جولائی ٢٠٢٢

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور صحافی ظفرالاسلام خان نے کہاکہ
’’یہ قابل فخر بات نہیں ہے کہ عالمی بھوک انڈیکس میں بھارت 116 ممالک میں 110 نمبر پر ہے ۔‘‘
بھوک سے دوچار ممالک کی عالمی فہرست میں انڈیا کے درجے میں مزید تنزلی آئی ہے۔ سال 2020ءمیں انڈیا 107 ممالک کی فہرست میں 94 ویں نمبر پر تھا ۔ رپورٹ کے مطابق گلوبل ہنگر انڈیکس GHI اسکور نیچے آیا ہے۔سال 2000ءمیں اسکور 38.8 تھا اور 2012ءاور2021ءکے درمیان کم ہوکر یہ 27.5/28.5 رہ گیا ۔
مذکورہ رپورٹ آئرلینڈ کی امدادی ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ اور جرمنی کی تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔رپورٹ تیار کرنے کا مقصد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ مختلف فلاحی اسکیموں کے ذریعہ مثلا راشن، ہیلتھ انشورنس ، وظائف، اسکول میں بچوں کو کھانا کھلانا اورراشن دینا وغیرہ فلاحی کام انجام دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں خط افلاس کا تعین مرکزی حکومت کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔ 1962 ءسے لے کر اب تک 6/سرکاری کمیٹیاں بنائی جا چکی ہیں۔
1962 ء میںدی ورکنگ گروپ کمیٹی
1971 ءمیں وی این ڈانڈیکر کمیٹی اور این رتھ کمیٹی
1993 ءمیں ڈی ٹی لکڑا والا
2009ءمیںسریش تینڈولکر کمیٹی اور 2014ءمیں سی رنگا راجن کمیٹی۔
یونائیٹڈ نیشن کے ملینیم ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت وزیراعظم کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپائی نے اس عہد نامے پر دستخط کیا تھا، جس میں2015 ءتک بھارت سے غریبی کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
آج بھی ملک کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے

۔بھارت اپنے پڑوسی دیش :پاکستان،بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گیا ہے ہمارے پاس وسائل ہیں، ٹیکنالوجی ہے ۔ لیکن بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ملک کی معیشت کو ڈیجیٹل کر دیا گیا ہے، لیکن رپورٹ ان تمام دعووں کی پول کھول دیتی ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ لیکن ہم ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ شہری اور مختلف تنظیمیں بھی سماج میں اپنا رول ادا کریں۔
محلہ کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں،اور انہیں کے ذریعہ کچھ کاؤنٹرز بنائے جائیں ،جہاں لوگ بچے ہوئے کھانے،کپڑے ،سامان وغیرہ جمع کریں،اور غریب لوگ آکروہاں سے لے جائیں۔اسی طرح ہوٹلوں اور شادیوں،پارٹیوں کے بچے کھانے بھی لوگوں تک پہنچائے جائیں۔
خیراتی اداروں کے توسط سےبیوہ،عمر رسیدہ،اپاہج،بیماراورغریبوں کی مدد کی جائے۔

امت کی حالت زار

ہندوستان میں مسلمانوں تعلیمی،معاشی،و سماجی طور پر پسماندہ ہے۔نیشنل کونسل فار اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سروے کے مطابق% 31مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دس میں سے 3 لوگ ایسے ہیں جن کے پاس 550 کے بھی خرچ کرنے کو نہیں ہوتے ہیں۔یہ انکشاف پی ٹی آئی نے 28 مارچ 2010ءمیں کیا تھا۔
ڈاکڑ مظفر حسین غزالی نے اپنے مضمون میں -جو 12مئی2021ءکو ’’ کشمیر عظمی ‘‘ میں شائع ہوا تھا-کہاہےکہ’’ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں چار ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ کے قریب زکوۃ کی رقم نکلتی ہے ،یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ سرکار کی وزارات کا سالانہ بجٹ اتنانہیں ہوتا ،پھر بھی مسلمانوں کی خاصی تعداد افلاس کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔‘‘
افسوس ہمارے پاس زکوۃ کا کوئی اجتماعی نہیں ہے، بلکہ ہر کوئی اپنے طور پر زکوۃ کے پیسوں کو تقسیم کرتا ہے ۔جو وقتی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، لیکن مکمل غربت کا خاتمہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو روزگار پہ لگایا جائے۔کارخانے،گھریلو صنعتیں، مارکیٹ، وغیرہ کا قیام روزگار پیدا کرےگا۔اور آج کے زکوۃ لینے والے زکوۃ دینے والے بن جائیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق بھارت میں چار ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ کے قریب زکوۃ کی رقم نکلتی ہے ،یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ سرکار کی وزارات کا سالانہ بجٹ اتنانہیں ہوتا ،پھر بھی مسلمانوں کی خاصی تعداد افلاس کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ٢٠٢٢