أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا ۞ (سورہ النساء:01)
ترجمہ:لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دُوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلّقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔
اللہ تعالیٰ یایھا الناس کہہ کر تمام انسانوں سے مخاطب ہے۔ اس آیت میں معاشرے کی تنظیم کے متعلق بنیادی حقائق زیر بحث آتے ہیں۔
’’اس آیت کی تفسیر میں صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی ر قم طراز ہیں کہ اس آیت میں جس تقویٰ کی ہدایت کی گئی ہے اس کا ایک خاص موقع و محل ہے۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کا خالق اللہ ہے۔ اس وجہ سے یہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس زمین پر دھاندلی اور ظلم و تعدی کا نشانہ بنائے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ معاملات اور رحم کی روش اختیار کرے۔ ورنہ یہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زور آور منتقم و قہار ہے۔‘‘
جو اس کی مخلوق کے معاملات میں دھاندلی مچائیں گے وہ اس کے قہر و غضب سے بچ نہیں سکیں گے۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کررہا ہے۔ دوسرا یہ کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانہ ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ اس کا فطری تقاضا ہے کہ آپس میں حق و انصاف اور مہر و محبت کے تعلقات رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔
تیسرا یہ کہ جس طرح آدم تمام نسل انسانی کے باپ ہیں اسی طرح حوا تمام نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم ہی کی جنس سے بنایا ہے۔ اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر و فروتر اور فطری گنہ گار مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ بھی شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔
چوتھی بات یہ کہ خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون و ہمدردی کا محرک رہا ہے۔ جس کو بھی کسی مشکل یا خطرے سے سابقہ پیش آتا ہے وہ خدا اور رحم کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہے۔ لیکن خدا اور رحم کے نام پر حق مانگنے والے اکثر حق دینا بھول جاتے ہیں۔ درحقیقت حق طلبی و حق شناسی کا یہی توازن ہے جو اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
مساوات انسانی کو اسلام نے ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ اس حوالے سے دنیا کا کوئی مذہب اور نظام اسلامی اقدار کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لیے کہ اس مساوات اور عدل کے قوانین اس ذات نے بنائےہیں جو انسانوں اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ اسلامی قوانین فطرت اور عدل پر مبنی ہیں۔
انسانوں کے وضع کیے ہوئے قوانین کچھ علاقوں اور کچھ وقت کے لیے ہوتے ہیں لیکن خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین تمام نوع انسانی اور ہر زمانے کے لیے ہوتے ہیں۔
آج حقوق انسانی کو لے کر ساری دنیا میں جو غلغلہ مچا ہوا ہے اسے دو تین صدی قبل ہی مغربی ممالک نے بنایا ہے جب کہ حضرت محمدؐ نے آج سے چودہ سو برس قبل ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور پیش کیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا کہ ان حقوق کی پاسداری کی جائے تو ایک صالح اور پر امن معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اگر ہم حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن مغربی ممالک نے حقوق انسانی کا منشور بنایا وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ آئے دن ان ممالک میں جرائم پیشہ افراد کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اس کا بنیادی سبب حقوق انسانی کے نفاذ کے لیے کسی داخلی قوت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ مغرب کا حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک ایسا نظریہ بن کر رہ گیا جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں لیکن حضرت محمدؐ نے حقوق انسانی کے نفاذ کو انسانوں کی عملی زندگی سے جوڑ دیا جس کے باعث انسانوں کے اندر حقوق انسانی کی محافظت پیدا ہوئی۔
حضور اکرم ؐ نے حقوق انسانی کا ایسا منظم نظام پیش کیا،جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ چاہے وہ انسانوں کی معاشرتی زندگی ہو یا معاشی، تعلیمی، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی وغیرہ۔ حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنا ہوگی۔
آئیے ان حقوق کی چند جھلکیاں قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
مال و دولت صرف معاشرے کے افراد ہی کے ہاں منجمد ہوجائے تو کمزور طبقے بےروزگاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سماج میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
اسلامی قوانین نے زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد حصّہ غریبوں کے لیے خاص کیا ہے۔ صدقہ و خیرات کی اہمیت کو اجاگر کرکے غربا و مساکین کا بھر پور خیال رکھا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَفي أَموالِهِم حَقٌّ لِلسّائِلِ وَالمَحرومِ( الذاریات:19)
اور ان کے مالوں میں غرباء اور مساکین کا حق ہے
’’اے لوگو! یقیناً تمھارا پروردگار ایک ہے۔تمھارے باپ ایک ہیں تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں یقیناً اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پاک باز ہو۔ کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔‘‘
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
اسی طرح ارشاد نبوی ہے:
تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
دوسری حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔
مال کے تحفظ کے بارے میں ارشاد باری ہے:
واضح رہے کہ مال انسانی زندگی کی بقا کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال انسان کے بنیادی حقوق ہیں۔ اسی طرح عزت و آبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔چناں چہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
ارشادحق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ انھیں ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اسلام نے انھیں بھی اتنے حقوق دیے کہ وہ سماج میں بہتر طور سے زندگی گزار سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والا بنائے۔۔آمین۔
یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے۔ اس لیے کہ جان سے زیادہ کوئی شے قیمتی نہیں ہے۔ اسی کے گرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ دور رسالت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔سب سے پہلے محمد عربیؐ نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان و مال کا احترام سکھایا اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کاقتل قرار دیا۔
15 sau saal ke qareeb hochuke aapصلی علی صلم ne pahonchadiya lekin aaj bhi aisa lagta hai kal hi wahi aayee logon ka rawayya quran hadith ke sath
jazakallha bahot behtreen??