وہ ساری تنخواہ ماں کے حوالے کر دیا کرتا تھا۔ سمیرا اس بات پر بھی تلملاتی تھی۔ وہ اپنی تنخواہ بینک میں رکھتی تھی، اور جتنی ضرورت ہو وہ اتنا استعمال کرتی۔ مسعود نے شروع شروع اسے روپیے دینے چاہے تھے مگر اس نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ پورا چاہتی تھی، حصہ نہیں ۔
’’سمیرا ابھی ہمارے گھر پر بہت ذمہ داریاں ہیں، بہنوں کو بیاہنا ہے بھائیوں کی شادی کرنی ہے، اور بابا کا ساتھ میں نہیں تو کون دے گا؟ ‘‘مسعود اسے سمجھانے لگتا
’’تو دو ساتھ ،میں نے کب منع کیا ہے ؟میرا تو کوئی حق نہیں…‘‘وہ تڑخ کے بولتی ۔
مسعود کسی بھی طرح یہ بات امی بابا تک پہنچانا نہیں چاہتا تھا،اگر انہیں بھنک بھی لگ جاتی کہ سمیرا یہاں مل کر نہیں رہنا چاہتی تو وہ اتنے خوددار تھے کہ ایک لمحے میں اسے آزاد کردیتے تھے اور مسعود ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔
’’میری ذمہ داریاں جب تک ختم نہیں ہوتیں،تم جو حق چاہتی ہو وہ میں نہیں دے سکتا،اپنے طور پر میں تمہارے حقوقِ پورے کرنے کی کوشش تو کرتا ہوں ، پر شاید کوتاہی ہو جاتی ہے، اس لیے تم مجھ سے بیزار رہتی ہو۔‘‘مسعود نے پہلے نرمی سے ،پھر دکھ سے اسے دیکھ کر کہا تھا۔سمیرا باہر نکل گئی تھی اسے کسی کی پرواہ ہی کب تھی۔ مسعود ہی زبردستی کھینچ کھانچ کر اسے فیملی سے جوڑے رکھنے کی نا کام سی کوشش کرتا رہتا تھا۔
ندرت کے لیے بہت اچھا رشتہ آیا تھا۔لڑکا سول ایوی ایشن میں آفیسر تھا اور ساتھ ہی ان لوگوں کو سیدھا سادہ حامد بہت پسند آیا۔ اس لیے انہوں نے بیٹے کے رشتے کے ساتھ بیٹی کا رشتہ بھی کر ڈالا۔حامد نے سول انجینئرنگ کرکے بابا کے ساتھ کنسٹرکشن کی ٹھیکہ داری شروع کر دی تھی۔ تب ظفر علی صاحب نے پوری طرح تحقیق کر کے ندرت اور حامد کا رشتہ طے کر دیا۔ شہر کی چند بڑی فیملیز میں سے ایک فیملی تھی، اور ندرت کے فائنل ایگزام کے بعد شادی کی تاریخ نکالی گئی تھی۔ گھر میں شادی کی تیاری شروع ہوگئی تھی۔ کافی چہل پہل رہتی تھی ۔فہمیدہ بھی دن نکلے آجاتی، اور شام کو مسعود اسےچھوڑ کر آجاتا تھا۔
’’بھابھی !کبھی آپ بھی ہمارے ساتھ بازار چلا کریں، شادی کے ڈسکس میں بیٹھا کریں کوئی مشورہ ہی دے دیا کریں‘‘فہمیدہ نے محبت سے کہا۔
’’آفس سے ہی اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ ہمت نہیں رہتی بازاروں میں پھرنے کی ،پھر آپ ہیں امی ہیں …مجھے تو شادی کی شاپنگ کا کوئی اندازہ بھی نہیں۔‘‘وہ تحمل سے جان چھڑا لیتی۔
فہمیدہ خاموش ہوگئی تھی۔ وہ صبح سویرے بچوں، میاں اور ساس سسر کو ناشتہ کروا کر ،گھر کے سارے کام بخوبی انجام دے کر دوپہر کا کھانا ٹیبل پر رکھ دیتی، کہ ساس سسر آرام سے کھالیں ،پھر وہ حامد کو لے کر شادی کے سارے کام نپٹاتی تھی۔ ندرت اور صدف بھی اس کی مدد کرتی تھیں۔
شادی کے پندرہ دن پہلے فہمیدہ بچوں کو لے کر آگئی تھی۔ مانو جیسےپورا گھر بھر گیا تھا۔ کھانے کے بعد سمیرا تو کمرے میں آجاتی، جبکہ مسعود وہیں گھر والوں کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا۔ بچوں کے ساتھ مستی کرتا تھا، بھائی بہنوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق ہلاگلا ہوتارہتاتھے ۔شادی کی پلاننگ ہوتی رہتی تھی، شروع میں صدف بلانے آتی تھی، بعد میں وہ بھی خاموش ہوگئی تھی۔
’’یہ کیا طریقہ ہے!تم بارہ بجے سے پہلے کمرے میں ہی نہیں آتے۔‘‘اس دن وہ پھٹ پڑی تھی۔
’’بھئی سب بیٹھے ہوتے ہیں ،بابا بھی بیٹھتے ہیں، شادی کے گھر کے معاملات ڈسکس ہوتے ہیں ،مجھے تو بیٹھنا پڑتا ہے، دو شادیاں ایک ساتھ ہیں، فہمیدہ اور امی ہلکان ہو جاتی ہیں۔‘‘مسعود سمجھانے والے انداز میں بولا۔
’’اچھا تماشا ہے، ایسے کون سے مملکت خداداد کے اہم مسائل ہیں، جو تم سے ڈسکس ہوتے ہیں۔‘‘وہ چڑ کر غصے سے بولی۔
’’گھر بھی ایک مملکت ہوتی ہے، اور اس کے کئی مسائل ہوتے ہیں ،ذرا وقت نکال کر گھر کی طرف بھی دھیان دو۔‘‘مسعود ہنس کر بولا، وہ کسی بھی قسم کا جھگڑا نہیں چاہتا تھا۔
’’میں اتنی دیر انتظار نہیں کر سکتی۔‘‘وہ ناراضگی سے بولی۔
’’سو جایا کرو۔‘‘وہ سادگی سے بولا۔
’’مسعود میں تمہاری بیوی ہوں، مجھے بھی تم سے کوئی بات کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘اس نے پھر حق جتایا۔
’’تو کرو اب، میں فارغ ہوں، کہو کیا بات ہے۔‘‘مسعود نے محبت سے کہا،اپنی تمام تر زیادتیوں کے باوجود وہ اسے بہت پیاری تھی۔
’’اب مجھے نیند آرہی ہے۔ ‘‘وہ بولی اور تکیوں میں منہ چھپالیا۔
ندرت بیاہ کے چلی گئی، اور سارہ گھر آگئی تھی۔ سارہ پیاری سی گڑیا جیسی لڑکی تھی ۔صدف کو تو جیسے سہیلی مل گئی تھی۔ ہر وقت دونوں چپکی رہتی تھیں۔ فہمیدہ جب تک رہی،سارہ کو کچھ کرنے نہیں دیا۔جب وہ گئی تو سارہ نے سارا کچن سنبھال لیا۔ اب تو مشکل سے ہی سمیرا کا کچن کی طرف رخ ہوتا تھا۔ مسعود کو یہ بات بہت کھلتی تھی۔ آج کل سمیرا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی تو خود ہی کڑھتا رہتا تھا۔سارہ جب پہلی دفعہ مائیکے گئی اور حامد اسے لینے گیا تھا۔ سمیرا کو اپنا پہلا جھگڑا یاد آیا، جیسے جیسے رات ہونے لگی، سمیرا کی خوشی بڑھنے لگی کہ حامد بھی کھانا کھاکر دعوت اڑا کر آئے گا تو دیکھیں کتنی معافیاں مانگے گا ۔وہ کتنی فرماں برداری کرے گا اور اسے موقع مل جائے گا مسعود کو کہنے کا کہ’’دیکھو جن بھائی بہن پر جان چھڑکتے تھے ،انہیں رتی بھر پرواہ نہیں۔ ‘‘ اپنی ہی سوچ پر خوش ہوتی ہوئی وہ لاؤنج میں آبیٹھی تھی۔
تبھی حامد سارہ بائیک پر بیٹھے آگئے۔ سارہ کے ہاتھ میں بڑا سا ٹفن کیریئر تھا۔اس نے آتے ہی اسے سلام کیا اور کچن میں گھس گئی، جہاں سلمیٰ بیگم کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
’’امی نے پورا اہتمام کیا تھا حامد نے کہا کہ وہ آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تو میں ٹفن لے آئی ہوں نہ وہ ناراض اور نہ حامد۔‘‘کچن سے سارہ کی کھل کھلاتی آواز آرہی تھی۔ وہ بہت کم وقت میں ہی سلمیٰ بیگم سے گھل مل گئی تھی۔ اسی نے کھانا نکالا اور سب کو کھانا پروسا۔ حامد کا گلابی چہرہ ہی بتا رہا تھا کہ وہ کتنا خوش ہے۔ ہلکی پھلکی شوخیوں کے ساتھ سب نے کھانا کھایا۔ سمیرا تو اسی پر حیران تھی کہ سارہ کے کسی انداز سے ناگواری اور ناراضگی نہیں جھلک رہی تھی،بلکہ وہ تو کوئل کی طرح چہک رہی تھی، اور تو اور بابا کا بھی سمیرا نے نیا روپ دیکھا ،وہ بھی ہلکی پھلکی شوخیاں کر رہے تھے ۔سمیراسے کھانا کھایا نہیں گیا تو وہ کمرے میں چلی آئی، اور سوچنے لگی سارہ نے درمیانہ راستہ چنا تھا اور اس کے خلاف توقع حالات ہونے پر بھی وہ خوش تھی، وہ تو مطمئن تھی ہی ،حامد کے ساتھ ساتھ سب کو بھی اپنے رویے سے خوش کردیا تھا۔بہت جلد سارہ نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کرلیا تھا، سمیرا جب بھی آفس سے واپس آتی،سارہ وہیں سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھی ملتی تھی۔ اس طرح تو وہ کبھی بیٹھی ہی نہیں تھی ،وہ دونوں کے آتے ہی دوڑ کر چائے بنا لاتی ۔اور کبھی کبھار سمیرا اس کی خدمت دیکھ کر شرمندہ ہوجاتی تھی ۔ اسے تو سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ گڑیا جیسی نازک لڑکی کیسے تیزی سے کام نپٹاتی تھی۔ بابا کو سارہ بولنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی، جیسے ذہن میں شیڈول بنایا ہوا تھا ۔ رات کے کھانے کے بعد سب مل کر خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ روز مرہ کی باتیں کرتے ہوئے مسعود اور حامد ماں بابا کو سلا کر ہی کمرے میں آتے تھے۔ سارہ حامد کے ساتھ ہی ہوتی تھی جبکہ سمیرا نے سب کے ساتھ کھانا کھانا بھی چھوڑ رکھا تھا۔ وہ سب سے پہلے ہی کمرے میں کھانا لے آتی، کبھی سارہ دے جاتی تھی۔
’’بھابھی آپ آرام کریں۔اس حالت میں آفس جاتی ہیں، تھک جاتی ہوں گی۔‘‘سارہ محبت سے کہتی۔
جب زوبیہ پیدا ہوئی تھی، گھر کی پہلی پہلی بیٹی تھی، سب ہی خوشی سے نہال ہوگئے تھے ،وہ دو ماہ کی زوبیہ کو گھر لے کر آئی تو سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
سارہ تو گود سے اتارتی نہیں تھی، حتی کہ نہلا دھلا بھی دیتی تھی۔ سلمیٰ بیگم نے زوبیہ کو ہاتھ کا چھالہ بنا رکھا تھا۔ اس کا بہت خیال رکھتی تھی، مگر پتہ نہیں کیا بات تھی، اتنی محبت کے باوجود وہ سلمیٰ بیگم سے نا خوش تھی، دل میں گرہ سی پڑھ پڑ گئی تھی، اسے لگتا تھا کہ ماں کی محبت میں مسعود اسے مکمل نہیں ملا ، اسے کہیں نہ کہیں کمی محسوس ہوتی تھی اور اس وجہ سے وہ ہر وقت مسعود سے بیزار سی رہتی تھی،کئی دفعہ ناراضگی سے اسے کہا بھی تھا
’’تمہاری سوچ ہی غلط ہے بے وقوفی کی باتیں مت کیا کرو!مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، اور عورت پر سب سے زیادہ حق اسکے شوہر کا ہے۔‘‘مسعود اسے سمجھانے لگتا تھا
’’میرا کوئی حق نہیں؟‘‘(جاری)
’’سمیرا ابھی ہمارے گھر پر بہت ذمہ داریاں ہیں، بہنوں کو بیاہنا ہے بھائیوں کی شادی کرنی ہے، اور بابا کا ساتھ میں نہیں تو کون دے گا؟ ‘‘مسعود اسے سمجھانے لگتا
’’تو دو ساتھ ،میں نے کب منع کیا ہے ؟میرا تو کوئی حق نہیں…‘‘وہ تڑخ کے بولتی ۔
مسعود کسی بھی طرح یہ بات امی بابا تک پہنچانا نہیں چاہتا تھا،اگر انہیں بھنک بھی لگ جاتی کہ سمیرا یہاں مل کر نہیں رہنا چاہتی تو وہ اتنے خوددار تھے کہ ایک لمحے میں اسے آزاد کردیتے تھے اور مسعود ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔
’’میری ذمہ داریاں جب تک ختم نہیں ہوتیں،تم جو حق چاہتی ہو وہ میں نہیں دے سکتا،اپنے طور پر میں تمہارے حقوقِ پورے کرنے کی کوشش تو کرتا ہوں ، پر شاید کوتاہی ہو جاتی ہے، اس لیے تم مجھ سے بیزار رہتی ہو۔‘‘مسعود نے پہلے نرمی سے ،پھر دکھ سے اسے دیکھ کر کہا تھا۔سمیرا باہر نکل گئی تھی اسے کسی کی پرواہ ہی کب تھی۔ مسعود ہی زبردستی کھینچ کھانچ کر اسے فیملی سے جوڑے رکھنے کی نا کام سی کوشش کرتا رہتا تھا۔
ندرت کے لیے بہت اچھا رشتہ آیا تھا۔لڑکا سول ایوی ایشن میں آفیسر تھا اور ساتھ ہی ان لوگوں کو سیدھا سادہ حامد بہت پسند آیا۔ اس لیے انہوں نے بیٹے کے رشتے کے ساتھ بیٹی کا رشتہ بھی کر ڈالا۔حامد نے سول انجینئرنگ کرکے بابا کے ساتھ کنسٹرکشن کی ٹھیکہ داری شروع کر دی تھی۔ تب ظفر علی صاحب نے پوری طرح تحقیق کر کے ندرت اور حامد کا رشتہ طے کر دیا۔ شہر کی چند بڑی فیملیز میں سے ایک فیملی تھی، اور ندرت کے فائنل ایگزام کے بعد شادی کی تاریخ نکالی گئی تھی۔ گھر میں شادی کی تیاری شروع ہوگئی تھی۔ کافی چہل پہل رہتی تھی ۔فہمیدہ بھی دن نکلے آجاتی، اور شام کو مسعود اسےچھوڑ کر آجاتا تھا۔
’’بھابھی !کبھی آپ بھی ہمارے ساتھ بازار چلا کریں، شادی کے ڈسکس میں بیٹھا کریں کوئی مشورہ ہی دے دیا کریں‘‘فہمیدہ نے محبت سے کہا۔
’’آفس سے ہی اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ ہمت نہیں رہتی بازاروں میں پھرنے کی ،پھر آپ ہیں امی ہیں …مجھے تو شادی کی شاپنگ کا کوئی اندازہ بھی نہیں۔‘‘وہ تحمل سے جان چھڑا لیتی۔
فہمیدہ خاموش ہوگئی تھی۔ وہ صبح سویرے بچوں، میاں اور ساس سسر کو ناشتہ کروا کر ،گھر کے سارے کام بخوبی انجام دے کر دوپہر کا کھانا ٹیبل پر رکھ دیتی، کہ ساس سسر آرام سے کھالیں ،پھر وہ حامد کو لے کر شادی کے سارے کام نپٹاتی تھی۔ ندرت اور صدف بھی اس کی مدد کرتی تھیں۔
شادی کے پندرہ دن پہلے فہمیدہ بچوں کو لے کر آگئی تھی۔ مانو جیسےپورا گھر بھر گیا تھا۔ کھانے کے بعد سمیرا تو کمرے میں آجاتی، جبکہ مسعود وہیں گھر والوں کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا۔ بچوں کے ساتھ مستی کرتا تھا، بھائی بہنوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق ہلاگلا ہوتارہتاتھے ۔شادی کی پلاننگ ہوتی رہتی تھی، شروع میں صدف بلانے آتی تھی، بعد میں وہ بھی خاموش ہوگئی تھی۔
’’یہ کیا طریقہ ہے!تم بارہ بجے سے پہلے کمرے میں ہی نہیں آتے۔‘‘اس دن وہ پھٹ پڑی تھی۔
’’بھئی سب بیٹھے ہوتے ہیں ،بابا بھی بیٹھتے ہیں، شادی کے گھر کے معاملات ڈسکس ہوتے ہیں ،مجھے تو بیٹھنا پڑتا ہے، دو شادیاں ایک ساتھ ہیں، فہمیدہ اور امی ہلکان ہو جاتی ہیں۔‘‘مسعود سمجھانے والے انداز میں بولا۔
’’اچھا تماشا ہے، ایسے کون سے مملکت خداداد کے اہم مسائل ہیں، جو تم سے ڈسکس ہوتے ہیں۔‘‘وہ چڑ کر غصے سے بولی۔
’’گھر بھی ایک مملکت ہوتی ہے، اور اس کے کئی مسائل ہوتے ہیں ،ذرا وقت نکال کر گھر کی طرف بھی دھیان دو۔‘‘مسعود ہنس کر بولا، وہ کسی بھی قسم کا جھگڑا نہیں چاہتا تھا۔
’’میں اتنی دیر انتظار نہیں کر سکتی۔‘‘وہ ناراضگی سے بولی۔
’’سو جایا کرو۔‘‘وہ سادگی سے بولا۔
’’مسعود میں تمہاری بیوی ہوں، مجھے بھی تم سے کوئی بات کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘اس نے پھر حق جتایا۔
’’تو کرو اب، میں فارغ ہوں، کہو کیا بات ہے۔‘‘مسعود نے محبت سے کہا،اپنی تمام تر زیادتیوں کے باوجود وہ اسے بہت پیاری تھی۔
’’اب مجھے نیند آرہی ہے۔ ‘‘وہ بولی اور تکیوں میں منہ چھپالیا۔
ندرت بیاہ کے چلی گئی، اور سارہ گھر آگئی تھی۔ سارہ پیاری سی گڑیا جیسی لڑکی تھی ۔صدف کو تو جیسے سہیلی مل گئی تھی۔ ہر وقت دونوں چپکی رہتی تھیں۔ فہمیدہ جب تک رہی،سارہ کو کچھ کرنے نہیں دیا۔جب وہ گئی تو سارہ نے سارا کچن سنبھال لیا۔ اب تو مشکل سے ہی سمیرا کا کچن کی طرف رخ ہوتا تھا۔ مسعود کو یہ بات بہت کھلتی تھی۔ آج کل سمیرا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی تو خود ہی کڑھتا رہتا تھا۔سارہ جب پہلی دفعہ مائیکے گئی اور حامد اسے لینے گیا تھا۔ سمیرا کو اپنا پہلا جھگڑا یاد آیا، جیسے جیسے رات ہونے لگی، سمیرا کی خوشی بڑھنے لگی کہ حامد بھی کھانا کھاکر دعوت اڑا کر آئے گا تو دیکھیں کتنی معافیاں مانگے گا ۔وہ کتنی فرماں برداری کرے گا اور اسے موقع مل جائے گا مسعود کو کہنے کا کہ’’دیکھو جن بھائی بہن پر جان چھڑکتے تھے ،انہیں رتی بھر پرواہ نہیں۔ ‘‘ اپنی ہی سوچ پر خوش ہوتی ہوئی وہ لاؤنج میں آبیٹھی تھی۔
تبھی حامد سارہ بائیک پر بیٹھے آگئے۔ سارہ کے ہاتھ میں بڑا سا ٹفن کیریئر تھا۔اس نے آتے ہی اسے سلام کیا اور کچن میں گھس گئی، جہاں سلمیٰ بیگم کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
’’امی نے پورا اہتمام کیا تھا حامد نے کہا کہ وہ آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تو میں ٹفن لے آئی ہوں نہ وہ ناراض اور نہ حامد۔‘‘کچن سے سارہ کی کھل کھلاتی آواز آرہی تھی۔ وہ بہت کم وقت میں ہی سلمیٰ بیگم سے گھل مل گئی تھی۔ اسی نے کھانا نکالا اور سب کو کھانا پروسا۔ حامد کا گلابی چہرہ ہی بتا رہا تھا کہ وہ کتنا خوش ہے۔ ہلکی پھلکی شوخیوں کے ساتھ سب نے کھانا کھایا۔ سمیرا تو اسی پر حیران تھی کہ سارہ کے کسی انداز سے ناگواری اور ناراضگی نہیں جھلک رہی تھی،بلکہ وہ تو کوئل کی طرح چہک رہی تھی، اور تو اور بابا کا بھی سمیرا نے نیا روپ دیکھا ،وہ بھی ہلکی پھلکی شوخیاں کر رہے تھے ۔سمیراسے کھانا کھایا نہیں گیا تو وہ کمرے میں چلی آئی، اور سوچنے لگی سارہ نے درمیانہ راستہ چنا تھا اور اس کے خلاف توقع حالات ہونے پر بھی وہ خوش تھی، وہ تو مطمئن تھی ہی ،حامد کے ساتھ ساتھ سب کو بھی اپنے رویے سے خوش کردیا تھا۔بہت جلد سارہ نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کرلیا تھا، سمیرا جب بھی آفس سے واپس آتی،سارہ وہیں سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھی ملتی تھی۔ اس طرح تو وہ کبھی بیٹھی ہی نہیں تھی ،وہ دونوں کے آتے ہی دوڑ کر چائے بنا لاتی ۔اور کبھی کبھار سمیرا اس کی خدمت دیکھ کر شرمندہ ہوجاتی تھی ۔ اسے تو سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ گڑیا جیسی نازک لڑکی کیسے تیزی سے کام نپٹاتی تھی۔ بابا کو سارہ بولنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی، جیسے ذہن میں شیڈول بنایا ہوا تھا ۔ رات کے کھانے کے بعد سب مل کر خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ روز مرہ کی باتیں کرتے ہوئے مسعود اور حامد ماں بابا کو سلا کر ہی کمرے میں آتے تھے۔ سارہ حامد کے ساتھ ہی ہوتی تھی جبکہ سمیرا نے سب کے ساتھ کھانا کھانا بھی چھوڑ رکھا تھا۔ وہ سب سے پہلے ہی کمرے میں کھانا لے آتی، کبھی سارہ دے جاتی تھی۔
’’بھابھی آپ آرام کریں۔اس حالت میں آفس جاتی ہیں، تھک جاتی ہوں گی۔‘‘سارہ محبت سے کہتی۔
جب زوبیہ پیدا ہوئی تھی، گھر کی پہلی پہلی بیٹی تھی، سب ہی خوشی سے نہال ہوگئے تھے ،وہ دو ماہ کی زوبیہ کو گھر لے کر آئی تو سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
سارہ تو گود سے اتارتی نہیں تھی، حتی کہ نہلا دھلا بھی دیتی تھی۔ سلمیٰ بیگم نے زوبیہ کو ہاتھ کا چھالہ بنا رکھا تھا۔ اس کا بہت خیال رکھتی تھی، مگر پتہ نہیں کیا بات تھی، اتنی محبت کے باوجود وہ سلمیٰ بیگم سے نا خوش تھی، دل میں گرہ سی پڑھ پڑ گئی تھی، اسے لگتا تھا کہ ماں کی محبت میں مسعود اسے مکمل نہیں ملا ، اسے کہیں نہ کہیں کمی محسوس ہوتی تھی اور اس وجہ سے وہ ہر وقت مسعود سے بیزار سی رہتی تھی،کئی دفعہ ناراضگی سے اسے کہا بھی تھا
’’تمہاری سوچ ہی غلط ہے بے وقوفی کی باتیں مت کیا کرو!مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، اور عورت پر سب سے زیادہ حق اسکے شوہر کا ہے۔‘‘مسعود اسے سمجھانے لگتا تھا
’’میرا کوئی حق نہیں؟‘‘(جاری)
سارہ کے ہاتھ میں بڑا سا ٹفن کیریئر تھا۔اس نے آتے ہی اسے سلام کیا اور کچن میں گھس گئی، جہاں سلمیٰ بیگم کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
’’امی نے پورا اہتمام کیا تھا حامد نے کہا کہ وہ آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تو میں ٹفن لے آئی ہوں نہ وہ ناراض اور نہ حامد۔‘‘کچن سے سارہ کی کھلکھلاتی آواز آرہی تھی۔ وہ بہت کم وقت میں ہی سلمیٰ بیگم سے گھل مل گئی تھی۔
Comments From Facebook
0 Comments