ملک کی خدمت کرنے کی خواہش مندصدف چودھری

آج ایک نیا نام پڑھنے کو مل رہا ہے، جس نے ملک بھر میں کامیابی کی ایسی مثال قائم کی، جو قابلِ تعریف ہے۔وہ ہے ’صدف چودھری۔‘
صدف ’سرو یوپی گرامین بینک‘کی شاخ دیوبند میں ملازمت کرنے والے اسرار احمد اور شہباز بانو کی بڑی بیٹی ہیں ۔ صدف کاشت کاری کے لیے مشہور مغربی اتر پردیش کے گھاڑا برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جس کا شمار پسماندہ طبقات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے امروہہ سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے پنجاب کے جالندھر سے انجینئرنگ کی۔ ستائیس سالہ صدف نے حال ہی میں یو پی ایس سی کے سول سروسز امتحان میں ملک بھر میں 23 واں مقام حاصل کیا ہے اور مسلم امیدواروں میں سرفہرست ہیں۔ یہ ان کی یو پی ایس سی کے امتحانات میں دوسری کوشش تھی۔
صدف اسنیہا دوبے کو کافی وقت سے جانتی ہیں اور ان کی طرح فارین سروسز میں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں۔ اتفاقاً یو پی ایس سی امتحان میں اس سال ملک بھر میں ٹاپ کرنے والے شبھم کشواہا کے والد بہار گرامین بینک میں منیجر ہیں۔صدف کے پاس آل انڈیا رینک اور او بی سی کوٹہ کے پیش نظر آئی ایف ایس سی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔
آئی ایف ایس سی کے لیے انتخاب کے دوران کیے جانے والے سوال پر صدف نے کہا کہ’’ہاں اس کا امکان ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یو پی ایس سی میں میرا سبجیکٹ بین الاقوامی معاملات سے متعلق تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’میں نے سول سروسز کے لیے ملٹی نیشنل کمپنی کی جاب چھوڑ دی اور اس کے بعد 2 سال تک محنت کی۔ ظاہر ہے کہ میں یہاں صرف ملک کی خدمت کے لیے آئی ہوں۔ آج ملک کی بیٹی ا سنیہا دوبے کی تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ میں بھی مستقبل کی ا سنیہا دوبے بننا چاہتی ہوں۔ پھر بھی اگر ملک کو لگتا ہے کہ میں آئی اے ایس کے طور پر بہتر کام کر سکتی ہوں تو میں اس کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار ہوں۔‘‘
جس دن یو پی ایس سی امتحان کے نتائج کا اعلان ہونے والا تھا، اس دن صدف چودھری کے گھر کا ماحول تناؤ بھرا تھا اور والدہ کے ساتھ ساتھ تمام اہل خانہ دعائیں کر رہے تھے۔ صدف کے چھوٹے بھائی محمد شاد نے کہا کہ صدف کو پچھلے سال کے امتحان میں تھوڑے کم نمبرات حاصل ہوئے تھے، اس لیے اس مرتبہ دل تھوڑا بے چین تھا، لیکن یو پی ایس سی کے امتحان میں صدف کو شاندار کامیابی حاصل ہونے کے بعد گھر کا ماحول پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ روڑکی کی گرین پارک کالونی میں ان کے گھر کے باہر مسلسل شور اور چہل پہل نظر آ رہی ہے۔ شہر کا ہر نامور شخص انہیں مبارک باد دینے کے لیے وہاں پہنچ رہا تھا۔ ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر بڑے فخر کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہیں۔ رشتے دار اور دوست احباب کے فون لگاتار چل رہے ہیں اور اس خوشی کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کے گھر کا کوئی بھی فرد پچھلے تین دنوں سے سو نہیں پایا ہے۔
صدف کا کہنا ہے کہ انہیں یقین تو تھا کہ نتیجہ اچھا ہوگا، لیکن نتیجہ توقع سے بھی

زیادہ بہتر ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے امتحان کے لیے کوئی کوچنگ نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کوچنگ نہیں لی، لیکن تیاری 20 سال پرانی ہے۔ انہیں پڑھائی کرنا بہت پسند ہے۔ جب بچپن میں وہ اپنے نانا کے گھر سہارنپور جاتی تھیں تب گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ ان کی اسکول کی کتابوں کا مطالعہ کر لیتی تھیں۔ اب بڑی کلاسوں میں جب انہیں دوبارہ پڑھنا پڑا، تو پرانا پڑھا ہوا یاد آ جایا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہوں نے اتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے۔
صدف کے پاس یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے کوئی بڑی حکمت عملی نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’صبح ناشتے کے بعد جب تک دل کرتا تھا میں مطالعہ کرتی تھی۔ ہفتہ وار ایک بار خود کا جائزہ لیتی تھی۔ مگر یہ سچ ہے کہ میں نے جو کچھ بھی کیا خود سے کیا اور بغیر کوچنگ کے کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘
صدف کے بھائی سکندر علی نے کہا:’’میڈیا والوں کو ایک بار پھر یہاں آنا پڑے گا، کیونکہ صدف سے چھوٹی بہن صائمہ چودھری بھی بہت باصلاحیت ہے اور وہ یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے کی تیاری بھی کر رہی ہیں اور خود صدف ان کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ صدف کہتی ہیں:’’یہ حقیقت ہے کہ صائمہ نے ہمیشہ ٹاپ کیا ہے اور وہ مجھ سے زیادہ قابل ہے۔ اللہ اسے بھی کامیاب کرے۔‘‘ صدف نے ایک اور بات بتائی کہ انہوں نے ان کی والدہ کا داخلہ کالج میں کرایا تھا۔ صدف کہتی ہے:’’جب میری امی نے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا تو ان کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد پانچ بچے بھی ہو گئے، لیکن میں دیکھتی تھی کہ امی میری کتابیں پڑھتی رہتی ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ امی پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن اب
وہ ایک ماں تھیں، میں نے اس کے لیے انہیں تیار کیا اور جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو امی نے بھی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ میں نے اپنی کیمیکل انجینئرنگ جالندھر سے مکمل کی اور امی نے بی اے مکمل کر لیا۔‘‘
صدف نے کہا :’’بچوں کو فضول کاموں سے بچنا چاہیے۔ کیوں کہ ضرورت سے زیادہ ہر چیز فضول ہے۔ میرے خیال میں ہمیں خاندان میں مطالعہ کے ماحول کا فائدہ ملا۔ میرے چھوٹے بھائی نے حال ہی میں 96.5 گریڈ حاصل کیا ہے۔ وہ اس سے خوش نہیں ہے اور کہتا ہے کہ امتحان ہونا چاہیے تھا۔ کورونا کی مدت کے دوران اسکولوں کی جانب سے کی جانے والی تشخیص مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ میرے خیال میں مطالعے کو تندہی سے کیا جانا چاہیے اور گھر میں صاف مسابقتی ماحول ہونا چاہیے۔ ہم بھائیوں اور بہنوں کو لگتا ہے کہ ہر ایک کو ایک دوسرے کا بھلا کرنا ہے۔ اس میں ہمارے والدین کا سب سے بڑا کردار ہے، کیوں کہ انہوں نے ہی ہماری اس طرح کی پرورش کی ہے۔‘‘
صدف کے ماموں ندیم پردھان نے ایک زبردست بات کہی کہ کہانیاں کامیاب ہونے کے بعد بدل جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب کچھ رشتہ دار کہتے تھے کہ بیٹیوں کو پڑھنے کے لیے باہر نہیں بھیجنا چاہیے۔ آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صدف چودھری کمال کر دیا!
صدف کہتی ہیں کہ آج ہمارے معاشرے سے صرف 40 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اگر یہ تعداد بڑھتی ہے تو سماج میں بڑی تبدیلی آئے گی۔اس لیے ہمیں ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
صدف کہتی ہیں کہ آج ہمارے معاشرے سے صرف 40 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اگر یہ تعداد بڑھتی ہے تو سماج میں بڑی تبدیلی آئے گی۔اس لیے ہمیں ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بلاشبہ آج کل کے ماحول نے افراد کے لئے پاکباز رہنے کو سخت مشکل بنادیا ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس ماحول کی خرابی کو حیلہ بناکر افراد اپنے لئے اخلاقی بے قیدی (بے راہ روی) کے جواز کی راہ نکالنے لگیں۔

(رسائل و مسائل دوم ص، 239)
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١