سوال:میں ایک گھریلو عورت(House Wife)ہوں۔ اکثر شوہر کے دیے ہوئے پیسوں میں سے کچھ بچالیتی ہوں اور حساب پوچھنے پر ان سے جھوٹ بول دیتی ہوں۔ کبھی کسی گھریلوضرورت سے ان کی لاعلمی میں ان کی جیب سے پیسے نکال لیتی ہوں۔ان پیسوں کا مقصد بچوں کی پڑھائی،کپڑے،کھلونے،قریبی رشتے داروں کو تحائف یاایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کے پیسے دینے سے شوہر منع کردیتے ہیں۔ بچے چوں کہ مجھ سے بے تکلّف(Close)ہیں، اس لیے مجھ سے ہی مطالبہ کرتے ہیں اور مجھے ان کا مطالبہ پورا نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔اگرمیں شوہر سے ان کاموں کے لیے پیسے مانگوں تووہ کبھی نہیں دیں گے۔کیامیراشوہر کو بتائے بغیر پیسے جمع کرنا شرعی لحاظ سے غلط ہے؟کیامیرایہ عمل گناہ میں شمار ہوگا؟
جواب:اسلامی شریعت نے نظام ِ خاندان میں کفالت کی ذمے داری مرد پر عائد کی ہے۔ اس پر لازم ہے کہ بیوی کو رہائش فراہم کرنے کے ساتھ اس کا نفقہ بھی ادا کرے۔ نفقہ میں کھانا کپڑا ، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات ِ زندگی شامل ہیں۔ بچے ہوجائیں تو ان کے جملہ مصارف پورے کرنا بھی باپ کی ذمے داری ہے۔
اگر کوئی شخص بیوی بچوں کے تمام حقوق ادا کر رہا ہو، ان کے کھانے پینے،رہنے سہنے اور دیگر چیزوں کے لیے جملہ سہولیات فراہم کر رہا ہو اورتمام ضروریات پوری کر رہا ہو توبیوی کا اس کی اجازت کے بغیر ، اسے اندھیرے میں رکھ کراس کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک عورتوں کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے:
اور اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
( بخاری2554:، مسلم:1829)
شوہر کی غیر حاضری میں اس کے گھر کی حفاظت اور نگرانی میں اس کے مال کی حفاظت بھی شامل ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ عورت اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں کچھ تصرّف نہ کرے ۔
لیکن اگر شوہر بیوی بچوں کی تما م جائز ضروریات پوری نہ کر رہا ہو،صاحب ِ وسعت ہونے کے باوجود بیوی کو گھر کا پورا خرچ دینے میں بخل سے کام لیتا ہواوربچوں کی معمولی خواہشات بھی پوری نہ کرتا ہو تو بیوی کے لیے گنجائش ہے کہ فضول خرچی سے بچتے ہوئے میانہ روی سے گھر کا خرچ چلانے کے لیے حسب ِ ضرور ت شوہرکے کچھ پیسے اس سے پوچھے بغیر لے لے۔احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ سے اس کی اجازت منقول ہے۔
فتح ِ مکہ کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے خواتین سے بھی بیعت لی ۔ ان میں حضرت ابو سفیان بن حربؓ کی بیوی حضرت ہند بنت عتبہ ؓ بھی تھیں۔ انھوں نے آپؐسے دریافت کیا:’’ میرے شوہر ابو سفیان بڑے بخیل آدمی ہیں۔ وہ مجھے خرچ کے لیے جو کچھ دیتے ہیں وہ میری اور میرے بچوں کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس لیے میں ان کے علم میں لائے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیتی ہوں۔کیا ایسا کرنا میرے لیے جائز ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
0 Comments