۲۰۲۲ اکتوبر
چے کو گھر کے بزرگ گود میں لینے سے ایسے گریز کرتے ہیں جیسے کوئی چھوت کی بیماری کاشکار ہو۔ ’’ نماز کے کپڑے ہیں،
پیشاب کردے گا نماز کی جگہ پر، نہ آؤ،، بستر سے اتارو پیشاب کردے گا ۔‘‘آپ کے نزدیک یہ صفائی پاکی ہے، جبکہ اس معصوم بچے کو آپ نے مجروح کیا۔ اس پر آپ کے لہجے کے بڑے تکلیف دہ اثرات ہوتے ہیں ۔آپ گھر کے بزرگ ہیں، والدین ہیں ، چاچا، ماما، خالہ، پھوپی یا دیگر بہن بھائی مل کر سپورٹ سسٹم بنائیں، آپ سبھی کے اثرات بچے کی تربیت میں شامل ہیں ۔ان ڈکلئیر سپورٹ سسٹم بنانے کے لیے یہ کہنے کے بجائے کہ’’ نماز کی جگہ ہے پیشاپ کردے گا ۔‘‘،یہ کہیں ’’بیٹا اگر سو سو آجائے تو نیچے اتر جائیں،یا ہمیں اشارہ کردیں ۔‘‘ کبھی کبھی اشارہ نہ کرپائے تو کہیے’’ کوئی بات نہیں، اسے تبدیل کردیتے ہیں۔‘‘ اسی وقت آپ چادربدل لیں، خوش گوار موڈ میں کپڑے بدل لیں، اس سے بچے کا دماغ اسے فیڈ کرواتا ہے کہ یہ حرکت میں آنا اشارہ نہ کرنے کے سبب ہے ۔سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے سے بچے کی شخصیت مضبوط بنتی ہے۔ عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔

بچوں میں نظم وضبط کیسے پیدا کریں؟ یہ سلسلہ جاری تھا کہ قارئین کا تقاضا آیا کہ ٹوائلٹ ٹریننگ پر سیر حاصل گفتگو ہونی چاہیے ۔
نئی مائیں اکثر اس بات کے لیے پریشان ہوتی ہیں کہ بچے کی کو ن سی عمر میں اس کو پاٹ پر بٹھایا جائے، اور اسی طرح بچے کو اپنی حاجت کے بعد صفائی سکھادینی چاہیے ۔ ماہرین کے نزدیک بچے کے پاٹ پر بیٹھنے کی درست عمر 18 مہینےسے 24 مہینے ہے، جب کہ چار سال کے بچے کو اپنی صفائی خود کرنی آنی چاہیے، تاہم لڑکے اور لڑکیوں میں فرق ہے۔ لڑکیاں جلدی سیکھ لیتی ہیں ،جبکہ لڑکے تاخیر سے سیکھ پاتے ہیں ۔بچوں کے جلدی سیکھنے میں بھی آپ کے درست ٹریننگ کا ہاتھ ہے ۔
درست ٹریننگ کیا ہے؟ اس کا مرحلہ کب سے شروع ہوتا ہے ؟ اس کے جواب میں بچوں کے ٹوائلٹ ٹریننگ کے ماہر ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ پیدائش سے لے کر پانچ ماہ تک بچے کےلیے نیپکن یا پیمپر کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس دوران ماں کی فکر مندی بڑی اہم ہے ۔گیلے نیپکن کو دیر تک بچے کے جسم سے لگارہنے دیں، تب اس کی حساسیت متاثر ہوجاتی ہے اور وہ لا پرواہ ہونے لگتا ہے ۔
پیشاب اور پاخانہ کے لباس کو فورا ًتبدیل کرنے سے اس کی حساسیت باقی رہتی ہے ۔یاد رہے! پاکی اور نظافت کا تصورِ اسلام بھی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ ہم بچے کی گندگی کو فورا ًاس سے ہٹا کر اسے پاک اور صاف کردیں ۔ مائیں یا دیگر دیکھ بھال کرنے والے افراد ڈاکٹر کے انفیکشن سے ڈرانے کی وجہ سے چالیس دنوں کے دوران اگر اہتمام کربھی لیں تو بعد میں خود بھی لاپرواہ ہوجاتے ہیں ،اور بچے کو بھی لاپرواہ بنادیتے ہیں ۔
اسلام کا تصورِ پا کی نفاست کا حکم دیتا ہے،نیزبچوں کی نفسیات کے ماہر ومحقق ڈاکٹر جیمز واٹ کا بھی کہنا ہے:
’’حساسیت، احساسِ ذمہ داری کی بنیاد ہے، حس کا ختم ہونا احساس ذمہ داری کو ختم کرکے آپ کو لاپرواہ بنادیتا ہے ۔‘‘
اسلام کا نظامِ پاکی اس حساسیت کی آبیاری کرتا ہے۔ اس حد تک کرتا ہے کہ گیلا نیپکین بچے سے ہٹادیں تو اس کی حساسیت باقی رہے گی۔ وہ آگے زندگی میں احساس ذمہ داری رکھے گا،اور یہ احساس ہر شعبے میں نظر آئے گا ۔اسی طرح اسلامی پاکی کے نظام میں بو کو بھی دور کرنے کا حکم ہے، تاکہ انسان کی قوت شامہ (سونگھنے کی قوت) کی نفاست بھی زائل نہ ہو ۔مشاہدے میں یہ بات آئی ہےکہ کئی مائیں نوزائیدہ اور شیر خواربچوںکے پیشاب کو ناپاکی نہ سمجھتے ہوئے نیپکن کو بغیر دھوئے سکھا کر دوبارہ استعمال کرلیتی ہیں ۔
مائیں مکمل صفائی کا اہتمام کیوں نہیں کرپاتی ہیں ؟
یہ ایک ایساسوال ہے جس کے جواب کے بغیر صرف ہدایات کی جانب نہیں بڑھا جاسکتا ۔ہماری سوسائٹی میں ماں بننے کے عمل کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے ۔سنجیدہ نہ لینے کا رواج بزرگ ساسیں یہ کہتے ہوئےڈالتی ہیں کہ’’ ہم نے بھی بچوں کو بڑا کیا اورپالا ہے ،یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔‘‘ جبکہ حساس ساسیں اپنے بچوں کی لمحہ لمحہ دیکھ بھال کرچکی ہوتی ہیں۔ بہوؤں کو بھی دیگر کاموں سے رخصت دیتے ہوئےکہتی ہیں کہ’’ آپ صرف اپنے بچے پر توجہ دیں ۔‘‘ یہ جملے آپ کو حساسیت اوراحساس ذمہ داری سے پُرماضی کی داستان سنا دیتے ہیں ۔
مائیں چونکہ زچگی کے عمل سے گزر چکی ہوتی ہیں۔ اس تکلیف دہ عمل کا ذکر قرآن نے بھی کیا ہے ۔وہ کمزور ہوجاتی ہیں۔ بیک وقت وہ بچے کی غذا دودھ کی صورت بہم پہنچانے کا بھی ذریعہ ہے، وہیں اسے اپنے بچے کی پاکی کا بھی خیال رکھنا ہے اور گھر کے دیگر ممبران اس سے کام کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ اسی کمزوری کے سبب وہ بچے کو پیمپر لگا کر دیر تک رکھنے میں عافیت سمجھ لیتی ہیں۔
بچے کے دوسال کی عمر تک گھر کے دیگر افراد بشمول شوہر بھی انہیں دوسال تک ان کی ذہنی صحت، ان کی جسمانی کمزوری کے لیے ڈاکٹر سےرجوع کرواتے ہوئے سپلیمنٹس دیں، غذائیت کا خیال رکھیں، بچے پر فوکس بنانے دیں، بچوں کے کپڑے دھونے کی ملازمہ یا کوئی مدد گار رہے تو وہ بچے کی حساسیت کو باقی رکھ سکتی ہے ۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
(1) نیپکن گیلا ہوتو فوراً تبدیل کریں ۔
(2) بستر گیلا ہوجائے تو فورا ًتبدیل کردیں۔ دوسال سے کم عمر کےبچوں کے پیشاب کا دورانیہ ابتدا میں بہت کم ہوتا ہے ،پھررفتہ رفتہ بڑھنے لگتا ہے ۔جتنی مرتبہ گیلا ہو ،تبدیل کرنا بہتر ہے ۔
(3) روزانہ بچے کی مالش اور نہلانے کے اہتمام سے بھی بچہ اپنی صفائی کے تئیں حساس رہتا ہے ۔ البتہ مالش کادرست طریقہ سیکھنا چاہیے ۔آئل کے سلسلے میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے ۔
(4) بچے کی قوت شامہ کی حساسیت اور نفاست کو باقی رکھنے کے لیے جہاں نیپکن کو دھوکر استعمال کرنا چاہیے وہیں ماں کا لباس بدلنا ،اسفنجنگ کرکے فیڈنگ کروانا بھی اس سلسلے میں اہم ترین ہے ۔یاد رہے ٹوائلٹ ٹریننگ اور بریسٹ فیڈنگ کے اثرات بچے کے بعد کی شخصیت پر بھی پڑتے ہیں۔ سگمنٹ فرائیڈ کے مطابق بچے کی شخصیت میں جنسیت کا غالب رجحان ان کی درست ٹوائلٹ ٹریننگ اور بریسٹ فیڈنگ نہ ہونےکے باعث ہے ۔
(5) ٹوائلٹ ٹریننگ کے لیے ضروری ہے کہ رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ بچے کو الفاظ یاد کروائے جائیں۔ جیسے پیشاب کرنے پر کہاجائے’’ اوہو! پیشاب ہوگیا ،اسے تبدیل کردیتے ہیں ۔‘‘تاکہ اس کے ذہن میں یہ جملے ثبت ہوجائیں کہ پیشاب ہوتے ہی بدلنا ضروری ہے۔ جملے میں ’’ہوگیا ‘‘استعمال کیا جائے، ’’کردیا‘‘ نہ کہاجائے ۔’’ کردیا‘‘ لفظ احساس جرم کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ ہلکا ہی سہی نو مولود کی اسفنجنگ کے بعد نیپکین تبدیل کردیا جائے، عمر پانچ ماہ سے زیادہ ہوتو نیم گرم پانی سے پیشاب کے بعد بھی دھلاکر ہی تبدیل کیا جائے۔
(6) دوسال سے پہلے چونکہ آپ رفتہ رفتہ بچے کو اپنی صفائی سے متعلق خود مختار بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ،تو اہتمام ہوکہ بہت ٹائٹ الاسٹک کا ٹراؤزر نہ پہنائیں ۔ہلکا پھلکا ہو، جلدی نکلنے والا ہو۔ آپ نے ابتدا سے اہتمام کیا ہے تو بچہ 7 تا8 ماہ کی عمر میں اپنی ضروریات کا اشارہ کرنے لگے گا ۔
(7) اسی طرح فراغت کےلیے لفظ پاٹی استعمال کررہے ہوں، تو گھر کے دیگر افراد بھی وہی لفظ کہیں، تاکہ بچے کا دماغ اس لفظ اور ایکشن کو سیکھ سکے ۔بچے کی فراغت کے وقت بو آرہی ہے ،اس پہ برا منہ نہ بنایا جائے ۔بلکہ خوشی کا اظہار کیا جائے تاکہ وہ احساس جرم کا شکار نہ ہو ۔ہتک آمیز انداز سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔عملی زندگی میں بے شمار مثالیں دیکھی ہیں ۔بچے کو گھر کے بزرگ گود میں لینے سے ایسے گریز کرتے ہیں جیسے کوئی چھوت کی بیماری کاشکار ہو۔ ’’ نماز کے کپڑے ہیں، پیشاب کردے گا ،نماز کی جگہ پر نہ آؤ، بستر سے اتارو! پیشاب کردے گا ۔‘‘آپ کے نزدیک یہ صفائی پاکی ہے، جبکہ اس معصوم بچے کو آپ نے مجروح کیا۔ اس پر آپ کے لہجے کے بڑے تکلیف دہ اثرات ہوتے ہیں ۔آپ گھر کے بزرگ ہیں، والدین ہیں ، چاچا، ماما، خالہ، پھوپی یا دیگر بہن بھائی مل کر سپورٹ سسٹم بنائیں، آپ سبھی کے اثرات بچے کی تربیت میں شامل ہیں ۔ان ڈکلئیر سپورٹ سسٹم بنانے کے لیے یہ کہنے کے بجائے کہ’’ نماز کی جگہ ہے، پیشاب کردے گا ۔‘‘ ،یہ کہیں ’’بیٹا اگر سو سو آجائے تو نیچے اتر جائیں،یا ہمیں اشارہ کردیں ۔‘‘ کبھی کبھی اشارہ نہ کرپائے تو کہیے’’ کوئی بات نہیں، اسے تبدیل کردیتے ہیں۔‘‘ اسی وقت آپ چادربدل لیں، خوش گوار موڈ میں کپڑے بدل لیں، اس سے بچے کا دماغ اسے فیڈ کرواتا ہے کہ یہ حرکت میں آنا اشارہ نہ کرنے کے سبب ہے ۔سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے سے بچے کی شخصیت مضبوط بنتی ہے۔ عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔
(8) ایک سال کے بعد بچے کے لیے مخصوص پاٹ لے آئیں۔ اسے پاٹ پر بیٹھنا، ضرورت محسوس ہوتو اشارہ کرنا سکھائیں ۔اشارہ کرنے کے بعد سارے کام چھوڑ کر اس کے پاس دوڑ کر جائیں ۔آپ کےخوش گوار موڈ میں سنجیدہ لینے کا جو اثر ہے،اس کی باڈی لینگویج بھی بچے کے لیے احساس ذمہ داری کا اشارہ ہے ۔
(9) پاٹی کے پاٹ استعمال کرنے والے بچے کی صفائی آپ کرتی ہیں۔ اس کے باوجود چار سال تک آپ فراغت کے بعد واش بیسن پر بچے کو ہینڈ واش سے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں ۔آپ سوچیں گی کہ بچے نے تو ہاتھ لگایا ہی نہیں ۔آپ نے دھلایا تب کیا ضروری ہے ؟ لیکن چونکہ یہ بعد کے لیے کی جانے والی تربیت کا حصہ ہے ،اس لیے آپ اسے عادی بنانے کے لیے اس طرح ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں ۔پیمپر کی بے فکری نے ماؤں کو آرام پہنچایا اور بچوں کو لاپرواہ بنادیا ہے۔ بظاہر نظر آنے والی بے فکری بچے کی زندگی کے ہر شعبے سے حساسیت اور احساس ذمہ داری کےرخصت کا موجب ہے ۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. منور سلطانہ

    آج کل کی ماؤں کے لئے بہت ضروری اور بہت informative تحریر ہے ۔ماشا اللہ
    جزاک اللہ خیرا کثیرا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ اکتوبر