غزل

 جو حق ہے، بس وہی یہ دل مرا پیغام دیتا ہے
مجھے پروا نہیں باطل اسے کیا نام دیتا ہے

یہ میری جان حاضرہے، یہ تیرے نام کرتا ہوں
مجھے اب غم نہیں جلاد کیا الزام دیتا ہے

جنوں کی آگ میں تپ کر نکھرنا جس کو آجائے
وہی کار گراں دنیا میں بس انجام دیتا ہے

یہ رتبہ وہ ہے جو دنیا میں بس دو چار پاتے ہیں
زمانہ ہر کسی کو زہر کا کب جام دیتا ہے

اسےتوہین سمجھوں،یا اسےاعزاز      میں سمجھوں
جو خود مفلس ہے مجھ کو اب وہی انعام دیتا

Comments From Facebook

1 Comment

  1. محمد محفوظ الرحمٰن مفتاحی

    ماشاءاللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر ٢٠٢١