نیکی کے قافلے کی اور…!
دسمبر کی آغوش میں نومبر دم توڑ رہا تھا۔ اس رات جب سردی اپنے جوہر دکھا رہی تھی، تب آسمان کی سیاہی میں ٹمٹماتے تارے ناامیدی کی نفی کر رہے تھے۔ وہ آلتی پالتی مارے بڑے آرام سے صوفے پر بیٹھی تھی۔ شال اس کے کاندھوں سے ڈھلک کر ہاتھوں میں آ گرا۔ مگر موبائل کے سحر نے اس سے سردی لگنے کا احساس ہی سلب کر لیا۔ وہ بے فکر، مگن سی موبائل کی اسکرین میں غرق تھی، جو اسے ایسی دنیا میں لے گیا جس کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں تھی۔ ایک ویڈیو کے بعد دوسری، ایک پوسٹ کے بعد دوسری، تب ہی ڈور بیل کی آواز نے اسے اس حصار آزاد کروایا ۔
اس نے برا سا منہ بنا کر دروازے کی جانب دیکھا، اس کے بعد گھڑی میں، ہونٹوں کو سکیڑتے ہوئے خود سے کہا:’’اوہ! وقت گزرنے کا تو پتہ ہی نہیں چلا۔ خیر! ‘‘ لمحوں کے ضیاع کا کوئی افسوس بھی نہیں۔
اس نے دروازہ کھولا۔ قدموں کے پاس ایک بے رنگ سا خط تھا۔ اطراف میں نگاہ دوڑائی وہاں کوئی نہیں تھا۔
’’عجیب بات ہے۔ آج کے دور میں خط کون لکھتا ہے۔‘‘ خودکلامی کرتے ہوئے گوہر نے لفافہ چاک کیا ۔ چلتے ہوئے لانج تک آئی اور خط نکال کر اوپری سطروں کو پڑھنا شروع کیا۔
’’ یہ خط امت مسلمہ کی ان بیٹیوں، ماوؤں اور بہنوں کے نام، جنھیں لھوٌولعبٌ نے مومنات کے قافلے سے جدا کر دیا،یوں کہ وہ منزل آخر کو فراموش کر بیٹھے۔‘‘
اس نے نگاہ غلط ٹیبل پر رکھے موبائل پر ڈالی۔ پھر دوبارہ خط پڑھتے ہوئے صوفے پر براجمان ہو گئی۔
’’ بعد حمد خداوند و نعت رسول اللہ ﷺ تحریر کا مقصد : بچھڑے ہوئے راہ نوردوں کی مومنات کے قافلے میں واپسی۔
تحریر کا مواد:فریاد بھی ہے اور داد بھی، التجا بھی ہے اور انتباہ بھی۔‘‘
سرد ہوا لانج کے پردوں سے الجھ رہی تھی۔ گوہر نے خط کو مضبوطی سے پکڑ لیا کہ کہیں ہوا اسے اچک نہ لے جائے ۔
’’ عزیزی و مکرمی!
زندگی کے طویل ہونے کا امکان اتنا ہی ہے جتنا کہ اس کے مختصر ہونے کا۔ پھر ہم اور آپ کس دھوکے میں اپنے وقت کو لاحاصل میں گنواتے ہیں؟ کبھی سوچا ہے کہ ان سوشل ویب سائٹس پر سرفنگ کرتے ہوئے، لایعنی چیزوں سے ہم اتنے جلد متأثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیوں اُن لوگوں کو follow کرتے ہیں، جن کا نہ ماضی روشن ہے اور نہ مستقبل؟ ان کے برینڈز اور کپڑوں کے گرویدہ ہونے والوں میں آخر ہم جیسوں کا شمار کیوں کر ہوا؟‘‘
خط تھا یا کوئی برف کا ٹکڑا ۔یہ الفاظ اس کے خون کو منجمد کرنے کے لیے کافی تھے۔
’’ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ جو قوم اپنی تاریخ کو فراموش کردے، اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے اور جب قوم کے افراد ہی غیروں سے مرعوب ہونا شروع ہوجائے تو…؟ ایک طرف پچھلے وقتوں سے گزریں تو ہمارے سامنے ام سُلیم کھڑی نظر آتی ہیں، جو انس بن مالکؓ جیسے جلیل القدر صحابی کو جنم دے کر خدمتِ رسول ؐ کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ وہ تربیت اولاد کے اصولوں کو جانتی ہیں، خاندانی و ازدواجی زندگی کے طریقوں سے بھی واقف ہیں، مزید کہ اپنے ساتھ خنجر بھی رکھتی ہیں تاکہ حالتِ جنگ میں مشرک کا پیٹ پھاڑ سکیں۔ وہیں دوسری طرف ہماری وہ بیٹیاں جو امت کے لیے ناسور بنی بیٹھی ہیں اور مشرکوں سے مراسم استوار کرنے کو عیب نہیں جان رہی….. آہ صد آہ! ‘‘
دفعتاً موبائل پر کچھ پیغام موصول ہوا۔ گوہر نے دیکھاکہ اسکرین کچھ دیر روشن ہوئی پھر سے تاریک پڑ گئی۔ اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ تاریکی سے نگاہ ہٹا دی۔
’’ہم کسی سے مرعوب ہونے والیوں میں سے نہ تھیں، ہمارا قافلہ حق پر چلنے والوں کا قافلہ ہے۔اپنی تاریخ خود رقم کرنے والوں کا قافلہ ہے۔ یہ قافلہ ہمیشہ سے پاک بازوں کا قافلہ رہا، جس میں معاذہ اور مسیکہ جیسی باندیوں کو بدکاری سے پارسائی کی طرف لانے کا سفر ہے، جس میں ام ورقہ کی حبّ رسول سے سرشار مترنم آواز میں پڑھا جانے والا ترانہ ہے، جس کی بازگشت فضا میں آج تک گنج رہی ہے۔یہ مومنات کا قافلہ ہے، جس نے صدیوں تک اپنا اثر چھوڑا۔‘‘
ایک خفیف سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو آلیا۔ دل فخر سے دھڑک اٹھا۔ مگر ضمیر بھی کہہ اٹھا ’یہ سب پہلے کیوں کر نہ معلوم ہوا؟‘ نظروں نے پھر سے موبائل کو دیکھا، ‘وقت لھوٌ و لعبٌ میں پڑ گیا:
’’ عزیزی!
وہ قافلہ آج بھی گردشِ سفر میں ہے اور اپنے دور کی بہترین مومنات کو اپنے ساتھ شامل کرتا چلا جا رہا ہے۔ مرعوب ہونے کے لائق تو یہی عظیم خواتین ہیں، جو اپنی آخرت سنوار گئیں۔ ان کو ترجیح دو، ان کو سمجھو اور ان کو پڑھو۔ محلے کی پرانی لائبریری میں رکھی کتابیں یا انٹرنیٹ پر موجود اعلیٰ مصنفین کی کتابیں تمہاری منتظر ہیں۔ آؤ اس قافلے کی طرف جس میں مسافروں کا شغف کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ ہے۔!‘‘

جزاک اللہ خیرا کثیرا
والسلام

خط ختم ہوا،لیکن اس کے سانسوں کی رفتار کو بڑھا گیا۔ اس نے خط کو موبائل کے پاس رکھا۔ راستے کا انتخاب دشوار معلوم ہوا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی اور خط کو لے کر روم کی جانب بڑھنے لگی، تب ہی نوٹیفکیشن رنگ بج اٹھی۔ اس نے ایک نگاہ پلٹ کر دیکھا۔ نیکی ہاتھ میں تھی، برائی دور تھی۔ برائی کی کشش زیادہ تھی، نیکی بے رنگ سی۔ اس نے لفافہ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ فیصلہ تو خود کو کرنا ہوتا ہے……. فیصلہ کر دیا گیا۔
دسمبر کی آغوش میں نومبر دم توڑ رہا تھا۔ اس رات جب سردی اپنے جوہر دکھا رہی تھی، تب آسمان کی سیاہی میں ٹمٹماتے تارے ناامیدی کی نفی کر رہے تھے۔ وہ آلتی پالتی مارے بڑے آرام سے صوفے پر بیٹھی تھی۔ شال اس کے کاندھوں سے ڈھلک کر ہاتھوں میں آ گرا۔ مگر موبائل کے سحر نے اس سے سردی لگنے کا احساس ہی سلب کر لیا۔
حق کی دعوت کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک پیش کرتے چلے جانا ہی ایک حق پرست انسان کی اصل کامیابی ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
Comments From Facebook

5 Comments

  1. Wajed Quadri

    ماشاءاللہ بہت سبق آموز تحریر ہے۔

    Reply
    • شیبا شیخ

      ماشاء اللہ بہت ہی سبق آموز تحریر اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اس رحمتوں اور برکتوں والے قافلے میں شامل فرما لے اٰمین

      Reply
      • Ayyub

        Nahi plzz hame zaroor shair kare aap

        Reply
  2. بریرہ اشفاق

    ماشاءاللہ ۔
    زین کو سوچنے پہ مجبور کرنے والی تحریر۔

    Reply
  3. Md Imran Aziz

    Alhumdulillah… Article bahut hi sabak aamoz hai
    Kya aap log is Article ko Hindi me bhi SHARE kar sakte hai
    isse or bhi nasihat hasil kar lenge

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١