کھیت ، دہقان ، خوشہ گندم اور روزی !
زمرہ : ادراك

      ایوان حکومت میں سیٹوں کی اکثریت اور پے درپے مل رہی انتخابی کامیابیوں کے نشے میں دھت مودی حکومت نے ہندوستان کی پارلیمان میں پچھلے سال ستمبر کے تیسرے ہفتے میں زراعت کے متعلق یکے بعد ديگرے تین بل متعارف کرائے جنھیں آنا ً فاناً میں قانونی حیثیت دے دی گئی۔بل متعارف کروانے اور انہیں پاس کرانے کا کام اتنی سرعت اور جلدبازی کے ساتھ کیا گیا کہ جن کے ’’مفادات کےتحفظ ‘‘کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا ان سے مشورہ کرنے کی زحمت بھی گواراہ نہیں کی گئی۔
ان قوانین میں ایک ’زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020‘ ہے جبکہ دوسرا ’کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی سروس قانون 2020‘ ہے جس میں قیمت کی یقین دہانی اور معاہدے شامل ہیں۔ تیسرا قانون ’ضروری اشیا (ترمیمی) قانون‘ ہے۔
ان تینوں قوانین کے منظور ہونے کے بعد ہی ملک بھر کے کسانوں میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔ اور یہ غصہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ملکی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ ویسے تو ملک کے کونے کونے میں ان قوانین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی لیکن ملک کی راجدھانی دہلی کی دو مخصوص سرحدوں پر کسانوں کے پڑاؤ نے آندولن کو عالمی بنا دیا، جس کی گھن گرج آج تک ملک بھرمیں سنی جا رہی ہے۔ اس بیچ حکو مت کی جانب سےمذاکرات کی متعدد کوششیں بھی ہوئی لیکن تمام ناکام رہی۔
بالآخر 19؍ نومبر کواچانک وزیر اعظم نریندرا مودی نے دیش کے نام اپنے پیغام میں بلا شرط ان تینوں قوانین کو رد کرنےکا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد سے کسانوں نے طرف اپنی جدوجہد پر ہوئی کامیابی اور سرکار کے ظالمانہ اور استحصالی رویے پر قدغن لگانے کی وجہ سے خوشی اوراطمینان کا اظہار تو کیا ہے لیکن انہوں نے آندولن ختم کرنے اور واپس گھر لوٹنے کے سرکار کے آہوان کو مسترد کر دیا ہے۔
اسکی وجہ یہ کہ کسانوں کا یہ آندولن کوئی نیا آندولن نہیں ہے جو محض مذکورہ تین زرعی قوانین کے پشت پر کھڑا ہو گیا تھا۔ بلکہ ماضی قریب میں بھی اس سے قبل کسانوں نے مختلف مطالبات کے لئے بڑے مظاہرے کیے ہیں۔2017میں تمل ناڈو کے کسانوں نے دہلی میں کئی دنوں تک جنتر منتر پر مظاہرے کیے ۔ 2018    میں مہاراشٹرا کے کسانوں کی تحریک نے زور پکڑا ۔ اس کے علاوہ بھی مدھیہ پردیش ، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں بھی وقتا فوقتا کسان اپنی مانگوں کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں ایم ایس اپی کو قانونی حیثیت دینا، قرض معافی، فصل کا مناسب دام وغیرہ شامل ہیں۔
کسانوں کے واقعی کیا مطالبات ہیں ، اس بات کو سمجھنے کے لئے کسانوں کی موجودہ حالت کو سمجھنا ضروری ہے۔

1۔ خشک سالی کا بڑھتا دائرہ:

 (Drought Early Warning System (DEWS کی مارچ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کا ٪42 حصہ سوکھے سے متاثر ہے۔ جس سے تقریبا 500 ملین یعنی٪ 40 آبادی کے متاثر ہونے کے امکان ہیں۔
2۔ کسانوں کو لاگت کے مطابق بازار میں دام نہیں مل رہے ہیں۔ اس لئے صرف 2016میں کسانوں کو 34000کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔
3۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے کھاد اور بیج دونوں کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے جو براہ راست کسانوں کی آمد پر اثر انداز ہوتاہے۔ 8اپریل 2021کی ایک خبر کے مطابق ‘انڈین فارمرز فرٹیلائزرس کو آپریٹو (IFFCO )نے 58٪ کا اضافہ کیا ہے ۔ اس کا صاف طور پر مطلب یہ ہے کہ مشہور کھاد’ ڈی اے پی‘ کا پچاس کلو کا ایک تھیلا جو پہلے 1200کا آتا تھا اب وہ 1900کا خریدنا پڑے گا۔
4۔ آمد کے کم ہونے کے سبب کسانوں کی اکثریت مقروض ہے۔
Situation Assessment of Agricultural Households and Land Holdings of Household in Rural India
کی ایک رپورٹ کے مطابق زرعی گھرانوں کی تقریبا آدھی آبادی مقروض ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 74121 روپئے ہر گھر پر اوسطاً قرض ہے ۔
5۔ قرض کے بوجھ تلے دبے کسان بالآخر خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ این سی آر بی کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق خود کشی کے کل واقعات میں سے٪ 7.4 واقعات کسانوں سے متعلق ہیں۔ صرف 2019 میں 10281 کسانوں نے خود کشی کی تھی۔
نئے تینوں قوانین سے قبل کسانوں کی مذکورہ حالت زارکے پیش نظر کسانوں کی تنظیموں کے مطالبات یہ تھے ۔
1۔ سرکار اپنے وعدے یعنی ایم ایس پی کو یقینی طور پر نافذ کرانے کے لئے اسے قانونی حیثیت دے۔ ایم ایس اپی کا سیدھے سادھے الفاظ میں مفہوم بس اتنا ہے کہ سرکار فصل کی لاگت کا ڈیڑھ گنا دام دے۔ مثلا اگر ایک کونٹل گیہوں پر لاگت اور خرچ 1000روپئے آتا ہے تو سرکار منڈی میں گیہوں کی قیمت 1500روپیہ دے ۔
2۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ کسانوں کے قرض معاف ہوں۔
3۔ کسانوں کو ملنے والے قرض کی سود کی شرح کم کی جائے۔
4۔ سوامیناتھن کمیشن کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔
لیکن سرکار نے ان مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی اور ستم بالائے ستم حکومت نے تین نئے قوانین پارلمان سے منظور کر الئے جو نہ صرف ان مطالبات کو نظر انداز کر رہے تھے بلکہ کسانوں کے لئے مزید تشویشناک صورتِ حال سے دو چار کرنے والے ثابت ہو رہے ہیں۔ پہلے قانون کے پیش نظر پہلا خدشہ کسانوں کو یہ ہے کہ اسٹاک بڑھ جائیں گے اور اسٹاک کی لامحدودیت مالدار اور دھنا سیٹھوں کے کنٹرول کو اور مزید بڑھا دےگی۔ وہ جب چاہیں گے قیمت بڑھائیں گے اور جب چاہیں گے قیمت گھٹائیں گے۔ جس سے سیدھے طور پر کسانوں کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرے قانون کے ضمن میں کانٹریکٹ فارمنگ کو بڑھاوا دینے کی بات کی جارہی ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کانٹریکٹ اس طرح سے لکھے جائیں گے کہ کسانوں کے پاس بارگینننگ کی طاقت نہیں بچے گی اور اس پر مزید ظلم یہ کہ اس کانٹریکٹ کے خلاف کسان عدلیہ کا رخ بھی نہیں کر سکتے ہیں تو پھر استحصال کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ تیسرا قانون جس کے سب سے زیادہ خطرناک ہونے کے امکانات ہیں ۔ جس میں کسانوں کی منڈی کے متوازی پر ائویٹ منڈیوں کے قیام کوآسان بنایا جائے گا۔ جسکا اثر یہ پڑے گا کہ کچھ وقت بعد سرکاری منڈی اپنی سانسیں گن رہی ہوگی او ر کسانوں کا آخری سہارا بھی ساتھ چھوڑ دے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ ہر فرقہ پرست پارٹی اور انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتیں اپنا ایک مخصوص’ کھلے بازار ‘اور سرمایا دارانہ نظام کی وکالت کرنے والا ذہن رکھتی ہیں۔ یہ دونوں نظریے ایک دوسرے کو پالنے پوسنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ 2014 کے بعد مودی حکومت نے ان دونوں سطحوں پر تیزی سے اور دوسری بار اقتدار میں آنے پر2019میں’ بہت تیزی ‘سے ان پر عمل آوری کرنی شروع کی تھی۔ ایک طرف اس طرح کی معاشی پالسی جن کے بوجھ تلے مزدور، کسان اور غریب دب کر رہ جائے اور دوسری جانب اس طرح کے اقدام کہ عوام کو مذہب، ذات اور قوموں کے نام پر تقسیم کیا جا سکے۔ دونو ں میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہیں اور دیش اس کے نتیجے میں تباہی کی جانب گامزن !
محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان قوانین سے صاف طور پر دیش کی کارپوریٹ لابی کو بالواسطہ فائدہ پہنچانے کی ناپاک کوشش اور پس پردہ سازش ہو رہی ہے۔جس کے نتیجے میں کھیت سے ’’خوشہ گندم اگانے والے دہقاں‘‘ کو نہ صرف یہ کے ’روزی ‘نہیں مل رہی بالکہ سرکاروں اور حکومتوں کی بدنیتی اور استحصالی پالیسیز کے تحت وہ اپنے وجود کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں! کسانوں کی یہ تحریک اسی سنگھرش کا ملک گیراظہار تھا۔ جو ان تینوں قوانین کو واپس کردینے کے اعلان پر اختتام کو نہیں پہنچے گا بلکہ مسلسل جاری رہے گا جب تک کہ ان کے اصل اور حقیقی مطالبات تسلیم نہ کر لیےجائیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١