کھیل کھیل میں بچوں کی تربیت
بچوں کی صحت اور نشو و نما کے لیے غذا کے ساتھ ان کی حرکات و سکنات، جو کبھی آپ کو ناگوار بھی گزرتی ہیں، بچوں کا کھیل، دوڑ بھاگ، ان کی اچھل کود، یہ سب آپ کو ڈسٹرب بھی کرتا ہے، اس پر آپ کو غصہ بھی آتا ہے، لیکن یہ ضروری بھی ہے کہ ان حرکات کو بچوں کی ضرورت سمجھ کر آپ اسے گوارہ بھی کریں اور غیر حکیمانہ انداز میں انھیں ڈرانے دھمکانے کی بجائے آپ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ بچہ بن کر بلاتکلف ان کی ان حرکات میں شریک ہوجائیں۔ بابا، نا نا اور دادا بھی اپنے لیے ان کو ایک کھلونا ہی سمجھیں اور ا ن کے لیے خود کھلونا بن جائیں۔ کبھی اپنے پیروں پر انھیں جھولا جھلائیں، کبھی گھوڑا بن جائیں اور اس معصوم شہزادے کو فخر ہونے لگے کہ کیا اچھا گھوڑا ہے اور آپ بھی فخر سے کہیں کیا اچھا سوار ہے۔
گھر میں بچوں کے ہنگامے سے تو کبھی کبھی ماؤں کا دل گھبراتا ہے، کبھی ان کے کاموں میں حرج ہوتا ہے، کبھی بچوں کی شرارت پر وہ انھیں مار دیتی ہیں۔ یہ سب سے بڑی غلطی ہے، خود ماں کے لیے بھی اور بچے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ماں اس طرح خود کو ٹینشن میں مبتلا کرلیتی ہے اور بچے میں احساس خوف پیدا ہوتا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ دوڑ بھاگ اور کھیل کود جس میں اسے مزا آتا ہے، اس میں نقصان کیا ہے اور ہم کو کیا حق پہنچتا ہے کہ بچے سے اس کا یہ حق چھین لیں۔ ابھی تو اس مہربان خدا نے بھی اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی۔ لہٰذا ہمیں بھی اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگانی نہیں چاہیے، جو اس کےلیے ناخوشگوار ہو، جس کو وہ بار گراں سمجھ لے اور ناراض ہو جائے۔ ہاں اس ماحول میں نہایت خوشی خوشی اسے تھوڑا سا حکمت کے ساتھ صحت مند مشغلے میں لگا دینا چاہیے۔ مثلا آپ چاہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے یا کسی اور قسم کے سنجیدہ کام کے لیے آپ کو وقت ملے۔ تو آپ کے گھر کے آنگن میں، احاطے میں اگر چھوٹا سا گارڈن ہے تو اسے پودوں کو پانی دینے یا صفائی کے کام میں لگا دیں۔ یا کچھ ایسے کھلونے دیں کہ جس کی آواز آپ کو ڈسٹرب نہ کرے۔ یا پھر گھر کا کوئی فرد فری ہو ہوتو وہ اسے باہر تفریح کے لیے لے چلے۔ لیکن ڈرانے دھمکانے سے چپ کرانا، یہ بچے کے لیے مناسب نہیں۔ وہ بھی جواباً آپ پر اپنا غصہ اتارے گا کہ آپ اس کا حق چھین رہے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس کے ہاتھ میں موبائل ہی پکڑانا ہے تو صحت مند کھیل جو کچھ اسلام پسند تنظیموں نے تیار کیے ہیں یاایسے ہی ویڈیوز کی ان میں عادت ڈالیں، لیکن ٹائم لمٹ کے ساتھ۔ اس کے بعد انھیں کسی دوسرے مناسب مشغلے میں لگادیں۔ لیکن غیر حکیمانہ انداز میں ڈانٹ ڈپٹ کر آپ اسے موبائل سے نہ روکیں،اس سے بچہ بغاوت پر اترآئے گا۔ آپ نے اسے اس کی لت لگا کر ایک بڑی مصیبت مول لے لی ہے۔ وہ بچپن میں تو صرف کھیل تک محدود ہے، لیکن جب اس کے موبائل پر ایمان میں پختگی آئے گی تو پھر آپ کے اثرات کم، آپ کی شخصیت کا اثر بھی کم اور موبائل پر اسے زیادہ اعتماد ہوگا۔ اب اس کی تربیت کا اہم ذریعہ موبائل ہوگا۔ اگر وہ اس کا صحیح اور جائز استعمال کرتا رہا ہے تو اسی سمت اس کی ترقی ہوگی۔ تعلیمی فائدے اٹھانے کا عادی بنایا گیا تو وہ اپنی علمی پیاس بجھاتا رہے گا اور اس کی علمی ترقی ہوگی۔ خدانخواستہ اسے بے لگام چھوڑ دیا گیا، تو پھر وہ بھی بے لگام ہوجائے گا اور اس کے اس بگاڑ کی ذرا بھی آپ کو خبر نہ ہوگی۔
اس لیےآپ کی مصروفیات میں سب سے اہم مصروفیت یہی ہونا چاہیے کہ بچہ آپ کی نگاہوں کا مرکز رہے۔ آپ جہاں رہیں، آپ جو بھی کام انجام دیں، آپ کو ہر حال میں بچہ کی طرف توجہ کرنی ہوگی۔ اس کے نشوونما کی پلاننگ اس کی تعلیم وتربیت کی فکر، اس کی صحت اور اس کے مشاغل کے لیے منصوبہ بندی وتفریح،غرض کے ہر بات کا خیال آپ کو رکھنا ہوگا۔
ابتدائی دنوں کی یہ آپ کی توجہ اور تربیت اس کے لیے پتھر کی لکیر کی طرح پختہ و مضبوط ہوگی۔ ظاہر ہے کہ آپ اس کے ایمان وعقیدے سے تو غفلت برت ہی نہیں سکتے اوراس کا بھی انحصار آپ کی شخصیت پر ہے کہ اذان سننے کے بعد گھر کے بڑوں کی حرکت، اور اہتمام عبادت جسے وہ بارہا دیکھ رہا ہے۔ گھر میں بھی اور مسجد میں بھی نمازیں، تلاوت کا معمول، والدین اور دیگر سب بڑوں میں وہ دیکھے گا۔ یہ اس کی عملی تربیت کاسامان ہوگا۔ وہ گھر میں کتابیں دیکھتا ہے، کسی کو لکھتا پڑھتا دیکھتا ہے، یقیناً وہ کتابوں کو اور قلم کو ہاتھ لگائے گا، ہوسکتا ہے وہ آپ کی کتاب پھاڑ دے یا قلم سے آپ کی بیاض میں لکیریں کھینچ کر آپ کی بیاض کا صفحہ خراب کردے۔ آپ بڑی حکمت سے اس کے اس ذوق کی آبیاری کریں، فاضل کاغذات اور قلم اس کے حوالے کردیں۔ لیکن آپ نے اپنے کاغذات اور قلم سے کھیلنے پر اسے ڈانٹ پلادی۔ تو سمجھ لیجیے کہ زہر کا ایک بوند اس کے حلق میں انڈیل دیا۔ وہ پھر کاغذ وقلم سے دوری اختیار کر لے گا
ا ور اسے لکھنے پڑھنے سے نفرت ہوجائے گی۔
اس کے مقابلے میں دلچسپ تصویروں اور کھیل کے سامان کے ساتھ کچھ کتابیں اس کے سامنے رکھ دیں اور پھر ذرا بولنے لگے تو آپ کھیل کھیل میں اسے مختلف اشیاء کے نام سکھائیں۔صرف انگریزی کو ہی معیار نہ سمجھ لیں بلکہ مادری زبان کے صحیح الفاظ، مخرج کی ادائیگی، لب ولہجہ اور انداز بیان پھر ساتھ میں انگریزی اور عربی الفاظ کی طرف بھی توجہ دی جا سکتی ہے۔
اور زبان جب چلنے لگے تو ایسی ویسی باتوں سے اور لوگوں کیے نام بگاڑ کر اس کی زبان بگاڑنے کی غلطی نہ کریں۔ بلکہ اچھے اور معیاری آسان اشعار اور ان کو پڑھنے کا انداز۔ ذرا بڑے ہوجائیں تو ترنم سے پڑھنے کا سلیقہ سکھایا جا سکتا ہے۔ انہیں اچھے اچھے نغمیں سنائیں۔ آج کل یہ سب آپ نیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
شرط یہ ہے کہ آپ کو فکر ہو کہ آپ اپنے بچے کو کچھ بنانا چاہتے ہیں، اس کے روشن مستقبل کی تمنا آپ کے دل میں ہے، تب آپ خود ہی وہ تمام راستے بھی تلاش کرنے لگ جائیں گے، جس کی فکر آپ کو ہوگی اور یہی فکر آپ کے لخت جگر کے مستقبل کو روشن و تابناک بنائے گی، ان شاء الله۔
کو کیا حق پہنچتا ہے کہ بچے سے اس کا یہ حق چھین لیں۔ ابھی تو اس مہربان خدا نے بھی اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی۔ لہٰذا ہمیں بھی اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگانی نہیں چاہیے، جو اس کےلیے ناخوشگوار ہو، جس کو وہ بار گراں سمجھ لے اور ناراض ہو جائے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Aliya Nikhath

    ہم ماؤں کے لئے بہترین یاددہانی۔۔۔جزاک اللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١