ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

پیکر خلوص و محبت

16 ؍اپریل 2022 کی شام 04:30 بجے یہ دل خراش خبر پہنچی کہ محترمہ امتہ الرزاق صاحبہ اپنے رب سے جاملیں۔ ایک بجلی سی گری۔ اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ شاید مشیت ایزدی یہی تھی۔ ہر سال جب کرناٹک کے دورے پر جاتی ان سے ملاقات ہوتی۔ بہت جستجو کے ساتھ تحریکی نظم سے متعلق سوالات کرتیں۔ خاص کر شعبہ خدمت خلق کے بارے میں جب وہ مطمئن ہوگئیں تو کہتی تھیں:میں بھی جماعت کے بیت المال میں اپنی امانت داخل کروں گی۔ مطالعہ کا بہت شوق جماعت کو سمجھنے کے لیے بہت گہرائی سے مطالعہ شروع کردیا۔ تحریک کے بنیادی لٹریچر کو اچھی طرح سے سمجھ گئیں تو بہت جلد رکنیت سے بھی منسلک ہوگئیں۔
تحریک سے بے حد محبت تحریکی سرگرمیوں کی بے لوث خادم تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مرحومہ تحریک اسلامی کا قیمتی اثاثہ ہے۔مومنانہ صفات سے متصف، صبر و عظمت کی پیکر، باہمت ، بلند حوصلہ، اعلیٰ کردار کی مالک تھیں۔ دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے والی۔ میرے بیٹے کی جب طبیعت خراب ہوگئی تھی تو بنگلور سے انہوں نے اپنی معلومات کے مطابق دوائیاں روانہ کیں۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے۔ بڑے تڑپ کے ساتھ دلاسہ دیتی رہیں۔ آپا آپ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپ ہماری مربی ہیں ،اللہ کبھی آپ کو پریشان نہیں کرے گا ۔اس کی نصرت آپ کے شامل حال رہے گی ۔
انتقال سے تین ماہ قبل انہوں نے فون کیا۔ میں نے پوچھا بتاؤ تو سہی کیسے یاد آگئی؟ کہنے لگیں۔ آپا آپ کے بارے میں بہت سی معلومات ہوئیں۔ قریہ قریہ، ضلع ضلع، شہر شہر آپ کے دورے کیے۔ کتنی خواتین کو آپ نے تحریک سے جوڑا۔ ابھی کچھ ٹھہری ہی تھیں، میں نے ان کی گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے کہا کہ یہ سب اللہ نے کروایا ہے۔ میری کوئی حیثیت نہیں۔ دعا کیجیے کہ اللہ اس کو قبول کرلے میرے لیے نجات کا ذریعہ بنادے۔
سامنے والے کو پہنچاننے کا بہت اچھا ملکہ تھا۔ بڑی مخلص محسنہ خاتون تھیں۔ شعبۂ خواتین کرناٹک کو بڑا دھکہ لگا کہ تحریک سے بڑا نقصان اور بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، درجات کو بلند فرمائے، حد نگاہ تک قبر کو نور سے منور فرمائے، آمین۔

ناصرہ خانم ، حیدرآباد

بزم سونی ہوگئی

حترمہ امتہ الرزاق صاحبہ گزشتہ دو میقات سے مرکزی شعبۂ خواتین کی ذمہ دارانہ حیثیت پر فائز تھیں۔
جاری میقات میں حلقۂ کرناٹک کی ناظمہ اور مرکزی مشاورتی کمیٹی کی ممبر تھیں۔ افراد سازی پر خصوصی توجہ دیتیں۔ خواتین کی صلاحیتوں پر نظر رکھنا، ان کو ابھارنا، ذمہ داری دینا، ان کی خوبی تھی۔ جب انھیں اس جان لیوا مرض کا علم ہوا ہوا تو انہوں نے اپنی معاون تشکیلہ خانم صاحبہ کو حلقۂ کرناٹک کی ذمہ داری دے دی اور کہا کہ میں مکمل سپورٹ کرتی رہوں گی، اب تم اس ذمہ داری کو سنبھالو۔
مجھے بھی فون کرکے یہ بتایا کہ میں اس بیماری کی وجہ سے زیادہ باہر نہیں جا سکتی۔ گھر بیٹھے اگر کچھ کام ہو تو ضرور مجھے یاد رکھنا، میں اس کام کو کرکے خوشی محسوس کروںگی۔
سابقہ میقات میں مرکزی شعبۂ خواتین کی معاون ناظمہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ جس حلقے میں بھی دورہ کیا، وہاں کی خواتین ان کی گرویدہ ہوگئیں۔ سفر اخراجات کے سلسلے میں بھی حد درجہ محتاط رہتیں۔ زیادہ تر اخراجات اپنی ذاتی رقم سے ادا کرتیں۔ جماعت کی رقم کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرتیں۔ باپردہ خاتون تھیں۔ پردے کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔

عطیہ صدیقہ( آل انڈیا سیکریٹری شعبۂ خواتین)

آخرت میں پھر ملاقات ہوگی ان شاء اللہ

بے پناہ محبت کرنے والی، دوسروں کا بہت زیادہ خیال رکھنے والی، مخلص،محنتی، ایک مضبوط عقیدے والی، جو ان سے ملے اسیر ہوجائے ،مختلف النوع موضوعات میں مہارت جن کا خاصہ تھا ، پرجوش بھی ،متواز ن بھی، بیک وقت کئی صفات کی مالک تھیں ہماری بہن امۃ الرزاق صاحبہ۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات مرکز جماعت دہلی میں ہوئی۔اس پہلی ملاقات ہی میں انہوں نے اپنے جذبۂ خلوص سے اسیر بنالیا۔ لمحے بھرکی ملاقات میں اجنبیت کا احساس نہ رہا۔ یوں لگا جیسے برسوں کے ملاقاتی ہوں۔
ان دنوں مجھے گرم پانی کی سخت ضرورت تھی۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو انھوں نےمجھے وہ الیکٹرک کیتلی دے دی، جو وہ اپنی سہولت کے لیے گھر سے لائی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اسے اپنے پاس رکھیں، جب ضرورت ہو گی،میں آکر لے جاؤں گی۔ کہنے لگیں :’’نہیں، اگر میں وہاں رکھوں گی تو مجھے فائدہ ہوگا، لیکن اگر آپ اسے یہاں رکھیں گی تو سبھی کیرالہ کے ساتھی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ (کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ ہمارے کمرے میں ہم سب کو گرم پانی کی ضرورت ہے۔) اگر مجھے گرم پانی کی ضرورت ہوگی تو میں آ کر لے جاؤں گی ۔‘‘ ان کا ایک اور قابلِ ذکر پہلو جو میں نے پہلی ملاقات اور چند دن اکٹھے رہنے کے دوران محسوس کیا، وہ یہ کہ موصوفہ تہجد گزار تھیں اور بہترین قاریہ بھی تھیں۔ تلاوتِ قرآن کی تلاوت اس انداز سے کرتیں کہ سحر طاری ہوجاتا۔ یہ تھا پہلی ملاقات کا قصہ کہ ہمیشہ خیال رہا کہ مزید ملاقاتیں بھی ہوں اور وہ موقع اس وقت ملا جب اس میقات کے دوران شعبۂ خواتین کے تحت ’’ مضبوط خاندان۔ مضبوط سماج مہم‘‘ انتہائی کامیاب رہی۔ اس کامیابی کی وجہ کمیٹی کے ٹیم ورک تھی، جس میں انہوں نے اسسٹنٹ کنوینر کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔ مہم کا موضوع انہیں بے حد پسند تھا اور اپنی مہارت سے اس میں وہ رنگ بھرتی گئیں۔ اس کا ذکر انہوں نے Aura میگزین کے انٹرویو میں واضح کیا ہے، جو انہوں نے گزشتہ فروری میں دیا تھا۔ وہAuraمیگزین کی بڑی حمایتی رہی تھیں۔ تحریک کے معاملات پر فیصلہ لینے سے پہلے یا جب بھی تذبذب کا شکار ہوئی تو میں ان سے مشورہ ضرور کرلیا کرتی تھی۔
ہماری آخری گفتگو رمضان کے دوران میں ہوئی، جس میں انہوں نے مجھے اپنی صحت کے لیے مشورے دیے اور اس رمضان میں علاج کی کامیابی کے بعد اس سال دورۂ قرآن لینے کے موقع پر اللہ کی مشکور تھیں۔ وہ ہمیشہ یہ خواہش اور دعا کرتی تھیں کہ وہ آخری سانس تک تحریک کے لیے کام کرتی رہیں اور وہ کرنے کے قابل تھیں۔ اللہ ان سعی وجہد کو قبول فرمائے اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے، آمین۔
امۃ الرزاق صاحبہ کا انتقال میری والدہ اور والد کی طرح ان عزیزوں کی اموات میں سے ہے، جس کے غم پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔ لیکن کیا کیا جائے؟ قابو پانا ہمارے عقیدے سے تعبیر ہے۔ موت اس دنیا میں ہمارے وجود کی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ الحمدللہ، بحیثیت مومن ہمیں اپنے رب کے وعدے پر اطمینان ہے کہ ان شاء اللہ ہم جنت الفردوس میں اکٹھے مل سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، جس میں ہماری پیاری بہن امۃ الرزاق صاحبہ بھی شامل ہیں۔ اللہ کے وعدے کے مطابق جنت میں داخل ہوں:

يَـٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةًۭ مَّرْضِيَّةًۭ فَٱدْخُلِى فِى عِبَـٰدِى وَٱدْخُلِى جَنَّتِى (سورۃ الفجر27 :تا 30)

’’ اے نفس مطمئن! چل اپنے ربّ کی طرف اِس حال میں کہ تُو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش ( اور اپنے ربّ کے نزدیک) پسندیدہ ہے اور شامل ہوجا میری جنت میں۔ ‘‘

رحمت النساء ( آل انڈیا سیکریٹر ی شعبۂ خواتین)

بہن آپ دلوں میں زندہ رہیں گی

2003ء مرکز جماعت اسلامی نے شعبۂ خواتین کو ملکی سطح پر منظم کرنے کے لیے کوششوں کا نقطہ آغاز رہا۔
اس وقت امیر جماعت جناب عبدالحق انصاری صاحب کی ہدایت پر ملک بھر سے منتخب خواتین،چتلی قبر دہلی سابق مرکز جماعت میں جمع ہوئیں۔ تحریک اسلامی کے لیے سرگرم و فعال تیس بتسیس خواتین کے اس گروہ میں امتہ الرزاق صاحبہ بھی شامل تھیں۔ ان کی شخصیت پہلی نظر میں دیکھنے والوں کو ان کی طرف متوجہ کرلیتی۔ شفقت و محبت ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ تحریک کے لیے ولولہ انگیز فکر نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیے۔ ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ ہم لگاتار دو دن تک مختلف عنوانات پر گفتگو،اظہار خیال اور منصوبہ بندی اور ملک میں تحریکی صورت حال پر گفتگو کرتے رہے۔ آج بھی اچھی طرح یاد ہےطویل نشستوں کے بعد وقفہ ہوتا۔ جب لوگ تھکن کا احساس کرنے لگتے تھے تو وہ یاد دہانی کرواتیں کہ ہم ایک عظیم کام کے لیے جمع ہوئے ہیں۔تھکن یا کمزوری ہمارے اس عظیم کام پر غالب نہ آنے پائے ۔ پھر یہی طریقہ ان کا آخر تک رہا۔ عزائم نہ کبھی سرد پڑتے دیکھے نہ حوصلوں میں کمی دیکھی۔
مرکزی مشاورتی کمیٹی کی وہ ابتداء سے ہی ممبر رہیں۔ جماعتی ذمہ داریوں کو گنوانا مقصد نہیں ۔ یہ تو تحریک کی ضرورت ہے۔ تحریک جب بھی اور جس حیثیت سے کام لے افراد تحریک کی ذمہ داری ہےکہ وہ آگے آئیںاور اپنا بھر پوررول اداکریں ۔ امتہ الرزاق باجی کی ابتدا سے یہی فکر رہی۔ تحریکی سفر کے ہر موڑ پر ہم نے ان کو ہمیشہ تازہ دم پایا۔ قرآن سے لگاؤ عشق کی حد تک تھا۔ قرآن مجید سے رہ نمائی حاصل کرنا اورقر آن کی آیات ہی کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو جلا بخشنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔
تحریک میں نوجوان خواتین کی شمولیت کےوہ بڑی بے چین رہا کرتی تھیں۔ بار بار مشورہ دیتی کہ ہمارے ذہنی و فکری اثاثہ میں ارتقا ہوناچاہیے، کام کی رفتار اور مقصد کے حصول کےلیے ہماری موجودہ کاوشوں میں اضافہ ضروری ہے ۔ نئی خواتین، نئی تعلیم یافتہ طالبات آگے آئیں تو ہمارے لیے نئے راستے کھلیں گے ۔ نئے تجربات سے استفادہ کرنا، وسعت قلبی، کشادہ ذہنی ان کا خاصہ تھا اور اپنے ساتھیوں کے لیے رحماء بینہم کی وہ عملی تفسیر نظر آتی۔
کووڈ کی پہلی لہر کے بعد کچھ صورتِ حال کے بعد جب بہتری کے آثار پیدا ہوئے تو شعبہ خواتین نے محسوس کیا کہ خاندانی ادارہ اس وباء کے جھکڑوں سے متزلزل ہورہا ہےاور وقت کا تقاضہ ہے کہ لوگوں میں اس تعلق سے بیداری لائی جائے۔چنانچہ تحریک کی بیدار مغز قیادت نے ’’مضبوط خاندان۔ مضبوط سماج‘‘ مہم چلانے کا فیصلہ کیا ۔ امتہ الرزاق باجی مہم کے معاون کنوینر رہیں اور اس کنوینر کی ذمہ داری راقم پر تھی۔ یہ تجربہ شاید تحریکی زندگی کا سب سے خوب صورت تجربہ رہا۔ امتہ الرزاق باجی اور دیگر تحریکی بہنوں کی معیت میں آن لائن مہم کی منصوبہ بندی، اس کے لیے مواد کی تیاری، با صلاحیت خواتین کی تلاش مہم کےپیغام کو زمینی سطح تک پہنچانے کے لیے جس طرح کی لگن وتڑپ ہم نے ان کے اندر پائی وہ بہت قابل قدر اور قابل رشک تھی۔ ملکی سطح پرمہم کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے نومبر سے فروری تک کے چار ماہ جس لگن، ذمہ داری اور ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کام ہوا بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس کا بڑاکریڈٹ امتہ الرزاق صاحبہ کو جاتا ہے۔
زندگی کے مقصد بلند کا شعور رکھنے والی، اعلائے کلمتہ اللہ کے جذبہ سے معمور، رب کی رضا وخوشنودی کی متلاشی بھلائیوں میں سبقت کرنےوالی یہ بندی ان تھک جدوجہداور محنت کرتے ہوئے اپنےذمہ کا کام پورا کرکے ماہ رمضان میں اپنے رب سے جا ملیں۔
*ہم نے اپنے ساتھی کی جدائی پر اشکبار رہیں، لیکن ساتھ ہی تحریکی صفوں میں ایسی کئی امتہ الرزاق کے متلاشی ہیں، جو تحریک اسلامی کی توسیع و استحکام کے لیے دامے درمے سخنے تقویت بخشنے والی ہوں۔
اللہ اپنی بندی کے ساتھ کرم ومحبت کا معاملہ فرما۔جس حساب یسیر کی وہ اپنے رب سے متمنی رہیں، اللہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تمنا کواور ان کی دعا کوضرور شرف قبولیت بخشا ہوگا۔

اس کی امید قلیل
اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب
اس کی نگاہ دل نواز

شائستہ رفعت، دہلی

اب کے جو بچھڑے تو شاید ہی ملیں

امتہ الرزاق صاحبہ اپنی مہلت عمر ختم کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ تحریک اسلامی کا ایک اور چراغ بج گیا۔امتہ الرزاق صاحبہ ان لوگوں میں سے تھیں، جو ساری کشتیاں جلا کر پوری یکسوئی کے ساتھ تحریک کے لیے وقف ہوگئی تھیں۔
ان کی دلچسپی کے کئی میدان تھے۔ان میں سب سے اہم تربیت کا میدان تھا۔تربیتی امور میں وہ ہمارے ماہر ترین افراد میں سے تھیںاور بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی تھیں۔ تحریک کے وابستگان کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی تھیں۔سادگی ،سنجیدہ اور مدلل گفتگو، معاملہ فہمی اور پیچیدہ تنظیمی مسائل کو سلجھانے کی خداداد صلاحیت رکھتی تھیں۔
بہترین رائے دینے کی صلاحیت،نظم و ضبط اور اطاعت امر، اخلاص اور للہیت، محنت اور جفا کشی سے اپنے کام کو دلچسپی کے ساتھ کرنے کا جذبہ مرحومہ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
مرحومہ سے میرا تعلق بیس سال سے ہے۔باجی کے ساتھ سفر کا کثرت سے موقع ملا۔ہماری گفتگو کے دو ہی موضوعات رہتے تھے:ایک قرآن دوسرا تحریک۔ باجی کہتی تھیں کہ قرآن ہمیں مقصد زندگی بتاتا ہے اور تحریک اس مقصد کے تحت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
تحریک کے باصلاحیت افرادکی نشاندہی کر کے تحریک کے لیے موثر بناتے تھے۔آج بہت سے لوگ جو تحریک میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں اور خود مجھے بھی تحریک کے صفوں میں متعارف کرانے میں ان کا بڑا اہم رول ہے۔مجھ سے کام لینے کے علاوہ میری تربیت میں اور شخصیت سازی میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔
باجی اکثر کہتی تھیں جو ہمیشہ مجھے متحرک کر دیتاہے کہ تحریک کے بدولت آج ہم اقامت دین کا کام کرنے کے قابل ہیں۔ تحریک نے ہم کو بہت کچھ دیا۔ لیکن ہم نے تحریک کو کیا دیا؟ یہ مسلسل جائزہ لینا چاہیے۔
مجھے باجی کی صحبت میں وقت گزار نے اور علمی استفادہ کا کثرت سے موقع ملا تھا۔میرا پہلا سفر باجی کے ساتھ سفر ایران تھا۔بہت کامیاب رہا۔میری ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دیتی رہیں۔سفر کے دوران باجی کی تعلق باللہ اور اخلاص سے بہت متأثر ہوتی تھی۔
بارہ سال حلقہ کی ناظمہ کی حیثیت سے مجھے باجی نےتنظیمی نوعیت کی بھر پور تربیت کی۔ پڑوسی حلقہ ہونے کے ناطے ہمارے پاس زیادہ آنا جانا رہا۔تحریک کے حال ماضی اور مستقبل کو لے کر گھنٹوں ہماری گفتگو ہوتی تھی۔میری ذاتی زندگی میں بھی باجی سے ہی مشورہ کرتی تھی۔ بیماری کے وقت میرے بچوں کو مسلسل ہمت دلاتی رہیں ۔میرے بچے بتاتے ہیں کہ باجی نے آپ کی کمی کا احساس ہونے ہی نہیں دیا ۔
میری تحریکی زندگی کے لیے بھی اور ذاتی زندگی کے لیے بھی وہ مشیر خاص تھی۔ ایک سال سے علالت کی زندگی کے باوجود تحریکی سرگرمی میں مسلسل متحرک رہیں۔الحمدللہ ہمیشہ زبان پر آخری سانس تک تحریک کا کام کرتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔باجی کی ہمت اور حوصلے کو سلام کیا جا نا چاہیے۔ ہماری جیسی کئی خواتین کے لیے ان کی مثالی زندگی حوصلہ اور ہمت کا سرچشمہ رہے گی۔ آئندہ کی نسلوں کو ایک انسپریشن رہیں گی۔خونی رشتے سے بڑھ کر ہے فکر کا رشتہ۔باجی ایک با کمال شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک تحریک تھیں۔اللہ ہمیں باجی کا نعم البدل عطا کرے، اللہ ان کو بلند مقام عطا کرے اور باجی کو اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے،آمین۔

امتہ الوحید فاخرہ (تامل ناڈو)

ہم آپ کی نیکیوں کے گواہ ہیں امی!

ہم سب کی عزیز اور شفیق امی (ساس) امتہ الرزاق صاحبہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا، سوائے اپنی مثالی زندگی، اپنا کردار، اپنی خوشگوار یادوں اور اپنی نصیحتوں کے۔ آپ ایک متقی، تہجدگزار، قرآن پر چلنے والی، صابر و شاکر عورت تھیں۔ آپ نے اپنی ساری زندگی رسول اللہ ﷺ کی حضرت ابن عمرؓ کو دی ہوئی نصیحت کے مطابق ایک مسافر کی طرح گزاری۔ سوائے آخرت کے توشہ کے کچھ نہ جمع کیا۔
آپ رشتہ میں میری ساس تھیں، لیکن مجھ سے بیٹیوں سے بڑھ کر محبت کی۔ بہت گہرا تعلق تھا مجھ سے۔ لیکن اپنے رب سے ان کے تعلق کا کیا کہوں۔ راتوں کی تاریکی میں اٹھ کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونا، اس کے آگے اپنے دامن کو پھیلانا، دن کے اوقات میں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرنا، ذکر و استغفار میں اپنی زبان کو تر رکھتی تھیں۔
آپ نے حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد کو بھی بہترین طور پر ادا کیا ہے۔ اپنے گھر والوں سے محبت، رشتہ داروں اور قرابت داروں کی خاطرداری، اپنی ضعیف ساس کی بے لوث خدمت، بیوہ، مسکین، یتیم اور مریضوں کی امداد کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے نفس کے حقوق کا بھی انہیں بڑا خیال تھا۔ اپنا احتساب کیا کرتی تھیں۔ علاج کے دوران بڑا پرہیز کیا کرتیں تھیں۔ امی نے دنیا میں اپنے بھیجے جانے کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ آپ نے اقامت دین کے لیے آخری سانس تک جد و جہد کی۔ انبیائی مشن کو آگے بڑھانے میں تحریک کا بھر پور ساتھ دیا۔ تحریک سے آپ کو اتنی محبت تھی کہ تمام تر مصروفیت اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود آپ ایک داعئ حق کا فریضہ انجام دے رہی تھیں۔ پروگرامس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ آپ ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہیں۔
آپ کے چھوڑے ہوئے نقوش ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اللہ ہم سب کو آپ کو نقوش پر چلتے ہوئے تحریک سے جڑے ہوئے رہنے کی توفیق دے اور اقامت دین کا فریضہ ادا کرنے میں ہماری مدد کرے۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ سابقون، مقربون، علیین، صالحین اور شہداء میں آپ کا شمار کرے، آمین۔

عفراء نشاط بنت وقار احمد (بہو امۃ الرزاق صاحبہ)

یہ چمن ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے

دنیا کی بے ثباتی نے ان دوتین سالوں میں جس شدت سے احساس دلایا ہے اس کا تو سبھی کو اندازہ ہے۔ انتقال کی خبر تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کرنے کی صورت بنتی ہے۔ لمحہ لگتا ہے اور لذتوں کو کاٹنے والی چیز موت اندرونِ دل ہلچل مچادیتی ہے۔ 16 اپریل 2022 افطار سے تقریباً دوتین گھنٹہ پہلے خبر آئی کہ محترمہ امۃ الرزاق صاحبہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔

کس قدر خاموش اٹھ کر چل دیے وہ بزم سے
کوئی آہٹ نہ خبر بس خاک اوڑھی چل دیے

ایک لمحہ لگا زندگی چشم تصور میں سترہ سال پہلے گھڑی متضاد رخ پر Anti clock wiseگھومتے ہوئے ہمیں اپنے اسکول کے زمانے میں لے گئی، جہاں عالمیت جامعۃ البنات حیدرآباد میں امۃ الرزاق صاحبہ کی دونوں بیٹیاں شیرین اور سمین ہمارے ساتھ محترم مولانا عبدالعلیم اصلاحی صاحب کے زیرِ تربیت تھیں ۔ وہاں اپنی بیٹیوں سے ملاقات کے لیے ننھے بیٹے صہیب مصعب کو ساتھ لے کر ملاقات کے لیے آیا کرتی تھیں۔ اپنی دونوں بیٹیوں کو عالمیت کے ساتھ عصری تعلیم کے امتحان دلانے لے جایا کرتی تھیں۔ چوں کہ امۃ الرزاق انٹی کی بچوں کی عصری تعلیم اور دینی تعلیم دونوں کے لیے تڑپ ہماری والدہ جیسی ہی تھی اور ان حرکت و عمل میں یکسانیت ہمیں اپنائیت کا احساس دلایا کرتی تھی۔ سمین شیرین کے روم میں انٹی کے اطراف ہم سب لڑکیاں جمع ہوجاتی تھیں۔ بڑی اپنائیت کے ساتھ وہ بچوں کو تحریکی مشن سمجھارہی ہوتیں۔ جی آئی او ممبر بننے کی تاکید کرتی تھیں ۔ہر لمحہ سرگرمِ عمل، پل بھر کو چین نہ لینے والی شخصیت، انتہائی مشفق، عجلت ان کی ہر

ادا سے مترشح ہوتی۔ گویا کہنا چاہتی ہوں
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی

جذبہء توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
اس کے بعد دہلی مرکز میں نمائندگان کے موقع پر ملاقات ہوئی تو اپنے ساتھیوں میں شہنازبتول صاحبہ سے اپنی بیٹی کی طرح ہمیں بھی متعارف کروایا۔ پچھلے سال رمضان میں وہ بیمار تھیں، لیکن ہم سے بیماری کا تذکرہ کیے بغیر اپنی ساتھی تشکیلا صاحبہ کا نمبر دیا۔ بنگلور کے آن لائن پروگرام میں مدعو کیا۔ مہارشٹر کی عالمات تنظیم کے افتتاحی پروگرام میں پرجوش تقریر کرتے ہوئے عالمات کو موجودہ حالات میں ان کے تقاضے یاد کرواتی رہیں ۔بیان میں سوز تھا، ذمہ داری کا احساس تھا، جذبوں میں سچائی تھی اور لہجہ میں اخلاص بول رہا تھا۔
انتقال کی خبر آئی تو آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ کاش ملاقات ہی ہوسکتی۔ موت کی خبر کے بعد ملاقات کے ملال کے سوا کیا بچتا ہے۔دل اداس ہوگیا اسی اداسی میں امۃ الرزاق صاحبہ کا واٹس ایپ چیٹ باکس کھولا ۔دل دھک سے رہ گیا۔ ایک ماہ پہلے میری چھوٹی بہن کے اچانک بیوہ ہوجانے پر انٹی نے میری بہن عرشیہ کو تعزیتی خط لکھا تھا۔ مسیج کے انبار میں شاید دیکھ نہ سکی۔ آج دیکھا بھی تو ان کے انتقال بعد دیکھا۔ دل نے کہا کہ ہمہ جہت تحریکی کاموں کو لے کر چلنے والی خاتون بچوں کی تعلیمی عصری و دینی تربیت کرنے والی امۃ الرزاق انٹی کی مصروف ترین وقت میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ہر ایک کا خیال رکھنے میں کامیاب ہیں۔ وقت میں وسعت سے زیادہ ان کی وسعتِ قلبی کی وجہ ہے۔ کہ وہ مصروفیت میں بھی سب کا خیال رکھتی ہیں ان کی شخصیت اپنی ملاقاتیوں کو اسیر بنادینے والی تھی۔ تحریکی بہنوں کے لیے ان کی زندگی بہت بڑی نصیحت اور سبق ہے۔ تحریکی افراد کا کام جب دوسروں کی دل کی زمین پر محبت کی فصل اگانے والا ہوتو وہ افراد جدا ہوکر بھی دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور تحریک میں دھڑکتے رہتے ہیں۔
روئے زمین پر اعلائے کلۃ اللہ کا اتمام ان کی آنکھوں میں سجا ہوا خواب تھا۔ بلاخر میدان عمل کا سپاہی بارگاہے ایزدی میں یہ کہتا ہوا گیا ہو جیسے؎
یہ چمن ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
رب العالمین آپ کی سعی و جہد کو قبول فرمائے اورآپ سے راضی ہو۔ یقینا ًآپ کا استقبال فرشتوں نے یہ کہتے ہوئے کیا ہوگا:
اے نفسِ مطمئن!

ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً‌ ۞فادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ ۞وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى

جنت کی محفل میں آپ تحریکی بہنوں کے ہم راہ بانی تحریک سے ملی ہوں گی اور رودادِ ارضی سنارہی ہوں گی۔

خان مبشرہ فردوس(ایڈیٹر ھادیہ ای۔میگزین)

وہ میری ماں تھیں !

آج قلم کو اٹھانا اور اپنے خیالات کو کاغذ پر لکھنا ،بہت مشکل اور نا ممکن لگ رہا ہے۔ آج میری ماں اور میری زندگی کا ایک بہت بڑا سہارا مجھ سے جدا ہوگیا۔ امی نے کبھی مجھے بیٹی سے کم نہیں سمجھا اور مجھے یاد نہیں آتا کے کبھی انہوں نے اپنے آپ کو ساس سمجھ کر مجھ سے رشتہ نبھایا۔ وہ میرے لیے
مشفق ماں، ایک بہترین دوست اور مثالی مینٹور تھیں۔ ان کو اللہ سے دین سے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ کبھی بھی کوئی بھی بات اللہ کا ذکر کیے بغیر نہیں کرتیں۔ تہجد گزار اور بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتیں تھیں۔ انہیں بیواؤں اور یتیموں کی بہت فکر تھی۔ کبھی کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ نہیں جاتا۔ مسکینوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر دیتیں۔ بہت زیادہ ہمت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ ہم اگر کہتے بھی کہ امی باہر سے کھانا آرڈر کردیں گے، تو منع کر دیتیںاور کہتیں کہ وہ پیسے کسی ضرورت مند کو دے دیں گے۔ میں خود کھانا بناتی ہوں۔ 100سے لوگوں کا کھانا اکیلے بناتیں اور کبھی بھی مجھے کسی بھی کام کہ لیے زبردستی نہیں کرتیں۔ ہمیشہ یہی کہتی کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانو، دین اور جماعت کے لیے محنت کرو۔
ہمیشہ جماعت کے کاموں سے سفر کرتے وقت بس کا استعمال کرتیں۔ اگر ہم منع کرتے تو کہتی کہ جماعت کے پیسے ہیں۔ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے چاہیئیں۔ ہمیشہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتی۔ کبھی کوئی دنیوی چیز اپنے لیے بہت خواہش اور پسند سے نہیں لی۔ آج لوگ کئی جگہ سے آکر انہیں یاد کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب ہم کس سے اپنا دکھ درد باٹیں گے۔ قرآن سے انہیں گہرا لگاؤ تھا۔ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک قرآن پرس میں رکھا کرتی تھیں اور جہاں موقع ملتا حفظ کرنا شروع کرتیں۔

تسنیم فاطمہ (بہو امۃ الرزاق صاحبہ )

محترمہ امتہ الرزاق صاحبہ
16 ؍اپریل 2022 بعد ظہر
15؍ رَمضانُ المبارک کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئی۔محترمہ سرگرم عمل تحریکی خاتون تھیں۔ دنیا کی زندگی انھوں نے تحریکی سرگرمیوں کے ساتھ گزاری۔ اللہ انھیں آخرت میں بھی کامیاب فرمائے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢