نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحکمتِ انقلاب

وہ دانائے سُبُل مولائے کُل ختم الرُسُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ

نبی کریم ؐ کی سیرت دراصل کامل اخلاق و کردار کا بے نظیر نمونہ ہے آپ ؐتمام عالم کے لیے باعث رحمت ہیں اور اس کامل ذات کی سیرت کے کسی ایک حصے کو بھی قلم بند کرنا ان ناتواں ہاتھوں کے لیے ممکن نہیں لیکن یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
نبی اکرمؐ کی ذات اور اس کے ذریعے آنے والی تبدیلی ہم تمام کے ذہنوں میں واضح ہے۔ واقعات کا انبار ہے جو ہر موقع اور ہر لمحے میں آپ ؐ کی کاوشوں اور محنتوں کا ثبوت ہمیں دیتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے ظلم و جبر اور ضلالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو حکمت اور محبت سے پر نور کیا اور ایسا انقلاب برپا کیا جس نے انسان کو انسانیت کی معراج پر پہنچایا۔
نبی کریم ؐ کی بعثت کا مقصد خدا کی ذات سے غافل اور باغی زمانے کو خدائے واحد کی عبادت کی طرف راغب کرنا تھا ۔ جتنا بڑا مقصد ہو اتنا ہی اہم مقصد کو پورا کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ نبیؐ کا مقصد عظیم تر تھا اور اسی مناسبت سے نبی اکرم ؐکی ذات، اخلاق و کردار، آپ ؐکی حکمت عملی اور معجزۂ قرآن انقلاب کی راہوں میں لازوال نمونہ ہے۔
حکمت کے مختلف معنی ہیں لیکن اصولی طور پر حکمت انسان میں موجود وہ صفت ہے جو اسے باقی تمام لوگوں سے جدا کرتی ہے۔ انسان کا اخلاق،کردار ، رویہ ، الفاظ، علم اور عمل سب کچھ حکمت کےبغیرنا مکمل ہے ۔ حکمت انسان کو اندھیروں میں روشنی اور غلامی میں آزادی عطا کرتی ہے ۔ حکمت وہ صفت ہے جس نے انبیائے اکرام کو فوقیت عطا کی اور انھیں اتنی طاقت فراہم کی کہ وہ بغاوت اور ظلم کے خلاف مسکراتے چہرے لے کر آگے بڑھتے رہیں ۔
قرآن میں متعدد مقامات پراللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو ’’حکمت‘‘بحیثیتِ نعمت عطا کرنے کا ذکر کیا ہے ۔ سورۂ البقرۃ: 269میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے واضح الفاظ میں اپنی فراخ دستی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جسے حکمت سے نوازا جائے وہ دراصل ایک بڑی دولت سے نواز دیا جاتا ہے۔‘‘
نبی اکرم ؐکے متعلق بھی قرآن میں بیش تر مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ انھیں کتاب اور حکمت عطا کی گئی۔
یہی وہ حکمت تھی جس کے ذریعہ آپ ؐنے خدا کی وحدانیت کی منکر قوم کو خدائے واحد کے آگے دل کی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ سجدہ ریز کروایا۔
آپ ؐکی زندگی کا ہر لمحہ اس حکمت کی نشان دہی کرتا ہے۔ نبوت کی شروعات میں خاموشی کے ساتھ عزیز و اقربا کو ایمان کی چاشنی سے واقف کروانا ہو یا دعوت عام کے نتیجے میں اٹھنے والے باغیانہ طرز عمل کو صبر اور استقامت سے برداشت کرنا ، حکمت کے یہ عنصر نبی اکرمؐ کی ذاتی زندگی میں بھی واضح نظر آتے ہیں جہاں نبیؐ نے اپنی ازواج کا انتخاب بھی دین کی اشاعت اور مختلف قبائل کے ساتھ معاملات استوار کرنے کی مناسبت سے کیا۔
خدائے لاشریک کی بندگی کی طرف لوگوں کو راغب کرتے ہوئے اٹھایا گیا ہر قدم آپ ؐ کی حکمت کا بے مثال نمونہ تھا۔ تیرہ سال مکہ والوں کے ظلم کو بے آواز سہنا اور نظر بندی کی تکلیفوں کو صبر سے برداشت کرنا، طائف کی وادی میں رحمت کا پروانہ لے کر جانا اور ان کی جہالت اور بے رحمی کا نشانہ بن کر تکلیف اور درد میں لوٹنے کے باوجود زبان پر ان کے لیے دعا کا جاری رکھنا آپؐ کے صبر اور استقامت کی عمدہ مثالیں ہیں اور یہ آپ ؐکی حکمت انقلاب کا ایک اہم حصہ تھا ۔
حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دینا اور خود خدا کی طرف سے آنے والی نوید کا انتظار کرنا پھر یثرب کے لوگوں سے معاہدہ طے کرنا، غرض نبی اکرم ؐکا ہر فیصلہ آنے والے انقلاب کے لیے حکمت سے لبریز قدم تھا۔
مدینہ ہجرت کے بعد انصار و مہاجرین کے بیچ نظام مواخات ایک ایسی ترکیب تھی جس نے عوام کے دلوں کو موم کر دیا ۔ مسجد نبوی کی تعمیر اور پھر اس کے اطراف علم حاصل کرنے والوں کے لیے مراکز قائم کرنا وہ قدم تھا جس نے علم کی اہمیت کو لوگوں کے دلوں میں واضح کیا اور پھر وہیں سے اصحاب صفہ جیسی علم کی شمعیں روشن ہوئیں۔
مدینے میں آپ نے تمدن و معاشرت کا وہ نظام قائم کیا کہ اطراف و اکناف کے قبائل اسلام کی طرف پروانوں کی طرح کھنچے چلے آئے۔ انصاف، عدل اور ایثار کی ایسی مثالیں قائم ہوئیں جو مسلمانوں کے دلوں میں موجود ایمان کی حرارت کو مستقل تقویت دیتی رہیں۔
نبی اکرم ؐ نے ہر لحظہ ہر آن اپنے نصب العین کو سامنے رکھا اور مسلمانوں کے بیچ اخوت کا ایسا رشتہ استوار کیا جس کے بعد ان کے لیے معاشی اور سماجی مسائل غیر اہم ہو گئے۔ خط و کتابت کے ذریعے اسلام کی دعوت کو مدینہ کے اطراف موجود قبائل تک پہنچانے کے لیے مختلف وفد روانہ کرنا آپ ؐ کی فراست کا عملی نمونہ ہے۔
مسجد نبوی کو مرکز بنا کر عبادات اور تعلیم قرآن کے مراکز کے ذریعے اصحاب کی ذہنی،عملی اور اخلاقی تربیت و نشونما کا سامان فراہم کیا ۔ اجتماعی زندگی کے باقاعدہ نظم کی بنیاد رکھی اور ایسی ریاست کی تشکیل دی جہاں ہر عمر اور نسل کا انسان نبیؐ کی ایک آواز پر اپنا سر خدا کے آگے خم کرنے اور دین کی خاطر قلم کروانے کو تیار تھا۔
نبی کریم ؐ کے کئی اقدامات بظاہر معمولی نظر آ سکتے ہیں لیکن در حقیقت انقلاب کی راہ میں اٹھائے جانے والے حکمت اور بصیرت سے لبریز اقدام تھے جن کی نظیر ہمیں نہیں مل سکتی۔
مدینے کی یہ جماعت مسلمانوں کے لیےانتہائی قیمتی اور یہ ریاست انتہائی اہم تھی۔ اس کی حفاظت اور بقا کے لیے آپؐ نے مختلف قسم کی دفاعی تدابیر اپنائیں ۔
آپ ؐنے مدینہ کے تجارتی مرکز ہونے کا مکمل فائدہ اٹھایا ، قریبی قبائل کو ایک نظم میں پرو دیا اور اس نظم کے انتظامی امور اپنی نگرانی میں رکھے ۔ نتیجتاً مدینہ ایک ایسا مقام بن گیا جس کا تقدس ہر دل میں روشن ہوگیا۔ اس کے بعد کئی قبائل سے معاہدات کیے اور انھیں سیاسی طور پر اپنے حق میں کیا ۔ یہ معاہدات آپ ؐ کی سیاسی بصیرت کا نادر نمونہ تھے ۔
ان باحکمت اقدامات کے ذریعے آپ ؐنے قیادت کی بہترین مثال قائم کی جس کے بعد انقلاب بس کچھ قدم دور تھا۔
مختلف مہمات اور وفود کے ذریعے آپ ؐنے قریش کی ہر حرکت پر نگاہ رکھی، اس کے بعد ہونے والے تمام واقعات اور غزوات نبی ؐ کی پیشگی حکمت عملی کا نمونہ بنتے گئے۔ غزوۂ بدر میں آئے قیدیوں کو علم حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا ہو یا غزوۂ احد میں صحابہ کو مخصوص پہاڑ پر ہر حال میں تعینات رہنے کا حکم دینا یا غزوۂ خندق میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے کو قبول کرنا یہ تمام آپ ؐ کی اعلیٰ قیادت کا بے نظیر نمونہ ہیں۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ اپنے آپ میں آپ ؐ کی سیاسی بصیرت اور حکمت کی ایسی مثال ہے جس کے ذریعے ایک بڑی طاقت بنا کسی خونریزی کے مصالحت پر آمادہ ہوگئی۔ حج کی نیت سے حضور ؐ مکہ روانہ ہوئے لیکن قریش نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روکا جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا ، جہاں قریش کی کچھ ایسی شرائط پر آپ ؐ نے منظوری دی جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔ جس پر صحابہ کرام نے اختلاف کی ممکنہ کوشش کی لیکن آپ ؐ نے بہت ہی عمدہ اور مختصر سے انداز میں اسے رفع کر دیا ، کیوں کہ آپ ؐ کے ذہن میں اس معاہدے کے ذریعے عظیم مقاصد حاصل کرنے کے ارادے تھے اور اس وقت صحابہ کرام کے لیے انھیں سمجھنا ممکن نہیں تھا۔ مصالحت کی فضا قائم کرنے کے لیےآپؐ نے تمام حالات سے گزرنا گوارا کیا اور اپنے محبوب جماعت کے جذبات کی قربانی تک دی۔
قریش خود آپ ؐ کی اس حکمت اور بصیرت سے لاعلم تھے اور بظاہر آپؐ کا وقتی طور پر دب جانا ایسے نتائج کا ذریعہ بنا جس نے اسلامی انقلاب کی رفتار کو یکسر بڑھا دیا۔
اس کے بعد فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا جہاں قریش نے اس بات کا پروپیگنڈا کیا کہ مسلمان بھوک اور بخار کی وجہ سے اپنی حالت خراب کر بیٹھے ہیں، اس وقت آپؐ نے حکم دیا کہ’’مکہ میں داخل ہو تو خوب مونڈھے کھول کر سینہ تان کر چلو اور پھیل پھیل کر طواف کرو‘‘یہ دراصل ایک ایسی مصلحت تھی جس کے ذریعے آپؐ مسلمانوں کی قوت اور ان کے ارادے کی مضبوطی کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ ؐسیاسی تقاضوں پر گہری نظر رکھتے اور ان کا پورا اہتمام کرتے۔
فتح مکہ کے بعد آپ ؐنے رحم دلی اور درگزر کی مثال قائم کی اور تمام مکہ والوں کے علاوہ اپنے جانی دشمنوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام قبول کیا اور اس فتح نے اسلام کے دامن کو اور وسیع تر کر دیا۔
23 سال کی مختصر مدت میں آپ ؐنے جس صبر و استقامت اور حکمت کے ساتھ انقلاب بپا کیا اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے ۔ بغاوت کی تاریکیوں سے اخلاص کی روشنی تک کا یہ سفر رسولؐ کے اخلاق و کردار ، عمدہ کلام اور سیاسی حکمت و بصیرت کا بہترین نمونہ ہے جس کی پیروی ہمارے لیے لازم اور خدائے واحد کی زمین سے باطل کی طاقت مٹانے کا واحد ذریعہ ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ.

حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دینا اور خود خدا کی طرف سے آنے والی نوید کا انتظار کرنا پھر یثرب کے لوگوں سے معاہدہ طے کرنا، غرض نبی اکرم ؐ کا ہر فیصلہ آنے والے انقلاب کے لیے حکمت سے لبریز قدم تھا۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

3 Comments

  1. Test

    بہت خوب. آپ کے کے لکھنے کااسلوب بہت اچھا ہے.
    مضمون کی ترتیب میں اور بہتری ہو سکتی ہے اور پڑھنے والے کے آسانی کے لیے پیراگراف اور اس کا عنوان کی طرح آپ اپنے آرٹیکل کو شکل دے سکتی ہیں.
    جزاک اللہ خیر

    Reply
  2. Test

    بہت خوب. آپ کے کے لکھنے کااسلوب بہت اچھا ہے.
    مضمون کی ترتیب میں اور بہتری ہو سکتی ہے اور پڑھنے والے کے آسانی کے لیے لیے پیراگراف اور اس کا عنوان کی طرح آپ اپنے آرٹیکل کو شکل دے سکتی ہیں.
    جزاک اللہ خیر

    Reply
  3. محمد خالدمبشرالظفر

    اللہ توالی تمہاری صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرے۔ ماشاءاللہ اچھی کاوش ہے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١