یہ دور سنگ دل ہی نہیں تنگ دل بھی ہے !

شہزادی جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھی۔ ایک طرف ہانڈی میں چمچہ چلاتی تو دوسری طرف توے پر سک رہی روٹی پر بھی نظر رکھے رہتی۔ دِل ماضی کے درد و الم میں اُلجھا ہوا اور دماغ مستقبل کے اندیشوں اور خدشوں سے نبرآزما۔ اُسے بھائی کی بے رُخی کسی بڑے خطرے کا پیغام دے رہی تھی۔ گھر کے سارے کام کاج کرنے کے باوجود بھابھی کا دماغ فلک سے نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ لاکھ وسوسوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتی، مگر کچھ تو ایسا تھا جو اُسکے دِل کو چبھ سا جاتا۔
شہزادی کی کہانی بھی وہی کہانی تھی جو ہمارے سماج کی نہ جانے کتنی شہزادیوں کے کہانی ہے۔ جنہیں زمانے کے تھپیڑوں اور معاشرے کی سخت دلی نے رول دیا۔ خاندان اور سماج کے دباؤ اور بڑھتی عمر کے خوف سے وہ ایک ایسی جگہ بیاہ دی گئیں، جہاں وہ رشتے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی۔ کچھ ہی عرصے بعد شادی طلاق کی صورت میں ختم ہوئی اور زندگی پھر سے ایک سخت باب کی شکل میں شروع ہوئی۔ اب اُس کی واحد پناہ گاہ وہی تھی، جہاں اُس کی ماں نے بھی بہت گھٹ گھٹ کر آخری سانسیں لی تھیں اور وہ پناہ گاہ تھی اُس کے بھائی کا گھر!
یہی بھائی اور باپ کا گھر ہی تو بیٹیوں اور بہنوں کے مان کا منبع ہوتا ہے۔ یہی تو وہ پناہ گاہ ہوتی ہے جو زمانے کی تپش سے بچنے کی واحد جگہ ہوتی ہے۔ مگر والدین کے بعد کیا یہ پناہ گاہ واقعی پناہ گاہ ہوتی ہے؟
شہزادی کا ذہن سوچ سوچ کر تھک گیا۔ وہ اپنے وجود کو گھسیٹ کر کسی طرح کاموں کو نمٹا کر بستر پر آگئی ۔رات کی سیاہ چادر اُسے اپنی زندگی سے زیادہ سیاہ نہیں لگتی تھی کہ رات کی سیاہی ختم ہوکر صبح کا پیغام لائے گی، مگر اُس کی ایک طرح کی زندگی کی بھی بھلا کبھی صبح ہوگی؟
اگلے دن کا سورج نکل گیا تھا۔ اُس کا وجود پھر سے کام کرنے کی مشین بن گیا۔ دفعتاً بھابھی کی آواز سماعت سے ٹکرائی، جو اپنے میاں سے گلہ کر رہی تھیں ۔
کیا شہزادی کی ذمہ داری صرف ہماری ہی زمہ داری ہے؟ کیا ہم ہی اسے کھلائیں گے اور بہن بھائیوں کی کوئی ذمےداری نہیں بنتی؟ ہمارا بھی تو اتنا بڑا پریوار ہے۔ہم اتنی معمولی تنخواہ میں کیسے گزارا کر سکتے ہیں؟
شہزادی کا بھائی مسجد میں امام تھا بچّوں کو قرآن پڑھانا سکھاتا تھا۔بھابھی کا گِلہ اور بھائی کی خاموشی دیکھ کر شہزادی کا دل منھ کو آگیا۔ بھائی کی خاموشی اُسے چیخنے پر مجبور کر رہی تھی، مگر وہ چیخ کہیں اندر گھٹ گئی کہ بھائی کا ضمیر بھی تو اندر کہیں گھٹ کر دم توڑ چکا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ شہزادی کی زندگی بھی دھیرے دھیرے رینگ رہی تھی۔ پھر اچانک یوں ہوا کہ بھابھی کی ’محنت‘ اور لگن ایک دن رنگ لے آئی اور کسی معمولی بات پر بھائی کا اندر کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ اُس نے صاف حکم صادر کر دیا کہ اب بس بہت ہوا، تم اب گھر سے چلی جاؤ۔ ہم اکیلے تمہارے ذمےداری نہیں!
شہزادی بھی ڈٹ کے اُس کے سامنے کھڑی ہو گئی کہ وہ کہیں نہیں جائے گی۔ اس گھر میں اُس کا بھی حصّہ ہے۔ اُسے اُس کا وہ حصہ دیا جائے جو اُس کی ماں نے اپنا کھیت بیچ کر اس گھر کی تعمیر میں لگایا تھا ۔
کیساحصّہ اور کہاں کا حق ! امام صاحب کا غُصّہ ساتوے آسمان پر تھا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ حق کا مطالبہ کرنے والی بہن کو قتل ہی کر دیں ۔
امام صاحب نے وہی زوردار، گرج دار اور غیض و غضب والی آواز نکالی، جس سے ہمارے سماج کا مرد عورت کو مخاطب کرتا رہا ہے۔ پھر امام صاحب نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے شہزادی کو گھر سے نکال دیا اور خود’ مسجد میں خطبے‘ کے لیے نکل پڑے کہ ابھی مسجد میں بھی تو اُنھیں زور دار آواز میں خطبہ دینا تھا۔!!

شہزادی بھی ڈٹ کے اُس کے سامنے کھڑی ہو گئی کہ وہ کہیں نہیں جائے گی۔ اس گھر میں اُس کا بھی حصّہ ہے۔
اُسے اُس کا وہ حصہ دیا جائے جو اُس کی ماں نے اپنا کھیت بیچ کر اس گھر کی تعمیر میں لگایا تھا ۔ کیساحصّہ اور کہاں کا حق ! امام صاحب کا غُصّہ ساتوے آسمان پر تھا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ حق کا مطالبہ کرنے والی بہن کو قتل ہی کر دیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ٢٠٢٢