مسکراہٹ
’’چلو رضوان جلدی کرو۔ ‘‘ عرفان نے بائیک پر بیٹھے بیٹھے ہارن بجاتے ہوئے کہا ۔
’’ہاں چاچو! بس ایک منٹ میں آیا ۔‘‘رضوان کی آواز آئی اور وہ بھاگتا ہوا دروازے سے باہر نکلا۔ ’’چلیے چاچو ۔‘‘اُس نے بائیک پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا ۔ عرفان نے بائیک اسٹارٹ کی اور اپنے بارہ سالہ بھتیجے کو مضبوط پکڑنے کی ہدایت کرکے بائیک دوڑا دی۔ عرفان B.Sc کے آخری سال کا اسٹوڈنٹ تھا اور رضوان ابھی ساتویں کلاس میں ، لیکن دونوں میں کافی اچھی دوستی تھی۔ جب سے کورونا کی وجہ سے اسکول بند ہوئے تھے تب سے رضوان کا پڑھائی لکھائی سے دل بالکل ہی اُٹھ گیا تھا۔ آن لائن کلاسس میں وہ کیا پڑھ رہا تھا اس کا کوئی بھی اثر اُس پر دکھائی نہیں دے رہا تھا کیوں کہ نا تو وہ کبھی کچھ لکھتا اور نا ہی کبھی کوئی کتاب اُس کے ہاتھ میں دکھائی دیتی!
شہر کے مضافاتی علاقے میں اُس کی بائیک ایک اسکول یا ہوسٹل جیسی عمارت کے گیٹ پر رکی تھی۔ رضوان اُس گیٹ پر لگے بورڈ کو دیکھنے لگا جس پر مراٹھی اور انگریزی میں اُس اسکول کا نام لکھا ہوا تھا۔ اُس نے بائیک سے اُترتے ہوئے پوچھا :’’چاچو ! یہ کون سا اسکول ہے ؟ ہم یہاں کیوں آئے ہیں ؟ ‘‘ عرفان نے نہایت سنجیدہ چہرہ بناتے ہوئے کہا ’’تمھارا داخلہ یہاں کروانا ہے ۔ ‘‘ لیکن پھر فوراً ہنس دیا ۔’’ارے نہیں یار! ایک ضروری کام سے آئے ہیں۔ تم آؤ تو صحیح! ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رضوان کو لے کر اندر جانے لگا۔ وہ ایک بڑے سے میدان سے گزر رہے تھے جہاں کوئی نہیں تھا۔ اسکول بلڈنگ میں داخل ہونے پر کسی کمرے میں سے کچھ لڑکوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ سامنے ایک آفس کے باہر ’’پرنسپل‘‘ کی تختی لگی ہوئی تھی۔
عرفان نے دورازے میں سے اندر کی جانب دیکھا اور با آواز بلند کہا ’’مے آئے کم اِن سر ؟ ‘‘ اندر سے ایک مردانہ آواز آئی تھی ’’کون ہے ؟‘‘ عرفان نے اُسی انداز میں کہا :’’عرفان ۔۔ عرفان صدیقی ۔۔۔‘‘ اندر سے فوراً آواز آئی ’’ اوہ ! آئیے پلیز۔‘‘ وہ دونوں اندر داخل ہوگئے۔ سامنے ایک بڑی سی ٹیبل کے پیچھے ایک سانولے سے ، موٹے سے آدمی بڑی سی گھومنے والی کرسی پر بیٹھے دکھائی دیے۔ اُنھوں نے سیاہ چشمہ پہن رکھا تھا ۔ اُنھیں دیکھ کر ہی احساس ہورہا تھا کہ وہ اندھے ہیں!
’’عرفان ۔۔۔ !‘‘ اُنھوں نے اشارے سے سامنے والی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کرسیوں پر بیٹھنے کی آوازوں سے انھوں نے کچھ اندازہ لگایا اور پھر پوچھنے لگے: ’’آپ کے ساتھ اور کون ہے ؟ ‘‘
’’بھتیجا ہے سر ۔ اس کانام رضوان ہے ۔ ساتویں کلاس میں پڑھتا ہے ۔‘‘ عرفان نے بتایا تھا۔
’’ بہت اچھے ! ویل کم بیٹا رضوان ۔۔! ‘‘ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب رضوان کو ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں چاچو اُسے سچ میں یہاں داخلے کے لیے تو نہیں لائے تھے؟ اسی لیے وہ عجیب سا منہ بناکر پرنسپل صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ عرفان نے اُس کی خاموشی کو دیکھ کر مسکرا کر کہا :’’ بیٹا رضوان ! سر نے آپ کو ویل کم کہا ہے ۔ سر کا شکریہ تو ادا کرو۔‘‘ وہ ایک دم سے بوکھلا گیا اور پھر ایک دم سے کہنے لگا ’’”تھینک یو ۔۔۔ سر ۔۔۔ ! ‘‘ پرنسپل صاحب ہنس دیے تھے اور عرفان بھی !
پھر عرفان کہنے لگا : ’’سر ہمارے NSS کے انچارج پاٹل سر نے یہاں کے بارے میں کل بتایا تھا، اسی لیے آج میں آپ سے ملنے آگیا۔‘‘
پرنسپل صاحب کہنے لگے۔ ’’ہاں! بات دراصل یہ ہے عرفان کہ ہمارے آفس کے کلرک آنند بابو کو بھی کورونا ہوگیا ہے اور اسی لیے وہ اب کچھ دنوں تک آفس نہیں آسکتے۔ یہاں ایسا کوئی نہیں ہے جو آنے والے سرکاری کاغذات کو پڑھ سکے اور اُن کا جواب دے سکے۔ میں نے یہ پرابلم ہمارے دوست پاٹل سر کو بتائی تو اُنھوں نے کہا کہ اُن کے کچھ اسٹوڈنٹس یہاں آکر میری مدد کر دیا کریں گے ۔ پاٹل سر نے ہی آپ کے بارے میں کہا تھا اور آپ کا نمبر بھی دیا تھا۔ ‘‘
’’سر میں اسی لیے آیا ہوں ۔ بتائیے آج کون سے لیٹر آئے ہیں؟ میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں اور جن کا جواب دینا ہوگا ، ان کا جواب آپ لکھوا دینا ۔ ‘‘ عرفان نے کہا۔ یہ باتیں سن کراب رضوان کے چہرے کا تناؤ غائب ہوا تھا !
پرنسپل صاحب نے اپنے ٹیبل کے ڈراور میں سے ایک کاغذ نکالا اور عرفان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :’’آج یہ ایک ہی لیٹر آیا ہے۔ ‘‘
عرفان نے وہ لیٹر اُن کو پڑھ کر سنایا ۔ پھر ان کے کہنے کے مطابق اس کا جواب ان کے ہی لیپ ٹاپ میں ٹائپ کرکے اُس کے پرنٹ آؤٹ نکالے اور اُن کو دے دیے ۔ اُن کے چہرے پر ایک بہت ہی پیاری مسکراہٹ آگئی تھی۔ اُنھوں نے احسان مندی سے سرشار آواز میں کہا : ’’بہت بہت شکریہ عرفان! ‘‘
عرفان نے فوراً کہا: ’’شکریہ مت بولیے سر ! یہ تو میرا فرض ہے۔ سر کل بھی اگر کوئی لیٹر آیا تو مجھے فون کردینا میں آجاؤں گا ۔ آپ فکر مت کیجئے سر جب تک آنند بابو نہیں آجاتے آپ مجھے جب بھی ضرورت ہو فون کردینا میں ان شاء اللہ آجاؤں گا۔ اچھا سر اب ہم لوگ چلتے ہیں۔‘‘ عرفان نے اُٹھتے ہوئے کہا ۔
’’عرفان ! دو منٹ رکو۔ میں چائے وغیرہ کے لیے کہتا ہوں ۔ ‘‘ وہ گھنٹی بجانے کے لیے ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ لیکن عرفان نے اُنھیں منع کردیا اور اگلی بار چائے پینے کا وعدہ کرکے وہ باہر نکل آئے ۔ اس مرتبہ تین چار اندھے لڑکے آپس میں کچھ باتیں کرتے ہوئے ایک طرف جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ دونوں باہر آئے ۔ رضوان نے چلتے چلتے کہا : ’’چاچو ! میں آپ کے ساتھ یہاں روزانہ آؤں گا ۔ ‘‘
عرفان نے حیرت سے اُسے دیکھا اور پوچھا :’’کیوں ؟ ‘‘ رضوان نے مسکراکر کہا: ’’چاچو ! مجھے پرنسپل صاحب کی مسکراہٹ بہت اچھی لگی !‘‘
’’ اور اُتنی دیر تک تم وہاں کیا کروگے ؟ ‘‘ عرفان نے غور سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ رضوان کچھ سوچنے لگا پھر بولا:
’’چاچو! میں وہاں کے اندھے لڑکوں کو کہانیوں پڑھ کر سنایا کروں گا ۔ ‘‘ رضوان نے پوری سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’او کے ! ‘‘ عرفان نے مسکراکر بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا اور پھر وہ دونوں گھر کی طرف چل دیے۔
’’ بہت اچھے ! ویل کم بیٹا رضوان ۔۔! ‘‘ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب رضوان کو ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں چاچو اُسے سچ میں یہاں داخلے کے لیے تو نہیں لائے تھے؟ اسی لیے وہ عجیب سا منہ بناکر پرنسپل صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ عرفان نے اُس کی خاموشی کو دیکھ کر مسکرا کر کہا :’’ بیٹا رضوان ! سر نے آپ کو ویل کم کہا ہے ۔
“مسلمان “ کے نام سے آپ کو ایک مستقل اُمت بنانے کی، واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے وہ یھی ھے کہ آپ تمام بندگانِ خدا پر شہادت حق کی حجت پوری کردیں۔
(حوالہ کتاب: شہادت حق:6)
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١