۲۰۲۲ اکتوبر
اب نہ اسے اچھے کپڑوں کا شوق رہا تھا نہ سجنے سنورنے کا۔ آفس بھی عبایا پہن کر جانے لگی تھی۔ دن اداس، راتیں طویل گزرتی تھیں۔ اب وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ دونوں بھابھیاں اس سے کھنچی کھنچی سی رہتی تھیں۔ یہ وہی بھابھیاں تھیں،جو اس کی شادی کے پہلے اور بعد میں اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ اب اس کے لیے ان کے پاس وقت نہیں تھا ۔وہ بھی سمجھتی تھی ،اس کی عزت و تکریم تو مسعود کی وجہ سے ہی تھی۔ تنہا عورت کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔ وہ تو اپنے محرم رشتوں پر بوجھ ہوتی ہے، جسے ہر کوئی اتار کر پھینکنا چاہتا ہے۔

اس لیے دین اسلام میں عورت کا سب سے زیادہ حق دار اس کےشوہر کو ٹھہرایا گیا ہے ۔عورت کو تحفظ ،نگہبانی اور محبت شوہر کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا تھا ۔اسے رہ رہ کر مسعود یاد آتا تھا، ہر پل جیسے اس کے بغیر سمیرا کے لیے بھاری تھا۔
امی اتنی ناراض تھیں کہ اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتی تھیں۔ ابو پھر بھی تسلی دیتے تھے۔ اس کی طلاق کے بعد ابو کی طبیعت گرنے لگی تھی ۔وہ حد درجہ فکرمند رہنے لگے تھے۔ جب بھی آپا آتی تھیں، ان سے کہتے کہ میرے بعد میری بچی کو کون سنبھالے گا؟ اس کا کیا حل ہے ؟ آپا ابو کی حالت دیکھ کر نئے سرے سے سمجھانے لگتی تھیںکہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔ آپا اسے بھی سمجھاتیں،حوصلہ بندھاتی رہتی تھیں، امی کی ناراضگی بھی دور کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
اس دن سویرے ہی عالیہ اس سے ملنے آئی۔ اس کی برسوں سے بیمار جیسی بے جان حالت دیکھ کر حیران رہ گئ۔ پھر اسے گلے لگا کر کتنی ہی دیر روتی رہی تھی۔
’’تم نے قدر نہیں کی مسعود کی سمیرا!اگر تمہیں اس سے محبت تھی تو اس کے گھر والوں سے بھی کرتیں، محبت تو قربانی مانگتی ہے، ایسی کیسی محبت تھی تمہاری سمیرا؟مشرقی لڑکی کی شادی ایک شخص سے نہیں ہوتی، پورے خاندان سے ہوتی ہے ۔یہ ایک معصوم نازک لڑکی ہی ہوتی ہے، جو دو خاندانوں کو جوڑ کر، سنبھال کر اس رشتے کے ساتھ جیتی ہے۔‘‘ عالیہ دکھ سے بولی۔ سمیرا اسے خا لی خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’وہ بھلا اپنوں سے الگ ہو سکتا تھا ؟گھر کا بڑا بیٹا، وہ تو اور بھائیوں کو راستہ بتاتا ،ان کا تو گھر بکھر جاتا تمہاری بے جا ضد سے ،دیکھو وہ خود بکھر گیا مگر اس نے اپنے والدین کو اور گھر کو بکھرنے نہیں دیا۔‘‘ عالیہ نے کہا ۔وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی۔ اس نے ہی اسے اس دوراہے پر لاکھڑا کیا کہ یا تو وہ اپنے والدین کو چنے یا اسے۔اس نے اپنے والدین کو چن لیا تھا۔
’’کاش! عالیہ وقت لوٹ آئے!‘‘سمیرا ہاتھ ملتے ہوئےبولی۔ دل پھر درد سے پھٹنے لگا تھا۔
اب نہ اسے اچھے کپڑوں کا شوق رہا تھا نہ سجنے سنورنے کا۔ آفس بھی عبایا پہن کر جانے لگی تھی۔ دن اداس، راتیں طویل گزرتی تھیں۔ اب وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ دونوں بھابھیاں اس سے کھنچی کھنچی سی رہتی تھیں۔ یہ وہی بھابھیاں تھیں،جو اس کی شادی کے پہلے اور بعد میں اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ اب اس کے لیے ان کے پاس وقت نہیں تھا ۔وہ بھی سمجھتی تھی ،اس کی عزت و تکریم تو مسعود کی وجہ سے ہی تھی۔ تنہا عورت کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔ وہ تو اپنے محرم رشتوں پر بوجھ ہوتی ہے، جسے ہر کوئی اتار کر پھینکنا چاہتا ہے۔
اس نے چند ماہ بعد عامر کو جنم دیا، عامر شکل صورت میں پورا مسعود پر گیا تھا۔ اسے لپٹا کر وہ بہت دیر تک روتی رہی، اور اسے یاد کرتی رہی، جسے اپنی بے وقوفی سے وہ گنوا بیٹھی تھی۔ بے تحاشا یاد آنے لگا تھاوہ۔
زوبیہ کا اسکول میں داخلہ کروایا تھا۔ زوبیہ اسکول سے آتی تو اس کا یونیفارم تک نہیں بدلو ایا جاتا تھا ۔عامر کے لیے آیا رکھی ہو ئی تھی، وہ بھی آئے دن بیمار رہتا تھا۔ عامر کے کپڑوں سے ہر دفعہ دودھ کی بساند آتی رہتی تھی۔ اسے پل پل اپنی ساس ،دیورانی اور نندوں کی خدمتیں یاد آنے لگی تھیں۔ سمیرا کا کیسے شہزادی کی طرح خیال رکھتے تھےسب۔ اس کی تمام تر بے رخی کے باوجود وہ اس سے محبت اور اس کی عزت کرتے تھے ۔اس نے تو کبھی انہیں کوئی تحفہ یا ضرورت کی چیزبھی نہیں دی تھی۔ وہ سیدھے منہ بات تک نہ کرتی تھی۔ اس پر بھی سلمیٰ بیگم برا نہیں مناتی تھیں۔اتنی اچھائیوں کے بعد بھی وہ سوچتی تھی کہ میرا رویہ ایسا رکھنے کی وجہ سے وہ اس طرح دب کر رہتی ہیں، ورنہ تو وہ اسے بھی نوکرانی بنا دیتیں۔ حقیقت اس کی سوچ سے بہت مختلف تھی۔ وہ اچھے تھے، اسی لیے اسے مسعود کی خوشی کی خاطر برداشت کرتے رہے تھے، اور مسعود یہ بات سمجھتا تھا۔
زوبیہ کو انہوں نے کیسے ہتھیلی کا چھالہ بنا رکھا تھا ۔کیسی خوش اسلوبی سے اس کی غیر موجودگی میں اسے پالا کرتی تھیں، کبھی اف تک نہ کرتی تھیں۔ سمیرا کےآفس سے آتے ہی کیسی خوشبوؤں میں بسی زوبیہ کو اس کے گود میں دیا جاتا تھا، مگر یہاں تو لگتا تھا اس کے بچوں کے لیےکسی کے پاس وقت نہیں ہے،اور نہ کسی کو پروا ہ رہ گئی تھی کہ وہ جیے یا مرے۔ وہ شکایت کرتی تو بھی کس سے کرتی؟ قصوروار تو وہ خود تھی۔ اس نے خود اپنی جنت کو ٹھکرایا۔ ان سب کے باوجود مسعود نے کبھی اس سے شکایت نہیں کی تھی ،بلکہ یہ وہ خود تھی جسے ہر ایک فرد سے شکایت تھی ۔
اس روز سمیرا آفس سے آئی تو زوبیہ بیلوں سے ڈھکے ستون سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ اس کی فراک میلی تھی، چہرے پر آنسوؤں کی لکیروں کے ساتھ انگلیوں کے نشانات بھی واضح تھے ،وہ روتے رہتے وہیں بیٹھ کر سو گئی تھی ۔اس نے تڑپ کر اسے اسے گود میں اٹھایا،دل بھر آیا تھا۔
اس کی حالت دیکھ کر کمرے میں لا کر زوبیہ کو بیڈ پر لٹایا، بیڈ پر لٹا تے ہی وہ جاگ گئی۔ اسے دیکھ کر رونے لگی۔ ’’کیا ہوا میری جان آپ کو؟‘‘وہ بے اختیار اسے لپٹا کر رو پڑی ۔
’’ممی!بڑی مامی نے مارا ہے۔‘‘وہ ہچکیاں لے کر بولی۔
’’کیوں بیٹا؟‘‘اس کا دل لزرنے لگا، آنسو بہنے لگے۔
’’میں نے طارق کا دودھ پی لیا تھا ۔‘‘وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔
’’بیٹا! نہ پیتیں آپ۔‘‘اس نے ضبط سے کہا ۔
’’ممی مجھے بھوک لگی تھی۔‘‘زوبیہ پھر سے رونے لگی۔
’’چلو میں اپنی شہزادی کو ڈھیر سارا دودھ دوں گی، اب رونا نہیں۔‘‘اس نے اسے چمکارا، اور خود بکھر گئی۔ اس نے زوبیہ کو نہلا دھلا کر صاف لباس پہنایا،دودھ پلایا، کھانا کھا کر وہ سو گئی۔ اسے تب عامر کا ہوش آیا تو وہ برآمدے کی طرف دوڑی۔ عامر گندی سی فیڈر منہ سے لگائے مٹی میں کھیل رہا تھا ۔قریب ہی مونا بھابھی سبزی کاٹ رہی تھیں۔
’’بھابھی! آج تاجو نہیں آئی؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’آئی تھی، اس کا بچہ بیمار ہے۔ کہہ رہی تھی دو دن کی چھٹی دے دیں، امی نے چھٹی دے دی۔‘‘وہ بنااسے دیکھے نروٹھے پن سے بولی۔
’’عامر کا فیڈر تو دھو دیتیں۔‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ زبان پر آگیا ۔اس نے عامر کو گود میں اٹھا یا اور مٹی سے ہاتھ جھٹکنے لگی۔
’’سارا دن اپنا کام ،اپنے بچوں کا کام کریں، گھر کو دیکھیں ،بچوں کو ،میاں کو، ساس سسر ،آنے جانے والے سب کی ذمّہ داری اٹھاؤ۔ آخر ہم بھی انسان ہیں ۔تم تو بچوں کو چھوڑ کر آرام سے آفس جاکر بیٹھ جاتی ہو، مگر ہمیں یہاں سو بکھیڑے ہیں، میرا تو جواب ہے ،نہیں ہوتی دیکھ بھال ۔‘‘مونا بھابھی نے تڑخ کر کہا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔ وہ حیرت سے گنگ کھڑی رہی تھی۔
“ایک تو آفس جانے سے پہلے کچن کا کام، آفس جاکر آفس کا کام اور واپس گھر آؤں تو یہاں بھی کام، میرا جواب تو ہے نہیں ہوتی مجھ سے اتنی خدمتیں۔‘‘اسی کے الفاظ تھے جو وہ نروٹھے پن سے مسعود کو کہتی تھی۔ وہ کمرے میں آگئی ،پر جملےکی بازگشت نے پیچھا نہیں چھوڑا۔
امی سے شکایت کرتی تو وہ خود ابو کی صحت کے لئے پریشان تھیں، بھائیوں کو کہتی تو کیا کہتی کہ ’’اس کے بچے سنبھالیں وہ ڈیوٹی کرتی ہے …‘‘
سوچ سوچ کر اس کا سر دکھنے لگا تھا۔ اپنی غلطیاں اسے ایک پل چین نہیں لینے دے رہی تھیں۔ کبھی کبھی تو اس کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ یہ اس کی ناشکری ہی تو تھی۔اللہ نے اسے اس قدر نوازا تھا۔ اس نے ان سب کو اپنے ہاتھوں ٹھکرایا تھا۔ ناشکری ہی تو کی تھی اس نے، اس لیے ساری نعمتیں چھن گئی تھیں۔
اس نے اپنے دل کے سکون کے لیے نماز، قرآن پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ زوبیہ کو وہ خود سبق یاد کرواکر مکتب بھیجتی تھی۔ اس نے دل سے ٹھان لیا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں، وہ اللہ کا شکر ادا کرتی رہے گی، اور اس پر عمل در آمد کرتی رہتی تھی۔ اللہ سے جڑ گئی تھی۔
بھابھیوں کی زیادتیاں بڑھنے لگی تھیں اور اس کی برداشت جواب دینے لگی۔ اس نے آپا سے اس مسئلے پر بات کی۔
’’وہ کیا زیادتیاں کریں گی سمیرا! یہی بات تمہیں سب سے توڑ کر رکھتی ہے۔‘‘آپا نے تاسف کہا۔
’’آپا!پرانے سامان جیسی ہو گئی ہوں میں، جہاں پڑا ہے وہیں پڑا رہے گا، کسی کو خیال تک نہیں۔‘‘سمیرا کا گلا رندھ گیا۔
’’اپنے آس پاس دیکھو سمیرا! کنویں کا مینڈک مت بنو ۔یہی ناعمہ اور مونا کی شکایت کر رہی ہو ناں، کبھی چھٹی لے کر دیکھو یہ کتنی محنت کرتی ہیں۔ سال ہوا ہے ۔تم یہاں ہو، کتنی بار کچن میں جاکر کھانا بنایا ہے؟ ابو کے پاس بیٹھی ہو؟ امی کی دلجوئی کی ہے ؟ابو کا پرہیزی کھانا بنایا ہے؟ امی کے لیے ہی کچھ نیا بنایا؟ خود اپنے لیے تم کھانا نہیں بنا سکتیں اور بنا ہوا کھانا ایسے کھاتی ہو جیسے بچا کھچا کھارہی ہو ناعمہ اور مونا روزانہ تمہارے اور تمہارے بچوں کے حصے کا کھانا تو بناتی ہیں ناں۔ بچا ہوا کیسے ہوگا؟ اتنے دنوں سے وہ تمہیں برداشت ہی تو کر رہی ہیں۔‘‘آپا نے آواز کو مدھم رکھا، پر تھیں وہ بہت غصّےمیں۔
’’سمیرا! تم سے تو کچھ گھنٹوں کے لیے فہمیدہ اور اس کے بچے برداشت نہ ہوتے تھے۔ وہ آتی تو تم بھی امی کے پاس نکل آتی تھیں۔ یہ تو تمہیں ایک سال سے برداشت کر رہی ہیں۔ کس کے لیے؟ اپنے شوہروں کے لیے۔ ابو امی کی خدمتیں کم نہیں ہیں، جو تمہاری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔کون سی زیادتی؟ کیسا رویہ؟ایک دن چھٹی کرو آفس کی، اور دیکھو محنت صرف تم نہیں کررہی ہو، یہ بیچاریاں تو اپنی انا ،اپنے خواب، اپنی خواہشات، کا گلا گھونٹ کر مشین بنی ہوئی ہیں۔ کس کے لیے؟ اپنے گھر، اپنے شوہر، اپنے بچوں کے لیے۔‘‘آپا نے اسے بپھر کر کہا۔ وہ سکتے میں انہیں دیکھنے لگی۔ کس زعم میں تھی وہ؟اپنا گھر بسانے کے لیےعورت زمین بن جاتی ہے۔ تبھی تو نئی نسل اگتی ہے، پنپتی ہے۔(جاری)
Comments From Facebook

6 Comments

  1. شیبا آفرین

    السلام علیکم
    امید ہے آپ بخیر ہونگی
    ایمن عبدالستار صاحبہ اللہ آپکے علم میں اضافہ کرے
    پناہ گاہ بہت ہی سبق آموز ناول ہے اللہ تمام لڑکیوں کو اچھی بیوی بننے کا شرف بخشے اپنے شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھے اس گھر کے تمام فرد کو اپنا سمجھے
    گھر محبت اور خلوص سے چلتے ہیں اے اللہ گھر کے تمام فرد کے دل میں محبت پیدا کر دے اٰمین

    Reply
    • سیدہ ایمن عبدالستار

      وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

      الحمدللہ رب العالمین آپ کی دعاؤں سے میں بہت اچھی ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ بھی بخیریت ہوں

      آپکے پر خلوص کمنٹ کے لئے بے حد شکریہ آپ کی دعاؤں پر تہہ دل سے آمین

      سیدہ ایمن

      Reply
  2. ماریہ جمال

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    ما شاء اللہ بہت ہی عمدہ اور سبق آموز افسانہ ہے۔۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔۔

    Reply
    • سیدہ ایمن عبدالستار

      وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

      جزاک اللہ خیرا

      سیدہ ایمن عبدالستار

      Reply
  3. Salma Farheen

    السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔۔۔ماشاء اللہ بہن !بہت ہی اچھی اور دل کو چھونے والی باتیں ہی۔حقیقت زندگی کی عکاس۔۔۔اگلی قسط کا انتظار ہے۔۔
    اللہ تعالی آپ کے علم و عمل اور زور قلم میں اضافہ کرے۔۔آمین

    Reply
    • سیدہ ایمن عبدالستار

      وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
      آپ کی تعریف کا شکریہ لکھاریوں کا حوصلہ بڑھتا ہے
      جزاک اللہ خیرا بہنا

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ اکتوبر