انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا استعمال اسی طرح کریں جس طرح اللہ تعالی نے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ انسان جو اللہ تعالی کے حکم سے غافل ہے اسے جب کسی کمزور پر اختیار مل جاتا ہے، تو اس پر زیادتی کرتا ہے اس کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتا ہے اور اس کے حقوق کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے لوگ جانوروں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئی۔ تو بے زبانوں پر ظلم کا سلسلہ بند ہوا۔
دور حاضر میں حقوق کا بڑا چرچا ہے۔ انسانوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، جانوروں کے حقوق ،ماں باپ کے حقوق ،ریاست کے حقوق۔ خاص طور پر مغرب میں رہنے والے لوگ حقوق کا بہت شور مچاتے ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے ،اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا، اس نے جس کو جو حق دیا ہے وہ اس قابل تھا کہ اسے حق ملتا اور جو حق کسی کو نہیں دیا وہ اس قابل تھا کہ اسے وہ حق نہ دیا جائے۔انہیں حقوق کا شور مچاتے ہوئے اہل مغرب نے جانوروں کے بھی کچھ حقوق متعین کیےہیں۔اور ان حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال دنیا 04 اکتوبر کو عالمی یوم حیوانات مناتی ہے۔
جانوروں کے عالمی دن کی ابتداسائینولوجسٹ ہینرک زیمرمین نے کی۔ انہوں نے 24 مارچ 1925 ءکو جرمنی کے شہر برلن کے اسپورٹ پیلس میں جانوروں کا پہلا عالمی دن منایا۔ اس پہلی تقریب میں 5000 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ یہ سرگرمی اصل میں 4 اکتوبر کو طے کی گئی تھی، تاکہ ماحولیات کے سرپرست سینٹ فرانسس آف اسیسی کے تہوار کے دن سے ہم آہنگ ہو۔ بدقسمتی سے اس دن پنڈال دستیاب نہیں تھا۔ اس کے بعد اس تقریب کو 1929 ءمیں پہلی بار 4 اکتوبر کو منتقل کیا گیا۔ ہر سال، زیمرمین نے جانوروں کے عالمی دن کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی۔ آخر کار مئی 1931 ءمیں فلورنس اٹلی میں ہونے والی انٹرنیشنل اینیمل پروٹیکشن کانگریس کی ایک کانگریس میں 4 اکتوبر کو جانوروں کا عالمی دن منانے کی ان کی تجویز کوایک قرارداد کے ذریعہ متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی جانوروں کی اہمیت کچھ اس طرح بیان کرتا ہے:
وہ ذات جس نے جانور پیدا کیے ہیں جن میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔
(سورہ النحل آیت 6)
اللہ تعالی نے واقعی ان جانوروں میں ہمارے لیےان گنت فائدے رکھے ہیں۔اس دور میں تو بہت سی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں، لیکن جس دور میں مشینوں کی آسانی نہیں تھی۔ اس زمانے میں انسان جانوروں سے بڑے بڑے کام لیتا تھا۔ انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا استعمال اسی طرح کریں جس طرح اللہ تعالی نے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ انسان جو اللہ تعالی کے حکم سے غافل ہے اسے جب کسی کمزور پر اختیار مل جاتا ہے، تو اس پر زیادتی کرتا ہے اس کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتا ہے اور اس کے حقوق کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے لوگ جانوروں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئی۔ تو بے زبانوں پر ظلم کا سلسلہ بند ہوا۔
اسلام دین فطرت ہے ،اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا، اس نے جس کو جو حق دیا ہے وہ اس قابل تھا کہ اسے حق ملتا اور جو حق کسی کو نہیں دیا وہ اس قابل تھا کہ اسے وہ حق نہ دیا جائے۔انہیں حقوق کا شور مچاتے ہوئے اہل مغرب نے جانوروں کے بھی کچھ حقوق متعین کیےہیں۔اور ان حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال دنیا 04 اکتوبر کو عالمی یوم حیوانات مناتی ہے۔
جانوروں کے عالمی دن کی ابتداسائینولوجسٹ ہینرک زیمرمین نے کی۔ انہوں نے 24 مارچ 1925 ءکو جرمنی کے شہر برلن کے اسپورٹ پیلس میں جانوروں کا پہلا عالمی دن منایا۔ اس پہلی تقریب میں 5000 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ یہ سرگرمی اصل میں 4 اکتوبر کو طے کی گئی تھی، تاکہ ماحولیات کے سرپرست سینٹ فرانسس آف اسیسی کے تہوار کے دن سے ہم آہنگ ہو۔ بدقسمتی سے اس دن پنڈال دستیاب نہیں تھا۔ اس کے بعد اس تقریب کو 1929 ءمیں پہلی بار 4 اکتوبر کو منتقل کیا گیا۔ ہر سال، زیمرمین نے جانوروں کے عالمی دن کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی۔ آخر کار مئی 1931 ءمیں فلورنس اٹلی میں ہونے والی انٹرنیشنل اینیمل پروٹیکشن کانگریس کی ایک کانگریس میں 4 اکتوبر کو جانوروں کا عالمی دن منانے کی ان کی تجویز کوایک قرارداد کے ذریعہ متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی جانوروں کی اہمیت کچھ اس طرح بیان کرتا ہے:
وہ ذات جس نے جانور پیدا کیے ہیں جن میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔
(سورہ النحل آیت 6)
اللہ تعالی نے واقعی ان جانوروں میں ہمارے لیےان گنت فائدے رکھے ہیں۔اس دور میں تو بہت سی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں، لیکن جس دور میں مشینوں کی آسانی نہیں تھی۔ اس زمانے میں انسان جانوروں سے بڑے بڑے کام لیتا تھا۔ انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا استعمال اسی طرح کریں جس طرح اللہ تعالی نے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ انسان جو اللہ تعالی کے حکم سے غافل ہے اسے جب کسی کمزور پر اختیار مل جاتا ہے، تو اس پر زیادتی کرتا ہے اس کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتا ہے اور اس کے حقوق کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے لوگ جانوروں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئی۔ تو بے زبانوں پر ظلم کا سلسلہ بند ہوا۔
دورِ جاہلیت میں جانوروں پرظلم و زیادتی
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عرب کے لوگ بڑے ہی جاہل تھے۔ وہ بہت سے ایسے کام کرتے جو کھلم کھلا ظلم تھا۔ جانوروں پر بھی طرح طرح کے ظلم کرتے۔ اگر سفر کے دوران پانی نہ ملتا تو یہ لوگ اونٹ کا کوہان چیر لیتے اور اس میں سے پانی نکال کر پی جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل سے روکا اور فرمایا کہ:
زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر الگ کرنا مردار اور اس کا کھانا ممنوع ہے۔ (سنن ترمذی)
مکہ کے لوگ جانوروں کے نام کا نیا دم کاٹ دیتے اور انہیں بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کا راستہ بھی بند کیا اور فرمایا:
جس شخص نے کسی چوپائے کی ناک کاٹی یا کوئی اور جسم کا حصہ کاٹا اس پر اللہ کی لعنت ہے (صحیح بخاری)
اسی طرح اوربھی ظلم کرتے تھے ،جس طرح جیسے کہ کوئی شخص مرجاتا تو اس کی خبر پر ایک اونٹ باندھے تھے اور اسے بھوکا پیاسا رکھتے، آخرکار وہ بھوک سے مر جاتا۔ عرب کے رہنے والوں کا یہ خیال تھا کہ جب وہ ایسا کریں گے تو یہ اونٹ مرنے والے کےلیے آخرت میں سواری کے کام آئے گا، وہ ایسے اونٹ کو بلیہ کہتے تھے۔
اسی طرح زندہ جانوروں کی کھال اتاردیتے تھے۔ جانوروں پر نشانہ بازی کرتے تھے ،اور جانوروں کے جسم پر داغ لگاتے تھے، جانوروں کو چھیڑتے تھے اور جانوروں کو ناحق مار ڈالتے تھے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بے زبان جانوروں و حیوانا ت کے لیے رحمت بن کر آئی تو انہیں حقوق حاصل ہوئے۔اسلام میں جانوروں کے درج ذیل حقوق بتائے گئے ہیں:
ان کی مناسب دیکھ بھال اور پیٹ بھرنےکا انتظام کرنا۔
بیماری کی صورت میں اس سے کام نہ لینا اور اس کا مناسب علاج کرنا۔
جانور پر اتنا بوجھ لادنا جتنا وہ سہہ سکے۔
سفر کے دوران جانور اگر تھک گیا ہو، تو اسے آرام کرنے کے لیے روکنا۔
جانور سے اس کے چھوٹے بچے کو جدا نہ کرنا۔
پرندوں کے گھونسلے خراب نہ کرنا۔
جانور کو بغیر کسی وجہ کے مارنےسے گریز کرنا۔
جانوروں کو باہم نہ لڑانا۔
قربانی کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت جانور کو نرمی سے ذبح کرنا، تیز چھری کا استعمال کرنا۔
موذی جانور کو ایک بار میں ہی مار دینا۔
زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر الگ کرنا مردار اور اس کا کھانا ممنوع ہے۔ (سنن ترمذی)
مکہ کے لوگ جانوروں کے نام کا نیا دم کاٹ دیتے اور انہیں بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کا راستہ بھی بند کیا اور فرمایا:
جس شخص نے کسی چوپائے کی ناک کاٹی یا کوئی اور جسم کا حصہ کاٹا اس پر اللہ کی لعنت ہے (صحیح بخاری)
اسی طرح اوربھی ظلم کرتے تھے ،جس طرح جیسے کہ کوئی شخص مرجاتا تو اس کی خبر پر ایک اونٹ باندھے تھے اور اسے بھوکا پیاسا رکھتے، آخرکار وہ بھوک سے مر جاتا۔ عرب کے رہنے والوں کا یہ خیال تھا کہ جب وہ ایسا کریں گے تو یہ اونٹ مرنے والے کےلیے آخرت میں سواری کے کام آئے گا، وہ ایسے اونٹ کو بلیہ کہتے تھے۔
اسی طرح زندہ جانوروں کی کھال اتاردیتے تھے۔ جانوروں پر نشانہ بازی کرتے تھے ،اور جانوروں کے جسم پر داغ لگاتے تھے، جانوروں کو چھیڑتے تھے اور جانوروں کو ناحق مار ڈالتے تھے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بے زبان جانوروں و حیوانا ت کے لیے رحمت بن کر آئی تو انہیں حقوق حاصل ہوئے۔اسلام میں جانوروں کے درج ذیل حقوق بتائے گئے ہیں:
ان کی مناسب دیکھ بھال اور پیٹ بھرنےکا انتظام کرنا۔
بیماری کی صورت میں اس سے کام نہ لینا اور اس کا مناسب علاج کرنا۔
جانور پر اتنا بوجھ لادنا جتنا وہ سہہ سکے۔
سفر کے دوران جانور اگر تھک گیا ہو، تو اسے آرام کرنے کے لیے روکنا۔
جانور سے اس کے چھوٹے بچے کو جدا نہ کرنا۔
پرندوں کے گھونسلے خراب نہ کرنا۔
جانور کو بغیر کسی وجہ کے مارنےسے گریز کرنا۔
جانوروں کو باہم نہ لڑانا۔
قربانی کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت جانور کو نرمی سے ذبح کرنا، تیز چھری کا استعمال کرنا۔
موذی جانور کو ایک بار میں ہی مار دینا۔
ہمارے ملک میں جانوروں کا خیال
چونکہ بھارت زیادہ تر دیہات اور کھیتوں پر مشتمل ہے۔ لیکن یہاں بھی پالتو جانوروں کا مناسب خیال نہیں رکھا جاتا۔ جانور بیمار ہو جاتے ہیں، ان کا مناسب ڈاکٹر سے علاج نہیں کروایا جاتا۔ کچرا بڑھ جانے کے سبب جانور کچرا کھا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پیٹ میں پلاسٹک جمع ہو رہا ہے۔ مناسب خوراک کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کو سڑکوں پر ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہمیں کچرے کا مناسب انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جانوروں کے مناسب خوراک کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ان کے علاج کا انتظام بھی اعلیٰ کرنا چاہیے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر ذی روح کا حق برابر ادا کریں۔
Comments From Facebook
0 Comments