عالمی مذاہب میں خواتین کے وراثتی حقوق کا تصور ایک تقابلی جائزہ
فیمینزم کی دوسری لہر(Second wave of Feminism)میں عورت کے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عورت کو موروثی جائیداد یعنی ترکہ میں حق نہیں دیا جاتا ، جب کہ عورتوں کو ترکہ میں حقوق مساوی ہونا چاہیے۔جہاں دیگر مذاہب میں عورت کے وراثتی حق کی نوعیت کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے، وہیں اسلام پر مساوی حق نہ دیے جانا پر اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہے۔
جہاں بات مساوات کی ہو، وہاں سمجھنا چاہیے کہ عدل اور مساوات میں فرق ہے۔ ہر فرد اپنی انفرادی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کو اس فرد کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق کام سونپنا عدل ہے اور بغیر صلاحیت کے ہر فرد سے یکساں کام کی توقع لگانا مساوات تو ہوسکتا ہے، لیکن عدل نہیں۔ایک ہی صنف کے افراد آپس میں اپنی صلاحیت، استعداد، طاقت، قوت، ذہنی، جسمانی اور طبعی لحاظ سے مختلف ہیں تو کجا کہ صنفی مساوات کی بات کی جاتی ہے۔ جن معاملات میں اللہ رب العالمین نے مرد اور عورتوں کو مساوی اختیار کا اعلان کیاہے، ان معاملات میں بلاشبہ بلا تفریق جنس ہر فرد کام کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالی ارشادہے:
وَلَا تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعضَکُم عَلٰی بَعضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکتَسَبُوا وَلِلنِّسَآئِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکتَسَبنَ وَسئَلُوا اللّٰہَ مِن فَضلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمًا(النساء:32)
(اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔)
اسی طرح درج ذیل آیت میں مساوات کی فہرست بیان کی گئی ہے:
اِنَّ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمٰتِ وَالمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰتِ وَالقٰنِتِینَ وَالقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِینَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِینَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالخٰشِعِینَ وَالخٰشِعٰتِ وَالمُتَصَدِّقِینَ وَ المُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِینَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالحٰفِظِینَ فُرُوجَہُم وَالحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا ( الأحزاب:35)
(بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔)
مذکورہ دونوں آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک بہت سے معاملات میں مساوات کا پہلو غالب ہے۔ تاہم جہاں تک بات ذمہ داری یا خاندان کے بوجھ ڈھونے کی ہے، تو تقسیم ِ وراثت میں یکسانیت کی تو بلاشبہ اول الذکر میں عورت پر ظلم ہوتا کہ وہ کم زور ساخت اور فطری تقاضے کے برخلاف بوجھ ڈھوتی اور موخرالذکر حکم میں وراثت کی یکساں تقسیم پر مردپر ظلم ہوتا کہ اخراجات کی ذمہ داری مرد اٹھائے اور عورت کا مہر بھی ادا کرے،اسے نان و نفقہ اور سکنہ بھی فراہم کرے اور وراثت بھی اسے برابر ملے ہے۔اللہ رب العالمین کے پاس تقسیمِ کار اور حدود میں عدل کا پہلو غالب۔اللہ تعالیٰ کسی متفس پر اس کی مقدرت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔یہ بات بھی درست ہے کہ عملًا دیگر مذاہب کی طرح مسلمان معاشرے نے بھی عورت کو وراثتی حق دینے کے حکم کانفاذ اس طرح نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
برساہا برس سے مسلم معاشرے میں متعدد بہانے بناکر عورت کو وراثتی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ کبھی خاندانی روایات کے نام پر تو کبھی جائیداد کی کمی کی وجہ سے، کبھی خاندنی رشتہ کو آڑ بناکر تو کبھی شادی بیاہ کے اخراجات کو لڑکی کی وراثت کہہ کر پہلو تہی کی کوشش کی گئی ہے، جو سراسر ظلم ہے۔ مسلم مصلحین اور دانش وروں نے اس کی جانب خصوصی توجہ بھی نہیں دی، اس لیے بھی فیمنزم کی دوسری لہر میں مساوی حقوق کی فہرست میں اعتراض پرزور کیا گیا۔
زیرِ نظر مضمون میں ہم عالمی مذاہب میں عورت کے وراثتی حق کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام میں عورت کے وراثت حق کے نفاذ میں دیگر مذاہب کی کونسی روایات اور توجیہ و طریقے سے اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہواہے۔دیگر مذاہب کے مطالعہ سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وہاں بھی لڑکی کا وراثت میں حق تسلیم تھا، لیکن حق دینے کے طریقۂ کار میں استحصال کا پہلو غالب تھا۔
ویدک دور میں بیٹی کا وراثت میں حق
زیادہ متأثر کن صورتِ یہاں نظر نہیں آتی ہے۔ اس پر حاکمانہ مداخلت نہیں کی جاتی تھی۔اسے اعلیٰ درجہ کے وقار کے ساتھ سماج میں زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہوتا تھا۔ اس سے رواداری، صبر، اپنے شوہر کی ماتحتی اور اپنے شوہر کے ساتھ اپنی شخصیت کی شناخت کی توقع رکھی جاتی تھی۔ اس کے جواب میں اسے خلوص، توجہ اور احترام حاصل ہوتا تھا۔ حالاں کہ شادی عظیم سماجی اور مذہبی اہمیت رکھتی تھی، لیکن یہ لازمی نہیں تھی۔ کیوں کہ بعض ایسی لڑکیوں کے حوالے بھی ملتے ہیں، جو شادی نہیں کرتی تھیں۔عام طور پر ایک بیٹی کو جائیداد پر قابض رہنے، جائیداد حاصل کرنے یا فروخت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے رگ وید کے دور میں کوئی قانونی حقوق حاصل نہیں تھے۔ لیکن غیر شادی شدہ بیٹی جو اپنے باپ کے گھر میں رہتی تھی، اسے باپ کی جائیداد میں حصہ ملتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی جائیداد میں حصہ طلب نہیں کرسکتی تھی، کیوں کہ رگ وید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسی بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا بہن کی دولت منتقل نہیں کرتا۔ شادی شدہ بیٹیاں والد کی جائیداد، ورثہ میں اسی صورت حاصل کرسکتی تھیں، جب کہ ان کے بھائی نہ ہوں۔
بیٹی کا سماجی یا خاندانی موقف رگ وید کے دور میں کافی اطمینان بخش تھا۔اس دور میں اپنی حیثیت کا اظہار اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ عورتوں کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق تھا۔ مالدار اور شاہی خاندانوں میں ایک سے زیادہ بیویوں کا کچھ حد تک رواج تھا، لیکن عوام میں ایک ہی بیوی کا رواج تھا۔ ویدک دور میں بیوی کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ نہ تو ورثہ میں جائیداد حاصل کرسکتی تھی اور نہ اس پر قابض رہ سکتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض آریائی روایات کے مطابق بعض قسم کی جائیدادوں کا حق عورتوں نے آہستہ آہستہ حاصل کرلیا، جو استری دھن میں ان کے حصہ کے حقوق سمجھے جاتے تھے۔ کیوں کہ یہ واحد نوعیت کی عورتوں کی جائیداد موجود تھی۔ عورتوں کی جائیداد کا حق (استری دھن) کو آہستہ آہستہ تسلیم کیا گیا۔
مابعد ویدک دور میں بیٹی کے وراثت میں حق
مابعد ویدک دور میں بیٹی کے وراثت میں جو تبدیلی آئی وہ اس طرح تھی کہ والد کی علیٰحدہ جائیداد میں اس کے حق کے سلسلے میں معمولی سی بہتری پیدا ہوئی۔ بیٹی باپ کی جائیداد میں اسی صورت میں وارث ہوسکتی تھی، جب کہ وہ بیوہ ہو یا بیٹے، پوتے اور پڑ پوتے میں کوئی خرابی ہو۔ لیکن عام حالات میں اسے صرف ایک چوتھائی حصہ ملتا تھا۔ تاہم کنواری لڑکی (بیٹی) کے لیے کہا گیا کہ بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے حصوں میں سے ایک چوتھائی حصہ دیں، جو ایسا کرنے سے انکار کرے گا، وہ ذات سے باہر ہوجائے گا۔یگنہ والکیہ نے بھی کہا:’’بہنوں کی شادی کردینی چاہیے۔ ان کے لیے مختص ایک چوتھائی حصہ دے کر۔‘‘ سمرتی کے مصنفین کا مقصد اسے بیٹے کی جائیداد کا حصہ دار بنانا نہیں تھا ،بلکہ صرف اس کی شادی کے لیے ضروری دولت محفوظ کردینا تھا، لیکن باپ کی جائیداد کی وارث ہونے کا بیٹی کا حق اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔
مابعد رگ ویدک میں عورت کے وراثتی حقوق پر اشلوک
عورت کے وراثتی حقوق پر اشلوک بھی ملتے ہیں، جس سے مابعد رگ وید میں عورت کو وراثت میں حق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔’’یعنی عورتیں داس (لونڈیوں) کی سینا (فوج) اور اسلحہ اور اوزار ہیں۔‘‘
(رگ وید:9/39/5)۔
یعنی ’’لہٰذا عورتیں بغیر قوت کی ہیں، انہیں دائیبھاگ (وراثت میں حصہ) نہیں ملتا۔ وہ شریر سے بھی بڑھ کر بدتمیزی سے بولتی ہیں۔‘‘
(تیترییہ سنبھتا:2/8/5/6)
ویدک دور میں بیٹی کا وراثتِ میں حق
زیادہ متأثر کن صورت یہاں نظر نہیں آتی ہے۔ اس پر حاکمانہ مداخلت نہیں کی جاتی تھی۔اسے اعلیٰ درجہ کے وقار کے ساتھ سماج میں زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہوتا تھا۔ اس سے رواداری، صبر، اپنے شوہر کی ماتحتی اور اپنے شوہر کے ساتھ اپنی شخصیت کی شناخت کی توقع رکھی جاتی تھی۔ اس کے جواب میں اسے خلوص، توجہ اور احترام حاصل ہوتا تھا۔ حالاں کہ شادی عظیم سماجی اور مذہبی اہمیت رکھتی تھی، لیکن یہ لازمی نہیں تھی۔ کیوں کہ بعض ایسی لڑکیوں کے حوالے بھی ملتے ہیں، جو غیر شادی شدہ رہیں۔عام طور پر ایک بیٹی کو جائیداد پر قابض رہنے، جائیداد حاصل کرنے یا فروخت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے رگ وید کے دور میں کوئی قانونی حقوق حاصل نہیں تھے۔ لیکن غیر شادی شدہ بیٹی جو اپنے باپ کے گھر میں رہتی تھی، اسے باپ کی جائیداد میں حصہ ملتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی جائیداد میں حصہ طلب نہیں کرسکتی تھی، کیوں کہ رگ وید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسی بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا بہن کی دولت منتقل نہیں کرتا۔ شادی شدہ بیٹیاں والد کی جائیداد، ورثہ میں اسی صورت حاصل کرسکتی تھیں، جب کہ ان کے بھائی نہ ہوں۔ بیٹی کا سماجی یا خاندانی موقف رگ وید کے دور میں کافی اطمینان بخش تھا۔
اس دور میں اپنی حیثیت کا اظہار اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ عورتوں کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق تھا۔ مال دار اور شاہی خاندانوں میں ایک سے زیادہ بیویوں کا کچھ حد تک رواج تھا، لیکن عوام میں ایک ہی بیوی کا رواج تھا۔ ویدک دور میں بیوی کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ نہ تو ورثہ میں جائیداد حاصل کرسکتی تھیں اور نہ اس پر قابض رہ سکتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض آریائی روایات کے مطابق بعض قسم کی جائیدادوں کا حق عورتوں نے آہستہ آہستہ حاصل کرلیا، جو استری دھن میں ان کے حصہ کے حقوق سمجھے جاتے تھے۔ کیوں کہ یہ واحد نوعیت کی عورتوں کی جائیداد موجود تھی۔ عورتوں کی جائیداد کا حق (استری دھن) کو آہستہ آہستہ تسلیم کیا گیا۔
ہندو قانون وراثت 1956ء
ہندو قانونِ وراثت 1956ء بھارت کی پارلیمان کی جانب سے ایک قانونی ترمیم تھی تاکہ غیر وصیت شدہ وراثت اور نظام وراثت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ قانون ہندو، بودھ، جین اور سکھ مذاہب میں نافذ ہے۔ یہ قانونِ وراثت کا مساوی اور جامع نظام وضع کرتا ہے اور یہ میتاکشر اور دایہ بھاگ، دونوں مکاتب فکر پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کی تعریف مروجہ وراثت کے ہندو قوانین کو یکجا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہندو خواتین کی محدود جائیدادوں کے اختیارات کو اس قانون کے ذریعے کالعدم کر دیا گیا۔ کسی بھی ہندو عورت کی محصلہ جائیداد اس کا مکمل اختیار تصور کی گئی ہے اور اُسے اِس کی دیکھ ریکھ اور فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے کچھ حصے ہندو قانون وراثت کے ترمیم شدہ قانون بابت 2005ء کے ذریعے تبدیل کیے گئے ہیں۔
بائبل کے مطابق حق وراثت میں حصہ بائبل پاک کا بغور مطالعہ کرنے پر ہمیں دو مقامات پر عورتوں کے حق وراثت سے متعلق تذکرہ ملتا ہے۔ جیساکہ درج ذیل مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے:

1.Then came the daughter of Zelophehad, the son of Hepher,the son of Gilead, the son of Machir, the son of Manassah, of the families of Manassah, the son of Joseph,and these are the names of this daughters, Mahlah, Noah and Hoglah and Milcah, and Tirzah.

’’تب زیلو فہد کی بیٹیاں آئیں۔ زیلو فہد ولد ہیفر، ولد گلیڈ ولد میشر ولد مینیسح، مینیسح خاندان کا تھا اور مینیسح ولد جوسیف (یوسفؑ) تھا اور زیلو فہد کی بیٹیوں کا نام محلاح، نوح اور جو گلاح اور ملکاح اور ٹرزاح تھا۔‘‘
2.And they stood before Moses and before Eleazar the priest, and before the princes and all the congregation by the door of the tabernacle of the congregation, Saying:
’’اور انہوں نے موزینر (حضرت موسیٰ) اور الیازر پادری اور شاہزادوں اور تمام عبادات گزاروں کی مجلس کے سامنے عبادت گاہ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر کہا:
3.Our father died in the wilderness and he was not in the company of them that gathered themselves together against the lord in the company of korah, but died in his own sin, and had no sons.
یعنی’’ہم لوگوں کے والد ویران جگہ میں مرگئے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ لوگ کو راح کے ساتھ خدا کی مخالفت سے اپنے کو سنبھالنے کی کوشش کررہی تھیں۔ لہٰذا ان کے والد اپنے گناہوں سے ہی مرگئے اور ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔‘‘
4.Why should the name of our father be done away from among his family, because he hath no son? Give unto us therefore a possession among the Brethren of our father.
یعنی’’اور ہمارے والد کا نام ان کے خاندان سے کیوں ختم ہوجائے۔ (صرف) اس لیے کہ ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ہمارے والد کے بھائیوں میں (ورثہ) میں حق دلائیے۔‘‘
5.And Moses brought their cause before the Lord
یعنی’’اور موزیز (حضرت موسیٰؑ) نے ان کے معاملہ کو خدا کے سامنے پیش کیا۔‘‘
6.And the Lord spake unto Moses, Saying:
یعنی’’اور خدا نے موزیز (حضرت موسیٰؑ) سے کہا:
7.The daughters of Zelophehad speak right thou shalt surely give them a possession of an inheritance among their fathers brethren and thou shalt cause the inheritance of their father to pass unto them
یعنی زیلو فہد کی بیٹیاں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ تم ان کو ان کے والد کے بھائیوں سے ان کا حق یقینی طور سے (لے کر) دے دو۔ اور تم ان کے والد کے ترکہ میں وراثت کا حق ان لوگوں تک پہنچادو۔‘‘
8.And thou shalt speak unto the children of Israel, saying if a man die and have no son, then ye shall cause his inheritance to pass unto his daughters.
یعنی’’اور تم بنی اسرائیل میں یہ اعلان کردو کہ اگر کوئی مرد مرتا ہے اور اس کے پاس کوئی بیٹا نہیں ہے تو تم اس کے ترکہ میں وراثت کے حق کو اس کی بیٹیوں تک پہنچادو۔‘‘
9.And if he have no daughters, then ye shall give his inheritance unto his brethren. (Fourth Book of Moses – Number Chapter 27)
یعنی’’اور اگر اس کے پاس کوئی بیٹی (بھی) نہیں ہے تو تم اس کے ترکہ میں وراثت کے حق کو اسی کے بھائیوں کو دے دو۔‘‘
پھر دوسرے مقام پر موزیز (حضرت عیسٰیؑ) نے حکم دیا:

1.And Moses Commanded the children of Israel according to the word of the Lord, saying the tribes of the sons of Joseph hath said well,

یعنی ’’اور موزیز (حضرت موسیٰؑ) نے خدا کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کو حکم دیا۔یہ کہتے ہوئے کہ جوسف (حضرت یوسفؑ) کے بیٹوں کے قبیلوں نے اچھا کہا ہے۔‘‘

2.This is the thing which the lord doth command concerning the daughter of Zelophehad saying let them marry to whom they think best only to the family of the tribe of their father shalt they marry.

’’یعنی یہی چیز ہے جسے مالک نے زیلو فہد کی بیٹیوں کے متعلق حکم دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ جسے پسند کریں اس سے شادی کرلیں مگر اپنے والد کے قبیلہ کے مرد سے ہی شادی کریں۔‘‘

3.So shall not the inheritance of the children of Israel remove from tribe to tribe for everyone of the children of Israel shall keep himself to the inheritance of the tribe of his father.

یعنی ’’اس طرح وراثت میں ملی ہوئی ملکیت ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں منتقل نہیں ہوگی کیوں کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد اپنے والد کے قبیلہ میں ہی حق وراثت پاتا رہے گا۔‘‘

4.And every daughter that possesseth an inheritance in any of the children of Israel, shall be wife unto one of the family of the tribe of her father, that the children of Israel may enjoy everyone the inheritance of his father.(Fourth Book of Moses- Number Chapter 36)

یعنی’’اور ہر بیٹی جو کچھ بھی وراثت کے طور پر ملکیت حاصل کریں گی، اسے اپنے والد کے خاندان والے قبیلہ کے فرد کی ہی بیوی ہونا پڑے گا (یعنی اپنے والد کے خاندان والے قبیلہ کے فرد سے ہی شادی کرنی پڑے گی) تاکہ بنی اسرائیل میں سے ہر فرد اپنے والد کے ترکے میں حاصل شدہ وراثت کی ملکیت کا مزہ حاصل کرسکے۔‘‘
اسلام سے پہلے عربوں میں بیٹی کا حق
عرب معاشرے سے متعلق ڈاکٹر حمیداللہ نے لکھا ہے : ’’عرب یا اپنے حلیف قبائل کے علاقوں سے آمدورفت کے دوران حفاظتی دستے بھی فراہم کرتے تھے۔‘‘ (ابنِ حبیب، ’محبر‘) اگرچہ وہ خیالات و نظریات اور دستاویزی ریکارڈ محفوظ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے تاہم انہوں نے ذوق و شوق کے ساتھ آرٹ اور ادب مثلاً: شاعری، خطبات اور لوک داستانوں کی ترویج و ترقی میں کردار ادا کیا۔ عورتوں سے عمومی طور پر اچھا سلوک کیا جاتا تھا۔ اسے جائیداد رکھنے کا حق حاصل تھا۔ وہ اپنی شادی کے معاملات و معاہدات میں اپنا مشورہ دے سکتی تھی، حتیٰ کہ اپنے شوہروں کو طلاق دینے کی شرط کا بھی اضافہ کرسکتی تھیں۔ بیوہ یا طلاق یافتہ ہونے کی صورت میں دو بارہ شادی کرسکتی تھی۔ اگرچہ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا فعل کچھ علاقوں میں موجود تھا، لیکن یہ عمل شاذ و نادر ہی تھا۔
اسلام میں بیٹی کا وراثت میں حق
قرآن مجیدکے مطابق عورت کو اپنے والد، شوہر، اپنی اولاد اور دیگر قریبی رشتے داروں سے وراثت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الوَالِدٰنِ وَالاَقرَبُونَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الوَالِدٰنِ وَالاَقرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنہُ اَو کَثُرَ نَصِیبًا مَّفرُوضًا (النساء:07)
’’ ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں تھوڑا ہو یا بہت مردوں کا حصہ ہے اور اسی طرح ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکہ میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ [حق دار ہونے کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔]تھوڑا ہو یا بہت یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یُوصِیکُمُ اللّٰہُ فِی اَولَادِکُم لِلذَّکَرِ مِثلُ حَظِّ الاُنثَیَینِ فَاِن کُنَّ نِسَآئً فَوقَ اثنَتَینِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَاِن کَانَت وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصفُ وَلِاَ بَوَیہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِن کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِن لَّم یَکُن لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُفَاِن کَانَ لَہٗ اِخوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِن بَعدِ وَصِیَّۃٍ یُّوصِی بِہَا اَو دَینٍ اٰبَآؤُکُم وَاَبنَآؤُکُم لَا تَدرُونَ اَیُّہُم اَقرَبُ لَکُم نَفعًا فَرِیضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا ?(النساء:11)

(تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے،اگر میّت کی وارث دو سے زائد لڑکیاں ہو ں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔اگر میّت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصّہ مِلنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے۔اور اگر میّت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصّہ کی حق دار ہوگی۔یہ سب حصّے اُس وقت نکالے جائیں گے، جبکہ وصیّت جو میّت نے کی ہو پُوری کردی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کردیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔)
اسلام کی روٗ سے ترکہ وہ مال ہے جومیت نے چھوڑا اس کے وارثین کا ہے۔ جس میں میت کی ماں، بیوی اور بیٹے اور بیٹی کا حصہ ہے۔مذکورہ بالا دنیا کے چار بڑے مذاہب میں بیٹی کی وراثت سے متعلق جو حوالے ملتے ہیں، اس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ بیٹی کا حصہ وراثت میں رہا ہے، لیکن باضابطہ حق دینے کی صورتوں میں وہ شفافیت نہیں پائی جاتی جیسی کہ ہونے چاہیے۔
ماقبل ویدک دور میں حالت قدرے بہتر ہے۔ بیٹی کا ترکے میں حصہ تھا۔ تاہم تصرف کی آزادی نہیں تھی،قانونی حقوق حاصل نہیں تھے،مابعد ویدک دور میں شعور کے ارتقاء کی نسبت جو تبدیلی آئی، بس اتنی کہ لڑکے نہ ہوں تو بیٹی وارث ہوگی اور تصرف کا اختیار بھی رہے گا۔اسی وجہ سے نیو ھندو ایکٹ میں بیٹی کا وراثتی حق مساوی تسلیم کیا گیا۔
حق چاہے آئین کی روٗ سے مساوی دیا جائے یا متعین کردہ ،ہر دو صورت میں بیٹی کو اس کے حصہ کے مالک بنانے کے طریقے کو رواج دینے میں بیش تر سماج کامیاب نہ ہوسکے۔مسلمان معاشرے میں بھی دیگر مذاہب کے ساتھ اختلاط کے زیرِ اثر یا سماج روایات کے زیر اثر بیٹی کے وراثتی حق کا عملًا مکمل نفاذ اب تک کامیاب نہیں ہے۔ بیٹیوں کے شادی بیاہ کے اخراجات کو ہی وراثتی حق کہا جاتا ہے۔یا کسی قریبی رشتے دار سے نکاح کی صورت والد کے خاندان میں وراثت باقی رہتی ہے۔ یا بہت کم رقم دے کر وراثت میں آنے والا گھر بیٹوں کو بانٹ دیا جاتا ہے۔
حق مانگنے والی بیٹی کو ماں اور بھائی بھی غلط سمجھتے ہیں۔اللہ نے جس معاملے کی وصیت کردی ہے، اس کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔اللہ نے جس مال وراثت کی جو تقسیم فرمادی ہے، اسے من وعن تقسیم ہونا چاہیے۔
حواشی و مراجع

1۔ مسلم عورت قدیم اور جدید روایات کے تناظر میں،علامہ محمد غزالی
2۔مذاہب میں عورت کا مقام ایک تقابلی مطالعہ،محمد یونس قرئشی
3۔مطالعات ِ نسواں، ڈاکٹر آمنہ تحسین
4۔عورت۔ عہدِ رسالت میں
5۔ BARE act on Hindu marriage law… Advocate Ashutosh Publisher Notion Press; 1st edition (10 th September 2020)
6۔ Wikipedia

اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔یہ بات بھی درست ہے کہ عملًا دیگر مذاہب کی طرح مسلمان معاشرے نے بھی عورت کو وراثتی حق دینے کے حکم کانفاذ اس طرح نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ وہ مکمل معیاری انسان ہے وہی دراصل ناقص انسان ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
Comments From Facebook

1 Comment

  1. shaheda dongre

    bahot sach kahta quraanAllha ne bandon ke saath insaf kiya hai lekin bande bas jin per amal hosakta karte hain jab maal ki baat aati hai bAllha ke hukm se apne phlu bachane ki koshish karte hain
    ? behtreen tahreer

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١