[کیس اسٹڈی کالم میں حقیقی کہانیاں پیش کی جارہی ہیں۔کرداروں کے نام اور جگہ تبدیل کئے گئے ہیں۔آپ کی نظر میں اس مسئلہ کی بہتر رہ نمائی کیا ہے؟جس کی رہ نمائی سب سے بہترین ہوگی ، اسے شائع کیا جائے گا۔]
ایک معطر جھونکے کے ساتھ وہ میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ ہلکے سرمئی رنگ کے برقعے میں ملبوس، دراز قد، بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں ،جن سے ذہانت ٹپک رہی تھی ۔
’’ حمساء التمش۔‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم ٹیبل پر رکھتے ہوئےکہا۔
میں نے فارم پر سرسری نظر ڈالی تو جانا کہ اس کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اور اس کا شوہر دونوں ہی یونانی ڈاکٹر تھے۔شوہرکسی کالج میں طب کے طلبہ کو پڑھاتا تھا، اورحمساء کسی ہسپتال میں پریکٹیس کر رہی تھی ۔
’’میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ چونکہ وہ تعلیم یافتہ خاتون تھی اس لیے میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کرڈالا۔
’’جب سے میری شادی ہوئی ،تب سے میں مسلسل تذبذب کا شکار ہوں۔ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہوں۔ صحیح اور غلط کی چکی میں پس رہی ہوں ۔خود سے لڑ رہی ہوں۔ عجیب سی کشمکش میں مبتلاء ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں ؟ اس کا اضطراب اس کے لہجے سے جھلک رہا تھا ۔‘‘
’’اولاد کا مسئلہ ہے۔؟‘‘
میں نے اندیشہ ظاہر کیا، تو وہ ایک دم چونک گئی۔
’’آپ نجومی ہو؟‘‘اس نے بے ساختگی سے پوچھا۔
’’نہیں تو، بچوں والا خانہ خالی تھا تو سوچا ہو سکتا ہے وہی تمہاری پریشانی کا سبب ہو۔‘‘ میں نےانکشاف کیا۔
’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دباؤ سسرال والوں کا ہے یا شوہر کا ؟‘‘میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ۔
’’میڈم آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دباؤ بچہ پیدا کرنے کے لئے نہیں ،بلکہ بچہ پیدا نہ کرنے کے لیے ہے۔التمش کو بچے نہیں چاہئیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’اس کی کوئی خاص وجہ ؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وجہ ضرور ہے ۔میرے لئے بے تکی سی لیکن التمش کے لیے خاص۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچوں سے سخت نفرت ہے، کیوں کہ بچے سارا گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں ،چیزوں کو بکھیر دیتے ہیں، گھر گندا کر دیتے ہیں ۔ان کی شرارتیں، شور شرابے سے انہیں الرجی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اولاد کے بغیر ہم زندگی زیادہ بہتر، پرلطف اور آزادی سے گزار سکتے ہیں ،جو اولاد کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ،کیوں کہ وہ بھر پور توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘ حمساء نے وجہ بتائی۔
’’اگر التمش کے والد بھی اسی طرز فکر کے حامل ہوتے تو کیا آج التمش کا وجود اس دنیا میں ہوتا ؟ اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے۔ نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔ اس تناظر میں ایک مسلمان کا اس حدیث سے انحراف کیا ظاہر کرتا ہے ؟‘‘میں نے سوالیہ نظروں سے حمساءکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ان کا غرور، تکبر ،بے دینی اور من مانی؛ میں نے کئی مرتبہ اس حدیث کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔‘‘ حمساء کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
’’معاشی حالات کیسے ہیں ؟ کیوں کہ عصر حاضر میں معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی لوگ بچے پیدا کرنے سے گھبرا رہے ہیں ،اور خاندانی منصوبہ بندی کو ترجیح دے رہے ہیں۔وہ سوچتے ہیں کہ کم سے کم اولاد اور چھوٹا خاندان ہو تو ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل آسانی سے ہو سکتی ہے ۔‘‘ میں نے نسل نو کا نظریہ پیش کیا۔
’’الحمدلله! ہم لوگ معاشی طور پر بہت خوش حال ہیں۔ دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں ہے، بلکہ آرام و آسائش کاہے۔ التمش کا رجحان بڑا خطر ناک ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیں گے۔‘‘ حمساء کا انداز مایوسانہ تھا۔
’’حمساء! آج کل Luxury Life کا جو کلچر پیدا ہواہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور خوش حال ہے ،اتنی ہی اس کی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی حد تک متوسط طبقے میں بھی پائی جارہی ہے۔ جب کہ آج بھی غریب طبقے میں اولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش وعشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے ۔‘‘میں نے موجود حالات کا نقشہ کھینچا۔
’’عام طور پرخاندانی منصوبہ بندی میں ایک یا دو بچوں کی پیدائش کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ،لیکن میرے شوہر کی خاندانی منصوبہ بندی میں بچوں کا شمار ہی نہیں ہے، جب کہ میں ماں بننے کے لئے تڑپ رہی ہوں۔ ماں بننے کا احساس ہی کتنا پر تقدس ہوتا ہے۔‘‘ وہ تصور کی وادیوں میں ڈوب گئی تھی۔
’’میڈم! مجھے ماںبننا ہے۔ ماں بنے بغیرمجھے اپنا وجود ادھورا محسوس ہوتا ہے۔میں تخلیق کے عمل سے گزرنا چاہتی ہوں۔ ایک نئے وجود کو اس دنیا میں لانا چاہتی ہوں جو میرا پرتو ہوگا۔ میں اپنے قدموں تلے جنت کی متمنی ہوں ،لیکن میرا شوہر مجھے اس سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو التمش کی دین تھے، جسے وہ بڑے درد کے ساتھ بہا رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس کا کندھا تھپتھپاتی رہی جب تک کہ طوفان کا زور تھم نہ گیا۔
’’اگر تم چاہو تو میں التمش سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے اجازت طلب نظروں سے دیکھا ۔
’’جی بالکل کیجیے!‘‘ اس نے اجازت دے دی۔ میں نے التمش کا نمبر ڈائل کیا۔ سلام کے بعد جب میں نے التمش سے اولاد کے بارے میں ذکر کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھا، اور کہنے لگا’’ منگنی کے بعد میں اور حمساء فون پر اکثر چیٹنگ کیا کرتے تھے ۔اس وقت میں نے حمساء کو کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ مجھے بچے پسند نہیں ہیں۔ زندگی بچوں کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اور حمساء نے اس بات کو قبول کرتے ہوئےمجھ سے نکاح کیا تھا ۔ اب وہ اسی بات کو لے کر بضد ہے ،جس کا ذکر میں شادی سے پہلے کر چکا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ اس میں کس کا قصور ہے ؟‘‘اتنی اہم بات کا ذکر حمساء نے مجھ سے نہیں کیا تھا۔
’’شادی سے پہلے ہی اس بات کا فیصلہ ؟ کوئی خاص وجہ ؟ جب کہ نکاح کا مقصد جہاں جنسی تسکین ہے وہیں اولاد کا حصول بھی ہے ۔امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضور ﷺ نے تمنا فرمائی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا ۔ اس کے باوجود اس سلسلہ میں آپ کا انکار؟‘‘میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑا:
’’میں اس حدیث سے واقف ہوں ۔اس کے باوجود اپنے فیصلہ پر اٹل ہوں۔ کوئی بھی مجھے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ حمساء کو اگر خوشی خوشی یہ بات منظور ہے تو میرے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ اسی کے ساتھ التمش نے فون منقطع کر دیا ۔میں نے دوبارہ ڈائل کیا تو اس نے میرا فون ریسیو نہیں کیا۔ افسوس ! جس شخص نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا وہی شخص اپنی بیوی کو ماں بننے سے محروم کر رہا تھا۔
’’حمساء! التمش نے شادی سے پہلے ہی اولاد کے متعلق اپنے خیالات کا جو اظہار کیا تھا ۔ کیاوہ سچ ہے ؟‘‘ میں حمساء کی توثیق چاہتی تھی۔
’’ہاں، التمش نے شادی سے پہلے ایسا ضرور کہا تھا، جس کو میں نے مذاق سمجھا اور سنجیدگی سے اس بات پر غور ہی نہیں کیا۔‘‘حمساء نے قبول کیا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں ،اور چہرے پر ندامت کے آثار ابھر آئے تھے۔
’’جس کو تم نے مذاق سمجھا تھا، آج وہی بات تمہاری شادی شدہ زندگی کے لئے خطرہ بن گئی۔ کاش! نکاح سے قبل تم نے مذاق والی بات اپنے والدین کو بتائی ہوتی تو ہو سکتا ہے وہ اس بات کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کرتے، اور صحیح فیصلہ لینے میں تمہاری مدد کرپاتے۔ خیر، جو ہوچکا اس کا خمیازہ تو تم بھگت رہی ہو۔ اب یہ سوچو کہ آگے کیا کرنا ہے ؟‘‘
’’میڈم ! یوں تو میں عورت کہلاتی ہوں، لیکن در حقیقت میں تو اپنی ذات کے آئینے میں نظر آتا مرد ہوں ،اور شاید یہ مرد ہر عورت کے وجود میں دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہر عورت جانے انجانے یا مجبوری کے تحت اسی مرد کے نظریات، اس کے خیالات، اس کی سوچ ،اس کے فیصلے ، اس کی مرضی کے ساتھ ہی تو جیتی ہے۔ عورت کے وجود میں اس کا خود کا کیا ہوتا ہے؟ بتائیں آپ!‘‘ وہ جھنجھلا اٹھی، اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعی عورت تو مرد کے رویہ کی آئینہ دار ہے۔وہ کتاب ہے جو خود اس نے اپنے قلم سے تحریر کی ہے، جس کے باب محبت، نفرت ، ذلت ، الفت، قربت، دیانت ، شراکت ، سوچ، گھٹن ، شک و شبہات، بد اعتمادی، بد سلوکی وغیرہ سے بھرے پڑے ہیں ۔حمساء کی سونی سونی گود ، اس کے چہرے پر بکھری بے سکونی ، فکر اور پریشانی، شرمندگی سے جھکا سر ، التمش کے ظلم کی نشاندہی کررہا تھا۔
’’اگر میں التمش کے ساتھ زندگی گزاروں تو مجھے ماں بنے بغیر زندگی گزارنی ہوگی۔سب سےز یادہ تکلیف مجھے اسی بات کی ہے کہ میں اپنی مرضی سے بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ مجھے اس کا بھی حق نہیں۔ مجھے تو خود پر اختیار بھی نہیں کہ میں اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔‘‘ حمساء اس وقت خود کو بہت بے بس و مجبور محسوس کر رہی تھی۔ شوہر تو اپنی بیوی کے لیے پیار و محبت کا پیکر ہوتا ہے ،جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے ،اسے کبھی بھی بکھرنے نہیں دیتا ، بلکہ اس کے نکھرنے کا سبب بنتا ہے، جس کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے توعورت کی زندگی کو جنت بنادے یا جہنم؛ اس نے حمساء کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔
’’ حمساء !التمش نے تو اولاد کے لئے صاف منع کر دیا ہے، اور جواز یہ دیتا ہے کہ شادی سے پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ اب یا تو تمہیں اسی کے ساتھ، ادھورے پن کے احساس کے ساتھ جینا ہوگا یا پھر اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ میری بات سننے کے بعد وہ کچھ دیر تک سر جھکائےخاموش بیٹھی سوچتی رہی، پھر اچانک اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔میں اپنے آپ کو اس بت پندار کی بھینٹ نہیں چڑھاؤں گی۔‘‘اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ضرور تھیں، لیکن لہجےمیں عزم جھلک رہا تھا۔ اس کے لہجے سے ایک نئی سمت کا تعین ہو رہا تھا۔
سوالات:
(1) لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت شوہر سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے ؟
(2) پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی خدا کی نعمت سے محرومی کے اس رجحان کو ختم کرنے کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں ؟
(3) کیا نکاح سے پہلے نکاح کے مقاصد سے زوجین کو واقف کروایا جاتاہے ؟
’’ حمساء التمش۔‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم ٹیبل پر رکھتے ہوئےکہا۔
میں نے فارم پر سرسری نظر ڈالی تو جانا کہ اس کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اور اس کا شوہر دونوں ہی یونانی ڈاکٹر تھے۔شوہرکسی کالج میں طب کے طلبہ کو پڑھاتا تھا، اورحمساء کسی ہسپتال میں پریکٹیس کر رہی تھی ۔
’’میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ چونکہ وہ تعلیم یافتہ خاتون تھی اس لیے میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کرڈالا۔
’’جب سے میری شادی ہوئی ،تب سے میں مسلسل تذبذب کا شکار ہوں۔ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہوں۔ صحیح اور غلط کی چکی میں پس رہی ہوں ۔خود سے لڑ رہی ہوں۔ عجیب سی کشمکش میں مبتلاء ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں ؟ اس کا اضطراب اس کے لہجے سے جھلک رہا تھا ۔‘‘
’’اولاد کا مسئلہ ہے۔؟‘‘
میں نے اندیشہ ظاہر کیا، تو وہ ایک دم چونک گئی۔
’’آپ نجومی ہو؟‘‘اس نے بے ساختگی سے پوچھا۔
’’نہیں تو، بچوں والا خانہ خالی تھا تو سوچا ہو سکتا ہے وہی تمہاری پریشانی کا سبب ہو۔‘‘ میں نےانکشاف کیا۔
’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دباؤ سسرال والوں کا ہے یا شوہر کا ؟‘‘میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ۔
’’میڈم آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دباؤ بچہ پیدا کرنے کے لئے نہیں ،بلکہ بچہ پیدا نہ کرنے کے لیے ہے۔التمش کو بچے نہیں چاہئیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’اس کی کوئی خاص وجہ ؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وجہ ضرور ہے ۔میرے لئے بے تکی سی لیکن التمش کے لیے خاص۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچوں سے سخت نفرت ہے، کیوں کہ بچے سارا گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں ،چیزوں کو بکھیر دیتے ہیں، گھر گندا کر دیتے ہیں ۔ان کی شرارتیں، شور شرابے سے انہیں الرجی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اولاد کے بغیر ہم زندگی زیادہ بہتر، پرلطف اور آزادی سے گزار سکتے ہیں ،جو اولاد کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ،کیوں کہ وہ بھر پور توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘ حمساء نے وجہ بتائی۔
’’اگر التمش کے والد بھی اسی طرز فکر کے حامل ہوتے تو کیا آج التمش کا وجود اس دنیا میں ہوتا ؟ اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے۔ نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔ اس تناظر میں ایک مسلمان کا اس حدیث سے انحراف کیا ظاہر کرتا ہے ؟‘‘میں نے سوالیہ نظروں سے حمساءکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ان کا غرور، تکبر ،بے دینی اور من مانی؛ میں نے کئی مرتبہ اس حدیث کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔‘‘ حمساء کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
’’معاشی حالات کیسے ہیں ؟ کیوں کہ عصر حاضر میں معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی لوگ بچے پیدا کرنے سے گھبرا رہے ہیں ،اور خاندانی منصوبہ بندی کو ترجیح دے رہے ہیں۔وہ سوچتے ہیں کہ کم سے کم اولاد اور چھوٹا خاندان ہو تو ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل آسانی سے ہو سکتی ہے ۔‘‘ میں نے نسل نو کا نظریہ پیش کیا۔
’’الحمدلله! ہم لوگ معاشی طور پر بہت خوش حال ہیں۔ دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں ہے، بلکہ آرام و آسائش کاہے۔ التمش کا رجحان بڑا خطر ناک ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیں گے۔‘‘ حمساء کا انداز مایوسانہ تھا۔
’’حمساء! آج کل Luxury Life کا جو کلچر پیدا ہواہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور خوش حال ہے ،اتنی ہی اس کی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی حد تک متوسط طبقے میں بھی پائی جارہی ہے۔ جب کہ آج بھی غریب طبقے میں اولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش وعشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے ۔‘‘میں نے موجود حالات کا نقشہ کھینچا۔
’’عام طور پرخاندانی منصوبہ بندی میں ایک یا دو بچوں کی پیدائش کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ،لیکن میرے شوہر کی خاندانی منصوبہ بندی میں بچوں کا شمار ہی نہیں ہے، جب کہ میں ماں بننے کے لئے تڑپ رہی ہوں۔ ماں بننے کا احساس ہی کتنا پر تقدس ہوتا ہے۔‘‘ وہ تصور کی وادیوں میں ڈوب گئی تھی۔
’’میڈم! مجھے ماںبننا ہے۔ ماں بنے بغیرمجھے اپنا وجود ادھورا محسوس ہوتا ہے۔میں تخلیق کے عمل سے گزرنا چاہتی ہوں۔ ایک نئے وجود کو اس دنیا میں لانا چاہتی ہوں جو میرا پرتو ہوگا۔ میں اپنے قدموں تلے جنت کی متمنی ہوں ،لیکن میرا شوہر مجھے اس سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو التمش کی دین تھے، جسے وہ بڑے درد کے ساتھ بہا رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس کا کندھا تھپتھپاتی رہی جب تک کہ طوفان کا زور تھم نہ گیا۔
’’اگر تم چاہو تو میں التمش سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے اجازت طلب نظروں سے دیکھا ۔
’’جی بالکل کیجیے!‘‘ اس نے اجازت دے دی۔ میں نے التمش کا نمبر ڈائل کیا۔ سلام کے بعد جب میں نے التمش سے اولاد کے بارے میں ذکر کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھا، اور کہنے لگا’’ منگنی کے بعد میں اور حمساء فون پر اکثر چیٹنگ کیا کرتے تھے ۔اس وقت میں نے حمساء کو کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ مجھے بچے پسند نہیں ہیں۔ زندگی بچوں کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اور حمساء نے اس بات کو قبول کرتے ہوئےمجھ سے نکاح کیا تھا ۔ اب وہ اسی بات کو لے کر بضد ہے ،جس کا ذکر میں شادی سے پہلے کر چکا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ اس میں کس کا قصور ہے ؟‘‘اتنی اہم بات کا ذکر حمساء نے مجھ سے نہیں کیا تھا۔
’’شادی سے پہلے ہی اس بات کا فیصلہ ؟ کوئی خاص وجہ ؟ جب کہ نکاح کا مقصد جہاں جنسی تسکین ہے وہیں اولاد کا حصول بھی ہے ۔امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضور ﷺ نے تمنا فرمائی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا ۔ اس کے باوجود اس سلسلہ میں آپ کا انکار؟‘‘میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑا:
’’میں اس حدیث سے واقف ہوں ۔اس کے باوجود اپنے فیصلہ پر اٹل ہوں۔ کوئی بھی مجھے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ حمساء کو اگر خوشی خوشی یہ بات منظور ہے تو میرے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ اسی کے ساتھ التمش نے فون منقطع کر دیا ۔میں نے دوبارہ ڈائل کیا تو اس نے میرا فون ریسیو نہیں کیا۔ افسوس ! جس شخص نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا وہی شخص اپنی بیوی کو ماں بننے سے محروم کر رہا تھا۔
’’حمساء! التمش نے شادی سے پہلے ہی اولاد کے متعلق اپنے خیالات کا جو اظہار کیا تھا ۔ کیاوہ سچ ہے ؟‘‘ میں حمساء کی توثیق چاہتی تھی۔
’’ہاں، التمش نے شادی سے پہلے ایسا ضرور کہا تھا، جس کو میں نے مذاق سمجھا اور سنجیدگی سے اس بات پر غور ہی نہیں کیا۔‘‘حمساء نے قبول کیا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں ،اور چہرے پر ندامت کے آثار ابھر آئے تھے۔
’’جس کو تم نے مذاق سمجھا تھا، آج وہی بات تمہاری شادی شدہ زندگی کے لئے خطرہ بن گئی۔ کاش! نکاح سے قبل تم نے مذاق والی بات اپنے والدین کو بتائی ہوتی تو ہو سکتا ہے وہ اس بات کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کرتے، اور صحیح فیصلہ لینے میں تمہاری مدد کرپاتے۔ خیر، جو ہوچکا اس کا خمیازہ تو تم بھگت رہی ہو۔ اب یہ سوچو کہ آگے کیا کرنا ہے ؟‘‘
’’میڈم ! یوں تو میں عورت کہلاتی ہوں، لیکن در حقیقت میں تو اپنی ذات کے آئینے میں نظر آتا مرد ہوں ،اور شاید یہ مرد ہر عورت کے وجود میں دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہر عورت جانے انجانے یا مجبوری کے تحت اسی مرد کے نظریات، اس کے خیالات، اس کی سوچ ،اس کے فیصلے ، اس کی مرضی کے ساتھ ہی تو جیتی ہے۔ عورت کے وجود میں اس کا خود کا کیا ہوتا ہے؟ بتائیں آپ!‘‘ وہ جھنجھلا اٹھی، اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعی عورت تو مرد کے رویہ کی آئینہ دار ہے۔وہ کتاب ہے جو خود اس نے اپنے قلم سے تحریر کی ہے، جس کے باب محبت، نفرت ، ذلت ، الفت، قربت، دیانت ، شراکت ، سوچ، گھٹن ، شک و شبہات، بد اعتمادی، بد سلوکی وغیرہ سے بھرے پڑے ہیں ۔حمساء کی سونی سونی گود ، اس کے چہرے پر بکھری بے سکونی ، فکر اور پریشانی، شرمندگی سے جھکا سر ، التمش کے ظلم کی نشاندہی کررہا تھا۔
’’اگر میں التمش کے ساتھ زندگی گزاروں تو مجھے ماں بنے بغیر زندگی گزارنی ہوگی۔سب سےز یادہ تکلیف مجھے اسی بات کی ہے کہ میں اپنی مرضی سے بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ مجھے اس کا بھی حق نہیں۔ مجھے تو خود پر اختیار بھی نہیں کہ میں اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔‘‘ حمساء اس وقت خود کو بہت بے بس و مجبور محسوس کر رہی تھی۔ شوہر تو اپنی بیوی کے لیے پیار و محبت کا پیکر ہوتا ہے ،جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے ،اسے کبھی بھی بکھرنے نہیں دیتا ، بلکہ اس کے نکھرنے کا سبب بنتا ہے، جس کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے توعورت کی زندگی کو جنت بنادے یا جہنم؛ اس نے حمساء کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔
’’ حمساء !التمش نے تو اولاد کے لئے صاف منع کر دیا ہے، اور جواز یہ دیتا ہے کہ شادی سے پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ اب یا تو تمہیں اسی کے ساتھ، ادھورے پن کے احساس کے ساتھ جینا ہوگا یا پھر اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ میری بات سننے کے بعد وہ کچھ دیر تک سر جھکائےخاموش بیٹھی سوچتی رہی، پھر اچانک اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔میں اپنے آپ کو اس بت پندار کی بھینٹ نہیں چڑھاؤں گی۔‘‘اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ضرور تھیں، لیکن لہجےمیں عزم جھلک رہا تھا۔ اس کے لہجے سے ایک نئی سمت کا تعین ہو رہا تھا۔
سوالات:
(1) لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت شوہر سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے ؟
(2) پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی خدا کی نعمت سے محرومی کے اس رجحان کو ختم کرنے کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں ؟
(3) کیا نکاح سے پہلے نکاح کے مقاصد سے زوجین کو واقف کروایا جاتاہے ؟
Comments From Facebook
سب سے پہلے تو اس اہم ترین کالم کی شروعات پر قلبی مبارک باد واقعی یہ کالم وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔۔۔۔
لڑکیوں کے نکاح کے وقت لڑکا اور لڑکی کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔۔۔اور یہ ذمہ داری والدین یا سرپرستوں کی ہے نہ کہ خود لڑکا یا لڑکی کی۔۔
یہ بے حد ضروری ہے کہ دونوں کے خیالات ملتے ہوں اور دین کے دائرے میں ہوں بصورت دیگر زندگی دشوار ہوگی
دوسرا سوال:- پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی نعمت سے محرومی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔۔جو والدین اپنے بچوں کو پر تعیش زندگی دینے کے چکر میں دینی تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ وہ بچوں کی خوشگوار زندگی (دنیوی ، اخیروی) کی امید رکھیں کیونکہ اولاد کے بگاڑ میں والدین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے گریباں میں جھانک لیں
تیسرا سوال:- نکاح سے قبل نکاح کے مقصد کو ہمارے معاشرے میں اگر واقف کروایا جاتا ہے تو صرف ضابطہ کی خانہ پری کے لیے (یہ ایک تلخ حقیقت ہے) اس واقفیت میں اخلاص نیٹ ہو تو وہ واقفیت واقعی کار آمد ہوگی
اسلام پر عمل کرنے والوں کے لئے ذہنی ہم آہنگی کی کسوٹی اسلامی احکام ہی ہوتے ہیں ۔
ذہنی ہم آہنگی سے مراد رنگ ، ذائقے اور موسم ، مشاغل وغیرہ کی پسند نا پسند نہیں بلکہ اسلامی احکام پر عمل آوری ہونی چاہئے ۔
دیگر معاملات ، پسند ناپسند ایک دوسرے کی محبت کے ساتھ ڈھل ہی جاتی ہیں۔
اولاد سے محرومی(جان بوجھ کر , کسی بھی مقصد کے تحت) سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے ، اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔۔۔۔
شادی سے پہلے نکاح کے اغراض و مقاصد بتانے کے الگ اور عملاً الگ نہیں ہوسکتے جبکہ آج ہم اسی وطیرے کو اپنائے ہوئے ہیں ، عملاً تو رشتی کی تلاش یوں کی جاتی ہے گویا نکاح ایک پرتعیش ، شاندار اور مالدار زندگی کی ضمانت ہو، زوجین کی تلاش کا معیار اس کی دینداری، علم و عمل سے بہت پہلے اس کی ڈگری، ویل سیٹیلڈ۔ پوزیشن ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں ۔
اب اس سے کیا فرق پڑے گا کہ آپ زبانی طور پر کیا مقاصد بتائیں یا نہیں ۔
نکاح کو عین نکاح کی روح کے مطابق انجام دیا جائے اسی وقت سے جب رشتی تلاش کیا جارہا ہو۔
اسلام پر عمل کرنے والوں کے لئے ذہنی ہم آہنگی کی کسوٹی اسلامی احکام ہی ہوتے ہیں ۔
ذہنی ہم آہنگی سے مراد رنگ ، ذائقے اور موسم ، مشاغل وغیرہ کی پسند نا پسند نہیں بلکہ اسلامی احکام پر عمل آوری ہونی چاہئے ۔
دیگر معاملات ، پسند ناپسند ایک دوسرے کی محبت کے ساتھ ڈھل ہی جاتی ہیں۔
اولاد سے محرومی(جان بوجھ کر , کسی بھی مقصد کے تحت) سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے ، اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔۔۔۔
شادی سے پہلے نکاح کے اغراض و مقاصد بتانے کے الگ اور عملاً الگ نہیں ہوسکتے جبکہ آج ہم اسی وطیرے کو اپنائے ہوئے ہیں ، عملاً تو رشتہ کی تلاش یوں کی جاتی ہے گویا نکاح ایک پرتعیش ، شاندار اور مالدار زندگی کی ضمانت ہو، زوجین کی تلاش کا معیار اس کی دینداری، علم و عمل سے بہت پہلے اس کی ڈگری، ویل سیٹیلڈ۔ پوزیشن ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں ۔
اب اس سے کیا فرق پڑے گا کہ آپ زبانی طور پر کیا مقاصد بتائیں یا نہیں ۔
نکاح کو عین نکاح کی روح کے مطابق انجام دیا جائے اسی وقت سے جب رشتہ تلاش کیا جارہا ہو۔
[email protected]
[email protected]
دو بالغ، با شعور، صاحب دولت و ثروت کے مابین باہمی رضا سے ایک نکاح مکمل ہوا مگر مشروط۔ لڑکی ہر حال میں اس نکاخ کی تکمیل چاہتی تھی اگر وہ شرط منظور نہ کرتی تو نکاح نہ ہوتا؟ سوال یہ ہے۔ دو سال کی خشحال زندگی گزارنے کے باوجود وہ اپنے شوہر کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکی؟ سوال یہ بھی ہے کہ مانع حمل کی کیا تدابیر اختیار کی گئ ہیں؟ کیا اتنی کامیاب ہیں کہ خطا کی کوئی گنجائش نہیں؟ کیا کبھی ایسی نوبت بھی آی کہ اسقاط سے گزری یا جبرا حمل ضائع کروانا پڑا ہو؟
بچے کی خواہش فطری ہے اور دین کی رو سے بالکل جایز ۔ مشروط شادی میں بہ رضا حامی بھرنا اور یہ کہہ کر سخت فیصلے پہ پہنچنا کہ مزاق سمجھا تھا وعدہ خلافی ہے۔ شادی دو خاندانوں کے درمیان باہمی اعتماد کا نام ہے۔ دونوں طرف کے بزرگوں کو اعتماد میں لے کر ہی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ یکطرفہ محبت کامیاب ازدواجی زندگی کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ بہت سے جوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جنکو اللہ کے حکم سے اولاد کی نعمت میسر نہیں ہوپاتی پھر بھی وہ نبھاتے ہیں ۔ اسلام دنیا کا واحد مزہب ہے جس نے شادی کو طلاق اور خلع کی شقوں سے لچکیلا بنایا ہے جبر کو منع فرمایا ہے۔ قرآن پاک واحد آسمانی صحیفہ ہے جس نے زن و شو کے تعلق سے زندگی برتنے کہ تمام اصول و ضوابط کھول کھول کر بیان کئے ہیں۔ قرآن سے بہتر رہنما کوئی نہیں۔ دین کے احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تو اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ اپنے رشتے کو کچھ وقت دیں اور شوہر کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے دعا اور تدبیر کریں۔ جس محبت کی خاطر ہر شرط منظور کی تھی وہ اتنی کمزور تو نہیں ہو سکتی!