ٹیچر:بچو! آج آپ کے لیے ایک دلچسپ ہوم ورک ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ایک کتاب ہے، جو بولتی ہے، ہم کلام ہوتی ہے۔اب آپ سب کو پتہ کرنا ہے کہ وہ کون سی کتاب ہے، جو بولتی ہے اورہم کلام ہوتی ہے؟
اللہ آپ کی اس کام میں مدد کرے، اللہ حافظ بچو!
(لڑکیاں آپس میں بات چیت کرتے ہوئے)
بھلا کتاب بات کرتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟
دوسری لڑکی: ہاں یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ چلو گھر جاکر اپنے امی سے معلوم کرتے ہیں۔ اللہ حافظ دوستو!
فاطمہ:السلام علیکم امی جان!
امی :وعلیکم السلام بیٹا! امی جلدی بیٹھیے، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ آج دینیات کے ٹیچر نے ہوم ورک دیا ہے کہ کوئی کتاب ہے، جو ہم سے مخاطب ہوتی ہے، ہم کلام ہوتی ہے۔کیاآپ کو پتہ ہے وہ کون سی کتاب ہے؟
امی : ہاں مجھے پتہ ہے نا، وہ قرآن مجید ہے۔
فاطمہ: آپ کو کیسے پتہ امی؟
امی : بیٹا اس دنیا میں بس ایک ہی واحد کتاب ہے، جو بولتی ہے، ہم سے مخاطب ہوتی ہے۔
فاطمہ: امی یہ کیسے ممکن ہے بھلا کہ کتاب ہم سے باتیں کرتی ہے؟
امی: بیٹا یہ ممکن ہے۔ قرآن ہم سے ہم کلام ہوتی ہے۔ وہ انہی سے بات کرتی ہے جو اُس سے بات کرنے کے خواہشمند ہوں۔ اُس کی زبان ہے نہ منھ، پھر بھی وہ ہم سے مخاطب ہوتی ہے۔ اُس کے کان نہیں ہیں، پھر بھی وہ ہمیں سنتی ہے۔
چلو آج تمہاری بات کرواتے ہیں۔ تمہارے دل میں جو بھی سوالات ہوں، وہ تمہیں مل جائیں گے۔ لیکن ایک نصیحت یاد رکھنا۔ تمہیں اس کتاب پر پورا یقین ہو، تمہاری نیت خالص ہو اور اللہ تعالیٰ سے پناہ کی دُعا طلب کرنا۔ پاک صاف ہوکر وضو کر کے آؤ۔
فاطمہ: جی امی!
( امی اور فاطمہ قرآن مجید پڑھنے کے لیے بیٹھتی ہیں۔ ہر سوال کے جواب میں امی اپنی بیٹی کو قرآن کے آیتوں کے ذریعے جواب دیتی ہیں۔)
فاطمہ: امی میرے دل میں کیا چل رہا ہے،وہ قرآن کو کیسے پتہ چلتا ہے؟
امی: تمہارے اس سوال کا جواب بھی اسی کتاب میں موجود ہے، دیکھو۔
اللہ آپ کی اس کام میں مدد کرے، اللہ حافظ بچو!
(لڑکیاں آپس میں بات چیت کرتے ہوئے)
بھلا کتاب بات کرتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟
دوسری لڑکی: ہاں یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ چلو گھر جاکر اپنے امی سے معلوم کرتے ہیں۔ اللہ حافظ دوستو!
فاطمہ:السلام علیکم امی جان!
امی :وعلیکم السلام بیٹا! امی جلدی بیٹھیے، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ آج دینیات کے ٹیچر نے ہوم ورک دیا ہے کہ کوئی کتاب ہے، جو ہم سے مخاطب ہوتی ہے، ہم کلام ہوتی ہے۔کیاآپ کو پتہ ہے وہ کون سی کتاب ہے؟
امی : ہاں مجھے پتہ ہے نا، وہ قرآن مجید ہے۔
فاطمہ: آپ کو کیسے پتہ امی؟
امی : بیٹا اس دنیا میں بس ایک ہی واحد کتاب ہے، جو بولتی ہے، ہم سے مخاطب ہوتی ہے۔
فاطمہ: امی یہ کیسے ممکن ہے بھلا کہ کتاب ہم سے باتیں کرتی ہے؟
امی: بیٹا یہ ممکن ہے۔ قرآن ہم سے ہم کلام ہوتی ہے۔ وہ انہی سے بات کرتی ہے جو اُس سے بات کرنے کے خواہشمند ہوں۔ اُس کی زبان ہے نہ منھ، پھر بھی وہ ہم سے مخاطب ہوتی ہے۔ اُس کے کان نہیں ہیں، پھر بھی وہ ہمیں سنتی ہے۔
چلو آج تمہاری بات کرواتے ہیں۔ تمہارے دل میں جو بھی سوالات ہوں، وہ تمہیں مل جائیں گے۔ لیکن ایک نصیحت یاد رکھنا۔ تمہیں اس کتاب پر پورا یقین ہو، تمہاری نیت خالص ہو اور اللہ تعالیٰ سے پناہ کی دُعا طلب کرنا۔ پاک صاف ہوکر وضو کر کے آؤ۔
فاطمہ: جی امی!
( امی اور فاطمہ قرآن مجید پڑھنے کے لیے بیٹھتی ہیں۔ ہر سوال کے جواب میں امی اپنی بیٹی کو قرآن کے آیتوں کے ذریعے جواب دیتی ہیں۔)
فاطمہ: امی میرے دل میں کیا چل رہا ہے،وہ قرآن کو کیسے پتہ چلتا ہے؟
امی: تمہارے اس سوال کا جواب بھی اسی کتاب میں موجود ہے، دیکھو۔
وَاَسِرُّوۡا قَوۡلَـكُمۡ اَوِ اجۡهَرُوۡا بِهٖؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞ اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ ۞(الملک: 13۔14)
’’تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اُونچی آواز میں(اللہ کے لیے یکساں ہے۔) وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ حالاں کہ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘
فاطمہ:امی میں تو سمجھتی تھی کہ قرآن محض نبیوں کے واقعات اور نماز روزے تک ہی محدود ہے۔
امی:اچھا!لیکن بیٹا قرآن یہاں تک محدود نہیں ہے۔ قرآن میں ہماری پوری زندگی ہے۔ قرآن کے پاس ہماری ہر پریشانی کا حل ہے۔
امی:پر امی صدیوں پہلی نازل کی گئی کتاب، میری زندگی کے بارے میں کیسے بتاسکتی ہے؟
امی: سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فاطمہ:امی میں تو سمجھتی تھی کہ قرآن محض نبیوں کے واقعات اور نماز روزے تک ہی محدود ہے۔
امی:اچھا!لیکن بیٹا قرآن یہاں تک محدود نہیں ہے۔ قرآن میں ہماری پوری زندگی ہے۔ قرآن کے پاس ہماری ہر پریشانی کا حل ہے۔
امی:پر امی صدیوں پہلی نازل کی گئی کتاب، میری زندگی کے بارے میں کیسے بتاسکتی ہے؟
امی: سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ كِتٰبًا فِيۡهِ ذِكۡرُكُمۡؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۞( الانبیا:۱۰)
’’لوگو !ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟‘‘
فاطمہ: امی ہمارے ٹیچر نے بتایا تھا کہ چار آسمانی کتابوں میں قرآن مجید کے علاوہ ساری کتابوں میں لوگوں نے اپنے حساب سے باتیں شامل کرلی ہیں، تو قرآن میں کوئی غلط بات شامل نہیں کی گئی، اس بات کا کیا ثبوت ہے؟
فاطمہ: امی ہمارے ٹیچر نے بتایا تھا کہ چار آسمانی کتابوں میں قرآن مجید کے علاوہ ساری کتابوں میں لوگوں نے اپنے حساب سے باتیں شامل کرلی ہیں، تو قرآن میں کوئی غلط بات شامل نہیں کی گئی، اس بات کا کیا ثبوت ہے؟
امی:
اَ لۡحَمۡدُ لِلٰهِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا(الکہف:۱)
’’تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔‘‘
بیٹا! اللہ خود اس کتاب کی حفاظت قیامت تک کرے گا۔اس طرح قرآن انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی اور حق و باطل کا فرق واضح کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 185 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہےاور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔
قرآن مجید انسانوں کے نام اللہ سبحان و تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، قرآن ہمارا اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خاص فضل سے نوازتا ہے اور اس کو پڑھنے، سمجھنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ سورہ ص کی آیت 29 میں اللہ فرماتا ہے:’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو (اے محمدﷺ )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے، تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔‘‘
قرآن زندگی کے ہر قدم پر آپ کا ساتھی بن کر چلتا ہے، ہر ٹھوکر پر سہارا دیتا ہے۔ یہ ایک مرہم کی طرح ہے جو نہ کہ صرف زخم بھرتا ہے، بلکہ سکون بھی عطا کرتا ہے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ رہنمائے زندگی ہے، یہ اُس رب العزت کی کتاب ہے جو:
’’اللہ کے تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی زبردست دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول اور وہی آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘(الحدید3-1)
بیٹا! تمہیں پتہ ہے!
’’جب انسان دنیا کی اندھیری راہوں میں بھٹک جا تا ہے اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہ آئے تب اس کے پاس صرف ایک راستہ موجود ہو تا ہے۔ وہ راستہ جو اندھیروں سے دور روشنی کی طرف لے جائے ۔وہ راستہ جو ہے بے چینی واضطرابی کے دلدل سے نکال کر سکون کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو برائیوں کو کچل کر نیکیوں کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو بنا ڈگمگائے سیدھا جنت کی طرف لے جائے ،وہ راستہ قرآن کا راستہ ہے۔‘‘ یہی وہ راستہ جس سے ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں ۔سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی فرما تا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔‘‘
مگر ایک بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا کہ قرآن مجید کا حق صرف پڑھنے سے ادا نہیں ہو تا۔ یہ کتاب دعوتِ تحریک کی بھی کتاب ہے۔پوری دنیا کےلیے انقلابی کتاب ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اسے خود سمجھیں اور اس کتاب کے ذریعہ ساری دنیا میں اس کا پیغام پہنچائے ۔
سورۃ آل عمران کی 110 آیت میں اللہ تعالی فرما تا ہے:’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اب مانتی ہو نہ یہ کتاب بولتی ہے؟
فاطمہ: جی ہاں امی! مانتی بھی ہوں اور یقین بھی کرتی ہوں اور انشاءاللہ عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔انشاءاللہ!
بیٹا! اللہ خود اس کتاب کی حفاظت قیامت تک کرے گا۔اس طرح قرآن انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی اور حق و باطل کا فرق واضح کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 185 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہےاور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔
قرآن مجید انسانوں کے نام اللہ سبحان و تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، قرآن ہمارا اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خاص فضل سے نوازتا ہے اور اس کو پڑھنے، سمجھنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ سورہ ص کی آیت 29 میں اللہ فرماتا ہے:’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو (اے محمدﷺ )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے، تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔‘‘
قرآن زندگی کے ہر قدم پر آپ کا ساتھی بن کر چلتا ہے، ہر ٹھوکر پر سہارا دیتا ہے۔ یہ ایک مرہم کی طرح ہے جو نہ کہ صرف زخم بھرتا ہے، بلکہ سکون بھی عطا کرتا ہے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ رہنمائے زندگی ہے، یہ اُس رب العزت کی کتاب ہے جو:
’’اللہ کے تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی زبردست دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول اور وہی آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘(الحدید3-1)
بیٹا! تمہیں پتہ ہے!
’’جب انسان دنیا کی اندھیری راہوں میں بھٹک جا تا ہے اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہ آئے تب اس کے پاس صرف ایک راستہ موجود ہو تا ہے۔ وہ راستہ جو اندھیروں سے دور روشنی کی طرف لے جائے ۔وہ راستہ جو ہے بے چینی واضطرابی کے دلدل سے نکال کر سکون کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو برائیوں کو کچل کر نیکیوں کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو بنا ڈگمگائے سیدھا جنت کی طرف لے جائے ،وہ راستہ قرآن کا راستہ ہے۔‘‘ یہی وہ راستہ جس سے ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں ۔سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی فرما تا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔‘‘
مگر ایک بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا کہ قرآن مجید کا حق صرف پڑھنے سے ادا نہیں ہو تا۔ یہ کتاب دعوتِ تحریک کی بھی کتاب ہے۔پوری دنیا کےلیے انقلابی کتاب ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اسے خود سمجھیں اور اس کتاب کے ذریعہ ساری دنیا میں اس کا پیغام پہنچائے ۔
سورۃ آل عمران کی 110 آیت میں اللہ تعالی فرما تا ہے:’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اب مانتی ہو نہ یہ کتاب بولتی ہے؟
فاطمہ: جی ہاں امی! مانتی بھی ہوں اور یقین بھی کرتی ہوں اور انشاءاللہ عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔انشاءاللہ!
’’جب انسان دنیا کی اندھیری راہوں میں بھٹک جا تا ہے اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہ آئے تب اس کے پاس صرف ایک راستہ موجود ہو تا ہے۔ وہ راستہ جو اندھیروں سے دور روشنی کی طرف لے جائے ۔وہ راستہ جو ہے بے چینی واضطرابی کے دلدل سے نکال کر سکون کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو برائیوں کو کچل کر نیکیوں کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو بنا ڈگمگائے سیدھا جنت کی طرف لے جائے ،وہ راستہ قرآن کا راستہ ہے۔‘‘
Comments From Facebook
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بہت ہی عمدہ پیرائے میں قرآن مجید کے خطاب سمجھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے، قرآنی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
MashaAllah
MashaAllah bahtreen
ماشاءاللہ