درس حد یث
ہے لرزہ فضاؤں میں میری پرواز کے ڈر سے
زمرہ : النور

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قال رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم:-
’’إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاءِ، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا اِبْتَـلَاھُمْ،۔۔۔۔‘‘

’’ بڑا ثواب، بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، بلاشبہ ﷲ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ا س کو کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے،‘‘(صحیح سنن الترمذي، 1954)

   ملک کے موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ Ruling party شدید فرسٹریشن کا شکار ہے اُسے آنے والے دنوں میں اپنی شکستِ فاش صاف نظر آرہی ہےلہٰذا وہ اپنے سارے کارڈ (card) پھینک رہی ہے۔ کسی نہ کسی پہلو سے مسلمان نشانے پر ہیں پریشانیاں اور مصیبتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں ۔ملک میں ہونے والے واقعات کی تیزی اور تسلسل سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زعفرانی گروہوں کی مہم اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
ایسے قوانین کا نفاذ کیا جارہا ہیں جس کے ذریعے تمام دستوریِ حقوق کا خاتمہ ہوجائے جیسے طلاق ثلاثہ، معاملہ بابری مسجد، سی اے اے، این آرسی وغیرہ۔گیا تبدیلی مذہب اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ساتھ حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات میں داعیان ِاسلام کی گرفتاریاں ہیں جو دستور کی دفعات کو روند دیتی ہے۔ جس ملک میں دستور کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش کی جاتی ہیں وہ نئے زمانے کے بحالیِ عروج کی نشانی ہوتی ہے۔
ان داعیانِ اسلام کی گرفتاریوں کو انتخابی سیاست سے جوڑا جا رہا ہے۔ اگر یہ سب انتخابی فائدوں کے لئے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ داعی ایسی چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے یہ گرفتاریاں ا ﷲ کی طرف سے قبولیت کا اعلان ہے۔
وہ داعی جو فتنوں اور آزمائشوں سے دوچار ہو جاتے ہیں جنہیں قیدوبند، تشدد و اذیت اور مختلف قوتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو قوتیں ان پر وار کرتی ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں اور بعض انہیں خریدنا چاہتی ہیں یہ سب قوتیں مثلِ تار عنکبوت ہیں۔ جب کبھی کسی یوسف کو قید کیا جاتا ہے تو وہ حکمران بن جاتے ہیں۔
لیکن ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ وقتی فائدوں کے پیش نظر نہیں ہے بلکہ منصوبہ بند اور منظم انداز میں ایک بڑے مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے یہ سب صرف اور صرف مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونے سے روکنے کے لیے ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ جاگ جائے یا اٹھ کھڑے ہوں تو حالات بدل جائیں گے۔
انسان کے اندر تحفّظ ذات اور اظہار خودی کا فطری جذبہ موجود ہوتا ہے لہٰذا ہر شخص اپنے جسمانی وجود کی بقاء کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہر فرد کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ جن کے ذریعے موجودہ حالات تبدیل ہو سکے۔ اگر ہم واقعی حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے یہ تجزیہ (Analysis) کرنا ہوگا کہ اِن حالات کے اسباب کیا ہیں۔
آج مسلمانوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ نہ تو کسی میدان میں آگے بڑھ پارہے ہیں اور نہ حالات کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کر پا رہے ہیں۔ تعلیم کے معاملے میں ہماری شرح بہت کم ہیں۔ ہم خود اپنے عمل سے اپنی شریعت کو بدنام کر رہے ہیں اور دنیا کو شرعی قوانین کے خلاف بولنے اور اسے بدلنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ نہ تو دین کے معاملے میں ہماری پختگی ہے جو اسلام کو مطلوب ہے، نہ دنیا کے معاملے میں کوئی دسترس حاصل ہے آج بحیثیت اُمت کسی بھی معاملے میں توازن نہیں ہے۔لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ غلطیوں کے ساتھ چلنا یہ ہماری مجبوری نہیں ہماری ناسمجھی ہے۔
ناموافق حالات کسی بھی قوم کے لیے نئے زینےثابت ہوتے ہیں جن کو استعمال کر کے قومیں عروج حاصل کر سکتی ہیں۔ بشرطیکہ وہ ناموافق حالات سے نفرت اور شکایت کا سبق نہ لے بلکہ مثبت ذہن کے ساتھ اپنے لیے نیا مستقبل بنانے میں لگ جائے۔ انسان کوا ﷲ تعالیٰ نے انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے ۔وہ تاریکی میں روشنی کا پہلو تلاش کر لیتا ہے اور وہ یقینًا ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کر سکتا ہے۔ مسائل کے مقابلے میں ان کے حل کی طاقت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔
لہٰذا ہمیں یہ یاد ہونا چاہیے کہ ہم ایک زرّین اور بہترین ماضی کے وارث ہیں جو قوم ایک زرّین اور بہترین ماضی کی وارث ہو وہ اپنے حال اور مستقبل کو اپنے ماضی کے تجربوں، سبق اور عملی کاموں کے ذریعے زرّین بنا سکتی ہے۔
موجودہ مسائل اور حالات سے مایوس ہونے کے بجائے رجوع الی ﷲ ، فرض منصبی اور انبیائی مشن کو ادا کرنے کے لیے قیام کا وقت ہے اور یہی دراصل ان تمام مسائل کا حل ہے۔تبلیغ دین اور اشاعت اسلام اُمتِ مسلمہ کا مقصد وجود اور اس کی دعوت ایک دینی فریضہ ہے اور یہی امت کا اصل مشن ہے۔
کیونکہ تاریخ میں مسلمانوں کو جتنی کامرانیاں اور شادمانیاں ملتی رہی ہیں وہ صرف اور صرف اسی کام کی برکت سے ملتی رہیں اور جب اس منصبی ذم داری سے مسلمانوں نے خود کو عملی طور پر منحرف کردیا تو ہر طرف سے آفتیں اور مصیبتیں برسنے لگیں اور ذلت و نامرادی مقدر بن گئی ۔ دعوت دین کا کام محض فلسفہ یا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ بے تابی دل اور بے قراری روح کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ کیفیت جو انسان کو سیرت کے راستے پر گامزن کر دیتی ہے جو حق کا پیغام دنیائے انسانیت تک پہنچانے کے لیے انسان کو مضطرب اور بے قرار کر دیتی ہے اور اس کے لیے توفیق الٰہی کی طلب اور عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔
اِسی دعوت کو لے کر دربار فرعون میں موسیٰ علیہ السلام صرف اور صرف اﷲ کے بھروسے تنہا گئے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک ستارہ پرست قوم کے حکمران کے سامنے دعوت دین اکیلے ہی پیش کی تھی۔ اِسی فرضِ منصبی کو نبی ؐنے ادا کیا اسی کے نتیجے میں صالح انقلاب رونما ہوا جس کی کوئی نظیر تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور اب یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قول اور فعل کے ذریعے اس کام کو انجام دیں۔ اس بات کو انسانوں تک پہنچانا کسی پراسرار طریقہ پر نہیں ہوگا بلکہ وہ اسباب کے ذریعے ہوگا۔
جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں قدرت ہمارے لیے دعوتی کام کے راستے پیدا کر رہی ہیں۔’’وَسَعٰى لَهَا سَعۡيَهَا‘‘ اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے۔وہ لوگ جوا ﷲ کے پیغام اور اس کے دین کی دعوت کو دوسروں تک پہنچانا اپنی زندگی کا مشن بنالیں جو سچائی اور حق کے راستہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔۔اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے کہ ’’وہ اپنی راہ میں مشقت جھیلنے والوں کو اپنی راہ ضرور دکھائے گا‘‘
داعی اﷲ کے بھروسے کام کرتا ہے۔دعوت دین کے سفر میں ہمیں اپنا بھروسہ صرف اس تنہا خدا پر رکھنا ہے جس کا سہارا اگر مل جائے تو انسان کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی دین حق کے ابلاغ کا یہ کام ہمارا ذاتی کام نہیں خدا کا کام ہے۔جو لوگ اس کام میں آگے بڑھ کر دست و بازوبنیں گے وہ ہمارے نہیں خدا کے مددگار ہوں گے۔۔۔ا ﷲ تعالیٰ اُن کا حامی اور مدد گار ہو گا اور جس کا حامی اور مددگارا ﷲ ہو اسے کون ہرا سکتا ہے۔ان حالات سے نکلنے کے لیے اسباب ضروری ہے کیونکہ کے بغیر اسباب کےا ﷲ کی مدد نہیں آیا کرتی۔
تو واضح ہوا کہ مقصد کے حصول کا پختہ ارادہ ہو اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنے پاس موجود تمام وسائل و اسباب کا احتیاط کے ساتھ استعمال ہو تو ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل کی گمراہی اور بودے پن کو ایکسپوز(Expose) کیا جائے۔ مسلم نوجوان اپنے اندر دین کی اعلٰی سمجھ اخلاق و کردار اور دعوت دین کا صحیح علم ، فہم و شعور اور اس کے حقیقی مزاج سے ہم آہنگی پروان چڑھائیں اور اپنی اصل شناخت کو واپس لائیںاور اگر یہ ہو جاتا ہے تو ملّت کا شاہین جاگ جائے گا۔وہ ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ واپس آئے گا جن سے آج سے ڈرا جا رہا ہے۔اور وہ اس شعر کی تعبیر بن جائے گا۔

ہے لرزہ فضاؤں میں میری پرواز کے ڈر سے
تحریر میرا حال ہو شاہین کے پر سے

داعی اﷲ کے بھروسے کام کرتا ہے۔دعوت دین کے سفر میں ہمیں اپنا بھروسہ صرف اس تنہا خدا پر رکھنا ہے جس کا سہارا اگر مل جائے تو انسان کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی دین حق کے ابلاغ کا یہ کام ہمارا ذاتی کام نہیں خدا کا کام ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١