جولائی ٢٠٢٢

قسمت والوں کو ملتے ہیں اتنے رسیلے آم
کھالے کھالے قسمت والے پیلے پیلے آم
ان کو کھاکر ہوش میں رہنا کیونکر ہو ممکن
دیکھوں میری آنکھوں سے ہیں کیسے نشیلے آم
جیسے میں بازارِ حسن و عشق سے گزرا ہوں
ایسے سجے ہیں ہر ٹھیلے پر بانکے سجیلے آم
عاشق آم کو آتے دیکھا جونہی آموں نے
فرط حیا سے چھپ گئے پردے میں شرمیلے آم
خوشبو دار رٹول و سرولی ننھے منے سے
طوطا پری کہلایا کرتے ہیں نوکیلے آم
چوسا لنگڑا، دیسی، دسہری، سندھڑی اور الماس
دنیا میں ہیں جانے کتنے تیرے قبیلے آم
میراا گلا تو تیری گلی ہے، پیٹ محلہّ ہے
میرے گلے سے تجھ کو گلہ ہے کیونکر گیلے آم
دنیا تو ہے دار فانی سب کو مرنا ہے
کچھ دن اور اثرؔ کی خواہش ہی پر جی لے آم

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ٢٠٢٢