نومبر٢٠٢٢
انسانی سوسائٹی اچھے افراد سے پنپتی اور اونچے مقام کی طرف بڑھتی ہے ،ان سے ہی ترقی پاتی ہے اورا ن سے نمو حاصل ہوتا ہے۔ کسی معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے ،اس کی حیثیت اور مقام کو بلندی دلانےمیں ان لوگوں کا بڑا دخل ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی ادوار میں بہترین اقدار کو اپنی ذات کا حصہ بنایا ہوتا ہے۔ اس میں تخلیقیت کو پروان چڑھایا ہوتا ہے اور اپنی ذہنی استعداد کو تدریجاً آگے بڑھانے کی کوشش کی ہوتی ہے ۔ بچے دراصل کسی بھی سوسائٹی کا اہم جز ہوتے ہیں۔ قوموں کا مستقبل ان کی ذہانت اور صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔طلبہ کے پوشیدہ جواہر کو کھوج کر نکالنا اور ان کو نکھار کر ملکی و قومی تعمیر کے لیے بامعنی بنانا، ابتدائے آفرینش سے ہی ہر استاذ کی ذمہ داری رہی ہے۔ ندرت ،تخلیقیت (Creativity) اور انفرادیت طلبہ کی شخصیت سازیPersonality Building میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔کسی بھی تعمیر ی کاز کے لیے تخلیقی صلاحیت Creative Skills کی ضرورت ہوتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین نے تخلیق کو دراصل تقلید اور جمود کی مسماری اور ایک نئی دنیا کی تعمیر قرار دیا ہے۔ جہاں دنیا ہر روز ترقی کی منازل طے کررہی ہے، وہیں یہ بات بہت زیادہ ضروری ہوگئی ہے کہ اساتذہ کو اپنے طلبہ کے اندر ایسی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے، جو بچوں کو معاشرے کے لیے نافع بناسکیں۔مدارس ہی معاشرے کے وہ ادارے ہوتے ہیں جہاں طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاسکتی ہے، ان میںتخلیقی فکر اور رجحان پیدا کرنے کے لیے ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے۔ماضی قریب کی تاریخ پہ ایک نگاہ ڈالی جائے ،اور قریبی ادوار میں کم عمر بچوں کے Contributions پہ غور کیا جائے تو جو مثالیں سامنے آتی ہیں اس میں سے چند ایک یہ ہیں:
1. Anoyara Khatun
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی یہ 12 سالہ لڑکی اس عمر میں چائلڈ ٹریفکنگ (Child trafficking) کا شکار ہوئی اور Save the Children نامی تنظیم کی مدد سے اس نے خود کو آزاد کروایا۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے اپنی زندگی کو ان بچوں کے لیےوقف کردیا جو اس قسم کے استحصال کا شکار ہوئے تھے، اور کئی بچوں کی اس ظلم سے نجات پانے میں مدد کی۔
2. Bana al-Abed
ملک شام سے تعلق رکھنے والی یہ چھوٹی سی لڑکی محض سات سال کی عمر میں باشعور Netizens کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ جب اس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اپنے جنگ زدہ ملک میں ہونے والے ظلم وبربریت کی تصویر کھینچی اور دنیا کے حکمرانوں کو جاگنے کی دعوت دی، اپنی ماں کی مدد حاصل کرتے ہوئے اس نے دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو پیغام دیا کہ وہ ان کے لیے آواز بلند کردیں کہ کم از کم ان کے انسان ہونے کے حق کو تسلیم کریں۔
3. Nkosi Johnson
ایڈز زدہ افریقہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اپنی وجود اور بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے اس وقت کھڑا ہوا، جب 1990 ءمیں اس کی اس بیماری کی وجہ سے اسے کسی بھی اسکول نے داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔2000 ءمیں جب وہ11 سال کا تھا تو تیرہویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس 13th International AIDS Conferenceمیں دعوت نامہ دے کر اسے بلایا گیا ،اور اس موقع پہ اس نے اپنی جدوجہد کی کہانی دنیا کو بتائی ۔وہ اس کانفرنس میں Keynote Speakerتھا۔اس نے Nkosi’s Haven کے نام سے ادراہ قائم کیا جو AIDS HIV Positive بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا تھا۔ اس بچے کو2005ءمیںInternational Children’s Peace Prize سے نوازا گیا۔
4. Aqsa Masarat
کشمیر سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی کم عمر نیوز رپورٹر ہے ۔اس بچی کی رپورٹنگ کا انداز بڑا متاثر کن ہے۔ سوشل پلیٹ فارمس پہ اس کی بڑھتی مقبولیت اور فالوورز کی بڑھتی تعداد اس کی Effective Reportingکی عمدہ مثال ہے۔سوپور سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے ۶ سال کی عمر میں کشمیر میں ٹھنڈ کے موسم کے متعلق پہلی دفعہ رپورٹنگ کی تھی۔وہ کہتی ہے کہ وہ ایک IAS Officerبننا چاہتی ہے۔کشمیر کے حسین مناظر ،وہاں کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ ، وہ سماجی مسائل پر بھی اپنے ویڈیوز میں بات کرتی ہے۔
5. Gitanjali Rao
11 سال کی عمر میں اس لڑکی نے پچیس ہزار ڈالر کا انعام جیتا۔اپنے اس Device کی ایجاد کی بنیاد پرجس کے ذریعہ پینے کے پانی میں lead کی مقدار متعین کی جاتی ہے۔ اس بچی کا دعوی ہے کہ اس کاایجاد کردہ آلہ پرانے طریقۂ کار سے زیادہ سستا اور درست ہے۔ اس کی اس Contributionکی بنیاد پہ اس بچی کوAmerica’s Top Young Scientist کا خطاب دیا گیا۔
6. Tajamul Islam
11 سال کی اس بچی نے World Kick Boxing کی دنیا میں اپنا ایک نام بنایا۔محض 7 سال کی عمر میں اٹلی میں World Kick Boxing Championship کا2016ءمیں مقابلہ جیت کر انعام کی حقدار ہوئی۔یہ Taekwondo اور Wushu جو مارشل آرٹس سے متعلق ہیں ان میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احترام کیاجائے ۔فکر کی جدت،ندرت خیال اور تخلیقی سوچ کے فروغ میں البرٹ آئن سٹائن کا قول بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے’’ذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شد ید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایسے میں تخلیقیت اور جد ت طرازی کے فروغ میں اساتذہ اور والدین کو کلیدی کردار انجام دینا ہے ۔اساتذہ اور والدین کو بچوں میں تخلیقیت کے فروغ کے لیےکوشاں رہنے کی ضرورت ہے، جس سے مثبت تبدیلی آئے گی اور معاشرے پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
Comments From Facebook

3 Comments

  1. انوار سلیم

    اول تو شہمینہ صاحبہ کو تہنیت پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس موضوع پر خاص توجہ مبذول کروائی جو بدلتے زمانے اور برق رفتاری سے آگے بڑھتی دنیا میں ہم مسلمانوں کے لیے انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔مجھے بچپن سے چھوٹے چھوٹے بچے کھلانا اور ان کے ساتھ کھیلنے کا کافی شوق رہا ہے اور یہ عادت مجھے فطری طور پر اللہ میاں نے عطا کی ہے۔۔۔۔میں نے مسلم بچوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ،جانچا ہے ،پرکھا ہے تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان بچوں کے پاس ہر وہ استعداد ،پوٹینشیل، ول پاور اور خداداد صلاحیتیں موجود ہیں جو امت مسلمہ کی کھوئ ہوئ عظمتِ رفتہ حاصل کرنے،روشن ماضی کے وقار کو پھر سے واپس لانے اور نشاۃ ثانیہ کو زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی جدید دنیا پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ سکتے ہیں لیکن جس چیز کی کمی کا میں (طالبعلم)احساس کرتا ہوں وہ یہ ہیکہ مسلم والدین اپنے بچوں کے متعلق انتہائ غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں اور انکی تربیت میں لاپرواہی برتتے ہیں ۔۔بسا اوقات یوں لگتا ہے کہ اپنے خود کے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں انکا رویہ جانوروں کی سی تربیت و پرورش کی مانند ہے۔۔۔۔نتیجہ یہ نکلتا ہیکہ جو زمانہ انکی برین فنکشنک، کرئیشن آف ویل ڈیولپمنٹ، ایبلیٹی تو جنیریٹ نیو اسکلز پاور اینڈ آبزرویشن آف دئیر سراؤنڈس کا ہوتا ہے وہ بری طرح ضائع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
    ذاتی تجربات،محدود مطالعے اور ماہرین کی رپورٹس کو سامنے رکھ کر مجھ طالبعلم کی رائے یہ ہیکہ اگر ہم صرف دس سال کی عمر تک اپنے بچوں کی ہر پہلو سے مکمل نگہداشت کریں پھر اس کے بعد ہم انکی صحیح تعلیم و تربیت کا خیال رکھ پائیں یا نہ رکھ پائیں تب بھی ہم اپنے والدین ہونے کا حق اس پرفتن دور میں کافی حد تک ادا کر سکتے ہیں

    کوتاہ علم انوار سلیم

    Reply
  2. نظام الدین بدر فاروقی

    بہت خوب ۔۔۔
    لایق تحسین و مبارکباد ہیں آپ۔
    اللہ تعالیٰ اس کا وش کو قبول فرمائے اور ترقی عطاء فرمائے ۔
    اللہ آپ سے بہترین خدمات لے۔ آمین ۔

    Reply
  3. Umme Amara

    Very informative Ma Shaa Allah Tabarak’Allah ??? Jazakillahu Khairan Katheera

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر٢٠٢٢