بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (1) وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ (2) وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ (3) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ (4) أَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ (5) يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا (6) أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ (7) أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ (8) وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ (9) وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (10) فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) فَكُّ رَقَبَةٍ (13) أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (14) يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ (15) أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ (16) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (17) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (18) وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ (19) عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ (20)
یہ سورہ، اوساط مفصل سورتوں میں سے ہے ،جس میں اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کے ذریعہ انسان کا مقصد تخلیق اور دنیا میں اس کی حقیقت کو واضح کیاہے۔ سرزمین حرم اور بنی اسماعیل کی ابتدائی تاریخ کی شہادت سے مشرکین مکہ کی ان خرابیوں کی اصلاح کی گئی، جو نسبت ابراہیمی پر فخر کرنے کے باوجود ان کے اندر پائی جا رہی تھیں ،انہیں خبر دار کیا جا رہا ہے کہ یہ عظیم نعمت، عزت و شہرت جو ملی ہے؛ وہ سب خانہ کعبہ کی برکت کا ثمرہ ہے اور ابراہیمؑ کی دعا کا نتیجہ ہے ،اس پر غرور مت کروبلکہ اس گھر کے رب کی بندگی کرو۔
سورہ کی فضیلت میں ایک حدیث ملتی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
’’من قرأہا أعطاہ اللہ الأمن من غضبہ یومَ القیامۃ‘‘(مجمع البیان روی عن أبی بن کعب)
زمانۂ نزول ،مکّہ کے ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے، جب کفار کی جانب سے مزاحمتوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
یہ مختصر ساسورہ انسانی زندگی کے بنیادی حقائق کے بہت بڑے ذخیرے کو نہایت مختصر الفاظ میں سمیٹے ہوئے ہے، جو قرآن کے اعجاز و ایجاز پر دلیل ہے۔ اس میں خصوصی خطاب تو مشرکین قریش سے ہے اور عمومی خطاب تمام بنی نوع انسان سے ہے کہ انہیں مکارم اخلاق کی دشوار گزار گھاٹیوں کو طے کرتے ہوئے آخرت کی کامیابی کے حصول کی تمنا کرنی چاہیے، ایمان و عمل صالح کے ساتھ اجتماعیت اور اتّحاد کا التزام بھی کریں۔
’’لا‘‘ مشرکین کے قول اور ان کے زعم باطل کی تردید کے لیے آیاہے، جیسے دوسرے مقامات پر ہے:لاأقسم بیوم القیامۃ۔ فلا أقسم بمواقع النّجوم۔
کچھ مفسرین اسے لا زائدہ کہتے ہیں۔کہیں پر قسم کے لیے کچھ حروف کا استعمال ہوا ہے جیسے و الفجر، والضّحیٰ وغیرہ ۔ اور کہیں پر صریح لفظ قسم سے قسم کھائی گئی ہے۔انسانی کلام میں قسم کا مقصد اللہ کی تعظیم اور عز م کی پختگی ثابت کرنا ہوتا ہے مگر قرآن میں قسم کہیں پر مقسم بہٖ کی عظمت کا احساس دلانے کےلیے ہےاور کبھی دعویٰ کی شہادت کے لیے۔ یعنی مقسم بہ جواب قسم پر دلیل ہے۔بلاغت کے اعتبار سے قسم کا ایک فائدہ ہے کہ یہ انشائیہ کلام ہوتا ہے،جس کو مخاطب جھٹلاتا نہیں ہے۔’’بہذا البلد ‘‘سے مراد سرزمین مکہ ہے ،جیسے سورہ التین میں بھی ہے ’’و ہذا البلد الأمین‘‘ یہ وہ پہلا گھر ہے جو زمین میں امن و امان کے لیے،اور عبادت و بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا۔
یہ مقسم بہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ یعنی آپؐ اسی شہر میں مقیم اس کے ماضی اور حال سے واقف ہیں۔ سرزمین مکہ کی حرمت و عظمت پورے عرب میںاسی دن سے مسلّم تھی ،جس دن سے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام نے اسے آباد کیا تھا، اور خانۂ کعبہ کی تعمیر کر کے حج کا اعلان کیا تھا۔ پھر آپؐکی بعثت اور نزول وحی نے اس کی اہمیت میں اضافہ کر دیا۔
اور قسم ہے باپ اور ان کی اولاد کی ۔ اس سے مراد کون ہیں؟ اس میں دو قول ہیں۔ آدمؑ اور ان کی ذریت۔ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اور ان کی ذرّیت جنہوں نے اس شہر مکّہ کو مشقتوں سے آباد کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے حج و عمرہ اور قربانی کے مناسک سے یاد گار بنادیا۔
4۔لقد خلقنا الانسان فی کبد
یہ جواب قسم ہے۔ یعنی انسان مشقت جھیلنے ،سعی و جہد کرنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، جیسا کہ تمہارے جدّامجد ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ کی پوری زندگی محنت و مشقت اور ابتلاء و آزمائش کا بہترین نمونہ تھی۔ اس دنیا میں مشقت اور جدّو جہد کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے، کوئی اقتدار کے لیے، کوئی جاہ و منصب کے حصول کے لیے تو کوئی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے کوشش کرتا ہے۔ نامراد ہیں وہ لوگ جو دوزخ کی طرف چلتے ہوئے مشقتیں جھیلتے ہیں۔
5۔أیحسبُ أن لن یقدر علیہ أحد
کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھ سکتا ؟وہ جو چاہے کرے۔ یہی وہ زعم باطل ہے ،جس کی پہلی آیت میں نفی کی گئی ہے، کہ انسان من چاہی زندگی گزار کراس دنیا سے چلا جائے، اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا؟
6۔یقول أہلکت ما لاً لّبدا
وہ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال برباد کر دیا۔ لبد کے معنیٰ کثیر، ڈھیر۔ اس آیت میں معاشرے کے خوشحال لوگوں کی بدترین تصویر پیش کی گئی ہے کہ جب انہیں انفاق پر ابھارا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ میں نے ڈھیروں مال خرچ کر ڈالا۔ اور کتنا؟ نام و نمود کے لیے تو فخر سے خرچ کرتے ہیں، مگر نیکی کے کاموں میں انفاق کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہیں۔ راہ خدا میں خرچ کی فضیلت سے وہ ناواقف ہیں۔ دولت کو خدا کا انعام و احسان کے بجائے اپنی جاگیر اور اپنی قابلیتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں جیسے قارون نے کہا کہ ’’اِنّما أوتیتُہُ علیٰ عِلم‘‘.ایسے لوگ اللہ کی راہ میں دینا نہیں چاہتے اور آخرت کے تعلق سے بھی خوش فہم ہوتے ہیں کہ ’’و لئن رّدِدتُ اِلیٰ ربّی لأجدنّ خیراً مِنہا منقلبا‘‘(کہف : 36)
7۔ أیحسبُ أن لم یرہ أحد
کیا وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی کو نہیں معلوم اس نے کس مقصد سے خرچ کیا؟ اس کے مال کمانے کے ذرائع کیا ہیں؟ کتنوں کا حق مارا، کن کو جائداد ووراثت سے محروم کیا؟ سائل اور محروم کا حق کتنا ادا کیا؟ قیامت کے دن ’’من أین اکتسبَہُ و فیما أنفقہُ‘‘ کی جواب دہی کے بغیر اس کے قدم نہیں ہل سکتے ۔یہ تنبیہ اور تہدید کا اسلوب ہے کہ اللہ تعالی سب دیکھ رہا ہے، اور اسی کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔
8,9۔ ألم نجعل لہ عینین و لساناً و شفتین
یہ ان نعمتوں کا ذکر ہے جو ہدایت اور رہنمائی میں بہترین معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی تنبیہ بھی ہے کہ ان نعمتوں کا احتساب بھی ہوگا۔ نادان لوگ صرف دولت کو ہی نعمت سمجھتے ہیں اور ان عظیم نعمتوں کی قدر نہیں کرتے۔ بصیرت والی نگاہ، قوت گویائی وعقل کے ساتھ۔ یہ اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے۔ زبان کے ذکر سے یہ واضح کر دیا کہ یہ چھوٹا سا عضو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ جو مجھے زبان کی حفاظت کی ضمانت دے میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں‘‘(أو کما قالؐ)کیونکہ بے شمار گناہوں کا تعلق زبان سے ہوتا ہے ۔جھوٹ، غیبت، چغل خوری، عیب جوئی، دل آزاری وغیرہ۔ اسی طرح بہت سی نیکیاں بھی زبان سے ہی ہوتی ہیں۔ تلاوت قرآن، حمد، ذکر، دعا وغیرہ۔
النجد: مکان مرتفع، نمایاں جگہ، مراد خیر و شر کے دونوںراستے جیسے سورہ دہر میں فرمایا ’’اِنّا ہدینٰہُ السبیل اِمّا شاکراً و اِمّا کفورا‘‘۔ (سورہ دہر : 3)
اِمام فراہیؒ کی تحقیق کے مطابق اس سے مراد دونوں خیر کے راستے ہیں یعنی ایک اللہ کے حقوق کی ادائیگی اور دوسرا بندوں کے حقوق۔ جیسا کہ آگے کی آیات میں واضح کیا گیا ہے۔ یہ دونوں امور انسانی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں، انہی کی یاد دہانی کے لیے انبیاء علیہم السلام آتے رہے۔
اقتحام، اپنے آپ کو کسی سخت اور مشقت طلب کام میں ڈالنا۔ عقبہ، گھاٹی ،دشوار گزار راستہ ۔یہاں اللہ تعالی نے ایک خوبصورت تمثیل پیش کی ہے کہ نیکی کے کام انسانی نفس پر بہت شاق اور دشوار ہوتے ہیں مگر اس کا انجام جنت ہے۔ مطلب یہ کہ جو دو نمایاں راستے اللہ نے دکھائے اس میں ایک تو اخلاق کی بلندی کی طرف جاتا ہے، مگر دشوارہے ،اس پر چڑھنے کے لیے آدمی کو اپنی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے لڑنا ہوتا ہے۔ اللہ کا مقرّب بننے کے لیے مؤمن کو بہت سی گھاٹیاں پار کرنی پڑتی ہیں۔ دوسرا راستہ اخلاقی پستیوں کا ہے جس میں خوب لذّت حاصل ہوتی ہے، مگر انجام دوزخ کی گھاٹی ہے۔اسی بات کی وضاحت آپؐ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے ’’حفّت الجنّۃ بالمکارہ و حفّت النار بالشہوات‘‘انسان کی کمزوری ہے کہ وہ مشکل گھاٹی پر چڑھنے کے بجائے کھڈ میں لڑھکنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔
و ما أدراک ما العقبۃ
یہ استفہام، تفخیم شان کے لیے ہے۔ قرآن میں بہت سے مقامات پر اس طرح سوال کر کے اس کی اہمیت بتانی مقصود ہوتی ہے۔جیسے: ما القارعۃ. ما الحاقّۃ
آگے ان اعمال کا تذکرہ ہے، جو انسان کو اخلاق کی بلندیوں کی طرف لیے جاتے ہیں اور اللہ تعالی کو پسندہیں۔فک،ّ کھولنا۔ رقبۃ، گردن۔ یعنی کسی شخص کو آزاد کرنا۔ أحادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ اس نیکی میں بھی سب سے آگے تھے، انہوں نے اپنے مال سے بہت سی گردنوں کو غلامی سے آزاد کیا۔
14۔أو اطعام فی یوم ذی مسغبۃ
بھوک اور قحط کے زمانے میں کھانا کھلانا۔ یعنی یہ کام تو نیکی کا ہے ہمیشہ نیکی کا ہے ،مگر شدّت کے زمانے میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، جب دینے والے کو خود بھی ضرورت ہو۔ سورہ حشر میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کی تعریف میں فرمایا ’’و یؤثرون علیٰ أنفسہم و لو کان بہم خَصَاصۃ‘‘ (وہ لوگ سخت ضرورت کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔)
یہ کھانا کھلانا ہے کسے؟ شاندار دعوتوں میں جس میں شہرت کے ڈنکے بجتے ہوں ،خوب واہ واہی ہو؟
نہیں ! بلکہ کھلانا ہے رشتہ دار یتیموں کو جو ہماری نظر عنایت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اور کھانا کھلانے کا مطلب تمام ضروریات کی تکمیل ہے۔
خاک نشین مسکین ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ مسکین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ سائل۔ مُتعفّف، جو عزت نفس کی وجہ سے خود کو ظاہر نہ کر یں، یتیموں اور مسکینوںکی مدد اور ان سے حسن سلوک کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا’’ أنا و کافل الیتیم فی الجنۃ ہکذا۔‘‘ (رواہُ البخاری)
17۔ثم کان من الذّین آمنوا…
’’ثم ‘‘فضیلت و برتری کے مفہوم میں ہے۔ ترتیب زمانی کے لیے نہیں کہ پہلے وہ کام کریں، پھر ایمان لائیں۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان اولین شرط ہے۔ اس آیت میں اجتماعیت کی فضیلت بھی واضح ہے۔ کہ ایک صالح جماعت اور ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے، جس کے افراد باہم صبر و ہمدردی، رحم دلی و مواساۃ کی تلقین کرتے ہوں۔
18۔اُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
یہی وہ خوش بخت اور کامیاب لوگ ہوں گے، جو آخرت کی لازوال نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔
19,20 ۔وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا…
رہے وہ لوگ، جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی، خواہ قرآنی آیات ہوں یا آفاق و انفُس کی نشانیاں۔ تو وہ بدبخت لوگ ہوںگے جن پر جہنم کی آگ چاروں طرف سے بند کر دی جائے گی۔ أعاذنا اللہ منہا۔
0 Comments