خاموشی

اُلوّ صبح جب تازہ دم ہوکر اپنے آشیانہ لوٹا تو سارا گھر بکھرا پڑا تھا۔ بیٹا پوتا، پوتی کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ انھیں ڈھونڈنے لگا۔ اس کی نظر اچانک زمین پر دوڑی تو اس نےدیکھا وہاں پوتا زخمی حالت میں تڑپ رہا ہے۔
جلدی سے اسے اٹھا کر کھنڈرات کی جانب پرواز بھری۔ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ قریب درختوں پر دوسرے کئی قسم کے پرندے اپنے گھونسلوں میں دبے بیٹھے اونگ رہے تھے ۔
اُلوّکافی کمزور تھا اور ضعیف بھی ،جس کی وجہ سے  زخمی پوتے کو مکمل سنبھال نہ پارہا تھا۔بے بس ہوگیا ۔ تب شدید غصہ کی حالت میں جھنجھلا کر زور سے چِلاّیا:
’’ کیا ہوگیا تم سب کو! ہائےمیرے خاندان پر مصیبت آگئی! میرا آشیانہ گِر کر بکھر گیا، میرا خاندان بکھر گیا!آپ سب خاموش تماشہ دیکھ رہے ہو؟ سبھی زخمی ہوگئے کچھ کا تو پتا بھی نہیں !‘‘
وہ یہ کہتا ہوا بڑے کربناک انداز میں رونے لگا۔ساتھ ہی کربناک انداز میں چلانے لگتا: ’’کوئی تو جواب دو! آخرکہاں چلا گیا میرا ہنستا کھیلتا کنبہ ؟‘‘
جواب میں چہارسو سے خاموشی حاصل ہوئی۔ اس خاموشی کی ردا کو کوئی چاک کرنے والا نہ تھا۔وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا اور گویا ہوا:
’’جانتا ہوں تم سب میری خاموشی کا مجھ سے بدلہ لے رہے ہو ! میں مانتا ہوں میں نے اس طوفان میں تمھارے گھر بکھر جانے پر تمھاری مدد نہیں کی اور یہ بھی مانتا ہوں کہ شکاری کے جال میں پھنسے پرندوں کی کوئی مدد نہ کرسکا !۔ اور کاگا ہاں کاگا( کوا) کے بیٹے کی موت پر بھی میں نہیں آیا۔ چینی ( چڑیا) چینی کے بچوں کو سانپ نے جب کھایا تھا، میں دیکھ کر بھی انجان بنا رہا۔دوستو! میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی جو میں نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ۔ میں شایدخود غرض ہوگیا تھا۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا کہ ایسا برا وقت مجھ پر بھی آسکتا ہے۔ سچ ہے ! میں نے جو کیا اس کی سزا مجھے ملنی چاہیے ۔ لیکن ساتھیو! میری خاموشی کی اتنی بڑی سزا تو نہ دوخدا کے لیے میری مدد کرو۔میرے پوتے کو بچانے کی کوئی تدبیر کرو !‘‘ روتے ہوئے نڈھال ہوکر وہ پوتے کے قریب لڑکھڑا کر گر گیا ۔
چینی اڑتی ہوئی اس کے قریب آئی اور بولی:
’’اول(الو) چاچا! ہم سب آپ کی عزت کرتے ہیں ہم آپ کا بہت احترام کرتے ہیں ہم نے برے وقت میں آپ کی خاموشی اورخود غرضی کو محسوس کیا۔ چاچا! آپ گھر سے باہر تھے تب یہ چٹان گرگئی۔ ہم تمام نے آپ کے اہل خانہ کو چٹان سے بچایا اور اپنے گھر میں پناہ دی۔ سب نے مل کر تیمارداری کی۔صرف آپ کا پوتا رہ گیا تھا جسے ہم اٹھالانا چاہتے تھے کہ تب ہی آپ یہاں آگئے۔ہم سب نے خاموشی کی ردا اوڑھ رکھی تھی جس کا مقصد آپ کو احساس دلانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے زندگی گزارنے کے لیے بنایا ہے۔اس طرح اکیلے زندگی گزارنے کا نام زندگی نہیں۔آپ ہماری مدد کر سکتے تھے لیکن آپ نے ہماری کسی موقع پر مدد نہیں کی اور ہمارے لیے صرف ایک تماشہ بین بنے رہے۔ اگر ہم سب کے اپنے گھروں کو لوٹ جانے کے بعد یہ حادثہ ہوتا تو آپ کی مدد کرنے والا کون ہوتا ۔ وہ تو شکر کیجیے کہ ہم سب یہاں موجود تھے۔‘‘
بزرگ الوّچینی کی باتیں سن کر ندامت سے سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ آنکھیں خوشی اور غم کے ملے جلے تاثرات سے لبریز تھیں۔
’’تم سب کتنے اچھے ہو ! میں نےاتنے عمدہ ساتھی پائے کہ کیا بتاؤں۔سبھی نے برے وقت میں نہ صرف میری مددکی بلکہ میری غلطی کا مجھے احساس بھی دلادیا۔‘‘
اُلوّنے تشکر بھری نگاہوں سےچڑیا کو دیکھا۔ اور چینی کے سر پر اپنا پکھوٹا رکھ کر آشیرواد دیا:’’جگ جگ جیو !‘‘

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١