انوار سلیم
’’بچوں میں نظم ضبط پیدا کرنے کے عملی طریقے ‘‘میں مبشرہ صاحبہ نے لکھا ہے: ’’ایک ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایک ماں کھانا کھانے ہی لگی تھی کہ بچہ فارغ ہوگیا۔کسی بڑے نے دیکھ کر ماں کو متوجہ کیا ،ماں نے جھنجلاہٹ میں بچے کو صفائی کےلیےلے جاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے کھاتے وقت ہی تماشا بنا دیتا ہے ۔‘‘
یہ بات آپ نے کافی باریک بینی سے بیان کی ہے، اور آج کل ہم اس کا مشاہدہ اپنے گھروں میں روز کرتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں میرا ماننا ہےکہ جب ایک عورت ماں بننے کے قریب ہو، بالخصوص پہلی یادوسری بار ماں بننے کا مرحلہ ہو تو گھر کی جو سمجھدار بڑی خواتین ہیں، جن کو بچوں کی تربیت کا اچھا سلیقہ ہے یا ایسی لڑکیاں بھی جو تربیتی امور پر خاص مہارت رکھتی ہیں ،وہ ’’بننے والی ماں‘‘کو وقتاً فوقتاً ان کے پاس جا جا کر ان کو تربیت دیتی رہیں ۔اس طرح کرنے سے میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں لڑکیوں کی شادی ان کی فزیکل گروتھ کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جبکہ میری تحقیق میں یہ بات شامل ہےکہ ایک بچی کو فزیکل گروتھ کے ساتھ ساتھ مینٹلی پریپئر اور فٹ ہونا چاہیے۔کیونکہ شادی کے بعد ایک لڑکی پر بہت ساری ذمہ داریاں ایک ساتھ آن پڑتی ہیں ،جس میں بہت سی ذمہ داریاں غیر ضروری اور اسکی ذاتیات سے غیر متعلق ہوتی ہیں، لیکن لڑکی کو سبھی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھانا ہوتا ہے اور اس نئی بہو سے خاندان کے افراد بھی یہی امیدیں باندھ لیتے ہیں ،پھر وہ نئ بہو کم، خدمت گزار یا باندی زیادہ لگتی ہے۔
الغرض بہت سارے چھوٹے چھوٹے پہلو ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے، بولا جا سکتا ہے اور ٹیبل ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے آپ کا مضمون اچھا لگا ،اور بالخصوص وہ حصہ جس کو میں نے نشان زد کرکے شروع میں لکھا ہے۔
آپ لوگ لکھتی ہیں تو مجھے اچھا لگتا ہے کہ اتنی ساری ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود آپ لوگ یہ سب کر لیتی ہیں۔آپ کی پوری ٹیم کے لیے میری طرف سے نیک خواہشات ،ڈھیر ساری دعائیں اور آپ کےلیے مبارکباد!
’’بچوں میں نظم ضبط پیدا کرنے کے عملی طریقے ‘‘میں مبشرہ صاحبہ نے لکھا ہے: ’’ایک ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایک ماں کھانا کھانے ہی لگی تھی کہ بچہ فارغ ہوگیا۔کسی بڑے نے دیکھ کر ماں کو متوجہ کیا ،ماں نے جھنجلاہٹ میں بچے کو صفائی کےلیےلے جاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے کھاتے وقت ہی تماشا بنا دیتا ہے ۔‘‘
یہ بات آپ نے کافی باریک بینی سے بیان کی ہے، اور آج کل ہم اس کا مشاہدہ اپنے گھروں میں روز کرتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں میرا ماننا ہےکہ جب ایک عورت ماں بننے کے قریب ہو، بالخصوص پہلی یادوسری بار ماں بننے کا مرحلہ ہو تو گھر کی جو سمجھدار بڑی خواتین ہیں، جن کو بچوں کی تربیت کا اچھا سلیقہ ہے یا ایسی لڑکیاں بھی جو تربیتی امور پر خاص مہارت رکھتی ہیں ،وہ ’’بننے والی ماں‘‘کو وقتاً فوقتاً ان کے پاس جا جا کر ان کو تربیت دیتی رہیں ۔اس طرح کرنے سے میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں لڑکیوں کی شادی ان کی فزیکل گروتھ کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جبکہ میری تحقیق میں یہ بات شامل ہےکہ ایک بچی کو فزیکل گروتھ کے ساتھ ساتھ مینٹلی پریپئر اور فٹ ہونا چاہیے۔کیونکہ شادی کے بعد ایک لڑکی پر بہت ساری ذمہ داریاں ایک ساتھ آن پڑتی ہیں ،جس میں بہت سی ذمہ داریاں غیر ضروری اور اسکی ذاتیات سے غیر متعلق ہوتی ہیں، لیکن لڑکی کو سبھی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھانا ہوتا ہے اور اس نئی بہو سے خاندان کے افراد بھی یہی امیدیں باندھ لیتے ہیں ،پھر وہ نئ بہو کم، خدمت گزار یا باندی زیادہ لگتی ہے۔
الغرض بہت سارے چھوٹے چھوٹے پہلو ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے، بولا جا سکتا ہے اور ٹیبل ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے آپ کا مضمون اچھا لگا ،اور بالخصوص وہ حصہ جس کو میں نے نشان زد کرکے شروع میں لکھا ہے۔
آپ لوگ لکھتی ہیں تو مجھے اچھا لگتا ہے کہ اتنی ساری ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود آپ لوگ یہ سب کر لیتی ہیں۔آپ کی پوری ٹیم کے لیے میری طرف سے نیک خواہشات ،ڈھیر ساری دعائیں اور آپ کےلیے مبارکباد!
تیرے قدموں میں ہے فردوس تمدن کی بہار
تیری نظروں پہ ہے تہذیب و ترقی کا مدار
تیری آغوش ہے گہوارۂ نفس و کردار
تا بہ کے گرد ترے وہم و تعین کا حصار
کوند کر مجلس خلوت سے نکلنا ہے تجھے
وعلیکم السلام
آپ کی رائے حوصلہ افزاء ہے آپ نے اتنی توجہ سے پڑھا اور رائے بھی ہے آپ تجاویز و مشورے پر عمل کیا جائے گا ۔
ھادیہ کے ساتھ تعاون پر ٹیم آپ کی شکر گزار ہے اپنی گھر کی خواتین تک میگزین کو پہنچائیے۔
شکراً جزیلا
آپ کی رائے حوصلہ افزاء ہے آپ نے اتنی توجہ سے پڑھا اور رائے بھی ہے آپ تجاویز و مشورے پر عمل کیا جائے گا ۔
ھادیہ کے ساتھ تعاون پر ٹیم آپ کی شکر گزار ہے اپنی گھر کی خواتین تک میگزین کو پہنچائیے۔
شکراً جزیلا
ایڈیٹر ھادیہ۔ای میگزین
Comments From Facebook
0 Comments