راہ ہدایت کے مسافر (آخری قسط)
تینوں بچوں کو شروع سے ہی فاطمہ نے فتح القدس کی لوریاں سنائیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں نیل سے لے کر کاشغر تک زخموں سے چور چور امت کی مسیحائی کے خواب بھرے تھے۔ کنتم خیر امۃ اُن کی ہڈیوں کے گودے میں اترا تھا۔ آج اِن خوابوں کی تعبیر کا وقت تھا۔ سورہ احزاب و انفال اب ڈرائینگ روم سے نکل کر سالہا سال پڑھنے والوں سے سراپا سوال تھیں کہ اتنا عرصہ پڑھ لیا، اب اصل امتحان ہے کہ کتنا عمل کرتے ہو؟
’’ابو! آپ کی اجازت چاہیے۔‘‘
ایک نہیں،دو نہیں، تین آوازیں ایک ریٹائرڈ ساٹھ سالہ شخص کی سماعتوں سے ٹکرائیں۔
جن بچوں کو اپنے کندھوں پر سواری کرائی، آج ان جھکے کندھوں سے تین کڑیل اٹھتی جوانیاں بیک وقت جھکی نگاہوں کے ساتھ رخصت ہونے کی اجازت طلب کررہی تھیں۔جس باپ نے ساری زندگی منکرات سے لڑتے بھڑتے گزاری، آج اُس کا اپنا خون وقت کے منکر اکبر سے ٹکرانے کی درخواست کررہا تھا۔
ایک نہیں، دو نہیں بیک وقت تین دفعہ ہاں کرنا تھی۔ تین اسماعیل اپنے پدر کے سامنے کٹ جانے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے۔ کہانی آج بھی وہی تھی۔
معرکۂ خیر و شر آج بھی وہی
پدر بھی وہی پسر بھی وہی
بوڑھے باپ سے اسماعیل کو مانگا جارہا تھا۔ سنتِ ابراہیمی پر عمل کا تقاضا کیا جارہا تھا۔ اوپر رب اپنے معزز فرشتوں کے ساتھ یہ کارروائی دیکھ رہا تھاتو فاطمہ پردے کے پیچھے خاوند کے جواب کی منتظر تھی۔ آج پھر حاجرہ کی بیٹی کی سعی کا امتحان تھا۔ اسی دن کے لیے تو اس نے اتنا کشت کا ٹا تھا۔ حق کے کلمے کی سر بلندی کے لیے وہ کتنے عرصے سے صحرا میں سرگرداں تھی۔ آج اُس کے اپنے پاؤں کے نیچے جن کی جنت تھی، وہ جنت کی سرداری حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے تو وہ کیوں ابدی فلاح سے خود کو محروم رکھتی؟ تیس سال تک رب کے احکامات و ہ فرحان کو سناتی رہی، آج گھر کے قوام کو فیصلہ سنانا تھا۔ چند لمحوں کی خاموشی صدیوں پر محیط لگنے لگی۔ سب سراپا انتظار تھے کہ ماحول کی خاموشی کو ایک بھاری رعب دار آواز کی گونج نے توڑ دیا:
’’اللہ اور اس کے دین کی پکار ہے تو میں کیوں آپ اور اپنے بنانے والے کے احکامات کے درمیان رکاوٹ بنوں۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اطمینان سے جائیں۔‘‘
جنت کے دروازے نے اپنے کواڑ کھول کر آخرت کے راہیوں کو ابدی فلاح حاصل کرنے کے لیے بخوشی راستہ دے دیا تھا۔
فاطمہ فوراً سجدہ ریز ہوگئی۔ اُس کی دعائیں یوں قبول ہوں گی ،اُس کے گمان میں بھی نہ تھا۔ وہ اپنے مجازی خدا کی اور زیادہ مشکور ہوگئی۔ شروع سے خاوند کا بھر پور ساتھ، تعاون بلکہ ایثار نہ ہوتا تو آج اتنی آسانی سے یہ مراحل عبور نہ ہوتے۔ اوپر رب اپنے بندوں پر آج پھرمعزز مقرب فرشتوں کے سامنے فخر کررہا تھا۔
حاملین عرش، فرش والوں کے لیے برابر دعائیں کرنے میں مصروف تھے۔ بوڑھے ماں باپ کی دعاؤں کے حصار میں امت کے بیٹے کلمہ حق کی سربلندی اور امت کے کل کو محفوظ و تابناک بنانے کی خاطر اپنا آج قربان کرنے کی راہوں پر چل پڑے تھے۔
لے یار رب دے حوالے، میلے چار دِناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
’’سنا تم نے فاطمہ نے میرے بھتیجے کی نسل تباہ کردی۔‘‘
خالہ صغریٰ کا روتا دھوتا فون زرین نے اٹھایا۔ سب کو فاطمہ اور فرحان سے اس انتہائی اقدام کی تو بالکل بھی توقع نہ تھی۔ زرین کہ جس کی اپنے بھانجوں میں جان تھی وہ بھی سکتے کی حالت میں تھی۔
’’ہائے بیٹے تو بڑھاپے میں باپ کی لاٹھی بنتے ہیں۔ اتناہی شوق چڑھا تھا تو کسی ایک کو بھیج دیتی۔ ہائے تینوں کو دیا، رب اِس سے پوچھے گا۔ ہائے میرا بھتیجا!‘‘ خالہ گویا ماتم کر رہی تھیں۔ زرین بھی جواباً برابر بین کرنے میں شریک تھی۔
خاندان بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سب نے اپنے اپنے بچوں کواپنے پروں میں چھپا لیا اورمکمل پابندی لگادی کہ ان کے گھر کا رخ نہیں کرنا۔ ایک تو پکڑے جانے کا ڈر۔ دوسرا کہیں اُن کے بیٹے بھی ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔
اِن حالات میں اگر کوئی ڈنکے کی چوٹ پر فاطمہ اور فرحان کا ساتھ دے رہاتھا تو وہ ایک ثنا تھی، اُن کی رضائی بیٹی۔ لاکھ مخالفتوں کے باوجود اُس نے واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنے والدین کو اِس حالت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔
بالآخر تینوں اسماعیل باری باری اپنی مراد پاگئے۔ شہادت کی خلعت زیب تن کر کے وہ تن کی قید سے آزادی پا کر رب کے عرش کے نیچے لگی قندیلوں کے مکین بن گئے اور لگے دائمی زندگی کے مزے لوٹنے۔ والدین نے خبر سنتے ہی شکرانے کے نوافل ادا کیے۔
آسمان نے یہ محیرالعقول منظر دیکھا کہ فاطمہ گھر آنے والے روتے پیٹتے بین کرتے عزیز رشتے داروں کو تسلی دے رہی تھی۔ رشتے داروں کو اُن دونوں کی ذہنی حالت پر شک ہو چلا تھا۔ دنیا کے اسیر بھلا فراز اور فرزانہ کی فرزانگی کو سمجھ بھی کیسے سکتے تھے..؟
٭ ٭ ٭
’’جانی! چچاشبیر کا حماد اچانک حادثے میں فوت ہو گیا ہے۔‘‘
ثناکا فون تھا کہ ہتھوڑا۔ دیور کا جواں سال بیٹا جس کی دو ہفتے بعد شادی تھی، اچانک کارحادثے میں اللہ میاں کے پاس چلاگیا۔
فاطمہ دیور کے گھر پہنچی تو کہرام برپا تھا۔
برقی قمقمے درودیوار پر حسرت و یاس کی تصویر بنے بجھے بجھے سے لٹک رہے تھے۔ شادی کے کارڈز پتوں کی طرح جابجا بکھرے پڑے تھے۔ ماں سکتے کی حالت میں تھی تو بہنوں کے نوحے کلیجے چیر رہے تھے۔
’’کاش نہ جاتا۔ نہ بھیجتی، گھر میں رہتا تو بچا رہتا۔ یہ عمر تھی جانے کی؟ پیچھے بوڑھے ماں باپ کو کس کے حوالے کرکے چلا گیا؟ بہنوں کی حفاظت کون کرے گا؟‘‘شبیر کو فرحان نے سنبھالا دیے رکھا۔
’’فرحان بھائی! آپ نے تینوں کی جدائی سہی۔ آپ سے زیادہ میرا غم کون سمجھ سکتا ہے؟‘‘
اب فرحان ماں جائےکو کیا بتاتے کہ واللہ انھیں تو کوئی غم تھا ہی نہیں۔ اُن پر تو اللہ نے اپنی معیت عطا کرکے سکنیت ڈال دی تھی۔ دونوں میاں بیوی اِس دنیا میں دل لگا کر بیٹھے ہی کہاں تھے، وہ تو کتنے عرصے سے اسٹیشن پر بیٹھے مسافروں کی طرح اپنی باری کے انتظار میں تھے کہ کب ٹرین آئے اور اِس مردار دنیا سے نجات ملے۔
٭ ٭ ٭
ثنا ڈیڑھ سالہ عثمان کے ساتھ آج پھر خالہ کے گھنٹوں کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔
’’اے بی بی! ذرا کچھ دیر کے لیے چھوڑو مجھے۔ تمھارے خالو نے نماز کے لیے جانا ہے۔ مجھے انھیں چائے دینی ہے۔‘‘
’’آپ چھوڑیں۔ میں بناتی ہوں چائے۔‘‘
خالہ باورچی خانے میں گئیں تو وہ لاؤنج میں چلی گئی، جہاں خالو محترم جنھیں وہ شروع سے ابو کہتی تھی، اپنے نواسے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وہ عموماً ابو کے سامنے اُن کے رعب کی وجہ سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی، لیکن آج جیسے دل نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ جو سوال اتنے برسوں سے چاہنے کے باوجود بھی نہ پوچھ سکی، آج اُن کا جواب لے کررہے گی۔
’’مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔‘‘
’’بیٹا پوچھو۔۔۔۔۔!‘‘
’’آپ کو خالہ جانی سے کوئی شکایت کوئی گلہ؟ پینتالیس سال ہوگئے، کوئی شکوہ تو ہوگا؟‘‘
’’بیٹا! شروع سے ایک بڑی شکایت اُن سے یہ رہی ہے کہ۔۔‘‘
وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے تو اس نے چونک کر ابو کی طرف دیکھا۔
’’۔۔کہ انھوں نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔‘‘
’’میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کی خالہ کے ذریعے رب کو، اس کے دین کو، قرآن کو، نبی کی سنت و سیرت کو پہچانا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر میری کسی دنیا دار خاتون سے شادی ہوتی تو میری زندگی جہنم بن کر رہ جاتی۔ آپ خود اس بات کی گواہ ہیں کہ اس گھر میں کتنا سکون ہے۔ ورنہ ہر دوسرے گھر میں رشتوں میں بے چینی ہے، دوریاں ہیں اور یہ صرف آپ کی خالہ کی وجہ سے ہے۔ آپ کی خالہ کی وجہ سے ہی اللہ نے مجھے ایسے سعادت مند بیٹے دیے، جو اِن شاء اللہ روز قیامت مجھ گناہ گار کی ڈھال بنیں گے۔ یہ نہ ہوتیں تو اللہ کا دین میرے گھر، میری نسل میں نہ آتا۔ آپ کی خالہ میری نسل کی کمہارن ہیں۔‘‘
پہلی بار خالو جان نے اس سے کھل کر بات کی تھی۔ ان کے حرف حرف سے صداقت عیاں تھی، جس کی وہ آج سے نہیں بلکہ اپنے بچپن سے گواہ تھی، چشم دید گواہ!
آج سب سے چھوٹے بیٹے کی شہادت کو تیرہ سال پورے ہوچکے تھے۔ دونوں خاموشی اور مکمل اطمینان کے ساتھ اپنے اپنے کام سر انجام دے رہے تھے۔ کمپیوٹر پر کام کرتے فرحان کے سامنے ڈرائی فروٹ کا پیالہ رکھ کر وہ بولیں:
’’آپ سے کچھ کہنا تھا۔‘‘
فرحان کی نظریں ہنوز کمپیوٹر اسکرین پر تھیں ۔
’’میں کہنا چاہ رہی تھی کہ ان گزرے 45 سالوں میں آپ نے جس طرح میرا ساتھ دیا، اللہ کے دین کے لیے جتنا ایثار کیا۔ کشادہ قلبی، خندہ پیشانی سے پیشانی پر ایک بھی بل لائے بغیر میرے لیے آسانیاں مہیا کیں، پھر بچوں کے حوالے سے مجھ پر مکمل اعتماد کیا، میں آپ کی ممنون ہوں۔ صرف اللہ ہی آپ کے اِن احسانات کا بدلہ چکا جاسکتا ہے، اجر عطا کرسکتا ہے اور کرے گا اِن شاء اللہ!‘‘
ان 45 سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہی نظریں جھکا کر آہستہ آہستہ ادب لحاظ سے گفتگو کرنا۔
’’بی بی اب بھی ویسے کی ویسی ہی ہیں۔‘‘
دل ہی دل میں دنیا کی اس بہترین متاع سے نوازے جانے پر وہ رب کے مشکور تھے، لیکن اظہار سے قاصر تھے۔
’’اچھا! چھوڑیں آپ ایسا کریں، یہ ذرا اخروٹ تو توڑ کر دیں۔ آپ کا بھی احسان ہوگا۔’’ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے تو وہ بھی مسکرادیں۔
یہ عجیب گھر ہے، جہاں مکین ’’میری کامیابی، میں نے یہ کیا، یہ ایوارڈ مجھے جاتا ہے‘‘ کے نعرے لگانے کی بجائے ایک دوسرے کو کامیابی کا کریڈٹ دیتے رہتے ہیں۔ کلمۂ حق کی سر بلندی اور شہادت حق کے لیے پہاڑ جتنی قربانیاں دے کر بھی یہ امت کے قابل صد احترام محسنین ہر وقت عجز و انکسار اور خوف خدا میں ڈوبے ہوئے اپنے رب سے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ امت پر سب کچھ وارنے والی اِن مبارک روحوں کو قرآن میں رب کیا جواب دیتا ہے، آئیے جانتے ہیں:
’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کی جنس ہو (بعضکم من بعض) لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے، اُن سب کے قصور میں معاف کردوں گا اور انھیں جنتوں میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین اجر اللہ کے پاس ہے۔‘‘
تین اسماعیل اپنے پدر کے سامنے کٹ جانے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے کہانی آج بھی وہی تھی۔
معرکۂ خیر و شر آج بھی وہی
پدر بھی وہی پسر بھی وہی
بوڑھے باپ سے اسماعیل کو مانگا جارہا تھا۔ سنتِ ابراہیمی پر عمل کا تقاضا کیا جارہا تھا۔ اوپر رب اپنے معزز فرشتوں کے ساتھ یہ کارروائی دیکھ رہا تھاتو فاطمہ پردے کے پیچھے خاوند کے جواب کی منتظر تھی۔
Comments From Facebook

2 Comments

  1. طیبہ

    بہترین و لا جواب تحریر تھی

    Reply
  2. طیبہ

    بہترین و لا جواب تحریر تھی

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١