تپ دق صبر طلب علاج اور ہماری ذمہ داری

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے، ان گنت صلاحیتوں سے بہرہ ور فرمایا ہے اور بے شمار قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا :’’ اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو، زبان کے ذریعہ انہیں بیان کرنا چاہو، قلم کی مدد سے ان کااحاطہ کرناچا ہو، تو نہیں کرسکتے۔‘‘ (النحل)مگر ان تمام نعمتوں میں دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے عام لوگوں کے خسارہ اٹھانے کی پیشین گوئی فرمائی ہے:(۱)ایک تو صحت و تندرستی کی نعمت (۲)اور دوسری فرصت و فارغ البالی کی نعمت۔ خسارہ اٹھانے سے مراد اگر مذکورہ دونوں نعمتوں میں محتاط نا رہا جائے تو پھر انسان کا زوال یقینی ہے۔ اس کی مثال عصر حاضر کے تناظر میں ہم کووڈ19- کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اس مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے لیا اور کروڑوں لوگ لقمۂ ازل بن کر اس دارِ فانی سے تڑپتے ہوئےکوچ کرگئے۔ اس وباء نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بے احتیاطی عروج پر ہے۔ کورونا کی آمد کے بعد سے دیگر امراض کے اعداد و شمار پر محمکۂ صحت کی نظر کرم میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس وباء نے محکمۂ صحت کے علاوہ دیگر تمام محکموں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرلی ہے۔ کیوں کہ اس بیماری کی وجہ سے جس تیزی سے اموات کا سلسلہ شروع ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔
بہر حال ہم آج تپ دق مرض سے متعلق واقفیت حاصل کریں گے، جس سے متعلق بے احتیاطی اور درست علاج نا ہونے کی بنا پر لاکھوں لوگ اپنی قیمتی جانیں کووڈ۔19 کے آنےسے کئی سال قبل سے گنواتے آرہے ہیں اور اب بھی کروڑوں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔

یوم تپ دق منانے کی وجوہات

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت (WHO) کے تعاون سے ہر سال ۲۴؍ مارچ کو یوم تپ دق منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کی شروعات ۱۹۹۵ء میں ہوئی تھی۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں تپ دق کے مرض سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
یہ دن ۱۸۸۲ء میں برلن یونیورسٹی کے ادارۂ صحت میں ڈاکٹر رابرٹ کوچ سمیت سائنسدانوں کے ایک گروہ کے تپ دق کی وجوہات دریافت کر نے کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم تپ دق کا مقصد یہی ہے کہ تپ دق کی عالمی وبا کو ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں مزید بیداری لائی جائے۔ اس سلسلے میں کئی ممالک اور تنظیموں کا ایک نیٹ ورک بھی ہے، جسے اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تپ دق کیا ہے؟

سِل یا تپ دق جس کو عام طور پر ٹی بی کہا جاتا ہے، ایک وبائی بیماری ہے جو ایک جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس کا درست علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری اپنی ہلاکت خیزی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور اندازہ ہے کہ ہر سال اس کی وجہ سے سترہ سے بیس لاکھ (بعض اعدادوشمار کے مطابق اس سے بھی زیادہ) افراد کی ہلاکت ہو جاتی ہے، جن میں سے اکثر کا تعلق ترقی پزیر ممالک سے ہوتا ہے۔ طبی الفاظ میں سِل کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ مرض سل یا عرفِ عام میں TB ایک عدوی مرض ہے، جو ایک بیکٹیریا متفطرہ سل (Mycobacterium tuberculosis) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور گو کہ جسم کے کسی بھی حصے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ مگر عام طور پر پھیپڑوں میں نمودار ہوتی ہے۔ متفطرہ سل ایک غیر تخم پرور (Non-spore forming)، غیر متحرک اور حیوائی (Aerobic) بیکٹیریا ہے، جس کا غلاف مومی ہوتا ہے، جو صامد للحمض (Acid fast) رنگداری پر سرخ ہوجاتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا)

ابتدا اور بڑھتے ہوئےاعداد و شمار

دق،جو سل یا دق بھی کہلاتی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی سب سے قدیم، متعدی بیماری ہے،جس نےبستیوں کی بستیاں، نسلوں کی نسلیں تباہ کیں۔ مختلف تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ مرض 70,000 سال قبل افریقہ میں بسنے والے انسانوں میں پایا گیا، جو بعدازاں حیوانوں میں منتقل ہوا۔ اس تحقیق سے پہلے قیاس کیا جاتا تھا کہ 10,000سال پہلے ٹی بی کا مرض براعظم افریقہ میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ جب کہ قبل از مسیح کے فراعین کی ممیوں کی ریڑھ کی ہڈی کے مُہروں میں بھی ٹی بی کے جراثیم دریافت کیے گئے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مرض ہزاروں سال پُرانا ہے۔
برطانیہ کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ تپ دق کی ابتدا تقریباً
۳ ملین سال قبل مشرقی افریقہ میں ہوئی تھی۔ تپ دق کی تفصیل ہندوستان اور چین میں بالترتیب 2300اور 3300سال پہلے پائی گئی۔ علاوہ ازیں ابتدا میں بھارت،پاکستان، انڈونیشیا، چین، نائجیریا، اور جنوبی افریقہ، یہ چھ ممالک تپ دق (TB) سے بہت زیادہ متأثر تھے، لیکن موجودہ دور میں دنیا کے اکثر ممالک اس موذی مرض کا شکار ہے، جس میں سرِ فہرست ہندوستان پاکستان اور نائیجیریا جیسے ترقی پزیر ممالک کا شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک جیسے انگلینڈ برطانیہ وغیرہ بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہیں۔ عالمی ادراۂ صحت کی ٹی بی سی متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق تپِ دق سے لڑنے کے لیے بڑے بڑے اقدامات کیے گئے، جن کی وجہ سے سنہ 1990 کے بعد سے شرح اموات نصف ہوئی ہے اور اس بیماری میں مبتلا ہونے کا تناسب بھی سنہ 2000 سے ایک اعشاریہ پانچ فیصد کم ہوا ہے۔ لیکن باوجود اس کہ 2014 میںWHO عالمی ادارے کی ایک تحقیق کےمطابق بھارت میں گیارہ اور بارہ لاکھ افراد گزشتہ چند سالوں میں اس مرض میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے ہیں اور تقریباً آبادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر ایک فرد کو چھوڑ کر دوسرا فرد اس مرض کا شکار ہے۔
ڈبلیو ایچ او (WHO) میں تپِ دق سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریو نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’دنیا بھر میں تپِ دق اور ایڈز سے متأثر ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ ‘

تشخیص و علامتیں

تپِ دق کی تشخیص کے لیے عمومی طور پر ایکسرے، جِلد،خون اور بلغم کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ تاہم، بعض کیسز میں سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ رہی بات علاج کی، تو اب یہ قابلِ علاج مرض ہے،بشرط یہ کہ مریض ادویہ کے استعمال میں ناغہ نہ کرے اور معالج کی ہدایت پر بھی سختی سے عمل کیا جائے۔ ٹی بی کے علاج میں تاخیرکئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ مثلاً پھیپھڑوں سے خون کا اس قدراخراج کہ موت کا خطرہ لاحق ہوجائے، پھیپھڑوں میں زخم کے نتیجے میں سوراخ ہوجانا، پانی، پیپ اور ہوا بھرجانا اور جسم کا خطرناک حد تک سوکھ جانا وغیرہ۔ علاوہ ازیں، علاج میں کوتاہی، کسی بھی وجہ سے علاج ادھورا چھوڑ دینا،معالج کا ادویہ کی درست مقدار تجویز نہ کرنا، اتائیوں سے علاج کروانا یا پھر غیر معیاری ادویہ کا استعمال عام تپِ دق کو ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی (Multidrug resistant t.b) میں تبدیل کردیتا ہے،جس کا علاج منہگا،طویل اور انتہائی تکلیف دہ بھی ہے۔ پھر بعض کیسز میں ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی ناقابلِ علاج ہوجاتی ہے کہ اس صورت میں جرثوما عام ٹی بی کی ادویہ کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کرلیتا ہے اور چوں کہ ٹی بی کی کوئی دوا مؤثر ثابت نہیں ہوتی،تو جرثوما بھی ختم نہیں ہوتا اور اُس کی افزایش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

علامتیں

مسلسل وزن کم ہونا اَور کمزوری بڑھنا۔
کھانسی میںتھوک یا بلغم کے ساتھ خون نِکلنا۔
دو ہفتے سے زیادہ بخار آنا۔ شام کا بخار جو رات کو پسینہ آنے پر اُتر جاتا ہے۔
سینہ یا پیٹھ کے اُوپری حصے میں درد۔
سانس لینے میں پریشانی۔
اچانک سانس رُک جانا۔
پیلی، لال رنگ کی چمڑی ہوجانا۔
آہستہ آہستہ وزن کی واردات گھٹنے لگنا۔
سنگین سر کا درد ہونا۔
3دورے اور بے ہوشی آنا۔

بچوں میں پائی جانے والی علامتیں

ٹی۔ بی۔ والے بچّوں میں نہ کھانسی ہوتی ہے، نہ رات کا بخار بلکہ اَچھے ھانے مِلنے کے بعد بھی وزن گھٹتا رہتا ہے۔
اُن کو سانس لینے میں پریشانی بھی ہوتی ہے
گردن میں سوجن آ جاتی ہے۔
چمڑا کا رنگ ہَلکا ہو جاتا ہے۔
جرثومے کا پھیلاؤ
1819میں ایک فرانسیسی معالج تھیوفیل لینیک نے تپ دق کی پیتھولوجیکل علامات کی نشاندہی کی۔بشمول کنسولیڈیشن، pleurisy اور pulmonary cavitation اس نے یہ بھی شناخت کیا کہ تپ دق سانس کی نالی (پلمونری تپ دق) کے علاوہ معدے کی نالی، ہڈیوں، جوڑوں، اعصابی نظاموں، لمف نوڈس، جننانگ، پیشاب کی نالیوں، اور جلد (ایکسٹرا پلمونری تپ دق) کو بھی متأثر کر سکتی ہے۔
1882ء میں رابرٹ کاخ (Robert Khock) نامی ایک سائنس دان نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ تپِ دق کے جراثیم کا اصل ہدف نظامِ تنفّس ہے۔ یہ جراثیم سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر افزایش کرتے ہیں۔ مگر بعض اوقات خون کے ذریعے پورے جسم میں بھی پھیل جاتے ہیں۔ مثلاً نظامِ ہاضمہ، اعصابی نظام، دماغ، آنتوں، ہڈیوں، جوڑوں، گُردوں، جِلد، کمر اور غدود وغیرہ سب کو متأثر کردیتے ہیں۔ بعد ازاں، سائنس دانوں نے استقامت کے ساتھ اس جرثومے کی جزئیات، فطرت و ہیئت وغیرہ کے حوالے سے مزید تحقیقات کیں، تو معلوم ہوا کہ یہ جرثوما سلاخ نما جوڑےکی شکل میں زندہ رہتا ہے اور اگر ایک بار سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائے، تو برسوں زندہ رہنے کے باوجود بے ضرر ہی رہتا ہے۔ البتہ اگر مذکورہ فرد کی قوّتِ مدافعت کسی بھی سبب کم زور پڑجائے تو جرثوما فعال ہو کر تپِ دق کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ جراثیم جسم میں داخل ہوکر ایسےمُہلک کیمیائی اجزاء خارج کرتے ہیں، جو اس کے اطراف کے جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ عام طور پرٹی بی سے متأثر فرد کےپھیپھڑوں میں موجود جراثیم تقسیم در تقسیم ہو کر اَن گنت تعداد میں کھانسنے،چیخنے، چلانے یا گانا گانے سے ہوا میں پھیل جاتے ہیں۔ اس دوران اگر یہ کسی صحت مند فرد کے پھیپھڑوں میں سانس لینے کے ساتھ داخل ہوجائیں،تووہاں باریک باریک جھلّیوں میں پرورش پانے لگتے ہیں اور پھیپھڑوں کا درجۂ حرارت، نمی اورصحت مند خلیے اس کی نشوونما کے لیے مرغوب غذا کا کام دیتے ہیں۔ اس مرحلے پر جسم کا دفاعی نظام اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان جراثیم پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ انہیں بےضررکردے۔ صحیح وقت پر اس مرض کی تشخیص سے انسانی جان کی حفاظت ممکن ہے ورنہ تشخیص میں دیری اور نامناسب علاج کی وجہ سے مریض ابدی نیند کی پناہ میں چلا جاتا ہے۔

علاج و ادویات

اینٹی بائیوٹکس کی دریافت سے قبل تک، ٹی بی کا علاج گرمی، آرام اور اچھی خوراک تک محدود تھا۔ 1800کی دہائی کے اوائل میں کاڈ لیور آئل، سرکہ کی مالش اور ہیملاک یا تارپین کو سانس کے زریعے لینا ٹی بی کا علاج تھا۔ لیکن ترقی کے بڑھتے ادوار میں ٹی بی کے علاج میں اینٹی بائیوٹکس ایک اہم پیش رفت تھی۔ 1943میں، سیلمین واکسمین، الزبتھ بگی اور البرٹ شیٹز نے اسٹریپٹومائسن تیار کیا۔ واکس مین کو بعد میں اس دریافت کے لیے 1952 کا نوبل انعام برائے فزیالوجی اور میڈیسن ملا۔ آج، ٹی بی کی بیماری کے علاج کے لیے چار دوائیں استعمال کی جاتی ہیں:

1.Isoniazid(1951)
2.Pyrazinamide(1952)
3.Ethambutol(1961)
4.Rifampin(1966)

یہ 4۔ڈرگ کاک ٹیل اب بھی منشیات کے لیے حساس ٹی بی کا سب سے عام علاج ہے۔

احتیاط و تدابیر

کسی دانا کا حکمت سے معمور قول ہے :’’احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔‘‘اگرچہ ادویات دستیاب ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر تحقیقات کے مطابق بات کی جائے تو ہر ادویات کے کچھ Side effects ہوتے ہیں، جو براہِ راست جسم کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن اگر ان ادویات کا مناسب استعمال کرتے ہوئے احتیاط پر توجہ دی جائے تو طویل عرصہ تک ادویات کے استعمال سے بچا جاسکتا ہے اور جسم کو نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے۔ تدابیر کے چند نکات درج ذیل پیش کیے گے ہیں:
وقت پر ادویات کھانا اور انجیکشن لیں۔
چوںکہ یہ پھیلنے والا مرض ہے، لہٰذا جب بھی کھانسی آئے رومال کے ذریعے منھ کو ڈھانپ لیں۔
صبح کی دھوپ میں تقریباً نصف یا ایک گھنٹہ بیٹھیں۔
قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کےلیے غذائیت سے بھر پور اشیاء جیسے دودھ، مچھلی، انڈے، اکھوا نکلی دالیں وغیرہ کا استعمال کریں۔
ٹھنڈے مشروب سے مکمل پرہیز کریں اور باہر کی تلی اور کھلی ہوئی اشیاء سے مکمل پرہیز کریں۔
استعمال شدہ انجیکشن کا استعمال نہ کریں۔
ادویات کی خوراک کو مخصوص وقت میں ہی لیں۔ وغیرہ وغیرہ

عوامی ذمہ داری

تپ دق ایک ایسا مرض ہے جس کی ادویات کی خوراک بعض مرتبہ طویل عرصہ تک لینی پڑتی ہے۔ جس کی بناپر مریض چڑچڑاپن اور بے چینی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ایسے ناگفتہ حالات میں چاہیے کہ مریض کے گھر والے اس سے ہلکے پھلکے انداز میں مزاح کریں، مختلف سرگرمیوں میں مریض کو ملوث رکھیں، جس کی بنا پر مریض کا ذہن صرف اس کی بیماری کی طرف ہی نا ہو، بلکہ وہ دیگر پسندیدہ مشاغل میں حصہ لے سکے اور جلد صحت کی طرف گامزن ہو۔
مریض کے ساتھ اچھوت جیسے برتاؤ نہ کریں، وہ بھی گھر اور سماج کا فرد ہے، اسے بھی ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ مریض کو دیگر اختراعی کاموں میں مصروف رکھیں تاکہ وہ بااعتماد و باصلاحیت بنیں اور احساس کمتری وغیرہ کا شکار نہ ہواور ہر طرح سے مریض کے ساتھ محبت و الفت کا رویہ اختیار کریں۔

برطانیہ کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ تپ دق کی ابتدا تقریباً ۳ ملین سال قبل مشرقی افریقہ میں ہوئی تھی۔ تپ دق کی تفصیل ہندوستان اور چین میں بالترتیب 2300اور 3300سال پہلے پائی گئی۔ علاوہ ازیں ابتدا میں بھارت،پاکستان، انڈونیشیا، چین، نائجیریا، اور جنوبی افریقہ، یہ چھ ممالک تپ دق (TB) سے بہت زیادہ متأثر تھے، لیکن موجودہ دور میں دنیا کے اکثر ممالک اس موذی مرض کا شکار ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢