمانے پر بھی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ سرمایہ لگا کر پارٹنر شپ یا گروپ کی شکل میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ مختلف چیزیں تیار کر کے ، تیار شدہ چیزیں فروخت کر کے ،اپنی صلاحیتوں و ہنر مندی کا استعمال کر کے ، سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ملازمت کے ذریعے، اور گھر یلو ملازمت کے زریعےوغیرہ۔
غرض خواتین کسی بھی قسم کا حلال پیشہ و ملازمت اختیار کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی روزگار کے بے شمار ذرائع ہیں، جو گھر بیٹھے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ محنت و ایمان داری کے ساتھ حلال و حرام کی حدود میں رہتے ہوئے معاشی جدوجہد کرنے میں کوئی حرج ہے اور نہ اسلام اس سے روکتا ہے۔
جو خواتین معاشی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں، وہ بھی اگر سلیقہ مندی سے شوہر کی آمدنی کے مطابق بجٹ بنا کر کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کریں تو یہ بھی گھر کی معیشت کو مستحکم کرنے میں ان کا بہت اہم رول ہوگا۔ بعض خواتین کو اپنی آمدنی کا اندازہ لگائے بغیر کھلے ہاتھ سے خرچ کرنے کا، نئے نئے برانڈ کی چیزیں خریدنے کا چسکہ ہوتا ہے اوربعض شوقیہ ایسا کرتی ہیں۔بہت سی خواتین خوامخواہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی مسابقت کے جذبے سے اپنے اخراجات کو بڑھاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے شوہر کی آمدنی نا کافی ہوتی ہے۔
اس موضوع مزید تفصیلات کے لیے محترم سعادت اللہ حسینی صاحب کی مختصر سی کتاب ’’سرمایہ دارانہ استعمار اور خواتین ‘‘ اور ڈاکٹر شہناز بیگم دربھنگہ کے کتابچے ’’ خواتین کا حصول معاش ۔حدود اور تقاضے ‘‘کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔

دور نبویؐ کی خواتین نے اسلامی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مختلف ذریعۂ معاش اختیار کیے، ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیار کیا،تجارت کی اور اپنی مرضی سے خرچ کیا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ٢٠٢٢