جولائی ٢٠٢٢

عالمی منظر نامہ:

میں ڈھائی دہائیوں سے زائد عرصے سے اسقاط حمل، ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کے خلاف مہم چلا رہا ہوں۔ آخر کار گذشتہ ہفتے کچھ اچھی خبریں آئی ہیں، پہلے جاپان اور پھر امریکہ سے۔ سب سے پہلے، جاپان کی حکومت نے ہم جنسوں کے مابین شادیوں پر پابندی عائد کی اور ملک کی سپریم کورٹ نے اسے برقرار بھی رکھا۔ اب کل امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اسقاط حمل کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی ہے۔ یہ سنہ1995 کی بات ہے جب میں نے اپنی پہلی کتاب’’اسلامک ماڈل فار کنٹرول آف ایڈز‘‘شائع کی تھی جس میں، میں نےیہ دلیل دی تھی کہ ایچ آئی وی/ایڈز اور دیگر تمام جنسی طور پرمنتقل ہونے والی بیماریوں پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک کہ ہم جنس پرستی اور ہر قسم کی جنسی بے راہ روی نیزجنسی کاروبار پر مکمل پابندی نہ لگا دی جائے۔ اس سے قبل سنہ 1993 میں، میری کتاب’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی‘‘نے اسقاط حمل کو برتھ کنٹرول پروگرام کے ایک حصے کے طور پر شامل کرنے کی پالیسی کے خلاف سخت تنقید کی گئی تھی۔ 1997 میں، میں نے قومی ایڈز کنٹرول پروگرام، صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت، حکومت ہند کے تعاون سے دہلی میں ایڈز پر ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں ایک بار پھر جنسی بے راہ روی، جسم فروشی، ہم جنس پرستی، ہر طرح کے جنسی کاروباراور اس کی لت اور اس کے تئیں بڑھتے رجحانات کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم کی ضرورت پر زور دیاتھا۔لیکن افسوس صد افسوس کہ دنیا نے میری ایک نہ سُنی!۔ یہاں تک کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت)اور یو این ڈی پی سے وابستہ کچھ لوگوں نے مجھے یہ سمجھانے بجھانے کی خوب کوشش کی کہ ان تمام چیزوں کے خلاف مہم چلانے کے بجائے مجھے سیف سیکس(محفوظ طریقے سے کیا جانے والا جنسی عمل)کو فروغ دینا چاہیے۔ صحت کے شعبے پر معیشت کی بالا دستی کے غلبہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے 30 برسوں میں 48ملین سے زیادہ لوگ ایڈز کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ اور تمام بین الاقوامی ایجنسیوں کی طرف سے جاری اعدادوشمار سےیہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم جنس پرستی، جسم فروشی کے بعد(ایڈز کے پھیلاؤ میں )سب سے بڑا عنصر رہا ہے۔ شراب اور منشیات کی لت کے ساتھ اس کا تعلق بھی واضح طور پرنظر آتا ہے۔ اگرچہ جنس اور خوبصورتی کی تجارتی نقطہ نظر سے کی جانے والی بے تحاشہ تشہیر کی وجہ سے ہونے والی تباہی نے پورے معاشرے کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، لیکن سب سے زیادہ خوفناک معاملہ بچوں کا ہے۔ ان کے پاس وہ آواز نہیں ہے جو ان کے گھروں کی دیواروں یا ان کی ماؤں کی سایہ عاطفت سے باہر سنی جا سکے۔ ان کے پاس صرف چیخیں ہیں جو اندر ہی اندر دفن ہو جاتی ہیں۔ وہ جسمانی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اپنا دفاع کرسکیں۔ نہ تو ان کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی ہے اور نہ ہی میڈیا میں۔ سوئے قسمت ہمارے بچے مکمل طور پر دوسروں کے رحم و کرم پرزندہ ہیں۔ اس لیے ان کی ہلاکت،انہیں نظر انداز کیے جانے اور ان پر حملہ کیے جانے کا امکان کسی اور کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ بے شک سب سے زیادہ کمزور وہ بچے ہوتے ہیں جن کی آواز ان کی ماؤں کی سایہ عاطفت سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ نئے جنسی اخلاقیات کی حمایت اور اس کی ترویج وفروغ میں بڑے کاروباروں، خاص طور پر جنس کے عالمی سوداگروں نے آزاد جنسی تعلقات کی راہ میں تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا۔ شادی یا کوئی اور روایتی رسم، عمر، جنس، جگہ، وقت اور سابقہ رشتے—ان سب کو جنسی تصادم کے مقصد کے حصول کے لیے اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ واحد پابندی جو قانونی فریم ورک نے لگا رکھی ہے، اگرچہ اسے عملی طور پر مؤثر بنائے بغیر، جنسی تعلقات کے خواہاں دو فرد کی رضامندی ہے۔ اگر دونوں راضی ہو جائیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم انہیں مشورہ دیا جائے گا کہ جہاں تک ممکن ہو احتیاط برتیں تاکہ ان کی پرجوش محبت کو ناپسندیدہ نتائج کی طرف نہ جانے دیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ یہ روش ان کے اپنے کیریئراورملک کی معیشت کوبھی تباہ کر سکتا ہے۔ اعتراض کیسا ؟بلکہ پریشان ہونے کی بھی کوئی بات نہیں — اگر احتیاط کے باوجود عورت حاملہ ہو جائے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ریاست محفوظ اسقاط حمل کے لیے ہر وہ چیز فراہم کرنے کے لیے موجود ہے: قانونی اجازت، سماجی تحفظ اور مفت خدمات۔ پرائیویٹ کلینک، اپنے طریقے سے، بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور اسقاط حمل کے ساتھ ہی بچوں کو ان کی کسی غلطی کے بغیرہلاک کر دیے جانے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک کہانی شروع ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً 50-70 ملین بچے اپنی پیدائش سے پہلے ہی ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔ کئی اطراف سے جو اعداد و شمار آرہے ہیں وہ انتہائی حیران کن کے ساتھ پریشان کن بھی ہیں! وہ اعداد و شمار جو پوری انسانیت کو شرمندہ کر دیں گے اور ہر باضمیرکو سر سے پاؤں تک جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے اوربا ضمیرافراد کہاں بستے ہیں؟ تلخ سچائی یہ ہے کہ آج ہم بنی نوع انسان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ انسان کے بھیس میں حیوان یا درندےکے علاوہ کچھ نہیں ہیں، جو جنسی لذت کی تلاش میں ہے اور اسے اپنی خوشی (ناہنجارہوس کی تکمیل)کے سوا کچھ نہیں چاہیے، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔یہ انسانوں میں سے مضبوط لوگوں کی تسکین کے لیے ہے جنہوں نے ان تمام چیزوں کو ختم کرنے کی سائنس میں مہارت حاصل کر لی ہے جو ایک نہ رکنے والی تفریح اور تسکین میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا اگر اس شاندار منصوبے کے لیے ہر ماہ چند ملین جزوی طور پر بنی ہوئی انسانی گوشت کو ضائع کر دیا جائے!وہ یقیناً انسانوں کی طرح ہی ایک تخلیق ہیں، بجز انسان کے! اور یقیناًوہ سب سے کمزور رکاوٹیں بھی ہیں۔ پھولوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، اسقاط حمل کے حامی اس طرح کی بحثیں کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اگر بنی نوع انسان کو ’’ناپسندیدہ نتائج‘‘ سے’’بچانے‘‘کے لیے کلیوں کو مسل دیا جائے تو آنسو کیوں بہائے جائیں؟ جانوروں کے قتل اور نایاب نسلوں کے ناپید ہونے، پودوں کی بیخ کنی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف اور تاریخی یادگاروں اور مقامات کی تباہی کے خلاف بھی بڑی تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ یہ انسان نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہیں اقتدار کے کسی دوسرے عناصر کی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف لاکھوں انسانوں کی ناگہانی موت( قتل بے نوا) کے خلاف ایک قابل ذکر عالمی مہم کو تیز کرنے کی اجازت نہیں دی جا تی۔ بڑے کاروبار کی پشت پناہی کرنے والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، جو اس طرح کی کسی بھی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے’’نفیس‘‘منطق اور خطیر رقومات کے ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہوتے ہیں۔ پھر بھی، ہمیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم ایک مہذب دنیا میں رہ رہے ہیں جو انسانی حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں وہی ان میں سے زیادہ تر ہلاکتوں کی خاموش حمایت کرتے ہیں۔ جیسے ہی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا، امریکی مرد و خواتین اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس فیصلے کی وجہ سے یقیناً ان کی جنسی تسکین (بے راہ روی پر قدغن)پر لگام لگے گی اور ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا۔ مارکیٹ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔واقعہ یہ ہے کہ اسقاط حمل اربوں روپے کا بہت بڑا بازار ہے۔ اور اگر اسقاط حمل کی قانونی حیثیت کو کلعدم قرار دے دیا جاتا ہے، تو بہت سی دوسری مارکیٹیں بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوں گی۔ اور یقیناً ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں ان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ صدر بائیڈن پہلے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے، جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔ ایک ذمہ دار اور حساس فرد کے طور پر، میں جاپان اور امریکہ کی خبروں کو اپنے لیے تھوڑی سی اخلاقی جیت سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تمام صحیح اور اس تناظر میں مثبت سوچ رکھنے والی تنظیمیں، خاص طور پر اسلامی تنظیمیں ان کریہہ برائیوں کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم چلائیں گی جو پوری بنی نوع انسانیت اورانسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ یہ اٹھ کھڑے ہونے اور عمل کے لیے کمر کسنے کا صحیح وقت ہے۔

پھولوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، اسقاط حمل کے حامی اس طرح کی بحثیں کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اگر بنی نوع انسان کو ’’ناپسندیدہ نتائج‘‘ سے’’بچانے‘‘کے لیے کلیوں کو مسل دیا جائے تو آنسو کیوں بہائے جائیں؟ جانوروں کے قتل اور نایاب نسلوں کے ناپید ہونے، پودوں کی بیخ کنی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف اور تاریخی یادگاروں اور مقامات کی تباہی کے خلاف بھی بڑی تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Khursheed iquebal

    ماشاء اللہ بہت عمدہ
    اللہ مزید علم وعمل میں ترقی دے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ٢٠٢٢