قرآن مبین کےادبی اسالیب

حضور اقدس ؐکو بارگاہ خداوندی سے جو معجزہ عطا کیا گیا تھا ،وہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید ادب کا سب سے اعلی اور فصاحت و بلاغت کا عظیم ترین نمونہ ہے۔ ایسا نمونہ جس نے وقت کے فصحا اور ادبا کو یہ چیلنج دیا کہ وہ قرآن کی ایک آیت جیسی آیت ہی تخلیق کردیں اور بالآخر سب قرآن کے اس چیلنج آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو ئے۔
اس لیے یہ بہت اہم ہو جاتاہے کہ قرآن کریم کے معانی اور مفاہیم پر غور و فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے طرز ادا، نحوی ساخت اور ادبی اسلوب کا مطالعہ کیا جائےکہ آخر جمالیات کا کون سا عنصر ہے اورحسن کی وہ کون سی ادا ہے جو قرآن مجید کو بیان کا ایسا شاہکار بنا دیتی ہے۔
ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی صاحب کی مذکورہ کتاب ’’قرآن مبین کے ادبی اسالیب ‘‘ اسی رازکو واضح کرنے کی ایک کوشش ہے۔
پیش نظر کتاب میں فاضل مصنف نے شروعاتی ابواب میں ’’اسلوب کیا ہے ؟‘‘ اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالی ہے اور پھر ’’اسلوب ‘‘کی لازمی خصوصیات پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ بعد کے ابواب میں قرآن مجید کے بعض اسالیب پر نکات کی شکل میں گفتگو فرمائی ہے۔ ہر خصوصیت کو قرآنی آیات اور کلام عرب کے دلائل سے مزین کیا ہے۔ اس طرح کل 19 اظہار خیال فرمایا ہے۔ بعد کے ابواب میں قرآن مجید کے بعض اسالیب پر نکات کی شکل میں گفتگو فرمائی ہے۔ ہر خصوصیت کو قرآنی آیات اور کلام عرب کے دلائل سے مزین کیا ہے۔ اس طرح کل 19اظہار خیال فرمایا ہے۔ بعد کے ابواب میں قرآن مجید کے بعض اسالیب پر نکات کی شکل میں گفتگو فرمائی ہے۔ ہر خصوصیت کو قرآنی آیات اور کلام عرب کے دلائل سے مزین کیا ہے۔ اس طرح کل 19لسان العرب کے حوالے کے بعد فاضل مصنف نے علامہ ابن خلدون کی رائے بھی پیش کی ہے۔ ابن خلدون بھی ادبی اسلوب کی تشکیل میں علمی اور فنی نقطہ ہائے نظر میں بڑا فرق گردانتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی شخص نحو ، بلاغت اور عروض کا زبردست عالم ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ اس کی انشا پردازی بھی ادب کے اعلی مقام پر فائز ہو۔ پہلے کا تعلق علم سے ہے اور دوسرے کا تعلق فن سے۔ علامہ ابن خلدون ان دونوں میں فرق کرتے ہیں ۔
ابن خلدون کے یہاں اسلوب سے مراد وہ ذہنی تصویر ہے جوذہن و دماغ پر حاوی ہو جاتی ہے اور مطالعہ و استفادہ سے ذوق پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ نظم و نثر میں فرق کرنے والی بنیادی چیز یہی اسلوب ہے۔ نظم وزن اور قافیہ کے سبب ممتاز ہو جاتی ہے اور نثر موازنہ و تشابہ سے اپنے آپ کو الگ کر لیتی ہے۔
اس کے بعد مصنف نے ان تمام تعریفوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا :
’’دراصل اسلوب نام ہے تحریر کے طریقے کا،انشا پردازی کے سلیقے کا ، تعبیر و تشریح کے لیے الفاظ کے انتخاب و ترتیب کا یا نظم کی قسموں کا۔او ر یہی ادبی اسلوب کی تعریف ہے۔‘‘
اسلوب کی لازمی خصوصیت:
مصنف ،مقصد اور مدعا کے لحاظ سے خصوصیات کوتین خانوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
1۔وضاحت اسلوب
وضاحت کو بھی انھوں نے دو خانوں میں تقسیم کیا ہے۔
الف۔ وضاحت فکر: یعنی جو بات کہی جارہی ہے وہ سب پر واضح ہو۔ فکر میں کوئی جھول نہ ہو۔
ب۔ وضاحت ترکیب :یعنی وہی ترکیب اور جملے استعال ہوں جو واضح اور اپنے مفہوم میں صریح ہوں۔
2۔ قوت تاثیر: یہ وہ نفسی اورباطنی طاقت ہے جو خود ادیب کے اندر سے پید ا ہوتی ہے۔ جذبات، ارداے اور اخلاق کی صفت ہی ادیب کی تخلیق یا انشا میں قوت تاثیر پیدا کرتی ہے۔
اس کے لیے دو طریقوں کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے۔
ا۔قوت تصویر: یہ وہ منظر نگاری ہےجو عقل سے آگے بڑھ کر جذبات اور احساسات کو متاثر کردے۔ لفظ کے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں کی جانب ذہن کو منتقل کردے۔
پھر مصنف نے ان وسائل کی نشان دہی کی ہے جن سے قوت تصویر پیدا کی جا سکتی ہے
الف۔ مانوس الفاظ برتے جائیں۔
ب۔ وصفی کلمات کا استعمال کیا جائے۔
ج۔کلمات کا مجازی استعمال ہو۔
د۔ ضعیف کلمات ، زائد الفاظ اور ثانوی عناصر اور عبارت سے پرہیز کیا جائے۔
قوت ترکیب :
متکلم تو آواز کی مدد کے ذریعے اپنی بات میں تاثیر پیدا کر لیتا ہے لیکن تحریر میں آواز کا کوئی عمل داخل نہیں ہوتا اس لیے اسے کچھ اور وسائل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ا۔ قصرو تفخیم،اہمیت و افادیت، تاکید و تنظیم کے لیے تقدیم و تاخیر کے قواعد اختیار کیے جائیں۔
ب۔ طباق و بدیع کا استعمال بھی موثراور مفید ثابت ہو۔
ج۔ چوں کہ بیشتر اوقات قوت تاثیر کا تقاضہ سرعت ہوتا ہے ، اس لیے عام طور پر یہاں ایجاز کا اسلوب کار گر ثابت ہوتا ہے۔
3۔ جمال و رعنائی
بسا اوقات عبارت ادبی، واضح فکر کی علم بردار ، جذبات کو جلابخشنے والی ہوتی ہے لیکن ذوق پر گراں گذرتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ عبارت مخاطب کے ذوق اور مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ جمال ایک نفسی صفت ہے جو ادیب کے خیال اور مذاق سے جنم لیتی ہے۔خیال معانی کی گہرائی او ر گیرائی کا ادراک کرتا ہے اور ذوق اس خیال کو بہترین اور موزوں عبارت کے ذریعے پیش کرتا ہے۔
اسلوب قرآن اور اس کی خصوصیات:
جیسا کہ ابتدامیں عرض کیا گیا کہ قرآن مجید عربی ادب کا شاہکار اور ماسٹر پیس ہے،جس کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ، اس کے پہلو میں کوئی انسانی تخلیق یا تحریر کھڑی تک نہیں ہو سکتی۔کہا جاتا ہے کہ .Bad presentation can kill good ideas قرآن مجید معانی کا جتنا گہرا سمند ر ہے ،اس کی پیش کش بھی اتنی ہی موثر اور دل کش ہے۔ یہ بیک وقت عقل اورجذبات دونوں کو اپیل کرتا ہے ۔ ایک ہی مضمون کو سو رنگ سے باندھتا ہے اور ہر رنگ اپنے اندر خصوصی معنوی جہتیں پنہاں رکھتا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ عوام و خواص دونوں اس کے اعجاز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ معلوم ہواکہ اس کی عظمت تو اس کے اسلوب میں پوشیدہ ہے۔ ان اسالیب کا، جو قرآن مجید اپنا پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے، مطالعہ کیے بغیر ہم قرآن کی اصل روح تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔

ابن خلدون بھی ادبی اسلوب کی تشکیل میں علمی اور فنی نقطہ ہائے نظر میں بڑا فرق گردانتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی شخص نحو ، بلاغت اور عروض کا زبردست عالم ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ اس کی انشا پردازی بھی ادب کے اعلی مقام پر فائز ہو۔ پہلے کا تعلق علم سے ہے اور دوسرے کا تعلق فن سے۔

قرآن کا اصل فائدہ اس پر غور و فکر ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
(کتاب: استفسارات سوم :141)

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١