خاص طور سے رمضان کا مہینہ۔ اس کی اپنی بھابھی ندا سے اچھی دوستی تھی۔ مل کے افطاری بنائی جاتی ۔ اس کی امی نے اس کے اور بھابھی کےدرمیان کام بانٹے ہوئے تھے ،تب بھی وہ دونوں مل جل کر سارے کام کرلیتیں۔ ہنسی مذاق اور دنیا بھر کے قصوں میں وقت کا پتا ہی نہ چلتا۔
’’لو، میں تو سمجھی تھی کہ تم دوچار دن ادھر رکوگی۔ ‘‘ باہر سے آتی اماں کی آواز پہ اسکا دل دھڑکنا بھول گیا۔
’’ اف! عفیفہ آپا کا مزید رکنے کا پلان ہے۔‘‘
’’ بتایا تو تھا آپ کو،وہ آگئی ہے ناں بشریٰ، پورے دس دن کےلیےمیری ساس کہاں مجھے رکنے دیں گی، وہ تو کل سے موڈ آف کیے بیٹھیں تھیں کہ میری بیٹی آئی ہے، اور تم مائیکے جارہی ہو۔‘‘ عفیفہ آپا بولیں۔
’’کرتی رہے موڈ آف۔ تم کسی کے موڈ کی کیوں پرواہ کرتی ہو؟ کوئی ضرورت نہیں ہےکسی سے دبنے کی۔ صحیح کہہ رہی ہیں اماں، میں سوچ رہی ہوں، دو تین دن بعد دوبارہ آجاؤں رہنے کےلیے، یہاں آکے تو ذرا سکون مل جاتا ہے۔ ارے وہ بشری تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی، دونوں ماں بیٹیاں تو شام سے ہی پڑھنے بیٹھ جاتی ہیں۔ افطاری بھی میں ہی بناؤں، صفائی بھی میں ہی کروں۔‘‘
’’ارے!تو تم اتنا کام کیوں کرتی ہو؟ کمرہ بند کرکے سوجایا کرو۔ تم بھی انسان ہو، کوئی مشین نہیں۔ ‘‘ وہ برتن دھوتے دھوتے سُن سی ہوگئی ۔ اپنی بیٹی کے لیے کیسی مامتا تڑپ رہی تھی ،اور ابھی کچھ منٹ پہلے اس پہ کیسے برس رہی تھیں۔ ٹھیک ہے، آپ ماں ہیں، اپنی بیٹی کے لیے بہت ہمدردی ہے، لیکن کچھ انسانیت بھی تو ہونی چاہیے۔ آنسو اس کے چہرے کو بھگونے لگے تھے۔
٭٭٭٭٭
’’زوبی! آج تم اپنی امی کے یہاں چلی جاؤ، عفان چھوڑدے گا۔ ‘‘
امی کی طرف تو وہ جانا چاہ رہی تھی مگر یوں اچانک!
اس کی حیران شکل دیکھ کر وہ مزید بولیں’’ دراصل مجھے ایک جگہ درس میں جانا ہے ،اور عفان بھی دوستوں کی طرف دعوت میں ہے۔ ‘‘امی کے پاس جانے کا سن کر ساری اداسی ہوا ہوگئی۔ وہ جلدی جلدی کرکے منٹوں سیکنڈوں میں تیار ہوگئی۔ اپنا گھر، اپنی ماں کو دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی، اکلوتی بیٹی سے مل کرماں کی بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
’’امی! بھابھی کہاں ہیں ؟نظر نہیں آرہیں۔‘‘ اس نے بھابھی کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے امی سے پوچھا۔
’’وہ اپنی امی کے طرف گئی ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نکلے ہیں وہ دونوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ بھائی بھی نہیں ہیں گھر پہ؟ ‘‘وہ حیرت سے بولی۔
’’ لو تو وہ اور کس کے ساتھ جاتی؟ ‘‘امی اٹھ کر باورچی خانے کی طرف چل پڑیں تو وہ بھی ان کےپیچھے پیچھے آگئی۔
’’ندا بیسن تو گھول گئی تھی پکوڑوں کےلیے، افطار میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے، زوبی! میرا خیال ہے پکوڑے تل لیتے ہیں۔‘‘وہ چولہے پر کڑاہی رکھتے ہوئے بولیں۔
’’پورے ڈیڑھ مہینے بعد آئی ہوں میں امی، اور بھابی کو ذرا خیال نہ آیا، کم ازکم افطاری تو ڈھنگ کی کرادیں ،اور آپ نے بھی انہیں نہیں روکا۔‘‘ اس کا موڈ آف ہوچکا تھا۔
’’ارے تو کیا ہوا؟ ابھی دو چار گھنٹوں میں آجائے گی۔‘‘ امی نے پکوڑے تلتے ہوئے کہا۔
’’ ہونہہ، میں ایسا کروں ناں تو میری ساس آسمان سر پہ اٹھالیں، اور ایک آپ ہیں جنہوں نے اتنی ڈھیل دے رکھی ہے اپنی بہو کو۔ ‘‘
’’زوبی! کیا ہوگیا بیٹا؟ کیوں اتنا غصہ ہورہی ہو؟‘‘امی نے تعجب سے پوچھا۔
’’ ندا کے بھتیجے کی روزہ کشائی تھی۔ وہ تو تم نے اپنے آنے کا بتادیا، اس لیے میں رک گئی ورنہ انہوں نے تو مجھے بھی بلایا تھا۔ چلو تم فریج سے فروٹ چاٹ کی ڈش نکالو، اذان میں کم وقت رہ گیا ہے۔‘‘ امی نے کڑاہی سے گرما گرم پکوڑے نکالتے ہوئے موضوع بدل دیا۔ روزہ بھی کھل گیا، نماز بھی پڑھ لی، لیکن اس کی سوئی وہیں اٹکی رہی۔
’’ آپکو نہیں پتہ، میری ساس کتنا تنگ کرتی ہیں مجھے ؛ بات بات پر طعنے دیتی ہیں۔زندگی اجیرن کر رکھی ہے انہوں نے میری،اور ایک آپ ہیں، جنہیں بہو کی کوئی بات بری نہیں لگتی۔‘‘
’’تو تم کیا چاہتی ہو ؟ میں بھی اس کاجینا حرام کرکے اسکی بد دعائیں لوں ؟پھر کیا فائدہ ایسے روزے نمازوں کا؟ حقوق اللہ تو پھربھی معاف ہوجاتےہیں، حقوق العباد کےلیے مگرویسے ہی کوئی معافی نہیں ہے ۔ ‘‘امی کے اتنا سمجھانے پر بھی وہ مطمئن نہ ہوسکی۔ دس بجے کے قریب بھائی بھابھی کی واپسی بھی ہوگئی۔
[ جاری]
0 Comments