سائبرستان کم وقت،بالا نشیں
جناب سید سعادت اللہ حسینی کا’’سائبرستان:سوشل میڈیا اور مسلم نوجوان‘‘ نامی کتابچہ سوشل میڈیا کے اثرات،اس کے دائرۂ کار،اس سے ہونے والے نفع ونقصان اور مسلمان،خصوصاً نوجوان استعمال کنندگان کےلیے مناسب و قابلِ عمل ہدایات پر مشتمل ہے۔کتابچہ دو ابواب پر مشتمل ہے۔اندازہ ہے کہ پہلے پہل یہ الگ الگ مضامین رہے ہوں گے،جنہیں موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کرکے طبع کروا دیا گیا۔
پہلے باب کا عنوان: ’’سائبرستان کی معاشرت‘‘ ہے۔جس میں مغربی محققین کے حوالے سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کی تخیلاتی دنیا انسان کو حقیقی دنیا سے کاٹ کر اسے اپنی خواہش کے مطابق ایک مصنوعی دنیا فراہم کرتی ہے،جہاں وہ اس کے زیر اثر رہ کر ایک طرح کے نشے کا شکار رہتا ہے،جس سے اس کی حقیقی زندگی دگرگوں ہوتی چلی جاتی ہے۔
اور یوں بھی حقیقی زندگی خوبی و خامی اور عیب ہنر کا آمیختہ ہوتی ہے۔اس لیے اپنی کمیوں کو قبول نہ کر پانے اور ان سے راہِ فرار اختیار کرنے والے لوگ اپنی اس من چاہی اور مصنوعی دنیا کی طرف بھاگ کر اپنے خالی پن کو پُر کرنے بلکہ اس سے یکسر صرفِ نظر کی کوشش کرتے ہیں،جہاں ان کی شناخت و خصوصیات وہی ہوتی ہیں جو وہ وہ چاہتے ہیں۔
مغرب کے مختلف سروے رپورٹس اور محققین کی رائے کے مطابق سوشل میڈیا کے Addicted باضابطہ نفسیاتی مریضوں کی فہرست میں شامل ہیںاور مغربی معالجین نے اس کا نام Internet Addiction Disorder رکھا ہے۔
دوسرا باب یا یوں کہہ لیجیے کہ دوسرا مضمون،جس کا عنوان:
’’سوشل میڈیا اور تنظیمی کلچر‘‘ ہے، غالباً جماعت اسلامی ہند کی اسٹوڈنٹ ونگ: ایس آئی او کےلیےکسی موقع پر لکھا گیا ہوگا،جیسا کہ کئی جگہ پہ اس میں ایس آئی او اور مربوط افراد کو Mention کیا گیا ہے۔مناسب ہوتا کہ طباعت سے قبل نظر ثانی کرتے ہوئی ایس آئی او والے فقروں میں مناسب اور معمولی سی تبدیلی کر دی جاتی، جس سے ہر قاری کو تخاطب ہو جاتا۔
اس باب میں سوشل میڈیا کے منافع،مثلاً:ہر بندے کو اپنی آواز کے بلند کرنے کےلیے پلیٹ فارم کے ملنے اور دعوت دین سے جڑے ہوئے افراد کےلیے وسیلے کے مہیا ہو جانے کا ذکر ہے۔ساتھ ہی اس کے دوسرے پہلو پر بھی گفتگو کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کا اصل مقصد عالمی سرمایہ داروں کی معاونت بلکہ خدمت ہے،جن کےلیے یہ کمپنیز انہیں اپنے صارفین کی دل چسپیوں کے اعتبار سے اکٹھا کیا ہوا ڈاٹا فروخت کرکے ان کے ’’شکار‘‘ تک ان کی رسائی آسان بناتے ہیں۔
ایسے ہی سوشل میڈیا -لاعلمی میں ہی سہی- جہاں جھوٹی اور غیر مستند خبروں کا اڈہ بنتا جا رہا ہے،وہیں پروپیگنڈاکرنے اور افواہ پھیلانے والوں کےلیے بھی ایک ہتھیار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
کتابچے کے مشمولات معلومات افزاء،چشم کشا اور لائق استفادہ ہیں۔زبان و اسلوب کی دل کشی بھی اپنا جادو جگاتی رہتی ہے۔بعض مقامات پر ٹائپنگ کی غلطیاں بھی در آئی ہیں،مثلاً:صفحہ 7 پر’’…بے معنی ہو جاتی ہیں‘‘ کے بہ جائے ’’بے معنی ہو جاتیں ہیں۔‘‘ صفحہ 19 پر نیویارک ’’او‘‘ کے بہ جائے ’’اے‘‘ کے ساتھ’’New Yark‘‘ اسپیلڈ ہے۔ اسی صفحے پر ڈاکٹر Kimberly Young کا نام’’Kimerly‘‘ اور Addiction کہ بہ جائے Addition ہو گیا ہے۔وہیں Edition کا مخفف کہیں Ed استعمال کیا گیا ہے اور کہیں Edi۔
میرے خیال سے کہیں کہیں الفاظ میں بھی تھوڑے سے استبدال کی گنجائش ہے،مثلاً صفحہ 13 پر Social Activism کا ترجمہ سماجی حرکیت کیا گیا ہے۔میری رائے میں ’’سماجی تحرک‘‘ بہتر ہوتا۔اسی صفحے پر ایک جملہ ہے:’’گلہائے رنگ رنگ سے چمن کی رونق فطرت کا اٹل اصول ہے‘‘۔ میرے علم کے مطابق اس جملے کے پہلے جزو کا ماخذ محمد ابراہیم ذوقؔ کا شعر:
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
ہے۔لہٰذا یہاں بھی ’’رنگارنگ‘‘ ہی مناسب ہوتا۔
پیپر بیک میں چھپی ہوئی بتیس صفحے یعنی محض سولہ ورق کے کتابچے کی قیمت چالیس روپے زیادہ ہے۔تاہم کتاب کی نافعیت کے پیش نظر یہ زیادتی بھی گوارہ کی جا سکتی ہے۔
مختصر یہ کہ کتاب پڑھنے نہیں،بلکہ وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنے اور سوشل میڈیا کے استعمال کے اصول،آداب تازہ کرتے رہنے کے لیے نہایت کارآمد ہے۔سو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کتابچہ کم خرچ نہ سہی،کم وقت،بالا نشیں ضرور ہے۔

سوشل میڈیا کا اصل مقصد عالمی
سرمایہ داروں کی معاونت بلکہ خدمت ہے،
جن کےلیے یہ کمپنیز انہیں اپنے صارفین کی دل چسپیوں کے اعتبار سے اکٹھا کیا ہوا ڈاٹا
فروخت کرکے ان کے ’’شکار‘‘ تک ان کی رسائی آسان بناتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢