تبصرہ نگار: سہیل بشیر کار
جیمز کلیر نے Atomic Habit کےنام سے ایک کتاب لکھی ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ لاَزماً بڑے کام کرنے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چھوٹی چھوٹی سینکڑوں چیزیں مستقل کرنے سے بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ضروری نہیں کہ صرف بڑے کام ہی آپ کو بڑا بنائیں۔عام طور پر جن کتابوں کا ہم مطالعہ کرتے ہیں ان میں بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں، بڑے بڑے مسائل ہوتے ہیں، لیکن زندگی کا حسن یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سیریس لیا جائے، ہمارا دین احسان یعنی Excellence چاہتاہے، جہاں وہ ہمارے بڑے بڑے مسائل میں Excellence چاہتا ہے، وہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی احسان کا قائل ہے ، تاکہ زندگی میں جمال اور حسن آجائے۔
چھوٹی سے چھوٹی چیز کا سلیقہ جب آجاتا ہے تو زندگی میں ٹائم منیجمنٹ آجاتا ہے، انسان بہت سارے کام آسانی سے کر پاتا ہے وہ بھی نزاکت کے ساتھ۔
چند روز قبل نمرہ احمد کی ایک کتاب’’ہوم گرل‘‘ کا اشتہار دیکھا۔سوچا کہ نمرہ احمد کی یہ کتاب کوئی ناول ہوگی، جو کہ انسانی فطرت کے ارد گرد گھومتی ہوگی ،جیسے ان کی دوسری کتابیں ہوتی ہیں، لیکن جب کتاب ملی تو معلوم ہوا کہ کہ نمرہ احمد کی دوسری کتابوں سے مختلف ہے، البتہ کتاب کا مقصد بھی وہی ہے جو ان کی دیگر کتابوں میں ہوتا ہے، یعنی با مقصد اور خوشگوار زندگی گزارنا ۔
نمرہ احمد کو میں نے جتنا سمجھا ہے، میرا ماننا ہے کہ وہ نوجوان طبقہ کے مسائل کو اٹھا کر ان مسائل کے حل بتا کر ان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے واقف کرواتی ہیں۔نہ صرف واقف کرواتی ہیں بلکہ ان کی تحریر میں جاذبیت اس قدر ہےکہ انسان عمل پر مجبور ہو جاتا ہے، ان کی کتابیں ہارٹ کیک کی طرح بکتی ہیں ، نمرہ کی کتابوں سے انسان اسلام کا عملی پیروکار بن جاتا ہے، قرآن کریم سے رغبت بڑھ جاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مصنفہ نے ہوم گرل بننے کا طریقہ بتایا ہے، چونکہ نمرہ موجود زمانہ کی نفسیات خاص طورپر ٹین ایج کی نفسیات سے واقف ہیں اور یہی عمر ایک انسان کا لائف اسٹائل بننے میں اہم ہوتا ہے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے صفائی، طہارت اور خود کو سنوارنے کا ہنر بتایا ہے، مصنفہ لکھتی ہیں: ’’میری یہ کتاب میرے سفر کی کہانی ہے، میں نے ایک نازک لڑکی سے ہوم گرل بننے کا سفر کیسے کیا اور اس سفر میں کیا سیکھا؟کیونکہ ہوم گرل بننا کوئی ٹیلینٹ نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپشن ہے کہ جس کا جی چاہیے وہ بن جائے اور جس کا جی چاہیے وہ نہ بنے، لڑکی چاہیے امریکہ میں رہتی ہو یا پاکستان میں، اسے وہ سب آنا چاہیے جو اس کتاب میں بتایا جا رہا ہے۔‘‘(صفحہ : 4)
نمرہ احمد نے 95 صفحات کی کتاب کو 12 ابواب میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب کا عنوان ہے ’’ہوم گرل کیا ہوتی ہے؟‘‘اس باب میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ ہوم گرل کس طرح ہوم شلیف، ہوم ڈیزائنر، اور انٹریر ڈیکوریٹر سے کیسے مختلف ہوتی ہے، دوسرے باب ’’میرا آدھا ایمان‘‘ میں مصنفہ نے صفائی کی اہمیت اوراس کے طریقےپر بات کی ہے۔مصنفہ کہتی ہیں کہ ہمیں صفائی کرنا سیکھنا پڑھتا ہے، اور یہ سیکھنا مجبوری ہے، کیونکہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے، مصنفہ لکھتی ہیں ’’صفائی کے سفر نے مجھے جو سکھایا وہ آپ کے لیے سیکھنا بائی چوائس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ آپ پہ لازم ہے؛ فرض ہے؛ جیسے نماز فرض ہے۔ بالکل ویسے ہی اپنے آپ کو صاف رکھنا ہم سب پہ لازم ہے۔ کیوں ؟ تاکہ ہمارے جسم سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ اور جانتے ہیں ہم لوگ بنا انگلی ہلائے بنا زبان کو حرکت دیے کسی دوسرے انسان کو تکلیف کیسے دیتے ہیں؟‘‘(صفحہ : 7)
اس باب میں مصنفہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں، تاکہ انسان کی زندگی بدل سکے، مثلاً لوگوں سے بدبو کیوں آتی ہے؟، پرفیوم غسل کا متبادل نہیں، مصنفہ نے کمال خوبصورتی سے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔
تیسرے باب ’’وہ پری چہرہ لوگ‘‘ میں مصنفہ نے منہ کو صاف رکھنے کی اہمیت اور ماڈرن طریقے بتائے ہیں ، ساتھ ہی اس باب میں جلدکےمسائل پر بات کی ہے، مصنفہ قرآن پاک کے عملی اور باریک پہلو سے قاری کو آگاہ کراتی ہیں، لکھتی ہیں’’میں پانی کی طاقت پہ یقین رکھتی ہوں، آپ کو معلوم ہے جب ایوب علیہ السلام بیمار ہوئے تھے تو ان کو جلد کا عارضہ لاحق ہوا تھا، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دی تو ان کے لیے اوپر اور نیچے پانی پیدا کیا، اور کہا کہ وہ اسے اپنے اوپر ڈالیں، وہ پانی خاص تھا، مگر ایوب علیہ السلام کے مسئلے بھی خاص تھے، قرآن میں یہ منظر بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔مجھے اس کے بعد ایمان سا ہوگیا کہ جلد کے عام مسئلے عام پانی سے حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ : 14)
کتاب کے چوتھے باب ’’یہ ذرا سی نمی‘‘ میں مصنفہ نے پسینہ سے پیدا شدہ مسائل اور ان کا حل بتایا ہے۔خصوصاً بغل کے پسینےسے جو بدبو پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح استری شدہ کپڑے پہننا، رات ہوتے وقت کیا کیا کرنا چاہیے؟ جیسے میک اپ کو صاف کرنا،ایام مخصوصہ میں خواتین کیسے صاف رہیں ؟جیسی بہت سی باتوں پر ماڈرن طریقے بتائے ہیں۔
پانچویں باب ’’میرا آشیانہ‘‘ میں مصنفہ نے مختصر مگر بنیادی معلومات گھر کے حوالے سےمہیا کی ہیں۔یہاں بھی نمرہ احمد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں، مثلاً ٹی وی کی پشت پر گرد، باتھ روم نیٹ، واش بیسن اور کموڈ کے عقب کی جگہ، وال کلاک کے پیچھے کی جگہ وغیرہ۔
کتاب کے باب ششم ’’بوجھ سے آزادی ‘‘میں مصنفہ نے بتایا ہے کہ ہمیں صفائی کرتے وقت اپنے سامان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔کچرے، صدقے اور ضروریات۔مصنفہ لکھتی ہیں’’ ڈی کٹرنگ کہتے ہیں اپنے گھر میں جمع سامان میں زائد چیزوں سے چھٹکارا پانا، یہ چیزیں بوجھ ہیں۔‘‘(صفحہ : 32)یہ ایک آرٹ ہے جس سے زندگی آسان اور خوشگوار ہوتی ہے، ہمارے گھروں میں کئی ڈنر سیٹ یا برتن ہوتے ہیں، ہمیں چاہیے ایک مہمانوں کے لیے رکھا جائے باقی استعمال کیے جائیں، گھروں میں قیمتی برتن ہوتے ہیں اور ہم پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہوتے ہیں؛ اس سلسلے میں ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ برتن ٹوٹ جائیں گے. مصنفہ تقدیر پر ایمان سمجھاتے ہوئے لکھتی ہیں’’بھئی زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ برتن ٹوٹ جائے گا نا؟ تو ٹوٹنے دیں ۔ سیٹ کا ڈونگا ٹوٹ جائے گا۔ پیالی کا ہینڈل چکنا چور ہو جائے گا۔ تو ہونے دو ۔ برتن تب ٹوٹتا ہے جب اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اگر اس ڈنرسیٹ کے ڈونگے کی عمر دس سال ہے تو وہ دس سال شوکیس میں سجار ہنے کے بعدایک دن سالانہ صفائی کے موقعے پہ ملازمہ کے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ جائے گا۔ یا وہ دس سال ہر روز گھر والوں کی میز پہ ان کو کھانا پیش کر کے ایک دن ٹوٹ جائے گا۔(صفحہ : 37)
ساتویں باب میں مصنفہ ترتیب کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ چونکہ ترتیب کامیابی کے لیے اہم ہے۔ لہٰذا، ہمیں گھر میں چیزیں کس ترتیب سے رکھنی چاہئیں؟ الماری کس طرح ترتیب دینی چاہیے؟پریس کیسا ہونا چاہیے؟ چابیاں کیسے رکھیں؟ اسٹڈی ٹیبل کیسا ہو؟ یہاں مصنفہ باتوں باتوں میں قرآن کریم پڑھنے کے فوائد یوں لکھتی ہیں ’’جن گھروں میں روز قرآن نہیں پڑھا جاتا وہ قبرستانوں جیسے ہوتے ہیں ۔وہاں دل مردہ اور روحیں بے قرار رہتی ہیں۔ وہ اپنے اپنے پنجروں میں قید رہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اب وہ کچھ بھی کر لیں ان کو نجات نہیں ملے گی اور جن گھروں میں قرآن پڑھا جا تا ہے وہاں روشنی ہوتی ہے ۔ پازیٹیو ٹی ہوتی ہے ۔ مسئلے وہاں بھی ہوں گے لیکن وہاں جو خیر و برکت ہوگی نا وہ ان گھر والوں کو مسئلوں سے نکلنے کی راہ دکھاتی رہے گی۔اپنے گھروں کو قبرستان بننے سے بچائیں۔ قرآن کے لیے جگہ مخصوص کریں۔‘‘(صفحہ : 44)
کمرہ میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے، اس کے لیے لکھتی ہیں’’کمرے کو کھلے کا تاثر دینے کے لیے آپ کو ایک اصول یاد رکھنا ہے۔آپ نے نگاہ کو رکنے نہیں دینا۔سمجھ میں آیا نگاہ کے راستے میں کوئی بلاکیج حائل نہیں ہونی چاہیے ۔ نگاہ کو سفر کر نے کا موقع دیں۔ چیزوں کو ایسے سیٹ کریں کہ کمرے کا وسط خالی ہو ۔ اور کونے نظر آرہے ہوں۔‘‘ (صفحہ : 45)اس طرح مصنفہ ہر باریک چیز سمجھاتی ہیں، جیسے پردے کی راڈ کیسے رکھیں؟
آٹھویں باب ’’سولہ سنگھار‘‘ میں مصنفہ نے بتایا ہے کہ اپنے گھر کو مزید بہتر کیسے بنایا جائے؟لکھتی ہیں ’’کمرے کا تھیم کیسا ہو؟تھیم وارم ہے یا کول ،وارم رنگ گرم رنگ ہوتے ہیں۔ پیلے، بیج، گرم سبز اور کول رنگ میں نیلے، کول سبز، سفید وغیرہ۔‘‘غرض باریک سے باریک باتیں مصنفہ نے اس کتاب میں بیان کی ہیں، تاکہ زندگی احسان والی بن جائے۔مصنفہ کہتی ہیں کہ انسان کو اپنے گھر سے پیار کرنا سیکھنا چاہیے تاکہ ’’جب وہ دن کے آخر میں اپنے گھر آئے تو اپنے بستر پہ لیٹتے وقت جب وہ موبائل کی دنیا چیک کرے تو اسے راحت کا احساس ہو۔‘‘ (صفحہ: 52)
نویں باب ’’روشنی‘‘میں مصنفہ نے گھر میں کیسی روشنی ہو؟ پر لکھا ہے۔روشنیاں انسان کو فرحت و نشاط عطا کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں’’کیا آپ جانتے ہیں کہ شیطان جنات اور اس طرح کی شرانگیز مخلوقات روشنی سے دور بھاگتی ہیں اور اندھیروں کو پسند کرتی ہیں۔ اندھیر انیکیٹیوٹی میں شدت لاتا ہے ۔ رات کو اسی لیے ہم زیادہ ایموشنل ہو جاتے ہیں۔ چیزوں کو اوور تھنک کرنے لگتے ہیں ۔ دن میں ہم بہت بہتر ہوتے ہیں ۔ اگر ہمیں ایک مثبت زندگی جاہیے تو ہمیں اپنے گھروں کو روشن بنا نا ہوگا۔پہلا اسٹیپ اپنے گھر کے ایک ایک کمرے میں قدرتی روشنی داخل کرنا ہے۔‘‘(صفحہ : 56)مزید لکھتی ہیں’’ پیلی روشنی یا وارم وائٹ لائٹ بہت ہی پیاری روشنی ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ہم پیارے لگتے ہیں۔ ہمارا کمرہ پیارا لگتا ہے اور ایک سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ ریلیکس کرنے والی روشنی ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلز میں وارم بتیوں سے روشنی کی جاتی ہے ۔ ٹیبل لیمپس اور فلور لیمپس میں اسی لیے پیلے بلب استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اگر اچانک سے مہمان آ گئے ہیں اور کمرہ اتناصاف نہیں ہے تو آپ سفید بتیاں بجھا کے زرو لائٹ آن کر دیں تو بہت سے عیوب چھپ جائیں گے۔زرد روشنی ان کمروں میں ہوتی ہے جہاں ہمیں بہت غور وفکر والا کام نہیں کرنا ہوتا۔ جہاں ہم ریلیکس کرتے ہیں۔ لاؤنج؛ ڈرائینگ روم؛ بیڈ روم وغیرہ میں زرد بلب اچھے لگتے ہیں۔ باتھ روم میں احتیاطاً ایک زرد بلب بھی لگائے رکھتی ہوں ۔ اور ایک بڑا سا سفید بلب۔ میک اپ وغیرہ کرنا ہوتو سفید جلالیا۔ ورنہ زردٹھیک رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ : 58)
دسویں باب میں مصنفہ نے گھر میں کون سا کلر ہو؟ کس کمرے میں کیا کلر ہو ؟اس پر لکھا ہے۔اگر کوئی ان پر عمل کرے تو گھر واقعی پرسکون بن جائے گا۔
گیارہویں باب ’’ادب پہلا قرینہ ہے‘‘ میں مصنفہ نے ان لڑکیوں کو سمجھایا ہے، جو کہتی ہیں میری زندگی میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے، مصنفہ اس باب میں افراد کو ادب کی اہمیت سمجھاتی ہیں؛ وہیں ان کو بھی جو دین نیا نیا سیکھتی ہیں، انہیں سمجھاتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ’’آپ کا دین نظر آنا چاہیے آپ کے اخلاق میں آپ کی نگاہ اور آپ کی سچائی میں ۔ آپ کی زبان کو کچھ عرصہ خاموش رہنا چاہیے۔ والدین آپ کی بات تب سنیں گے جب دیکھیں گے کہ دین نے میرے بیٹے کو ایک بہتر انسان بنایا ہے ۔ یہ نرم ہو گیا ہے ۔لڑتا نہیں ہے۔ اس کا اخلاق اچھا ہو گیا ہے ۔ ورنہ اگر دین آپ پہ ایسی بجلی کی طرح گرا ہے جوارد گرد سب کو بھسم کر رہی ہے تو ایسے دین کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ماں باپ کا دل دکھا کے اور ان کا مان توڑ کے کی جانے والی نصیحت سے بہتر ہے انہیں نصیحت نہ کی جائے ۔‘‘ (صفحہ : 83)
کتاب کے آخری باب’’ اللہ کی رحمت ‘‘میں نمرہ نے گھر آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ کیسے پیش آیا جائے؟پر خامہ فرسائی کی ہے۔یہاں بھی وہ ہر چھوٹی چھوٹی چیزخوبصورتی سے بیان کرتی ہیں؛لکھتی ہیں’’مہمان جب کھا چکے تو برتن ہٹا دینے چاہیے لیکن اگر کچھ ان کو پسند آرہا تھا یا جیسے ڈرائی فروٹ یا کوئی ایسی چیز جو پلیٹ کے بغیر بھی کھائی جاسکتی ہے؛ وہ سامنے رکھی رہنے دیں۔‘‘ (صفحہ : 88)
اسی طرح مہمان کے تئیں رویہ کے بارے میں لکھتی ہیں’’بعض نوجوانوں کو بحث کا بہت شوق ہوتا ہے، مگر گھر آئے مہمان کے ساتھ بحث نہیں کرنی چاہیے، میچورٹی اس چیز کا نام ہے کہ بات پسند نہیں آتی تب بھی وہ مہمان ہے، اس کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے۔‘‘(صفحہ : 90)
نمرہ احمد اپنی بات سمجھانے کے لیے طنز بھی کرتی ہیں، لیکن قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں بھی جذبۂ خیر ہے۔نام نہاد فیمنسٹ طبقہ کے بارے میں لکھتی ہیں’’ میں ایسے لوگوں کو جعلی فیمینیسٹ اس لیے کہتی ہوں کیونکہ فیمینزم یہ نہیں ہوتا۔ میں خود اندر سے ایک فیمینیسٹ ہوں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ ہماری نازک لڑکیاں ایسے بہت سے کام جو صرف بھائیوں یا ڈرائیور چا چا کے لیے چھوڑ دیا کرتی ہیں وہ انہیں خود کرنے آنے چاہئیں ۔ اصل فیمینسٹ ہونا ہی یہی ہے کہ کسی کام کے لیے مردوں کی محتاجی نہ ہو۔ آپ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے اتنی مضبوط ہوں کہ اپنے کام خود کرلیا کریں ۔اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ لڑکیوں کوایسی کتابیں پڑھتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کیوں؟ہمارے اوپر یہ سیکھنا لازم کیوں ہے؟کیوں نہ سیکھیں؟ یہ مائنڈ سیٹ لے کر چلیں گی تو کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکیں گی ۔ دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا ہے کہ میں کیسے خود کو بہتر بناسکتی ہوں؟‘‘(صفحہ : 4)
ایک جگہ اور لکھتی ہیں’’ کچھ لڑکیوں کے عبایا سے اتنی اسمیل اتی ہے کہ ان سے گلے ملتے وقت ناک بند کرنی پڑتی ہے ۔ ایسے عبایا کا کیا فائدہ جس سے ایمان ہی آدھا کم ہو جائے؟ لڑکیوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے اس گندے میلے حلیے سے دوسروں کے ذہن میں ان کا کیا امپریشن بنتا ہے۔‘‘ (صفحہ : 9)
کتاب میں جگہ جگہ جگہ ہیومر بھی ہے، ایک جگہ لکھتی ہیں’’ چائے یا مشروب پیتے وقت کچھ لوگ شڑپ شڑپ کی آواز نکالتے ہیں، ان سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، کچھ لوگ چائے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر پھونکیں بھی مارتے ہیں۔ (پتہ نہیں ان کی پھونک میں کونسے فریزر کے دھوئیں نکل رہے ہوتے ہیں جو ان کو لگتا ہے کہ ستر ڈگری پہ ابلتی چائے ان کی ایک پھونک سے ٹھنڈی ہو جائے گی۔)(صفحہ: 93)
آگے سمجھاتی ہیں کہ کھانے پینے کی چیز پر پھونک مار نا حدیث میں منع ہے، اگر آپ اپنے معاشرہ میں رہنا چاہتے ہیں ،وہ بھی سلیقہ سے اور چاہتی ہیں کہ ہر کوئی آپ کی عزت کرے؛ پر سکون زندگی گزارنی ہو تو اس کتاب کو لازمی پڑھیں. یہ کتاب آپ کے چھوٹے چھوٹے نقائص کو بھی دور کر دےگی۔ہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے جس پر مصنفہ نے کتاب کا اختتام کیا ہے’’اگر اس دنیا میں ہر چیز پرفیکٹ ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ کے وہ صبر اور اس کے اجر کے وعدوں کا کیا؟ بس یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کی کوفت بہت حد تک کم ہو جائے گی۔‘‘ (صفحہ : 95)
ضرورت ہے کہ اس کتاب کاانگریزی میں بھی ٹرانسلیشن ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں، دین پسند تنظیموں اور اداروں کو چاہیے کہ خواتین کے حلقہ میں اس کتاب کی خوب اشاعت ہو۔یہ کتاب’’ منشورات پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، دہلی‘‘ نے عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کی ہے ،اوریہ فون نمبر 09810650228 سےحاصل کی جاسکتی ہے۔
جیمز کلیر نے Atomic Habit کےنام سے ایک کتاب لکھی ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ لاَزماً بڑے کام کرنے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چھوٹی چھوٹی سینکڑوں چیزیں مستقل کرنے سے بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ضروری نہیں کہ صرف بڑے کام ہی آپ کو بڑا بنائیں۔عام طور پر جن کتابوں کا ہم مطالعہ کرتے ہیں ان میں بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں، بڑے بڑے مسائل ہوتے ہیں، لیکن زندگی کا حسن یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سیریس لیا جائے، ہمارا دین احسان یعنی Excellence چاہتاہے، جہاں وہ ہمارے بڑے بڑے مسائل میں Excellence چاہتا ہے، وہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی احسان کا قائل ہے ، تاکہ زندگی میں جمال اور حسن آجائے۔
چھوٹی سے چھوٹی چیز کا سلیقہ جب آجاتا ہے تو زندگی میں ٹائم منیجمنٹ آجاتا ہے، انسان بہت سارے کام آسانی سے کر پاتا ہے وہ بھی نزاکت کے ساتھ۔
چند روز قبل نمرہ احمد کی ایک کتاب’’ہوم گرل‘‘ کا اشتہار دیکھا۔سوچا کہ نمرہ احمد کی یہ کتاب کوئی ناول ہوگی، جو کہ انسانی فطرت کے ارد گرد گھومتی ہوگی ،جیسے ان کی دوسری کتابیں ہوتی ہیں، لیکن جب کتاب ملی تو معلوم ہوا کہ کہ نمرہ احمد کی دوسری کتابوں سے مختلف ہے، البتہ کتاب کا مقصد بھی وہی ہے جو ان کی دیگر کتابوں میں ہوتا ہے، یعنی با مقصد اور خوشگوار زندگی گزارنا ۔
نمرہ احمد کو میں نے جتنا سمجھا ہے، میرا ماننا ہے کہ وہ نوجوان طبقہ کے مسائل کو اٹھا کر ان مسائل کے حل بتا کر ان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے واقف کرواتی ہیں۔نہ صرف واقف کرواتی ہیں بلکہ ان کی تحریر میں جاذبیت اس قدر ہےکہ انسان عمل پر مجبور ہو جاتا ہے، ان کی کتابیں ہارٹ کیک کی طرح بکتی ہیں ، نمرہ کی کتابوں سے انسان اسلام کا عملی پیروکار بن جاتا ہے، قرآن کریم سے رغبت بڑھ جاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مصنفہ نے ہوم گرل بننے کا طریقہ بتایا ہے، چونکہ نمرہ موجود زمانہ کی نفسیات خاص طورپر ٹین ایج کی نفسیات سے واقف ہیں اور یہی عمر ایک انسان کا لائف اسٹائل بننے میں اہم ہوتا ہے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے صفائی، طہارت اور خود کو سنوارنے کا ہنر بتایا ہے، مصنفہ لکھتی ہیں: ’’میری یہ کتاب میرے سفر کی کہانی ہے، میں نے ایک نازک لڑکی سے ہوم گرل بننے کا سفر کیسے کیا اور اس سفر میں کیا سیکھا؟کیونکہ ہوم گرل بننا کوئی ٹیلینٹ نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپشن ہے کہ جس کا جی چاہیے وہ بن جائے اور جس کا جی چاہیے وہ نہ بنے، لڑکی چاہیے امریکہ میں رہتی ہو یا پاکستان میں، اسے وہ سب آنا چاہیے جو اس کتاب میں بتایا جا رہا ہے۔‘‘(صفحہ : 4)
نمرہ احمد نے 95 صفحات کی کتاب کو 12 ابواب میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب کا عنوان ہے ’’ہوم گرل کیا ہوتی ہے؟‘‘اس باب میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ ہوم گرل کس طرح ہوم شلیف، ہوم ڈیزائنر، اور انٹریر ڈیکوریٹر سے کیسے مختلف ہوتی ہے، دوسرے باب ’’میرا آدھا ایمان‘‘ میں مصنفہ نے صفائی کی اہمیت اوراس کے طریقےپر بات کی ہے۔مصنفہ کہتی ہیں کہ ہمیں صفائی کرنا سیکھنا پڑھتا ہے، اور یہ سیکھنا مجبوری ہے، کیونکہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے، مصنفہ لکھتی ہیں ’’صفائی کے سفر نے مجھے جو سکھایا وہ آپ کے لیے سیکھنا بائی چوائس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ آپ پہ لازم ہے؛ فرض ہے؛ جیسے نماز فرض ہے۔ بالکل ویسے ہی اپنے آپ کو صاف رکھنا ہم سب پہ لازم ہے۔ کیوں ؟ تاکہ ہمارے جسم سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ اور جانتے ہیں ہم لوگ بنا انگلی ہلائے بنا زبان کو حرکت دیے کسی دوسرے انسان کو تکلیف کیسے دیتے ہیں؟‘‘(صفحہ : 7)
اس باب میں مصنفہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں، تاکہ انسان کی زندگی بدل سکے، مثلاً لوگوں سے بدبو کیوں آتی ہے؟، پرفیوم غسل کا متبادل نہیں، مصنفہ نے کمال خوبصورتی سے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔
تیسرے باب ’’وہ پری چہرہ لوگ‘‘ میں مصنفہ نے منہ کو صاف رکھنے کی اہمیت اور ماڈرن طریقے بتائے ہیں ، ساتھ ہی اس باب میں جلدکےمسائل پر بات کی ہے، مصنفہ قرآن پاک کے عملی اور باریک پہلو سے قاری کو آگاہ کراتی ہیں، لکھتی ہیں’’میں پانی کی طاقت پہ یقین رکھتی ہوں، آپ کو معلوم ہے جب ایوب علیہ السلام بیمار ہوئے تھے تو ان کو جلد کا عارضہ لاحق ہوا تھا، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دی تو ان کے لیے اوپر اور نیچے پانی پیدا کیا، اور کہا کہ وہ اسے اپنے اوپر ڈالیں، وہ پانی خاص تھا، مگر ایوب علیہ السلام کے مسئلے بھی خاص تھے، قرآن میں یہ منظر بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔مجھے اس کے بعد ایمان سا ہوگیا کہ جلد کے عام مسئلے عام پانی سے حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ : 14)
کتاب کے چوتھے باب ’’یہ ذرا سی نمی‘‘ میں مصنفہ نے پسینہ سے پیدا شدہ مسائل اور ان کا حل بتایا ہے۔خصوصاً بغل کے پسینےسے جو بدبو پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح استری شدہ کپڑے پہننا، رات ہوتے وقت کیا کیا کرنا چاہیے؟ جیسے میک اپ کو صاف کرنا،ایام مخصوصہ میں خواتین کیسے صاف رہیں ؟جیسی بہت سی باتوں پر ماڈرن طریقے بتائے ہیں۔
پانچویں باب ’’میرا آشیانہ‘‘ میں مصنفہ نے مختصر مگر بنیادی معلومات گھر کے حوالے سےمہیا کی ہیں۔یہاں بھی نمرہ احمد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں، مثلاً ٹی وی کی پشت پر گرد، باتھ روم نیٹ، واش بیسن اور کموڈ کے عقب کی جگہ، وال کلاک کے پیچھے کی جگہ وغیرہ۔
کتاب کے باب ششم ’’بوجھ سے آزادی ‘‘میں مصنفہ نے بتایا ہے کہ ہمیں صفائی کرتے وقت اپنے سامان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔کچرے، صدقے اور ضروریات۔مصنفہ لکھتی ہیں’’ ڈی کٹرنگ کہتے ہیں اپنے گھر میں جمع سامان میں زائد چیزوں سے چھٹکارا پانا، یہ چیزیں بوجھ ہیں۔‘‘(صفحہ : 32)یہ ایک آرٹ ہے جس سے زندگی آسان اور خوشگوار ہوتی ہے، ہمارے گھروں میں کئی ڈنر سیٹ یا برتن ہوتے ہیں، ہمیں چاہیے ایک مہمانوں کے لیے رکھا جائے باقی استعمال کیے جائیں، گھروں میں قیمتی برتن ہوتے ہیں اور ہم پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہوتے ہیں؛ اس سلسلے میں ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ برتن ٹوٹ جائیں گے. مصنفہ تقدیر پر ایمان سمجھاتے ہوئے لکھتی ہیں’’بھئی زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ برتن ٹوٹ جائے گا نا؟ تو ٹوٹنے دیں ۔ سیٹ کا ڈونگا ٹوٹ جائے گا۔ پیالی کا ہینڈل چکنا چور ہو جائے گا۔ تو ہونے دو ۔ برتن تب ٹوٹتا ہے جب اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اگر اس ڈنرسیٹ کے ڈونگے کی عمر دس سال ہے تو وہ دس سال شوکیس میں سجار ہنے کے بعدایک دن سالانہ صفائی کے موقعے پہ ملازمہ کے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ جائے گا۔ یا وہ دس سال ہر روز گھر والوں کی میز پہ ان کو کھانا پیش کر کے ایک دن ٹوٹ جائے گا۔(صفحہ : 37)
ساتویں باب میں مصنفہ ترتیب کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ چونکہ ترتیب کامیابی کے لیے اہم ہے۔ لہٰذا، ہمیں گھر میں چیزیں کس ترتیب سے رکھنی چاہئیں؟ الماری کس طرح ترتیب دینی چاہیے؟پریس کیسا ہونا چاہیے؟ چابیاں کیسے رکھیں؟ اسٹڈی ٹیبل کیسا ہو؟ یہاں مصنفہ باتوں باتوں میں قرآن کریم پڑھنے کے فوائد یوں لکھتی ہیں ’’جن گھروں میں روز قرآن نہیں پڑھا جاتا وہ قبرستانوں جیسے ہوتے ہیں ۔وہاں دل مردہ اور روحیں بے قرار رہتی ہیں۔ وہ اپنے اپنے پنجروں میں قید رہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اب وہ کچھ بھی کر لیں ان کو نجات نہیں ملے گی اور جن گھروں میں قرآن پڑھا جا تا ہے وہاں روشنی ہوتی ہے ۔ پازیٹیو ٹی ہوتی ہے ۔ مسئلے وہاں بھی ہوں گے لیکن وہاں جو خیر و برکت ہوگی نا وہ ان گھر والوں کو مسئلوں سے نکلنے کی راہ دکھاتی رہے گی۔اپنے گھروں کو قبرستان بننے سے بچائیں۔ قرآن کے لیے جگہ مخصوص کریں۔‘‘(صفحہ : 44)
کمرہ میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے، اس کے لیے لکھتی ہیں’’کمرے کو کھلے کا تاثر دینے کے لیے آپ کو ایک اصول یاد رکھنا ہے۔آپ نے نگاہ کو رکنے نہیں دینا۔سمجھ میں آیا نگاہ کے راستے میں کوئی بلاکیج حائل نہیں ہونی چاہیے ۔ نگاہ کو سفر کر نے کا موقع دیں۔ چیزوں کو ایسے سیٹ کریں کہ کمرے کا وسط خالی ہو ۔ اور کونے نظر آرہے ہوں۔‘‘ (صفحہ : 45)اس طرح مصنفہ ہر باریک چیز سمجھاتی ہیں، جیسے پردے کی راڈ کیسے رکھیں؟
آٹھویں باب ’’سولہ سنگھار‘‘ میں مصنفہ نے بتایا ہے کہ اپنے گھر کو مزید بہتر کیسے بنایا جائے؟لکھتی ہیں ’’کمرے کا تھیم کیسا ہو؟تھیم وارم ہے یا کول ،وارم رنگ گرم رنگ ہوتے ہیں۔ پیلے، بیج، گرم سبز اور کول رنگ میں نیلے، کول سبز، سفید وغیرہ۔‘‘غرض باریک سے باریک باتیں مصنفہ نے اس کتاب میں بیان کی ہیں، تاکہ زندگی احسان والی بن جائے۔مصنفہ کہتی ہیں کہ انسان کو اپنے گھر سے پیار کرنا سیکھنا چاہیے تاکہ ’’جب وہ دن کے آخر میں اپنے گھر آئے تو اپنے بستر پہ لیٹتے وقت جب وہ موبائل کی دنیا چیک کرے تو اسے راحت کا احساس ہو۔‘‘ (صفحہ: 52)
نویں باب ’’روشنی‘‘میں مصنفہ نے گھر میں کیسی روشنی ہو؟ پر لکھا ہے۔روشنیاں انسان کو فرحت و نشاط عطا کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں’’کیا آپ جانتے ہیں کہ شیطان جنات اور اس طرح کی شرانگیز مخلوقات روشنی سے دور بھاگتی ہیں اور اندھیروں کو پسند کرتی ہیں۔ اندھیر انیکیٹیوٹی میں شدت لاتا ہے ۔ رات کو اسی لیے ہم زیادہ ایموشنل ہو جاتے ہیں۔ چیزوں کو اوور تھنک کرنے لگتے ہیں ۔ دن میں ہم بہت بہتر ہوتے ہیں ۔ اگر ہمیں ایک مثبت زندگی جاہیے تو ہمیں اپنے گھروں کو روشن بنا نا ہوگا۔پہلا اسٹیپ اپنے گھر کے ایک ایک کمرے میں قدرتی روشنی داخل کرنا ہے۔‘‘(صفحہ : 56)مزید لکھتی ہیں’’ پیلی روشنی یا وارم وائٹ لائٹ بہت ہی پیاری روشنی ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ہم پیارے لگتے ہیں۔ ہمارا کمرہ پیارا لگتا ہے اور ایک سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ ریلیکس کرنے والی روشنی ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلز میں وارم بتیوں سے روشنی کی جاتی ہے ۔ ٹیبل لیمپس اور فلور لیمپس میں اسی لیے پیلے بلب استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اگر اچانک سے مہمان آ گئے ہیں اور کمرہ اتناصاف نہیں ہے تو آپ سفید بتیاں بجھا کے زرو لائٹ آن کر دیں تو بہت سے عیوب چھپ جائیں گے۔زرد روشنی ان کمروں میں ہوتی ہے جہاں ہمیں بہت غور وفکر والا کام نہیں کرنا ہوتا۔ جہاں ہم ریلیکس کرتے ہیں۔ لاؤنج؛ ڈرائینگ روم؛ بیڈ روم وغیرہ میں زرد بلب اچھے لگتے ہیں۔ باتھ روم میں احتیاطاً ایک زرد بلب بھی لگائے رکھتی ہوں ۔ اور ایک بڑا سا سفید بلب۔ میک اپ وغیرہ کرنا ہوتو سفید جلالیا۔ ورنہ زردٹھیک رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ : 58)
دسویں باب میں مصنفہ نے گھر میں کون سا کلر ہو؟ کس کمرے میں کیا کلر ہو ؟اس پر لکھا ہے۔اگر کوئی ان پر عمل کرے تو گھر واقعی پرسکون بن جائے گا۔
گیارہویں باب ’’ادب پہلا قرینہ ہے‘‘ میں مصنفہ نے ان لڑکیوں کو سمجھایا ہے، جو کہتی ہیں میری زندگی میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے، مصنفہ اس باب میں افراد کو ادب کی اہمیت سمجھاتی ہیں؛ وہیں ان کو بھی جو دین نیا نیا سیکھتی ہیں، انہیں سمجھاتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ’’آپ کا دین نظر آنا چاہیے آپ کے اخلاق میں آپ کی نگاہ اور آپ کی سچائی میں ۔ آپ کی زبان کو کچھ عرصہ خاموش رہنا چاہیے۔ والدین آپ کی بات تب سنیں گے جب دیکھیں گے کہ دین نے میرے بیٹے کو ایک بہتر انسان بنایا ہے ۔ یہ نرم ہو گیا ہے ۔لڑتا نہیں ہے۔ اس کا اخلاق اچھا ہو گیا ہے ۔ ورنہ اگر دین آپ پہ ایسی بجلی کی طرح گرا ہے جوارد گرد سب کو بھسم کر رہی ہے تو ایسے دین کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ماں باپ کا دل دکھا کے اور ان کا مان توڑ کے کی جانے والی نصیحت سے بہتر ہے انہیں نصیحت نہ کی جائے ۔‘‘ (صفحہ : 83)
کتاب کے آخری باب’’ اللہ کی رحمت ‘‘میں نمرہ نے گھر آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ کیسے پیش آیا جائے؟پر خامہ فرسائی کی ہے۔یہاں بھی وہ ہر چھوٹی چھوٹی چیزخوبصورتی سے بیان کرتی ہیں؛لکھتی ہیں’’مہمان جب کھا چکے تو برتن ہٹا دینے چاہیے لیکن اگر کچھ ان کو پسند آرہا تھا یا جیسے ڈرائی فروٹ یا کوئی ایسی چیز جو پلیٹ کے بغیر بھی کھائی جاسکتی ہے؛ وہ سامنے رکھی رہنے دیں۔‘‘ (صفحہ : 88)
اسی طرح مہمان کے تئیں رویہ کے بارے میں لکھتی ہیں’’بعض نوجوانوں کو بحث کا بہت شوق ہوتا ہے، مگر گھر آئے مہمان کے ساتھ بحث نہیں کرنی چاہیے، میچورٹی اس چیز کا نام ہے کہ بات پسند نہیں آتی تب بھی وہ مہمان ہے، اس کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے۔‘‘(صفحہ : 90)
نمرہ احمد اپنی بات سمجھانے کے لیے طنز بھی کرتی ہیں، لیکن قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں بھی جذبۂ خیر ہے۔نام نہاد فیمنسٹ طبقہ کے بارے میں لکھتی ہیں’’ میں ایسے لوگوں کو جعلی فیمینیسٹ اس لیے کہتی ہوں کیونکہ فیمینزم یہ نہیں ہوتا۔ میں خود اندر سے ایک فیمینیسٹ ہوں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ ہماری نازک لڑکیاں ایسے بہت سے کام جو صرف بھائیوں یا ڈرائیور چا چا کے لیے چھوڑ دیا کرتی ہیں وہ انہیں خود کرنے آنے چاہئیں ۔ اصل فیمینسٹ ہونا ہی یہی ہے کہ کسی کام کے لیے مردوں کی محتاجی نہ ہو۔ آپ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے اتنی مضبوط ہوں کہ اپنے کام خود کرلیا کریں ۔اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ لڑکیوں کوایسی کتابیں پڑھتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کیوں؟ہمارے اوپر یہ سیکھنا لازم کیوں ہے؟کیوں نہ سیکھیں؟ یہ مائنڈ سیٹ لے کر چلیں گی تو کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکیں گی ۔ دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا ہے کہ میں کیسے خود کو بہتر بناسکتی ہوں؟‘‘(صفحہ : 4)
ایک جگہ اور لکھتی ہیں’’ کچھ لڑکیوں کے عبایا سے اتنی اسمیل اتی ہے کہ ان سے گلے ملتے وقت ناک بند کرنی پڑتی ہے ۔ ایسے عبایا کا کیا فائدہ جس سے ایمان ہی آدھا کم ہو جائے؟ لڑکیوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے اس گندے میلے حلیے سے دوسروں کے ذہن میں ان کا کیا امپریشن بنتا ہے۔‘‘ (صفحہ : 9)
کتاب میں جگہ جگہ جگہ ہیومر بھی ہے، ایک جگہ لکھتی ہیں’’ چائے یا مشروب پیتے وقت کچھ لوگ شڑپ شڑپ کی آواز نکالتے ہیں، ان سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، کچھ لوگ چائے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر پھونکیں بھی مارتے ہیں۔ (پتہ نہیں ان کی پھونک میں کونسے فریزر کے دھوئیں نکل رہے ہوتے ہیں جو ان کو لگتا ہے کہ ستر ڈگری پہ ابلتی چائے ان کی ایک پھونک سے ٹھنڈی ہو جائے گی۔)(صفحہ: 93)
آگے سمجھاتی ہیں کہ کھانے پینے کی چیز پر پھونک مار نا حدیث میں منع ہے، اگر آپ اپنے معاشرہ میں رہنا چاہتے ہیں ،وہ بھی سلیقہ سے اور چاہتی ہیں کہ ہر کوئی آپ کی عزت کرے؛ پر سکون زندگی گزارنی ہو تو اس کتاب کو لازمی پڑھیں. یہ کتاب آپ کے چھوٹے چھوٹے نقائص کو بھی دور کر دےگی۔ہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے جس پر مصنفہ نے کتاب کا اختتام کیا ہے’’اگر اس دنیا میں ہر چیز پرفیکٹ ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ کے وہ صبر اور اس کے اجر کے وعدوں کا کیا؟ بس یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کی کوفت بہت حد تک کم ہو جائے گی۔‘‘ (صفحہ : 95)
ضرورت ہے کہ اس کتاب کاانگریزی میں بھی ٹرانسلیشن ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں، دین پسند تنظیموں اور اداروں کو چاہیے کہ خواتین کے حلقہ میں اس کتاب کی خوب اشاعت ہو۔یہ کتاب’’ منشورات پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، دہلی‘‘ نے عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کی ہے ،اوریہ فون نمبر 09810650228 سےحاصل کی جاسکتی ہے۔
ویڈیو :
آڈیو:
Comments From Facebook
0 Comments