رمضان کے اثرات مؤمن کےشب وروز پر

سوچیے!

آپ نے ایک پودا لگایا، اسے محنت سے دن دن بھر سیراب کیا، رات رات بھر جاگ کر اس کی نگہداشت کی اور جب وہ پودا کچھ توانا ہوا تو اسے پانی دینا چھوڑ دیا اور وہ مرجھاگیا۔ آپ کو اس کے پھولوں کی خوش بو بھی نہیں ملی اور اس کے فرحت بخش پھلوں سے بھی محرومی ہوئی۔ دانائی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس طرح شروع میں پودے کی دیکھ بھال اور خدمت کی ،اسی طرح بعد میں بھی کرتے رہتے۔
رمضان کا مبارک مہینہ گزر گیا۔ اس کے گزرنے سے بہت سے لوگوں پر افسردگی اور مایوسی طاری ہے، جیسے کوئی عزیز مہمان رخصت ہوگیا ہو اور بہت دنوں تک اس کے واپس آنے کی امید نہ ہو۔ جب کہ بہت سے لوگوں پر عجیب اطمینان طاری ہے، جیسے ان کے ذمے کا کام ختم ہوگیا اور اب ان پر کوئی ذمے داری نہیں رہی۔ یہ دونوں ہی کیفیتیں رمضان کی روح اور پیام کے منافی ہیں۔ رمضان اگر رخصت ہوا تو ایمان اور اس کے تقاضے ، شریعت اور اس کے احکام ، اللہ اور اس سے تعلق تو باقی ہے۔
رمضان حقیقت میں ایک سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک سفر کا آغاز ہے۔ رمضان انتہا نہیں ابتدا ہے۔ رمضان سب کچھ لے کر اور رب کی ساری رحمتیں اور برکتیں لپیٹ کر اپنے ساتھ نہیں لے نہیں جاتا ہے، بلکہ وہ تو بہت کچھ دے کر جھولیاں بھرکر اور نعمتوں سے مالا مال کرکے جاتا ہے۔ رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے، لیکن اس کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ رمضان گیا اب کیا کریں؟
سب سے اہم اور ضروری کام جس کے لیے کسی زمانے اور مقام کی قید نہیں، مگر رمضان اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنادیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ سے ٹوٹا ہوا رشتہ مضبوط جوڑیں۔ توبہ کی قرآن اور حدیث میں اس قدر ترغیب و تاکید ہے اور اس قدر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایمان کے بعد وہ سب سے اہم چیز معلوم ہوتی ہے۔قرآن میں ہے:

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(النور: 31)
’’اے مومنو ! تم سب اللہ کی طرف رجوع کرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحريم8:)
’’اے ایمان والو ! اللہ کی طرف پلٹو اور سچی توبہ کرو۔‘‘

قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف ضرورت کی چیز اور مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ جب آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو توبہ کرے۔ توبہ تو ایک مستقل عبادت ہے۔ یہ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے اور اللہ سے لو لگائے رکھنے کا نام ہے۔
رمضان کے بعد سب سے مقدم اور سب سے اعلی و افضل کام یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور پھر توبہ واستغفار والی زندگی گزاریں۔ حدیث میں ہے کہ وہ شخص بڑا خوش نصیب ہوگا جو حشر کے دن اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے گا۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ لے آنا کافی ہے۔ اس کے بعد اس کو تازگی غذا اور تجدید کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایمان اسی طرح پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا میلا اور پرانا ہوجاتا ہے۔ اس کو نیا اور اجلا کرتے رہو۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ اس کو کس طرح نیا کریں؟ فرمایا: لا الہ الا اللہ کا کثرت سے ورد کرو۔ رمضان میں ایمان تازہ ہوجاتا ہے، اس کے بعد ایمان کی تجدید کا کام مسلسل کرتے رہنا چاہیے۔
رمضان المبارک کا بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ رمضان تو سال بھر کے لیے رخصت ہوا مگر ہمیں اپنی سوغات سے مانوس کرگیا۔ ضروری ہے کہ رمضان کے بعد ہم اس تحفے کو سینے سے لگائیں، اس کی تلاوت کرتے رہیں، اس میں تدبر کریں اور اس سے تعلق کے تمام تقاضے پورے کریں۔
بہت سے لوگ رمضان میں بڑی مستعدی کے ساتھ قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں، مگر رمضان ختم ہوتے ہی اس کو طاق پر ایسا رکھتے ہیں کہ پھر اگلے رمضان ہی میں دوبارہ اتارتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی بڑی ناقدری اور ہماری بڑی نادانی ہے۔ رمضان اس لیے آتا ہے کہ آپ سال بھر اس کو پڑھتے رہیں ، رمضان کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید سے اپناتعلق باقی رکھیں ، اس کی تلاوت اور اس پر غور و تدبر کریں۔
رمضان المبارک ہم دردی و غم خواری، امداد واعانت اور حسن و سلوک کا خاص مہینہ ہے۔ اس کو نیکی اور مواسات کا مہینہ کہا گیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں اس شعبہ کو زندہ رکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی خبر لیتے رہنا چاہیے، جو ہماری مدد کے مستحق ہیں۔ رمضان گزرنے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت ، غربا پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کی کوشش ہو۔ یہ سب وہ کام ہیں جو رمضان کے بعد بھی جاری رہنے چاہئیں اور جن کے لیے رمضان خاص طور پر تیار کرکے جاتا ہے۔
رمضان میں ہماری زبانیں بہت سی برائیوں سے پاک رہتی ہیں۔ غیبت، چغل خوری، گالم گلوج، فحش اور بے حیائی کی باتیں۔ رمضان بعد اگر یہ سب غلاظتیں دوبارہ ہماری زبانوں پر لوٹ آئیں تو یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔ ہم نے رمضان میں اپنی زبانوں کو اللہ کے ذکر کا عادی بنایا تھا، اب ہماری سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ اپنے دل اور زبان کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھیں اور گندگی سے دور رہیں۔
رمضان کے ساتھ عید کا پیغام بھی یاد رکھیں۔ عید ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہ رمضان کے مہینے کی طرح پورے سال بھر اللہ کی بڑائی بیان کریں، اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور پیارے رسولﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ جس نے عید سے یہ پیغام لیا، اللہ کے نزدیک اس کا ہر دن عید کا دن ہوگا۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحريم8:)
’’اے ایمان والو ! اللہ کی طرف پلٹو اور سچی توبہ کرو۔‘‘
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف ضرورت کی چیز اور مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ جب آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو توبہ کرے۔ توبہ تو ایک مستقل عبادت ہے۔ یہ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے اور اللہ سے لو لگائے رکھنے کا نام ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢