نومبر٢٠٢٢
آج مسلم سماج میں پھیلی ہوئی کئی برائیوں کی جڑ یہی ایک جملہ ہے:’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ کو راضی کرنا اور جنت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یا ’’لوگ کیا سوچیں گے؟‘‘لیکن اگر معاملہ اسکے بر عکس ہے اور اس کےہر عمل میں وہ لوگوں کی خوشی اور ان کی ناراضگی کی پرواہ کرتا ہے،تو اس کی آخرت کی کامیابی، خطرہ میں ہے۔
آج مسلمان کی زندگی کا مقصد، خوشنودیِ اللہ سے ہٹ کر ’’خوشنودیِ سماج‘‘ ہوگیا ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس نگاہ دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر کوئی سماج میں، اپنی ایک پہچان اور اعلیٰ اسٹیٹس بنانے میں مصروف ہے، اور اس اسٹیٹس کو حاصل کرنے کےلیےجو راستہ وہ اپناتا ہے، اس میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ راستہ حرام ہے یا حلال، پھر گناہوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، جس کی وجہ سے فساد اور بدحالی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اسلام میں ریا کاری اور دکھاواکی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اس لیے جب ایک مسلمان کوئی بھی کام کرتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی تعریف سننے یا لوگوں میں اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے نہیں کرتا، نہ ہی اسے اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کے اس عمل سے لوگ کتنا متاثر ہوں گے یا لوگ کیا کہیںگے؟ بلکہ اس کے کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی واحد وجہ اللہ کا حکم ماننا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہوتی ہے۔
آج مسلمان اس کبھی نہ ختم ہونے والی ریس میں اتنا گم ہوگیا ہے کہ وہ سماج میں اپنا نام اور جگہ بنانے کےلیےگناہ کبیرہ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا، اور اس طرح وہ اللہ اور دین سے دور ،بس نام کا مسلمان رہ جاتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں یہ بات معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ فلاں عمل کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ حرام کام ہے، اس کام کو مسلمانوں نے کیا ہے۔صرف اپنی دنیوی ساکھ کو بچانے اور قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے گناہ کے کام کیے ہیں۔ خاص کر شادی بیاہ کے موقعوں پر ،اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ سادگی کو اپنایا جائے، فضول خرچی اور دکھاوے سے پرہیز کیا جائے، لیکن آج جس طرح کی شادیاں مسلمان کرتے ہیں، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ احکام الہی کے خلاف جاکر، اللہ کی نافرمانی اور اس کی ناراضگی کا باعث بنتی ہیں۔
لوگوں اور سماج میں اپنے اسٹیٹس کو بڑھانے اور ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘یہ بات ثابت کرنے کی کوشش نےشادیوں کو تماشا بنا دیا ہے۔ ہر طرح کے گناہ کے کام کیے جاتے ہیں۔ موسیقی سے لےکر کھانے پینے میں رزق کی بے حرمتی، بڑے اور مہنگے شادی ہال بک کیے جاتے ہیں ،ڈانس شور شرابہ اور ہر طرح کی فضول خرچی کی جاتی ہے۔
وجہ؟سماج میں اپنی امیج قائم کرنا، اور یہ ڈر کہ اگر ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیںگے؟اگر ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت ہی سادہ اور آسان نکاح کیے۔ یہاں تک کہ جب ایک جلیل القدر صحابی عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔
یہ تھا حال ایک ایسے مسلمان کے نکاح کا ،جس کا شمار مدینہ کے دولت مند آدمیوں میں ہوتا تھا۔ اسی طرح کے سادہ اور آسان نکاح ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے میں نہ شرم محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی انہیں لوگوں کی باتوں یا طعنوں کی پرواہ تھی ۔ انہیں بس فضول خرچی اور بے جا رسموں اور رواجوں سے بچ کر اپنے آپ کو اللہ کی ناراضگی سے بچانا تھا۔
آج نکاح کو اتنا مہنگا اور گرینڈ بنا دیا گیاہے کہ گھر میں اگر لڑکی پیدا ہو تو گھر والوں کے منہ لٹک جاتے ہیں، یہ سوچ کرکہ اس کی شادی کیسے کریں گے؟
آخر ایک مسلمان کی زندگی میں اللہ کے احکام کی اہمیت زیادہ ہونی چاہیے یا اسے اس بات کی فکر ہو کہ کہیں لوگ برا نہ مان جائیں۔
ہمیں اپنے آپ کو اور اس سماج کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے،اور اس کی شروعات ہم اپنے گھر سے، اپنے خاندان سےکریں۔ جب تک ہم خود آگے بڑھ کر ان نام نہاد رسموں اور رواجوں کو ختم کرنے کےلیے اسٹینڈ نہیں لیں گے، تب تک ان رسوم سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ آج ماڈرن بننے کے نام پر ہر طرف بے ہودگی، بے شرمی اور نت نئ بدعات پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک ذمہ دار مسلمان ہونے کے باعث ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان تمام بے بنیاد اور گمراہ کن رسموں رواجوں سے اپنے گھر، خاندان اور سماج کو پاک کرنے کی کوشش کریں۔اگر اس کوشش سے ہم نے جی چرایا اور خود اسی گمراہ راستہ پر چل پڑے تو اس کاحساب ہمیں قیامت کے دن بارگاہ الہی میں دینا ہوگا۔ اس چند روزہ زندگی اور دنیا دکھاوے کے لیے ہم اپنی ابدی (آخرت کی) زندگی کو تباہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی اولاد کے اندر بھی یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ ہم اپنی پوری زندگی رضائے الٰہی کی کوشش میں گزاریں ۔ ہمیں ہمیشہ ،ہر کام میں اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود ہو اور ہمیں اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ ’’لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

اگر ہم اپنے آس پاس نگاہ دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر کوئی سماج میں، اپنی ایک پہچان اور اعلیٰ اسٹیٹس بنانے میں مصروف ہے، اور اس اسٹیٹس کو حاصل کرنے کےلیےجو راستہ وہ اپناتا ہے، اس میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ راستہ حرام ہے یا حلال، پھر گناہوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، جس کی وجہ سے فساد اور بدحالی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اسلام میں ریا کاری اور دکھاواکی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اس لیے جب ایک مسلمان کوئی بھی کام کرتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی تعریف سننے یا لوگوں میں اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے نہیں کرتا، نہ ہی اسے اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کے اس عمل سے لوگ کتنا متاثر ہوں گے یا لوگ کیا کہیںگے؟ بلکہ اس کے کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی واحد وجہ اللہ کا حکم ماننا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہوتی ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر٢٠٢٢