ذہنی اذیت

[کیس اسٹڈی کالم میں حقیقی کہانیاںپیش کی جارہی ہیں۔کرداروں کے نام اور جگہ تبدیل کئے گئے ہیں۔آپ کی نظر میں اس مسئلہ کی بہتر رہ نمائی کیا ہے؟
جس کی رہ نمائی سب سے بہترین ہوگی ، اسے شائع کیا جائے گا۔]

ایک لڑکی کی بہت دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ خوب جہیز بھی دیا گیا۔ سونے چاندی کے زیورات دیے گئے۔ لڑکے کو بہت وضع دار دکھایا گیا۔ مگر ستم یہ ہوا کہ لڑکا نفسیاتی مریض نکلا۔
گھر والوں کا خیال تھا کہ شادی ہو گی، بیوی اس کا خیال رکھے گی تو وہ نفسیاتی مسائل حل ہو جائیں گے۔جب شادی ہوئی تو گھر والوں نے لڑکے کو اپنی بیوی کے قریب دیکھا، لڑکے کے نفسیاتی مسائل کچھ حد تک بہتر ہوتے دیکھ کر لڑکے کی ماں بہنوں نے روایتی ساس نندوں کا کردار ادا کرتے ہوئے لڑکے کو اپنے قابو میں کرنے کا منصوبہ بنایا۔
وہ لڑکا جو بیوی کی محبت پا کر کچھ بہتر ہو رہا تھا۔ وہی مزید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہونے لگا۔
لڑکا گھر والوں کی باتوں میں آ کر بیوی کو مختلف طریقوں سے ذہنی اذیتیں دینے لگا۔کبھی اسے خرچہ نہ دے کر، کبھی دوا نہ لا کر اور کبھی والدین کے گھر جانے سے منع کرکے۔ سسرال والوں نے ظلم یہ روا رکھا کہ سارا دن کام کروانے کے بعد کھانا بھی ڈھنگ سے نہ دیں۔
اس سب کے نتیجے میں وہ ناذوں پلی، محبتوں میں پروان چڑھی لڑکی سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرنے کے باوجود بھی کام چور اور لاپرواہ کے طعنے سننے پر مجبور ہو گئی۔
یہ شادی تقریباً سال بھر چلی۔ لڑکی کے والدین نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے کورٹ سے خلع لے لی۔ جہیز میں سے بہت سا سامان لڑکے والوں نے غائب کر دیا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں غلط ہیں؟
لڑکیوں کی اور بعض معاملات میں لڑکوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
اکثر گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ شادی سے پہلے اپنے گھر کے لڑکے کی طرف کسی کا دھیان یا خیال بھی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی رہا ہوتا ہے۔شادی ہوتے ہی روایتی ساس نند بن جانا کہاں کا انصاف ہے؟
ذرا سوچیے دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے، تکالیف دے کر، جانے انجانے میں اپنی عاقبت خراب کی جا رہی ہے۔
شادی تو گھر اور خاندان بسانے کے لیے کی جاتی ہے۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں شادی کو اپنے ساتھ ہوئے مظالم کا بدلہ چکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اپنی تکالیف اور اذیتوں کا بدلہ دوسروں سے لینے کی بجائے دوسروں میں خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے کی کوشش کریں۔ آپ کا دل بھی مطمئن ہو گا اور آپ کی دنیا و آخرت بھی سنور جائے گی۔

ھادیہ ای۔میگزین کا جاری کیا گیا
نیا کالم ’’ کیس اسٹڈی‘‘پیش کیا جارہا ہے۔
اس کیس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
ہمیں لکھ بھیجیں سب سے
بہترین رائے
کو میگزین میں شائع کیا جائے گا۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. ساجدہ ابواللیث

    السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
    یہ معاملات احکام دین سے دوری کی بناء پر وقوع پذیر ہوتے ہیں والدین بالخصوص ماں بہنیں اپنے بیٹے اور بھائی کے لیے بڑی ہی توجہ سے اچھا سا پیارا سا رشتہ بڑی ہی جد و جہد سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں پھر اس میں دراڑیں کیوں پڑنے لگتی ہیں جبکہ بیٹے اور بہو کی آپسی محبت و مودت دیکھ کر خوش ہونا چاہیے کہ یہی خوشگوار فیملی کی پہچان اور بنیاد ہےیہی آنے والی نسل کے لیے بھی بھلائی کا پیش خیمہ ہے سب سے بڑھ کر یہی دین کا مطلوب و مقصود ہے
    ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها و جعل بينكم مودة ورحمة (الروم ٢١)
    الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے نفس سے تمھارے لیے جوڑے بنائے تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور مودت رکھی ،
    اب اگر اس کے علاوہ کچھ چاہا جارہا تو یہ الله تبارک و تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہے
    پھر بھی اگر کسی کو لڑکے کا بیوی کو چاہنا انتہائی ناپسند اور ناقابلِ برداشت ہے تو میں معذرت کے ساتھ یہی کہوں گی کہ اپنی پسند اور معیار میں تبدیلی لائے اور لڑکے کی بھی اس طرح کی ذہن سازی کرے کہ وہ اپنے معیار مطلوب سے کمتر بیوی کے ساتھ بھی خوش وخرم زندگی گزار سکے،اور معاشرے کی تمام بچیوں کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔

    Reply
  2. مفتی حبیب الرحمن ندوی

    ماشاءاللہ بہت اچھی پہل ہے کیس اسٹڈی کے ساتھ ساتھ ان مسائل کا حل کیا ہو
    شادی سے پہلے والدین کن باتوں کا خیال رکھیں یا لڑکے/لڑکی کے انتخاب میں کن باتوں کو مدنظر رکھا جائے ان سب کو بھی شامل کیا جائے تو مضمون کی افادیت بڑھ جاتی ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢