جہاں مرد کو معاشی جدوجہد اور خارجی امور کی دوڑ دھوپ کے لیے قوی الجسم ،قوی الارادہ اور فکری استحکام سے نوازا، وہیں نسل انسانی کی معمار عورت کو ہمدردی محبت ،ایثاروقربانی وغیرہ جیسی صفات سے متصف کیا اور اسے گھر کی ایک عظیم و باوقار ہستی کی حیثیت سے پیش کیا ۔
افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے اس تفاوت کو ذلت وخواری اور عدم مساوات کے پروپگنڈہ کے ساتھ پیش کیا ،خواتین کے حقوق کے تعلق سے اسلام کو تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا اور مسلم خواتین بطورِ خاص جدید علوم سے آراستہ ماڈرن طبقے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ،جبکہ سچائی ،حقیقت پسندی اور نیک نیتی سے جائزہ لیا جائے تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے ۔
افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے اس تفاوت کو ذلت وخواری اور عدم مساوات کے پروپگنڈہ کے ساتھ پیش کیا ،خواتین کے حقوق کے تعلق سے اسلام کو تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا اور مسلم خواتین بطورِ خاص جدید علوم سے آراستہ ماڈرن طبقے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ،جبکہ سچائی ،حقیقت پسندی اور نیک نیتی سے جائزہ لیا جائے تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے ۔
اسلام سے پہلے عورت ذلت و مظلومی ،غلامی اور محکومی ،ظلم و استبداد کی شکار تھی ،اہل عرب کے یہاں عورت کے تئیں نفرت و بیزاری کا ماحول تھا، پیدائش کے بعد زندہ دفن کردینےکا ظالمانہ رویہ ، بکثرت نکاح کرنا اور طلاق دینا ، وراثت میں کوئی حصہ نہ دینا بلکہ بیوہ کے مال پر جبراً قبضہ کرلینا ،بیوی کو جوئے کے داؤ پر لگا کر کسی اور کے حوالے کردینا ،شوہرکی وفات کے بعد بیویوں کو بھی وراثت میں تقسیم کردینا وغیرہ اس جبر کا واضح ثبوت ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ :
اسی دوران 20 اپریل 571ء کو کرۂ ارض پر آفتاب رسالت کی کرنیں رحمۃ للعالمین بن کر طلوع ہوتی ہیں اور جملہ انسانیت بطورِ خاص خواتین کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیتی ہیں، آغوشِ اسلام میں آکر نہ صرف اخروی کامیابی کی بشارت ملتی ہے بلکہ خواتین کو ظلم وجور کی بھٹی سے نجات اور امن وامان کی فضاء حاصل ہوتی ہے ۔
عقل و خرد کو استعمال کرتے ہوئے غور کریں تو ماننا پڑے گا کہ اسلام نے عورت کے جذبات واحساسات اور پسند و ناپسند کا پورا خیال رکھا اور زندگی کے شعبہ جات میں اسے مکمل حقوق عطا کیے۔
لڑکی کی پیدائش کو باعثِ ننگ و عار سمجھنے پر سخت انداز میں مذمت کی اور فرمایا:
(النحل 58-59)
اس کے ساتھ زندہ درگور کرنے پر تنبیہ اور سرزنش کی،فرمایا
لڑکی کی پرورش میں محبت ،توجہ اور خوشدلی کی کمی کو محسوس کیا، تو لڑکی لڑکے کے فرق کو دور کیا اورلڑکی کی پرورش پر بشارت دی:
عورت کو حق مہر عطا کیا ،اور اس کی ادائیگی کی تاکید کی ، الله تبارک وتعالیٰ کا حکم نازل ہوا:
(اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔)
مزید رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تاکید فرماتے ہوئے تعلی
( عقبہ بن عامر۔ صحیح البخاری )
دور جاہلیت میں مہر ختم کرنے کی ایک صورت شغار تھی (یعنی بدلے کی شادی جس میں مہر کی ادائیگی نہیں ہوتی تھی) جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا:
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھی جانی چاہیے کہ اسلام کا قانون وراثت چند اصولوں پر مبنی ہے۔
1 ۔ آیت ’’للذكر مثل حظ الانثيين‘‘ بظاہر یہاں عورت کی پوزیشن کمزور نظر آتی ہو لیکن اسلام کے عطا کردہ نظام حیات کے مطابق کمزور نہیں ہے ،کیونکہ اسلام نے حق مہر ،مال و زر ،تحفے تحائف مزید مختلف حیثیتوں سے جائداد میں حق، مزید اگر اس کی اپنی کمائی ہے سب میں اسے خود مختار بناکر مستحکم کر رکھی ہے اس کے اوپر کسی کا نفقہ بھی فرض نہیں کیا۔
2 ۔ اس کی کفالت کی ذمہ داری تعلیم و تربیت، شادی و دیگر اخراجات کی ذمہ داری سرپرستوں پر ڈالی گئی ہے اور بعدِ عقد اس کے شوہر اور سسرال والوں کو اس کے اخراجات اٹھانے ہیں اسی بناء پر عورت کا حق نصف رکھا گیاہے۔
اسلام کا عورت پر عظیم احسان حق خلع ہے،اگر شوہر ظالم و ناکارہ ہے تو بیوی کو شرعی عدالت کے ذریعے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اس کی دلیل حدیث میں مذکور ہے۔حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ (حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا)پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اُنہوں نے جو باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر اسلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ (سنن ابی داؤد)
یہاں اسلام اور محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواتین کو عطا کردہ چند حقوق کا تذکرہ ہے ۔بنظر غائر اسلام کا مطالعہ کرنے والے بخوبی اس بات کا ادراک کرسکتے ہیں کہ اسلام نے مکمل نظام حیات میں خواہ اس کا تعلق عبادات و معاملات سے ہو یا نظام خاندان و معاشرتی احکام سے ،کہیں بھی اس کی شخصیت کو مجروح نہیں کیا ۔البتہ اس کے اصل محاذ بچوں کی پرورش و پرداخت اور نسل انسانی کی آبیاری کے لیے اس کو جمعہ ،جماعت ،جنازہ و صلوۃ عیدین وغیرہ میں عدم شرکت کی اجازت دیدی تاکہ اس کا حقیقی دائرۂ کار متاثر نہ ہو ۔
ضرورت ہے مسلمان خواتین بطورِ خاص جدید علوم سے آراستہ بہنیں الله تبارک و تعالیٰ کے عطاکردہ حقوق سے کماحقہ واقف ہوں اور انسانیت کو واقف کرانے کی کوشش کریں تاکہ معترضین کے اعتراضات کا سد باب وابطال ممکن ہوسکے ۔
بہت بہترین تحریر ہے انشاءاللہ ضرور کوشش کریں گے