انسانی ذہن میں ہر روز کم و بیش ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں ۔ اس میں کتنے ضروری اور کتنے ہی غیر ضروری ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کئی خیالات ایسے ہوتے جو یادوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ انسان چاہے تو انہیں جھٹک کر کچھ اور سوچ سکتا ہے ۔ لیکن چند یادیں ایسی ہوتی ہیں جو خوشگوار کہلاتی ہیںان سے انسان کو تازگی و فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔ ایسی یادوں کو تازہ کرنے سے بھی منفی خیالات سے کم ہوتے ہیں اور مثبت خیالات جنم لیتے ہیں ۔ اچھے خیالات آنے پر چہرے پر مسکراہٹ لائیں ۔ یہ عمل دماغ کو مثبت سوچ کی ہدایت جاری کرتا ہے ۔
مثبت اور منفی خیالات انسان کے ذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا غلبہ رہتا ہے ،اور انسان کی زندگی کے بیشتر زاویے اس کی ذہنی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے اور ان جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ سوچ سے خیال، خیال سے نظریہ، نظریہ سے مقصد، مقصد سے تحریک، تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ ہمارا ذہن دو طرح سے سوچتا ہے ۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو خوشی یا فائدہ دے مثبت سوچ ہے، اور وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو پریشانی یا نقصان پہنچائے ،وہ منفی یا غلط سوچ ہے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں، بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔‘‘ ہماری سوچنے کی قوت دراصل ہمارے معاملات طے کرتی ہے ۔ آج کے اس گہما گہمی کے دور میں ہر شخص متفکر دکھائی دیتا ہے ۔ کسی کی سوچ و فکر جائز ہے، یعنی مثبت ہے تو کسی کی سوچ و فکر منفی ہے ۔ بہرحال ہر شخص سوچ میں مبتلا ہے ۔
بہت زیادہ سوچ انسان کو نفسیاتی طور پر متاثر کرسکتی ہے جسے Over Thinking بھی کہتے ہیں ۔ کبھی کبھی مثبت خیالی کی بہتات بھی مناسب نہیں ہوتی ۔ کہا جاتاہے:
Always being positive some time dangerous.
جبکہ ہر وقت منفی سوچ انسان کو نفسیاتی طور پر مفلوج بنادیتی ہے، اور زندگی کے لیےبھی خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔ مثبت خیالی کے لئے جو بات کہی گئی ہے وہ اس تناظر میں ہے کہ ہر وقت Be positive کہتے رہنے سے انسان کبھی کبھی حقیقت پسندی سے دور چلا جاتا ہے، جبکہ منفی رجحانات اقدام خودکشی یا مکمل طور پر Isolate رہنے کا رجحان بناتے ہیں، جس کی وجہ شخص سماجی زندگی سے دور ہوجاتا ہے اور سماجی زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہتا ہے ۔ یہ محرومی مزید منفی سوچ پیدا کرتی ہے ۔
ذہن پر سوچ کے غلبہ کو کم کرنے کے لئے تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے،کیونکہ بروقت اس پر قابو نہ پایا گیا تو دیگر مختلف نفسیاتی عوارض کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ نہ صرف نفسیاتی بلکہ بہت سے مزمن بیماریاں بھی ہوسکتی ہے،مثلاً بلند فِشَارُالدَم، ذیابیطس، اضطرابِ نوم یا بے خوابی وغیرہ ۔سوچ کے غلبہ کو قابو کرنے والی تدابیر کو ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جو اس نفسیاتی مرض سودمند ثابت ہوسکتی ہیں ۔
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں، بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔‘‘ ہماری سوچنے کی قوت دراصل ہمارے معاملات طے کرتی ہے ۔ آج کے اس گہما گہمی کے دور میں ہر شخص متفکر دکھائی دیتا ہے ۔ کسی کی سوچ و فکر جائز ہے، یعنی مثبت ہے تو کسی کی سوچ و فکر منفی ہے ۔ بہرحال ہر شخص سوچ میں مبتلا ہے ۔
بہت زیادہ سوچ انسان کو نفسیاتی طور پر متاثر کرسکتی ہے جسے Over Thinking بھی کہتے ہیں ۔ کبھی کبھی مثبت خیالی کی بہتات بھی مناسب نہیں ہوتی ۔ کہا جاتاہے:
Always being positive some time dangerous.
جبکہ ہر وقت منفی سوچ انسان کو نفسیاتی طور پر مفلوج بنادیتی ہے، اور زندگی کے لیےبھی خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔ مثبت خیالی کے لئے جو بات کہی گئی ہے وہ اس تناظر میں ہے کہ ہر وقت Be positive کہتے رہنے سے انسان کبھی کبھی حقیقت پسندی سے دور چلا جاتا ہے، جبکہ منفی رجحانات اقدام خودکشی یا مکمل طور پر Isolate رہنے کا رجحان بناتے ہیں، جس کی وجہ شخص سماجی زندگی سے دور ہوجاتا ہے اور سماجی زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہتا ہے ۔ یہ محرومی مزید منفی سوچ پیدا کرتی ہے ۔
ذہن پر سوچ کے غلبہ کو کم کرنے کے لئے تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے،کیونکہ بروقت اس پر قابو نہ پایا گیا تو دیگر مختلف نفسیاتی عوارض کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ نہ صرف نفسیاتی بلکہ بہت سے مزمن بیماریاں بھی ہوسکتی ہے،مثلاً بلند فِشَارُالدَم، ذیابیطس، اضطرابِ نوم یا بے خوابی وغیرہ ۔سوچ کے غلبہ کو قابو کرنے والی تدابیر کو ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جو اس نفسیاتی مرض سودمند ثابت ہوسکتی ہیں ۔
1)حال پر توجہ مرکوز کریں !
اکثر لوگ موجود وقت سے لُطف اندوز ہونے، اسے بہتر بنانے اور اس کا مکمل استعمال کرنے کے بجائے ماضی اور مستقبل کے درمیان اپنے موجود وقت کو ضائع کرتے ہیں ۔ اس بات کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی نہ جائے اور ماضی قریب میں کیےگئے کام کا احتساب یا جائزہ نہ لیا جائے، بلکہ ماضی اور مستقبل کے درمیان وقت کے ضائع کرنے والی بات یہ ہے کہ بے جا تفُکرات اور خیالات کی دنیا یوں سجالی جائے کہ انسان حال سے بے خبر ہوجائے ۔ اکثر لوگ جو بےجاتفکرات یا سوچ کے غلبہ سے متاثر ہوتے ہیں وہ رات جاگ کر کر سوچتے رہتے ہیں، اور صبح اٹھتے ہی سوچنا شروع کردیتے ہیں، لہذا سب سے پہلے موجود وقت کی قدر کیجیے ۔ اس موجود وقت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔ صحت مند تدابیر اختیار کریں ۔ کھلی فضا میں جائیں، سرگرم رہیں، پلاننگ کو Execute کریں ۔ ملاقاتیں کریں، اچھی غذاؤں کا استعمال کریں، سوجائیں، کچھ پڑھنے لکھنے کا کام کریں، ممکن ہوتو کھیلیں، بچوں کے ساتھ وقت بتائیں،
ہم جتنا Physical Workکریں گے،اتناہی مثبت Mental Work ہوگا ۔ کیونکہ ہم جو کرنا چاہتے ہیں ،ہمارا دماغ وہ کام کرنے کی ہدایات جاری کرتا ہے ۔ ہم جو بھی کرنا چاہتے ہیں ہمارا دماغ اس کے بنیادی Intuition ملتے ہی ان Instructions کو Release کرتا ہے، جو خیال کے روبہ عمل لانے کا پروسیس شروع کردیتا ہے ۔ ہم نے دماغ کو ہدایت دی کہ ’’میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو کس سے؟ کب ؟ اور کہاں ملاقات کی جائے ؟اس کا پروسیس شروع ہوجاتا ہے۔ پروسیس کا نتیجہ آتا ہے کہ فلاں کام کے لئے فلاں سےملا جائے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا ہے کہ علاج کے لئے زلف تراش کے پاس جانے کا خیال آئے ۔ لہٰذا موجود وقت کا استعمال دماغی و جسمانی سرگرمیوں میں لگتے ہوئے کیا جائے ،ناکہ صرف سوچتے ہوئے استعمال کریں ۔
ہم جتنا Physical Workکریں گے،اتناہی مثبت Mental Work ہوگا ۔ کیونکہ ہم جو کرنا چاہتے ہیں ،ہمارا دماغ وہ کام کرنے کی ہدایات جاری کرتا ہے ۔ ہم جو بھی کرنا چاہتے ہیں ہمارا دماغ اس کے بنیادی Intuition ملتے ہی ان Instructions کو Release کرتا ہے، جو خیال کے روبہ عمل لانے کا پروسیس شروع کردیتا ہے ۔ ہم نے دماغ کو ہدایت دی کہ ’’میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو کس سے؟ کب ؟ اور کہاں ملاقات کی جائے ؟اس کا پروسیس شروع ہوجاتا ہے۔ پروسیس کا نتیجہ آتا ہے کہ فلاں کام کے لئے فلاں سےملا جائے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا ہے کہ علاج کے لئے زلف تراش کے پاس جانے کا خیال آئے ۔ لہٰذا موجود وقت کا استعمال دماغی و جسمانی سرگرمیوں میں لگتے ہوئے کیا جائے ،ناکہ صرف سوچتے ہوئے استعمال کریں ۔
2)ترجیحات کا تعین
انسان ایک وقت میں ایک ہی کام کرسکتا ہے۔ لہٰذا وہ کیا کرنا چاہتا ہے، اس کی ترجیحات کیا ہیں؟اس کا تعین ہی اس کےلیے بہتر طریقے سے کام انجام دینے کی راہ ہموار کرتا ہے، ورنہ بہت سے کاموں کو بیک وقت کرنے کی کوشش بہتر نتائج سے خالی بھی ہوتی ہے، اور فرد کو ذہنی طور پر متاثر بھی کرتی ہے ۔ لہذا ترجیحات کا تعین کیا جائے ۔ ضروری اور بہت ضروری کاموں کی فہرست مرتب کی جائے ۔ اہداف مقرر کیے جائیں اور وقت مقررہ پر ان کاموں کی تکمیل کے لئے ذرائع معلوم کیےجائیں اور انہیں منتخب کیاجائے ۔
3)سماجی زندگی کا حصہ بنیں!
اکثر لوگ اپنا بیشتر وقت اپنے Devices میں گزارتے ہیں ۔ موبائل، لیپ ٹاپ، ٹیب وغیرہ پر چوبیسوں گھنٹے گزار دیتے ہیں ۔ ان کے سامنے کون آیا کون گیا، انہیں خبر بھی نہیں ہوتی ۔ اس میں کچھ تو واقعی بہت ضروری کام کررہے ہوتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ بے جا مصروفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دراصل ان Devices کا بھی Addiction ہوتا ہے، جو دھیرے دھیرے ہمارے دماغ کواپنا عادی بنا لیتے ہیں ۔ اگر نہ ملے تو بے چینی ہوتی ہے، اور مل جائیں تو دماغ میں اٹھنے خیالات اس Device کو Operate کرتے ہیں ۔ اسے ہمارا دماغ کوئی بھی سمت طے کیےبغیر سوچنے کا عادی بن جاتا ہے ۔ ہماری پروفیشنل مصروفیت یا بہت ضروری مصروفیت کے علاوہ Device سے تھوڑی دوری بناکر رکھیں ۔ ہماری موجودہ سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سماجی زندگی کا حصہ بنیں ۔ تقریبات میں شرکت کریں۔رشتہ دار،دوست احباب سے ملنے جائیں، اپنے زیرربط لوگوں کے غم اور خوشی کے مواقع پر ملیں، اپنے محلے، شہر، مارکیٹ کے حالات سے باخبر رہیں، فلاحی و رفاہی کاموں کو انجام دیں، غرض کہ ہمارا Social Penetration ہمارے Over Thinking کو کم کرتا ہے ۔ سماجی زندگی میں Active رہنے سے منفی اور مثبت سوچ کے درمیان حد فاصل بن جاتا ہے ۔ انسان خود منفی اور مثبت کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔
4)صاف ستھرا رہیں، خوبصورت اور صاف ستھرا پہنیں !
پاکی ایمان کا لازمی جز ہے ۔ نفسیاتی طور پر جسم کی صفائی ستھرائی اور اچھے نیز خوبصورت لباس بھی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص جسمانی طور پر صاف ستھرا نہ ہو اور اس کالباس بھی صاف نہ ہوتو وہ طبعیت میں بوجھل پن محسوس کرتا ہے، اور طبیعت بوجھل ہوتو سوچ کی قوت معدوم ہوجاتی ہے، جبکہ جسمانی طور پر صاف ستھرا اور بہترین لباس زیب تن کیاہوا شخص بہت دیر تک کسی مسئلہ پر سوچ سکتا ہے، بہتر طریقے سے اپنی رائے دے سکتا ہے۔ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی نے ایک سروے کروایا ،جس میں سو لوگوں کو منتخب کیا ۔ ان سو لوگوں میں پچاس فیصد لوگ جسمانی طور اور وضع قطع میں بھی صاف ستھرے نہیں تھے، جبکہ پچاس فیصد لوگ بالکل صاف ستھرے تھے اور انکا لباس بھی صاف ستھرا تھا ۔ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ ان تمام سو لوگوں کے درمیان تعلیم ،غذا اور ماحول کی یکسانیت رہے ۔ ان سو لوگوں کو ہر روز مختلف چیزوں پر مختلف زاویوں سے سوچنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا، اور انہیں ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کریں ۔ ایک ماہ بعدسب کے پیپرز جمع کیے گئے تو حیرت انگیز طور پر وہ پچاس فیصد لوگ جو صاف ستھرے تھے، مثبت سوچ اور Progressive ثابت ہوئے ،جبکہ ان کے بالمقابل بقیہ پچاس فیصد لوگ منفی سوچ اور احساس کمتری میں مبتلا نظر آئے ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ Over Thinking یا سوچ کے غلبہ پر قابو پانے کے لئے جسمانی صفائی ستھرائی نیز صاف ستھرے وضع قطع کا خیال رکھا جائے۔
5)اچھی صحبت اختیار کریں!
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ہماری سوچ اور فکر پر ہم نشینوں کے بھی اثرات پڑتے ہیں، اچھے کی صحبت اچھا بناتی ہے اور بُروں کی صحبت برا بنا کر چھوڑتی ہے ، عطر کی دوکان میں بیٹھنے والا عطر نہ خریدے تو بھی بدن پر خوشبو کے اثرات لے کر واپس ہوتا ہے ، اور کوئلہ کی کان میں جانے والا کوئلہ نہ بھی چھوئے تو بھی اس کے کپڑوں پر کوئلہ کی سیاہی کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اس لیے کہا گیا ہے کہ آدمی کی پہچان اس کی ذات سے نہیں، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں سے ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اپنی سوچ کو درست رکھنے کے لئے مثبت سوچ والوں کے ساتھ بیٹھیے، وہ لوگ جو ہر وقت منہ بِسورے اور تناؤ کی کیفیت میں ہوتے ہیں، وہ آپ کو بھی تناؤ کی دنیا میں پہنچا دیں گے ، اس لیے قرآن کریم کی اس آیت کو زندگی کا نصب العین بنائیے کہ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو، یہ سچے لوگ آپ کی سوچ کو مثبت رکھنے ، آخرت کی فکر کرنے اور زندگی کو راہ راست پر رکھنے میں معاون ہوں گے ۔‘‘
6) اچھی یادوں کو تازہ کریں اور مسکرائیں !
انسانی ذہن میں ہر روز کم و بیش ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں ۔ اس میں کتنے ضروری اور کتنے ہی غیر ضروری ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کئی خیالات ایسے ہوتے جو یادوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ انسان چاہے تو انہیں جھٹک کر کچھ اور سوچ سکتا ہے ۔ لیکن چند یادیں ایسی ہوتی ہیں جو خوشگوار کہلاتی ہیںان سے انسان کو تازگی و فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔ ایسی یادوں کو تازہ کرنے سے بھی منفی خیالات سے کم ہوتے ہیں اور مثبت خیالات جنم لیتے ہیں ۔ اچھے خیالات آنے پر چہرے پر مسکراہٹ لائیں ۔ یہ عمل دماغ کو مثبت سوچ کی ہدایت جاری کرتا ہے ۔
7) ذکر الہی سے روح کو تقویت دیں !
منفی سوچ کو کم کرنے کےلیے ضروری ہے کہ روح کو تازہ رکھیں ۔ خصوصی اہتمام کے ساتھ، نیز چلتے پھرتے ذکر کرنے سے وساوس کا غلبہ کم ہوتا ہے ۔ ذکر الٰہی سے ایمان کو تقویت ملتی ہے جو مثبت سوچ اور مثبت عمل کا ذریعہ بنتا ہے جس سے بندہ راضی با قضا بن جاتا ہے، یہی مثبت سوچ کا مبداء ہے۔
Comments From Facebook
Maa Ahaa Allah Bhaut Pyari baat