رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺاور بچے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور بچے بھی آپ سے بہت عزت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیلتے، ان کو اپنے کاندھوں پر بٹھایا کرتے اور انھیں محبت سے گلے لگایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین کو گلے سے لگا کر پیار کر رہے تھے تو  ایک صحابی حضرت عقرہہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ ’’میرے 10بچے ہیں، لیکن میں نے کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا ۔‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں کیا کر سکتا ہوں جب اللہ نے تمھارے دل سے رحم کو نکال دیا ہے۔‘‘  (ترمذی)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا رسول اللہ کی سنت میں سے ہے۔ آج جب انسان اپنے آپ میں اس قدر مگن اور اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا میں مشغول رہتا ہے تو اس کو اپنے بچوں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے بچے چڑ چڑ ے ہو جاتے ہیں اور ان کی صحت اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کے لیے ہر دن اپنے مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالنا بہت ضروری ہے۔ہمیں ان سے ہنسی مذاق کرنا، ان کے ساتھ کھیلنا ، ان کی صحت کا خیال رکھنا اور ان سے مشورے لینا چاہیے۔ ہم اکثر بچوں کو بچہ ہے کہہ کر اس پر اپنا حکم مسلط کرتے ہیں۔ حالاں کہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچوں کے سوچنے کا انداز بہت مختلف اور موثر ہوتا ہے۔ اور ان سے مشورہ لینا ان کے کانفیڈینس میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ بچوں پر گھر کے ماحول کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے والدین کو ہمیشہ موبائل میں مصروف دیکھتے ہیں تو وہ چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ انھیں بھی موبائل یا ٹیب دیا جائے اور انھیں کارٹون دیکھنے سے روکا یا ٹوکا نہ جائے۔ اسی طرح جب بچے دیکھتے ہیں کہ والدین آپس میں جھوٹ بول رہے ہیں، زوردار آواز میں بات کر رہے ہیں تو بچوں کو یہ بات معمولی اور صحیح لگتی ہے (حالاں کہ جھوٹ گناہ کبیرہ ہے)۔ اور پھر وہ بھی اس عادت کو اپنا لیتے ہیں اور آگے چل ک ہمیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
ہماری اولاد ہمارے لیے اللہ کی طرف سے بڑی نعمت ہے۔ اور رسول اللہ نے ہمیں اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت کی سخت تاکید کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی ہمیں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنے گھر اور خاندان کے بچوں کے ساتھ بلکہ ہر ملنے والے بچے سے ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ اور ان کی تربیت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے نواسے نے ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ان کے منہ سے نکال دی کہ کہیں وہ صدقہ کی کھجور نہ ہو اور رسول اللہ اور ان کے اہل خانہ پر حرام ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کی غلطی پر ٹوکنا اور ان کی صحیح رہنمائی کرنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ کام بہت ہی محبت اور شفقت سے کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر غلط رویہ اپنایا گیا تو بچے اور ضدی ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت بچوں کی ذہنیت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی کسی بھی حرکت کے وجہ کیا ہے۔ ان کے اس رویہ کے پیچھے ان کا مقصد اور سوچ کیا ہے۔ اور پھر اسی حساب سے ہم انھیں سنبھال سکتے ہیں۔ رسول اللہ نے کبھی بچوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ ہمیں بھی بچوں پر بہت زیادہ بوجھ اور ذمہ داری ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ بچے ہماری باتوں سے نہیں، ہمارے اعمال اور اخلاق سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کے لیے بہترین رول ماڈل بننا ہے۔ اور ان کے سامنے مثبت انداز میں باتوں کو پیش کرنا ہے تاکہ وہ اس کو آسانی سے سمجھ سکیں۔
ہمیں واقعتاً اپنی عادتوں کو بدلنے اور رسول اللہ کی سنتوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں رسول اللہ کے سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تا کہ ہمارا گھر مثالی گھر بنے۔ اور ہم ایک خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ اور اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہمارے اندر رحم کا جذبہ پیدا کرے اور ہمیں ہر رشتے اور ذمہ داری کا حق ادا کرنے والا بنائے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١