خودی نہ بیچ

بعض دفعہ مجھے یہ معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آتی اور ایک معمہ بن جاتی ہے کہ آخر یہ غریب امیروں کی اس قدر عزت کیوں کرتے ہیں کہ اُن کے راستے پر اپنی پلکیں بچھا دیتے ہیں، اُن کی خدمت میں ایسے کمربستہ ہوجاتے ہیں جیسا کہ غلام اپنے آقا کا حکم بجالانے کے لیے کمربستہ ہوجایا کرتے ہیں۔ بظاہر اُن امیروں سےنہ اُن کا کوئی مفاد وابستہ ہوتا ہے نہ مستقبل میں اُن سے کوئی فائدہ کی امید ہوتی ہے۔ جب کہ امیر اُن کی جانب ایک نظر ڈالنا بھی کسرِ شان سمجھتے ہیں اور غریب سمجھتے ہیں کہ وہ امیروں کی خدمت کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں۔ اُن کی زندگی کا مقصد ہی جیسے امیروں کی خدمت ہو۔ آخر انسان اپنے آپ کو ذلت کے اِس مقام تک کیوں پہنچا دیتا ہے۔ معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے یہ بھی تونہیں کہ وہ حقیر و کمزور ہوگیا ہو۔ دولت عزت و ذلت کا معیار تونہیں ہے کہ جب انسان دولت سے محروم ہوا ہو تو اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے اور دولت پاکر انسان اپنے آپ کو برتر و اعلیٰ سمجھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے کہ:
’’مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اُس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت و نعمت دیتا ہےتو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا۔ اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔‘‘ ( الفجر: 15۔16)
یہ انسان کا مادہ پرستانہ نظریہ ہوتا ہے جو دولت کو عزت و ذلت کا معیار سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس منظر کی تردید کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کررہا ہے کہ مال و ملنا عزت نہیں اور مال و دولت کا نہ ملنا ذلت نہیں۔ اللہ نے دنیا میں جو کچھ دیا ہے آزمائش کے لیے دیا ہے۔ دولت و اقتدار میں بھی آزمائش ہے اور مفلسی میں بھی آزمائش ہے۔ دولت دے کر دیکھتا ہے کہ وہ شکر کا رویہ اختیار کرتا ہے یا گھمنڈ کرتا ہے۔ مفلسی دے کر دیکھتا ہے کہ وہ صبر کرتا ہے یا واویلا مچاتا ہے۔ یہ امیری اور غریبی دراصل امتحان کے دو پرچے ہیں اور انسان امیری و غریبی کے امتحان کے دو پرچے سمجھنے کے بجائے عزت و ذلت کا معیار سمجھ رکھا ہے اور یہی نا سمجھی ہے جس نے اس کو ذلیل کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بلند و باوقار بنایا ہے سب سے زیادہ اس کو نعمتوں سے نوازا ہے۔ زمین و آسمانوں کی ساری مخلوقات کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے۔ بے شمار صلاحیتیں اور اختیارات عطا کیے ہیں۔
امتیازی اوصاف سے اسے نوازا ہے مگر انسان اپنے مقام و مرتبہ کو نہیں جان پاتا ہے وہ اپنی اس عظمت و بزرگی سے جو اللہ نے اس کو دے رکھی ہے واقف نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنے ہی جیسے انسانوں سے مرعوب ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو

حقیر و کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ اگر انسان اپنے مقام و مرتبہ عظمت سے آگاہ ہوجائے تو یہ آگاہی اس کو اتنا غنی کردیتی ہے کہ وہ کسی کی دولت سے مرعوب ہوتا ہے نہ جا وہ اقتدار سے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دولت و طاقت اور جاہ و اقتدار کے سامنے ان انسانوں کا سر کبھی نہیں جھکا جو خود شناس تھے۔ البتہ جاہ واقتدار نے ان کے سامنے اپنا سر جھکایا ہے۔ شخصیت ہی انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان کی اہمیت اور قدر و قیمت اس کی شخصیت پر منحصر ہوتی ہے۔ انسان کے پاس سب سے بڑی دولت خودداری ہے۔
بلند مقام و مرتبہ سے گرنے کے بعد آدمی کے پاس ایسی کوئی ایسی چیز نہیں رہ جاتی جو قابل قدر ہو۔ اسلام عزت نفس کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا ہے کہ ایک انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کی نظر میں ذلیل ہو۔
انسان کی خودی کو یہاں تک ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سلام کرنے کے آداب میں بتایا گیا ہے کہ سوار شخص پیدل کو سلام کرے۔ اس طرح سوار کے دل میں برتری کا احساس پیدا ہونے سے پہلے ختم کردیا گیا۔ کیوں کہ مرعوب ذہن اس کی خودداری کو ختم کردیتا ہے۔ انسان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے یعنی خود شناسی ضروری ہے۔ خود شناس آدمی کی گردن کسی کے آگے جھک نہیں سکتی۔
امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے تذکرے میں یہ بات پڑھنے میں آئی ہے کہ ان دنوں دیوبند سے ایک اخبار ’’مہاجر‘‘ کے نام سے نکلا کرتا تھا۔ اس اخبار میں نظام حیدر آباد اور علامہ انور شاہ کشمیری کی ملاقات کی خبر اس جلی سرخی کے ساتھ شائع کی جارہی تھی ’’ بار گاہ خسروی میں علامہ جلیل مولانا انور شاہ کشمیری کی بازیابی‘‘۔ اخبار ابھی چھپا نہیں تھاکہ کسی طرح مولانا انور شاہ کشمیری کو اطلاع ہوگئی۔ آپ نے اخبار کے منتظمین کو بلاکر خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر جنگ میں ایک فقیر بے نور ہوں مگر اتنا گیا گزرا بھی نہیں کہ اس طرح کے عنوانات کو برداشت کروں۔ کیسی بارگاہ خسروی؟ پھر کہاں کی بازیابی؟ صرف اتنا لکھتے کہ نظام حیدر آباد سے انور شاہ کی ملاقات۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو اُس دعوت نامے کے بارے میں معلوم ہوا جو ایک رئیس خاتون کی جانب سے تھا جو دارلطلبہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے افتتاحی جلسہ میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ تو مولانا اشرف علی تھانوی یہ کہہ کر شرکت کرنے سے انکارکردیا کہ ان رئیسہ کو اس حاکمانہ لہجے میں بلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس طرح حکم نامہ بھیج کر بلانا خلاف تہذیب ہے۔ یہ بھی کوئی بلانے کا طریقہ ہے؟ کیا وہ کسی رئیس کو ایسے دعوت دے سکتی تھیں؟ لوگوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی یہ کام ان کے منشی کا ہے اس پر مولانا نے کہا کہ اس معاملہ کو بالکل منشی پر کیوں چھوڑ دیا گیا۔
مسودہ دے کر منظوری دیتیں جس طرح حکام کے دعوت ناموں میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس طرح بلانے پر تونہیں آؤں گا۔ لوگوں کے اصرار پر آبھی گیا تو اس رئیسہ سے ملوں گا نہ اُن کا کوئی ہدیہ قبول کروں۔
اودھ کے حکمران واجد علی شاہ کو انگریزوں کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اُن کی بیوی بیگم حضرت محل پنہال چلی گئیں۔ ایک عرصے کے بعد لارڈ جنگ نے عام معافی نامہ جاری کیا۔ اس میں لکھا کہ اگر چہ عیسائی مذہب برحق ہے لیکن دوسرے مذہب والوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائےگی۔ تو انھوں نے کہا کہ انصاف بند حکومت کو کسی مذہب کے برحق ہونے یا باطل ہونے سے کیا سروکار؟ سور کھانے اور شراب پینے کو جائز قرار دینا، چربی لگے کارتوسوں کو دانتوں سے کٹوانا، آٹے اور مٹھائیوں میں سور کی چربی ملانا، سڑکیں بنانا، مندروں اور مسجدوں کو گرانا، گرجے بنانا، گلی کوچوں میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے پادریوں کو بھیجنا، ان سب باتوں کی موجودگی میں لوگ کیسے بھروسہ کریں گے کہ ان کے مذہب محفوظ رہیں گے۔
یہ ہمارے اسلاف کی خوداری کے چند نمونوں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود شناسی انسانوں میں اخلاقی شعور پیدا کرتی ہے۔
سیرت و کردار کا انحصار درحقیقت اخلاقی شعور پر ہے۔ اخلاق کی عظمت ہی انسان کو عظیم بناتی ہے۔ انسان کی حقیقی طاقت و قوت اس کی سیرت ہی ہے۔
ایک باکردار آدمی زندگی کے تعلق سے بیدار رہتا ہے۔ یعنی وہ زندگی کی اہمیت کو سمجھتا ہے دوسروں کے سامنے سر جھکاکر ان کو بے وقعت نہیں کرتا۔ وہ ٹوٹتا ہے مگر جھکتا نہیں۔
یہ ہمارے اسلاف کے خوداری کے چند واقعات ہیں جو ہم کو سبق دے رہی ہیں۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔

یہ ہمارے اسلاف کی خوداری کے چند نمونوں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود شناسی انسانوں میں اخلاقی شعور پیدا کرتی ہے۔سیرت و کردار کا انحصار درحقیقت اخلاقی شعور پر ہے۔ اخلاق کی عظمت ہی انسان کو عظیم بناتی ہے۔ انسان کی حقیقی طاقت و قوت اس کی سیرت ہی ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١