تب ہی کال بیل بجی۔
’’ممی! دانش ہوں گے…‘‘وہ ہر بڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’جاؤدانش کو اندر لے آؤ۔‘‘وہ بولی تو زوبیہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
’’’السلام و علیکم آنٹی…‘‘دانش نے ہال میں داخل ہوتے ہی باآواز کہا۔
’’وعلیکم السلام…جیتے رہو۔‘‘سمیرا بیگم نے محبت سے کہا ۔زوبیہ کے گال گلنار ہوگئے تھے۔
’’زوبی چائے لے آؤ بیٹا…!‘‘وہ زوبیہ دیکھ بولی تو دوڑتی کچن میں داخل ہوئی۔
’’زوبی کو لینے آئے ہیں۔ ‘‘سمیرا بیگم نے پوچھا۔
’’آج آفس سے نکلتے ہوئے دیر ہوگئی ہے۔ میں نے کال کرکے زوبیہ کو بتایا تھا۔ زوبیہ نے آپ سے کہا نہیں…؟‘‘دانش نے کہا۔
’’جی بیٹا! بتایا تھا۔‘‘وہ بولیں۔
’’کیا زوبیہ میرے ساتھ آنا نہیں چاہتی ہے؟‘‘دانش کے ضبط کر نے کے باوجود لہجہ ناگوار ہو گیا تھا۔
’’ایسا تو نہیں ہے بیٹا۔ یہ تو تیار ہی بیٹھی تھی آپ کے انتظار میں ۔‘‘
سمیرا بیگم چائے دیتی زوبیہ کو دیکھ کر بولیں، جس نے بیزاری سے منھ بنایا۔
’’عامر کل آنے والا ہے، وہ بھی زوبیہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ مناسب سمجھو تو کبھی کبھار زوبیہ کو رہنے کے لیے چھوڑ جایا کرو۔بلکہ آپ بھی یہیں ساتھ ہی رک جایا کریں۔‘‘سمیرا بیگم نے نرمی سے کہا۔ زوبیہ خفگی سے دیکھنے لگی اپنی ہی بیٹی کو اپنے ہی پاس چند روز رکھنے کے لیے ،اتنی منتیں …؟
’’جی دیکھوں گا…اب اجازت دیں…‘‘وہ اٹھ کھڑا ہوا تو زوبیہ خفگی سے ماں کو دیکھتے ہوئے عبایا پہننے لگی۔
’’کھانا کھا کر جاتے بیٹا…!‘‘وہ محبت سے بولی۔
’’نہیں آنٹی…امی کو بتایا نہیں۔ وہ میرے بغیر کھانا نہیں کھاتیں۔‘‘دانش نے سادگی سے کہا۔
سمیرا بیگم کو یہ جملہ کئی دفعہ گھوم گھوم کر سنائی دیا۔
بات تو اس روز بھی کچھ نہیں تھی۔ وہ کئی روز بعد میکے آئی تھی کہ دو چھٹیاں ہی اس نے میکے میں گزاریں اور شام کو مسعود اسے لینے آگئے تھے ۔ دوسرے روز آفس جانا تھا۔ امی نے رات کا کھانے کا خاصا احتمام کروالیا تھا، مگر مسعود نے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔
’’اگر آپ پہلے کہتی تو میں…امی سے کہہ دیتا، امی میرے بغیر کھانا نہیں کھائیں گی۔‘‘
مسعود بولا تھا
’’کیوں؟‘‘مونا بھابھی نے پوچھا۔
’’شروع سے ہی ہمارے گھر کا اصول رہا ہے کہ رات کا کھانا ہم سب اکٹھے ہی کھاتے ہیں۔‘‘مسعود رسان سے بولا۔
’’شادی کے بعد رسموں میں تبدیلی آجاتی ہے۔‘‘ناعمہ بھابھی نے ہنس کر کہا۔
ایسا تو کچھ ہو نے سے رہا۔ گھر کے اصول کسی ایک شخص کے لیے بدلے تھوڑی جاتے ہیں۔ اس ایک شخص کو ہی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوتا ہے ۔‘‘ مسعود برجستہ بولا ۔وہ اپنی جگہ تلملا ہی تو گئی تھی۔
پھر خاور بھائی اور دلاور بھائی کے مجبور کر نے پر مسعود کھانے کے لیے رک گیا۔ اس کا موڈ سخت آف تھا۔
’’بھلا کیا ضرورت تھی یہ بتانے کی کہ تم والدین کے اتنے فرماں بردار ہو۔‘‘راستہ میں اس نے کہا۔ مسعود خاموش رہا۔ اسے علم تھا کہ بات بڑھ جائے گی۔
’’خواہ مخواہ بھابیوں کے سامنے سبکی کردی۔‘‘وہ بپھر کر بولی۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے اور سلمیٰ خاتون جاگ رہی تھیں، بلکہ گیٹ بھی انہیں نے کھولا تھا۔
’’السلام علیکم امی!‘‘ مسعود شرمندہ سا بولا۔ جیسے کوئی جرم کر لیا ہو۔ وہ تلخی سے اسے دیکھنے لگیں۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ انہوں نے محبت سے کہا۔ اسے پیار کیا اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگیں۔
’’ابا سوگئے امی…؟‘‘ مسعود ماں سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔
’’ہاں! کھانا لگاؤں…؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’ہم تو کھا کر آئے ہیں۔‘‘ وہ مسعود سے پہلے بول پڑی۔
’’امی نے کھانے پر روک لیا تھا۔‘‘اسے دیکھتے ہوئے مزید بولی۔
’’اچھا کیا…!اب جاؤ آرام کرو ۔‘‘وہ مسکرا کر بولیں۔
’’امی آپ نے کھانا کھایا؟‘‘مسعود نے ماں کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’نہیں…میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘ سلمیٰ خاتونِ نے بہانہ کیا۔ مسعود کو پتہ تھا کہ وہ اس کے بغیر کھانا نہیں کھائیں گی۔ وہ ہی نہیں اور کوئی بھی ان کی اولاد میں سے ہوتا تو بھوکی ہی بیٹھی رہتیں، جب تک کہ وہ واپس نہ آجائے۔ سلمیٰ خاتون نے کتنی محبت اور محنت سے گھر کو سینچا تھا ۔
’’کیا ہوا امی ؟‘‘وہ فکرمندی سے بولا تو وہ غصہ سے تلملا اٹھی۔
’’کچھ نہیں مسعود بیٹا سر میں درد تھا۔‘‘وہ مسکرائیں۔
’’اب ٹھیک ہے امی!‘‘مسعود ان کا سر چیک کرنے لگا۔
’’ہاں ٹیبلیٹ لی تھی…!‘‘سلمیٰ خاتون اس کا ہاتھ تھام کر محبت سے بولیں۔
’’سوری امی! مجھے پتہ ہے آپ نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا۔ میں کیا کرتا؟ انہوں نے مجبور کر دیا تھا۔‘‘جب وہ کمرے کی طرف بڑھی تو اس نے سنا مسعود کہہ رہا تھا۔
’’بیٹا میں نے کچھ کہا تو نہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔‘‘انہوں نے رسان سے کہا۔
’’سوری امی! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں کھانا لاؤں آپ کے لیے۔‘‘مسعود نے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بھوک نہیں بیٹا! آپ جاؤ آرام کرو۔ کل آفس بھی جانا ہے۔‘‘وہ محبت سے بولی۔
اس کا غصہ سے برا حال تھا۔ وہ کمرے میں آئی اور بنا کپڑے تبدیل کیے ہی بستر پر ڈھیر ہوگئی۔مارے غصہ کے اسے لگ رہا تھا جیسے پورے وجود میں چیونٹیاں رینگ رہی ہوں۔مسعود کافی دیر بعد آیا تھا اور وہ سوتی بن گئی تھی۔
’’مجھے علم ہے…تم سو نہیں رہیں۔‘‘وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا بولا۔ وہ کچھ نہ بولی، بلکہ اس کی طرف سے کروٹ بدل لی تھی۔
’’دیکھو سمی…!آج امی پہلی دفعہ میری وجہ سے دکھی ہوئی ہیں۔ مجھ سے امی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔ قصور میرا تھا۔ میں انھیں فون کر دیتا تو وہ یوں ابھی تک بھوکی نہ بیٹھی رہتیں ۔‘‘مسعود نے دکھ سے کہا۔
’’اب تو بہلا آئے نا… معافیاں بھی مانگ لیں۔‘‘وہ تڑخ کے بولی ۔
’’یہ فرض تمہارا بھی تو تھا نا۔‘‘ مسعود نے لہجے کو نرم رکھا۔ اس کے رویہ پر غصہ تو بہت آرہا تھا۔
’’کیوں…؟‘‘وہ ایک دم سیدھی ہو کر اٹھ بیٹھی تھی۔
’’آخر میری ماں کی دلجوئی بھی تو تمہارا فرض ہے۔‘‘مسعود نے اسے دیکھ کر کہا۔
’’یہ فرض تم ہی ادا کرو۔ مجھ سے یہ چونچلے نہیں اٹھائے جاتے۔‘‘اس نے تنک کر صاف صاف کہا۔ مسعود حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’تم وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا۔‘‘مسعود نے کہنا چاہا، لیکن کہہ نہ سکا۔
یہ جملہ اس کے ذہن میں یوں گونج رہا تھا، جسے کسی پہاڑ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی جاتی ہے اور آواز کی بازگشت بار بار کانوں میں سنائی دے۔
مسعود نے کچھ نہ کہا اور چادر تان کر سو نے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ممی…!کہاں کھو گئیں آپ؟‘‘زوبیہ نے اسے ہلایا تو وہ جیسے خواب سے جاگی تھیں ۔
’’کیا آپ برا مان گئی ہیں، کھانا سے منع کرنے پر؟‘‘دانش نے پہلے زوبیہ، پھر سمیرا بیگم کو دیکھ کر کہا۔ ان کی اچانک خاموشی دونوں کو سمجھ نہیں آئی۔
’’نہیں بیٹا… ماشاءاللہ بہت اچھی بات ہے۔ آپ اپنے والدین کا اتنا خیال رکھتے ہیں۔ مجھے آپ کی سعادت مندی بہت پسند آئی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے بیٹا۔‘‘سمیرا بیگم بھر پور انداز میں مسکرائیں۔ زوبیہ نے ناگواری سے ماں کو دیکھا، سلام کیا اور گلے لگ گئی۔ آخر ماں ہی تھی۔
’’آئندہ میں کبھی نہیں رہوں گی ممی۔‘‘زوبیہ کی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں۔ سمیرا بیگم کی ساری دنیا ایک لمحے کے لیے ڈول گئی۔
’’یہ تو اور اچھی بات ہے۔‘‘پھر بھی ضبط سے بولی۔
دانش…!آپ لوگ پھر آنا اور یہاں رہنا …‘‘وہ ہنستی ہوئی بولیں اور دونوں کو لیے باہر آگئیں۔
’’بہتر آنٹی۔‘‘دانش نے بائیک سنبھال لی اور زوبیہ اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ ان کے جانے کے بعد بھی سمیرا بیگم کتنی دیر تک وہیں کھڑی رہی تھیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے یادوں کے پنچھی ان کے ذہن کے آسمان پر اڑتے پھر رہے تھے۔ آخر تھک کر وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں تھیں
٭٭٭
مسعود سے اس کی پہلی ملاقات یو نیورسٹی میں ہوئی تھی۔ وہ تیزی سے کلاس روم سے باہر نکل رہی تھی۔ عین مسعود کی ڈیسک کے سامنے سے گزری اور کسی نے اس کا لہراتا دوپٹہ کھینچا۔ وہ ہڑبراتے ہوئے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے غصہ سے پلٹی۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔‘‘وہ چیخی
مسعود سر جھکائے کتاب پڑھ رہا تھا۔ حیرانی سے اسے دیکھا ،جو غصہ سے شیرنی بنی کھا جانے نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’جی…؟‘‘وہ بھنویں اچکا کر بولا۔
’’جی…!میرا دوپٹہ…؟‘‘وہ چڑ کر بولی اور دوپٹہ کھینچا، جو لکڑی کے بینچ میں اٹکا تھا اور اس کے اس طرح جارحانہ انداز میں کھینچنے سے آواز کے ساتھ پھٹ گیا تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔
’’ہائے…!میرا دوپٹہ …!‘‘وہ بے اختیار چیخی۔
قریب کھڑے طلبہ جو حیرت و تجسس سے کھڑے دیکھ رہے تھے، قصہ سمجھ آتے ہی قہقہے لگا گئے۔ اس نے دوپٹہ جیسے تیسے نکال لیا۔
وہ خجل ہوگئی اور واپس پلٹ کر کامن روم کی طرف بڑھی۔ وہ انتہائی شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔
’’پتہ نہیں آج کس کا منھ دیکھا تھا…‘‘وہ بڑبڑائی۔
فائنل اگزام کا رزلٹ آیا۔ وہ اور عالیہ فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوئے تھے۔ عالیہ کی شادی ہو گئی۔سمیرا نے بہت مشکل سے حسن ہمدانی سے جاب کرنے کی اجازت لی تھی، ورنہ وہ لڑکیوں کےجاب کرنے کے حق میں نہیں تھے، مگر وہ تو بھائیوں کی بھی لاڈلی تھی اور امی ابو کی بھی۔ سو اس کی مانی گئی۔ پھر گھر میں سب سے چھوٹی تھی تو اپنی ہر بات منوانا حق سمجھتی تھی۔
اس کے دونوں بھائیوں کی کنسٹرکشن کمپنی تھی اور وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ بڑے بھیا خاور حسن، ان کی اولادیں صبیحہ، حیدراور زنیرا اور رازق تھے۔ چھوٹے بھائی دلاور کے دو بیٹے رافع،جمیل زہرا آپا اپنی گھر کی تھیں۔ ان کی شادی میٹرک کے بعد ہی کردی گئی تھی۔ یہ تو سمیرا نے ضد میں پڑھا تھا اور اب ضد میں ہی ایک الیکٹرانک کمپنی میں اسے جاب مل گئی تھی۔
٭٭٭
’’اسلام علیکم‘‘ ۔پہلے ہی دن کمپنی میں وہ سامنے ہی نظر آگیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
’’میں بھی یہیں جاب کرتا ہوں۔‘‘وہ مسکرایا اور بڑھ گیا۔
وہ بھی اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی تھی۔
اب تو مسعود سے روزانہ کا سامنا ہوا کرتا تھا۔ وہ ساتھ ہی نکلتے اور ساتھ ہی واپس بھی لوٹتے تھے۔ سمیرا کو ابھی تک اس کا اسٹاپ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کدھر سے چڑھتا ہے اور کدھر اترتا تھا۔
مسعود نے کبھی اسے کوئی شوخ جملہ نہ کہاتھا۔ کبھی مستقبل کی پلاننگ نہ کی تھی۔ نہ ہی ہمیشہ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا ئیں ۔وہ بس ہلکی پھلکی باتیں ہوتیں۔ کچھ آفس کی باتیں اور بس خاموشی……!(جاری)
’’ممی! دانش ہوں گے…‘‘وہ ہر بڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’جاؤدانش کو اندر لے آؤ۔‘‘وہ بولی تو زوبیہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
’’’السلام و علیکم آنٹی…‘‘دانش نے ہال میں داخل ہوتے ہی باآواز کہا۔
’’وعلیکم السلام…جیتے رہو۔‘‘سمیرا بیگم نے محبت سے کہا ۔زوبیہ کے گال گلنار ہوگئے تھے۔
’’زوبی چائے لے آؤ بیٹا…!‘‘وہ زوبیہ دیکھ بولی تو دوڑتی کچن میں داخل ہوئی۔
’’زوبی کو لینے آئے ہیں۔ ‘‘سمیرا بیگم نے پوچھا۔
’’آج آفس سے نکلتے ہوئے دیر ہوگئی ہے۔ میں نے کال کرکے زوبیہ کو بتایا تھا۔ زوبیہ نے آپ سے کہا نہیں…؟‘‘دانش نے کہا۔
’’جی بیٹا! بتایا تھا۔‘‘وہ بولیں۔
’’کیا زوبیہ میرے ساتھ آنا نہیں چاہتی ہے؟‘‘دانش کے ضبط کر نے کے باوجود لہجہ ناگوار ہو گیا تھا۔
’’ایسا تو نہیں ہے بیٹا۔ یہ تو تیار ہی بیٹھی تھی آپ کے انتظار میں ۔‘‘
سمیرا بیگم چائے دیتی زوبیہ کو دیکھ کر بولیں، جس نے بیزاری سے منھ بنایا۔
’’عامر کل آنے والا ہے، وہ بھی زوبیہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ مناسب سمجھو تو کبھی کبھار زوبیہ کو رہنے کے لیے چھوڑ جایا کرو۔بلکہ آپ بھی یہیں ساتھ ہی رک جایا کریں۔‘‘سمیرا بیگم نے نرمی سے کہا۔ زوبیہ خفگی سے دیکھنے لگی اپنی ہی بیٹی کو اپنے ہی پاس چند روز رکھنے کے لیے ،اتنی منتیں …؟
’’جی دیکھوں گا…اب اجازت دیں…‘‘وہ اٹھ کھڑا ہوا تو زوبیہ خفگی سے ماں کو دیکھتے ہوئے عبایا پہننے لگی۔
’’کھانا کھا کر جاتے بیٹا…!‘‘وہ محبت سے بولی۔
’’نہیں آنٹی…امی کو بتایا نہیں۔ وہ میرے بغیر کھانا نہیں کھاتیں۔‘‘دانش نے سادگی سے کہا۔
سمیرا بیگم کو یہ جملہ کئی دفعہ گھوم گھوم کر سنائی دیا۔
بات تو اس روز بھی کچھ نہیں تھی۔ وہ کئی روز بعد میکے آئی تھی کہ دو چھٹیاں ہی اس نے میکے میں گزاریں اور شام کو مسعود اسے لینے آگئے تھے ۔ دوسرے روز آفس جانا تھا۔ امی نے رات کا کھانے کا خاصا احتمام کروالیا تھا، مگر مسعود نے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔
’’اگر آپ پہلے کہتی تو میں…امی سے کہہ دیتا، امی میرے بغیر کھانا نہیں کھائیں گی۔‘‘
مسعود بولا تھا
’’کیوں؟‘‘مونا بھابھی نے پوچھا۔
’’شروع سے ہی ہمارے گھر کا اصول رہا ہے کہ رات کا کھانا ہم سب اکٹھے ہی کھاتے ہیں۔‘‘مسعود رسان سے بولا۔
’’شادی کے بعد رسموں میں تبدیلی آجاتی ہے۔‘‘ناعمہ بھابھی نے ہنس کر کہا۔
ایسا تو کچھ ہو نے سے رہا۔ گھر کے اصول کسی ایک شخص کے لیے بدلے تھوڑی جاتے ہیں۔ اس ایک شخص کو ہی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوتا ہے ۔‘‘ مسعود برجستہ بولا ۔وہ اپنی جگہ تلملا ہی تو گئی تھی۔
پھر خاور بھائی اور دلاور بھائی کے مجبور کر نے پر مسعود کھانے کے لیے رک گیا۔ اس کا موڈ سخت آف تھا۔
’’بھلا کیا ضرورت تھی یہ بتانے کی کہ تم والدین کے اتنے فرماں بردار ہو۔‘‘راستہ میں اس نے کہا۔ مسعود خاموش رہا۔ اسے علم تھا کہ بات بڑھ جائے گی۔
’’خواہ مخواہ بھابیوں کے سامنے سبکی کردی۔‘‘وہ بپھر کر بولی۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے اور سلمیٰ خاتون جاگ رہی تھیں، بلکہ گیٹ بھی انہیں نے کھولا تھا۔
’’السلام علیکم امی!‘‘ مسعود شرمندہ سا بولا۔ جیسے کوئی جرم کر لیا ہو۔ وہ تلخی سے اسے دیکھنے لگیں۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ انہوں نے محبت سے کہا۔ اسے پیار کیا اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگیں۔
’’ابا سوگئے امی…؟‘‘ مسعود ماں سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔
’’ہاں! کھانا لگاؤں…؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’ہم تو کھا کر آئے ہیں۔‘‘ وہ مسعود سے پہلے بول پڑی۔
’’امی نے کھانے پر روک لیا تھا۔‘‘اسے دیکھتے ہوئے مزید بولی۔
’’اچھا کیا…!اب جاؤ آرام کرو ۔‘‘وہ مسکرا کر بولیں۔
’’امی آپ نے کھانا کھایا؟‘‘مسعود نے ماں کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’نہیں…میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘ سلمیٰ خاتونِ نے بہانہ کیا۔ مسعود کو پتہ تھا کہ وہ اس کے بغیر کھانا نہیں کھائیں گی۔ وہ ہی نہیں اور کوئی بھی ان کی اولاد میں سے ہوتا تو بھوکی ہی بیٹھی رہتیں، جب تک کہ وہ واپس نہ آجائے۔ سلمیٰ خاتون نے کتنی محبت اور محنت سے گھر کو سینچا تھا ۔
’’کیا ہوا امی ؟‘‘وہ فکرمندی سے بولا تو وہ غصہ سے تلملا اٹھی۔
’’کچھ نہیں مسعود بیٹا سر میں درد تھا۔‘‘وہ مسکرائیں۔
’’اب ٹھیک ہے امی!‘‘مسعود ان کا سر چیک کرنے لگا۔
’’ہاں ٹیبلیٹ لی تھی…!‘‘سلمیٰ خاتون اس کا ہاتھ تھام کر محبت سے بولیں۔
’’سوری امی! مجھے پتہ ہے آپ نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا۔ میں کیا کرتا؟ انہوں نے مجبور کر دیا تھا۔‘‘جب وہ کمرے کی طرف بڑھی تو اس نے سنا مسعود کہہ رہا تھا۔
’’بیٹا میں نے کچھ کہا تو نہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔‘‘انہوں نے رسان سے کہا۔
’’سوری امی! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں کھانا لاؤں آپ کے لیے۔‘‘مسعود نے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بھوک نہیں بیٹا! آپ جاؤ آرام کرو۔ کل آفس بھی جانا ہے۔‘‘وہ محبت سے بولی۔
اس کا غصہ سے برا حال تھا۔ وہ کمرے میں آئی اور بنا کپڑے تبدیل کیے ہی بستر پر ڈھیر ہوگئی۔مارے غصہ کے اسے لگ رہا تھا جیسے پورے وجود میں چیونٹیاں رینگ رہی ہوں۔مسعود کافی دیر بعد آیا تھا اور وہ سوتی بن گئی تھی۔
’’مجھے علم ہے…تم سو نہیں رہیں۔‘‘وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا بولا۔ وہ کچھ نہ بولی، بلکہ اس کی طرف سے کروٹ بدل لی تھی۔
’’دیکھو سمی…!آج امی پہلی دفعہ میری وجہ سے دکھی ہوئی ہیں۔ مجھ سے امی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔ قصور میرا تھا۔ میں انھیں فون کر دیتا تو وہ یوں ابھی تک بھوکی نہ بیٹھی رہتیں ۔‘‘مسعود نے دکھ سے کہا۔
’’اب تو بہلا آئے نا… معافیاں بھی مانگ لیں۔‘‘وہ تڑخ کے بولی ۔
’’یہ فرض تمہارا بھی تو تھا نا۔‘‘ مسعود نے لہجے کو نرم رکھا۔ اس کے رویہ پر غصہ تو بہت آرہا تھا۔
’’کیوں…؟‘‘وہ ایک دم سیدھی ہو کر اٹھ بیٹھی تھی۔
’’آخر میری ماں کی دلجوئی بھی تو تمہارا فرض ہے۔‘‘مسعود نے اسے دیکھ کر کہا۔
’’یہ فرض تم ہی ادا کرو۔ مجھ سے یہ چونچلے نہیں اٹھائے جاتے۔‘‘اس نے تنک کر صاف صاف کہا۔ مسعود حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’تم وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا۔‘‘مسعود نے کہنا چاہا، لیکن کہہ نہ سکا۔
یہ جملہ اس کے ذہن میں یوں گونج رہا تھا، جسے کسی پہاڑ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی جاتی ہے اور آواز کی بازگشت بار بار کانوں میں سنائی دے۔
مسعود نے کچھ نہ کہا اور چادر تان کر سو نے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ممی…!کہاں کھو گئیں آپ؟‘‘زوبیہ نے اسے ہلایا تو وہ جیسے خواب سے جاگی تھیں ۔
’’کیا آپ برا مان گئی ہیں، کھانا سے منع کرنے پر؟‘‘دانش نے پہلے زوبیہ، پھر سمیرا بیگم کو دیکھ کر کہا۔ ان کی اچانک خاموشی دونوں کو سمجھ نہیں آئی۔
’’نہیں بیٹا… ماشاءاللہ بہت اچھی بات ہے۔ آپ اپنے والدین کا اتنا خیال رکھتے ہیں۔ مجھے آپ کی سعادت مندی بہت پسند آئی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے بیٹا۔‘‘سمیرا بیگم بھر پور انداز میں مسکرائیں۔ زوبیہ نے ناگواری سے ماں کو دیکھا، سلام کیا اور گلے لگ گئی۔ آخر ماں ہی تھی۔
’’آئندہ میں کبھی نہیں رہوں گی ممی۔‘‘زوبیہ کی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں۔ سمیرا بیگم کی ساری دنیا ایک لمحے کے لیے ڈول گئی۔
’’یہ تو اور اچھی بات ہے۔‘‘پھر بھی ضبط سے بولی۔
دانش…!آپ لوگ پھر آنا اور یہاں رہنا …‘‘وہ ہنستی ہوئی بولیں اور دونوں کو لیے باہر آگئیں۔
’’بہتر آنٹی۔‘‘دانش نے بائیک سنبھال لی اور زوبیہ اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ ان کے جانے کے بعد بھی سمیرا بیگم کتنی دیر تک وہیں کھڑی رہی تھیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے یادوں کے پنچھی ان کے ذہن کے آسمان پر اڑتے پھر رہے تھے۔ آخر تھک کر وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں تھیں
٭٭٭
مسعود سے اس کی پہلی ملاقات یو نیورسٹی میں ہوئی تھی۔ وہ تیزی سے کلاس روم سے باہر نکل رہی تھی۔ عین مسعود کی ڈیسک کے سامنے سے گزری اور کسی نے اس کا لہراتا دوپٹہ کھینچا۔ وہ ہڑبراتے ہوئے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے غصہ سے پلٹی۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔‘‘وہ چیخی
مسعود سر جھکائے کتاب پڑھ رہا تھا۔ حیرانی سے اسے دیکھا ،جو غصہ سے شیرنی بنی کھا جانے نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’جی…؟‘‘وہ بھنویں اچکا کر بولا۔
’’جی…!میرا دوپٹہ…؟‘‘وہ چڑ کر بولی اور دوپٹہ کھینچا، جو لکڑی کے بینچ میں اٹکا تھا اور اس کے اس طرح جارحانہ انداز میں کھینچنے سے آواز کے ساتھ پھٹ گیا تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔
’’ہائے…!میرا دوپٹہ …!‘‘وہ بے اختیار چیخی۔
قریب کھڑے طلبہ جو حیرت و تجسس سے کھڑے دیکھ رہے تھے، قصہ سمجھ آتے ہی قہقہے لگا گئے۔ اس نے دوپٹہ جیسے تیسے نکال لیا۔
وہ خجل ہوگئی اور واپس پلٹ کر کامن روم کی طرف بڑھی۔ وہ انتہائی شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔
’’پتہ نہیں آج کس کا منھ دیکھا تھا…‘‘وہ بڑبڑائی۔
فائنل اگزام کا رزلٹ آیا۔ وہ اور عالیہ فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوئے تھے۔ عالیہ کی شادی ہو گئی۔سمیرا نے بہت مشکل سے حسن ہمدانی سے جاب کرنے کی اجازت لی تھی، ورنہ وہ لڑکیوں کےجاب کرنے کے حق میں نہیں تھے، مگر وہ تو بھائیوں کی بھی لاڈلی تھی اور امی ابو کی بھی۔ سو اس کی مانی گئی۔ پھر گھر میں سب سے چھوٹی تھی تو اپنی ہر بات منوانا حق سمجھتی تھی۔
اس کے دونوں بھائیوں کی کنسٹرکشن کمپنی تھی اور وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ بڑے بھیا خاور حسن، ان کی اولادیں صبیحہ، حیدراور زنیرا اور رازق تھے۔ چھوٹے بھائی دلاور کے دو بیٹے رافع،جمیل زہرا آپا اپنی گھر کی تھیں۔ ان کی شادی میٹرک کے بعد ہی کردی گئی تھی۔ یہ تو سمیرا نے ضد میں پڑھا تھا اور اب ضد میں ہی ایک الیکٹرانک کمپنی میں اسے جاب مل گئی تھی۔
٭٭٭
’’اسلام علیکم‘‘ ۔پہلے ہی دن کمپنی میں وہ سامنے ہی نظر آگیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
’’میں بھی یہیں جاب کرتا ہوں۔‘‘وہ مسکرایا اور بڑھ گیا۔
وہ بھی اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی تھی۔
اب تو مسعود سے روزانہ کا سامنا ہوا کرتا تھا۔ وہ ساتھ ہی نکلتے اور ساتھ ہی واپس بھی لوٹتے تھے۔ سمیرا کو ابھی تک اس کا اسٹاپ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کدھر سے چڑھتا ہے اور کدھر اترتا تھا۔
مسعود نے کبھی اسے کوئی شوخ جملہ نہ کہاتھا۔ کبھی مستقبل کی پلاننگ نہ کی تھی۔ نہ ہی ہمیشہ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا ئیں ۔وہ بس ہلکی پھلکی باتیں ہوتیں۔ کچھ آفس کی باتیں اور بس خاموشی……!(جاری)
’’کھانا کھا کر جاتے بیٹا…!‘‘وہ محبت سے بولی۔
’’نہیں آنٹی…امی کو بتایا نہیں۔
وہ میرے بغیر کھانا نہیں کھاتیں۔‘‘
دانش نے سادگی سے کہا۔
سمیرا بیگم کو یہ جملہ کئی دفعہ گھوم گھوم کر سنائی دیا۔
Comments From Facebook
0 Comments