جولائی ٢٠٢٢
زمرہ : ادراك

حالات سخت مایوس کن ہیں۔ ہر دن ہر خبر آپ کو بے بسی کا احساس دلارہی ہے۔ کبھی بلڈوزر پالیٹکس اور کھلی ناانصافی،ہم انصاف کے اداروں میں منصفین کو فسطائیت کا آلۂ کار بنتا دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتےہیں ، کھلے عام ہونے والے گجرات فساد کے مظلومین کو بھی ہم انصاف کے لیے عدالت کی دہلیز پر مایوس دیکھ رہے ہیں ، کبھی مساجد میں اذان پر پابندی، تو کبھی مساجد پر قبضہ، اہانت رسول پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ بلڈوزر کے ذریعہ گھروں کی مسماری کا رویہ ، معصوم مدثر کو پولس کی گولی سے شہید ہوتا دیکھ کر اور مدثر کی غمزدہ والدہ کی پرسوز آواز پر ہر آنکھ روئی ہے ۔ تو کبھی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور مظلوم کا ساتھ دینے والی تیستا سیتلواڑ جیسی خاتون کو حراست میں دیکھ کر دل ہراساں ہوتا ہے ۔ سلسلہ یہیں تمام نہیں ،نفرتوں کا زہر ہندوستان کی عوام میں یوں پھیلا دیا گیا گویا کہ ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ رہنے والی عوام آپس میں کوئی انسانی تعلق نہیں رکھتے ۔ سیاست میں مذہب اور انسانی حقوق کا پاس ولحاظ بھی اب جاتا رہا ہے ۔پے در پے یکے بعد دیگرے نفرت کے زہر میں بجھے ہوئے تیر میڈیا کے ذریعہ برستا دیکھ کر انسان کا مایوس ہونا نارمل بات ہے ۔تمام مادی وسائل باطل کے اختیار میں ہیں ، حکومت بھی اسلام اور مسلمانوں کی دشمن بن جائے ۔ انصاف کی کوئی امید باقی نہ رہے ان حالات میں بھی بحیثیت مسلمان ہم مایوس نہیں ہوتے ۔ہم نبی رحمت کے امتی ہیں، جن کے پاس انتہائی نازک حالات میں ہم نے تسلی کے الفاظ سنے ہیں ۔
دشمن ،پیارے نبیﷺ کے وجود کو مٹانے کے در پے ہے،غار میں پناہ لی گئی، یار غار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ صلی الله عليه وسلم سے دشمن بالکل قریب ہے ۔حضرت ابو بکر رضی نے کہا دشمن اگر ہلکا سا بھی پلٹے تو ہمیں دیکھ لے گا اور سب ختم۔ پیارے نبی ﷺ نے جواب دیا’’ ماظنک باثنین اللہ ثالثھما‘‘( ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے) اور یہ آیت نازل ہوئی :
ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللهَ مَعَنَا‌
(جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘)
اسی طرح حالات مزید بگڑے ۔پیارے نبیﷺ کی تلاش کرنے والے کو سو اونٹ کا قریش نے انعام رکھا۔ سراقہ بن جعثم نے پیارے نبی ﷺ کا پیچھا کیا ،دیکھا کہ سراقہ کاگھوڑا بار بار چوٹ کھاتا ہے، سمجھ گیا کہ پیارے نبی کے ساتھ غیبی مدد ہے۔ اللہ کے نبی کا پیچھا کرنے کا ارادہ ترک کیا، اور اللہ کے نبی کو پکارا ’’اے محمد ! میرے اور آپ کے درمیان اس ملاقات کی کوئی نشانی لکھ کر دیجیے۔‘‘ رسول اللہ نے فرمایا ’’سراقہ ! میں تمہارے ہاتھ میںکسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
یہ الفاظ معمولی نہیں ہیں۔ نامساعد حالات میں امید کی کرن ہیں۔وقت کے نبی اور دشمن کے نرغے میں پھنسےایک لیڈر کا وژن ہے ۔پختہ ایمان ،یقین اور توکل کے زیر اثر ادا ہونے والے الفاظ ہیں ۔ اللہ کا اصول ہے نامساعد حالات میں قومیں اپنے حالات سے نکلنے کے لیے راہ ڈھونڈتی ہیں اور اللہ ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا اجتماعی دور زوال افراد کے کردار کے سبب ہے، لیکن یہ بھی روشن باب ہے کہ اسی دور زوال میں افراد کو تعمیر ذات اور داخلی انتشار کو کم کرنے کا وقت مل جاتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ افراد کو چھینے جارہے سرمائے کا شعور ہو ،جہاں یہ بات تاریخی حوالہ رکھتی ہے، وہیں یہ بھی مسلم ہے کہ نسلوں میں شعور بیدار نہ ہوا، انتشار بڑھتا رہا ،قومیں اپنی حالت پر اکتفا کرلیں، تساہل ان کا شیوہ بن جائے تو انجام کار ان معتوب بندوں جیسا ہوتا ہے ،مثلا ًبنی اسرائیل کو اللہ نے چالیس سال بھٹکنے کے لیے چھوڑ بھی دیا ۔اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہمیں ان حالات میں بھی اجتماعی سطح پر حالات سے نکلنے کی تگ ودو کرنی چاہیے ۔امید کی آخری کرن بھی ہو تو راہ عزم نہیں ٹوٹنی چاہیے ۔
رسول اللہ ﷺ کی پر عزم باتیں سیرت سے سمجھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مایوس کن حالات میں ایک مسلمان کا عقیدہ مضبوط ، عزم پختہ اور یقین کامل ہونا چاہیے ،اور ڈر اور خوف کے بجائے تدبیر کے ساتھ آگے بڑھتے جانا چاہیے ۔
کتاب ’’حیات محمدﷺ ‘‘‘میں محمد حسین ہیکل نے لکھا ہےکہ انتہائی بے سروسامانی میں کیسی پر عزم گفتگو ہے !حضور نبیِ کریم علیہ السلام نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اپنی قوم سے معاشی تنگی دور کرنے کا شاندار وعدہ کیا تھا۔ آپ کے الفاظ یہ تھے :
’’ اگر تم میرا ساتھ دو تو وقت کی دونوں سپر پاورز تمھاری باج گزار بن جائیں گی ۔ اس اعلان کو قومِ قریش کے غریب امیر سب نے توجہ سے سنا اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ اعیانِ قوم نے جب نبی کریمﷺ سے اس دعوے کی عملی صورت پوچھی اور دریافت کیا کہ دنیا کی سپر پاورز کو غلام بنانے اور ان کے مال و متاع پر قابض ہونے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ تو حضرت محمدﷺ نے اپنا مطالبہ پیش کیا کہ پہلے خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور مجھے خدائے واحد کا فرستادہ تسلیم کرو اور سمعنا و اطعنا پر بیعت کرو۔غربائے قوم تو رفتہ رفتہ آپ کے ساتھ ہوتے گئے لیکن امرائے قریش کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس یتیم زادے کی اطاعت ہم سے نہیں ہوتی ۔
آپ پرباطل کا تسلط ہے تو وجہ یہی کہ اس شرط میں کوتاہی تو لازما ًہوئی ہے۔ علاج آج بھی یہی ہے کہ شرط کو من وعن تسلیم کرو اور اللہ اپنے وعدے کو پورا کرے گا ۔ إن الله لا يخلف الميعاد. (بے شک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا۔)
ان دلائل کی روشنی میں موجودہ حالات میں ہم خواتین کے کرنے کے کام
۱) مایوس کن خبرین سن کر نہ بددل ہوں نہ نسلوں کو کمزور پڑنے دیں ۔
۲) اپنی ذات کی تعمیر پر خصوصی توجہ دیں ،تعلق باللہ مضبوط کریں ۔
۳) بے مقصد زندگی سے اجتناب برتیں ،سب سے بڑی مفلسی مقصد زندگی کھو دینا ہے ۔اصل مفلسی مال و دولت، اقتدار اور غلبے کی کمی نہیں ہے۔ امام مسلم ؒنے روایت کیا ہے۔اس طرح مفلس وہ نہیں ہے جس کے پاس دنیاکی نعمتیں،عیش وآرام، اور لوازمات زندگی میسر نہ ہوں،بلکہ مفلس تو حقیقت میں وہ ہے جو بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرتاہو، ان پر ظلم کرتاہو، ان کوگالی دیتاہو،اور ان پربہتان لگاتاہو۔
۴) اپنی لائف اسٹائل کا جائزہ لیں کہ آیا ہم نے بےمصرف فضولیات سے اپنی زندگی کو مزین تو نہیں کرلیا ۔ سماجی معاملات میں بچوں کی تربیت میں اپنے گھر کو اسلامی خطوط پر قائم رکھنے میں ہم بحیثیت خاتون کیا رول ادا کررہی ہیں ۔
۵) اپنی صلاحیت کے مطابق عملی کام کی تڑپ کو ان حالات میں باقی رکھنا اور اس کی سعی کے لیے مستعد رہنا وقت کا تقاضہ ہے ۔
۶) مایوس کن خبریں ہوں یا انتقامی جذبات ،ایک ماں اپنے بچوں کے سامنے دعوت دین کے مشن کو بہتر طریقے سے واضح کرسکتی ہے، اور ان کی شخصیت میں اعتدال،امن پسندی ، احتجاج کا سلیقہ ، اپنی بات کی پیشکش کا انداز سکھا سکتی ہے ۔
۶) ان حالات میں بجائے ڈگری جمع کرنے کے حقیقی علم کا شعور پیدا کرنا از حد ضروری ہے، وہیں اپنی ذات میں ترجیحات متعین کرنا اور بچوں میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے ۔ مثلا ًان حالات کو دیکھتے ہوئے بھی ہمارا فوکس شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا پر تعیش زندگی اور تعلیم کی اہمیت سیکنڈری ہو تو گویا ہم نے ترجیح متعین کرنا ابھی نہیں سیکھا ۔
۷) ہم خود اپنے حقوق کا احساس رکھنے والے ہوں اور اپنے بچوں کی بھی دباؤ کے ماحول میں تربیت نہ کریں ۔
۸) خود ہم امکان کی دنیا میں رہیں اپنی ذات سے بھلائی کرنے کا موقع نہ جانے دیں اور اہل خانہ کو بھی دکھائیںامکان کی دنیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کو مضبوط بنائے ،سخت آزمایش سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے۔ سعی وکوشش یقیناًانسان کا کام ہے، جبکہ اس کو پورا کرنا خدا کا کام ہے ۔ اللہ رب ا لعالمین پر یقین بندے کو کبھی اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا ۔

Comments From Facebook

5 Comments

  1. م عنبر

    0والللہ بہت بہترین ❣️
    نامساعد حالات میں ہمارا ردعمل ہی ہمارے مستقبل کی راہ متعین کرتا ہے۔
    اس صورتحال میں ہمارا ویژن بھی اعلی ہونا چاہیے اور اس کی شروعات بھی یو ں ہوسکتی ہے کہ ہم مایوسی بھرے الفاظ کے استعمال کرنے کے بجائے مثبت اور تعمیری سوچ پرموٹ کریں۔اور خود کو ان حالات سے متاثر کرکے ذہنی طور پر اتنا نہ تھکادیں کہ ہم میں مقابلہ کرنے کی استعداد ہی باقی نا رہے۔
    سنہرے مستقبل کے خوابوں کے بیچ بو کر ان کو حکمت عملی کے پانی سے سیراب کرنا اور صبر اور استقامت کے ساتھ امید پر قائم رہنا کہ یہ پودا شجرسایہ دار بنے گا انشاءاللہ یہی ہمارا وطیرہ رہے۔

    Reply
  2. محمد طاہر ندوی

    ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی کہ ہماری بہنوں کی جانب سے ایک بہتر قدم اٹھایا گیا ہے اور خاص کر خواتین کے اندر تحریری صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک بہت بہتر قدم ہے میں کئی دنوں سے آپ کے مضامین اور ویب سائٹ کی ساری سرگرمیاں دیکھ رہا تھا اور اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ اللہ آپ کی ساری کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے اور زیادہ سے زیادہ آپ کی آواز ہماری خواتین تک پہنچے اللہ قبول فرمائے آمین

    Reply
    • خان مبشرہ فردوس

      جزاک اللہ خیرا کثرا

      Reply
  3. Abu bakar Maleen

    MashaAllah bht umda Allah salamat rakhe apke qalam ki jaulani ko

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ٢٠٢٢