نومبر٢٠٢٢
کائنات کی مادی دولت پر اللہ رب العالمین نے انسان کو تصرف کی آزادی بخشی ہے ۔جو دولت انسان اپنی محنت سے کمائے، اسے حلال کمائی کہتے ہیں۔کمانے کے مختلف طریقے ہیں، اوراس کی آزادی ہر دو مرد وعورت کو حاصل ہے ۔اگرچہ اللہ رب العالمین نے گھر کی معاشی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے،عورت کو ذمہ دار نہیں بنایا ،تاہم وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے، اپنے بچوں کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے نیز انفاق فی سبیل اللہ کے مقصد سے کمانے کی پوری آزادی رکھتی ہے ۔
معاش، حیات انسانی کاوہ اہم ترین شعبہ ہے کہ عمر عزیز کا بیشتر حصہ غم فردا میں گزرتا ہے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ایک ہی فکر انسان کو گھائل کیے رکھتی ہے کہ اسے بہر صورت ضروریات زندگی کےحصول کویقینی بنانا ہے ۔ عارضی معاش کی صورت میں ایک نادیدہ سا خوف ، سائے کے مانند انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور مستقل معاش کی تگ و دو کے لیے ایک محرک کا کر دار ادا کر تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے اس فطرت انسانی کا خاص خیال رکھا ہے اور جابجا حصول معاش کی دوڑ دھوپ کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله ()
(جب تم نماز ادا کرچکوتو پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔)
علم أن سيكون منكم مرضى وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله
( وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے ، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل تلاش کریں گے۔)
معاش انسانی کا بہتر سے بہتر ہو ناضروری ہے، اس کے لیے سرور دو عالم ﷺ نے دعا سکھلائی:
اللهم إني أسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى
(اے اللہ میں آپ سے ہدایت، تقوی ، عفت اور تونگری کا سوال کر تا ہوں۔) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سےارشاد فرمایا:
نعم المال الصالح مع الرجل الصالح
(نیک آدمی کے لئے اچھا مال کیا ہی خوب ہے۔)
نبی کریم ﷺ نے حضرت انس ہی کے لیے کثرت اولاد کے ساتھ فراخی رزق کی بھی دعاءفرمائی۔ ارشاد فرمایا:
اللهم أكثر ماله، وولده
(اے اللہ! انس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔)
قرآن کریم نے تجارت کے لفظ کو بار بار دہرایا ہے، اس لیےکہ اللہ تعالی نے تجارت کے پیشےمیں بہت برکت رکھی ہے۔ حدیث میں بھی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دس حصوں میں سے نو حصے رزق اللہ نے تجارت میں رکھا ہے ۔
امام ابراہیم نخعی ؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو عبادت کے لیےوقف کر رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سچا تاجر زیادہ بہتر ہے ۔ اس لئے کہ وہ حالت جہاد میں ہے۔ شیطان ہر طرف سے اسے پھسلانے کی کو شش کر تا ہے کبھی ناپ تول میں کمی بیشی کا کہتا ہے تو کبھی لین دین میں مکر بازی کی چالیں سمجھاتا ہے لیکن وہ تاجر ان سب سے انکار کر کے جہاد کرتا ہے۔
عہد رسالت میں صحابیات تجارت اوردیگر ذرائع معاش سے وابستہ تھیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
تجارت
صحابیات میں سے حضرت اسماء بنت مخزمہؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں ۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشبو کو پسند کرتا ہے اور بد بو سے نفرت کر تا ہے۔ اسلام جو کہ دین فطرت ہے خوشبو کی ترغیب دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ ہمہ وقت خوشبو سے معطر رہتے تھے ۔
ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ان کا بیٹا عبد اللہ بن ربیعہ، یمن سے عطر خرید کر انہیں بھیجتا تھا اور وہ اسے فروخت کرتی تھیں۔ ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ ہم چند عورتوں نے ان سے عطر خریدا۔ جب انہوں نے ہماری بوتلیں عطر سے بھر دیں تو گویا ہوئیں :’’اكتين لي عليكن حقي‘‘( میری جور قم تمہارے ذمہ واجب الاداء ہے ، مجھے لکھ دو۔)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عطر کی خرید و فروخت نقد کے ساتھ ساتھ ادھار پر بھی کیا کرتی تھیں۔
حضرت خولہ بنت توقیت ؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھیں کہ وہ عطارہ کے نام سے مشہور ہو گئی تھیں۔ جب وہ رسول اللہﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپﷺ انہیں عطر کی خوشبو سے پہچان لیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آپ ﷺ کے گھر تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایاکہ تم نے ان سے کچھ خریدا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آج یہ عطر فروخت کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے خاوند کی شکایت لیکر آئی ہیں، تو آپ ﷺ نے ان کی شکایت کا ازالہ کیا۔
حضرت سائب بن اقرع ثقفی ؓکی والدہ حضرت کبدؓ عطر فروشی کا کام کرتی تھیں۔ حضرت سائب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری والدہ آپ ﷺ کے پاس عطر فروخت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں۔ نبی کریمﷺ نے عطر کی خریداری کے بعد ان سے ان کی حاجت کے بارے میں دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ حاجت تو کوئی نہیں البتہ اپنے چھوٹے بچے- جو ان کے ساتھ تھا-کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعافرمائی۔
مائیکرو فائنانس
حضرت زینب بنت جحشؓ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہؓ کی زبان سے نکلاہوا یہ جملہ مؤرخ نے تاریخ میں لکھ لیا ۔جسے طالب ہاشمی صاحب نے تذکارِ صحابیات میں نقل کیا ہے :’’ ہائے زینب تم تو چلی گئیں۔ پیچھے بیوہ، یتیم، مسکین اور بے سہاروں کو چھوڑ گئیں۔‘‘ اس جملے کے پیچھے وجوہات یہی تھیں کہ حضرت زینب ؓچمڑے کی دباغت کرتیں، اس چمڑے سے مشکیزے اور مجاہدین کے زخموں پر باندھنے والے جبرے تیار کرتیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی اس سے بیوہ،یتیم،مسکیں اور بے سہاروں کی مدد کرتیں ۔
طبابت
عہد رسالت میں بہت سی صحابیات طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ صحابیات جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تشریف لےجاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فریضہ سر انجام دیا کرتی تھیں ۔ ان میں سے ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہؓ بھی تھیں۔ ابن اسحاق سے مروی ہے :
وكان رسول الله ﷺ حين أصاب سعدا السهم بالخندق، قال لقومه: ’’ اجعلوه في خيمة رفيدة حتى أعوده من قريب‘‘، وكان رسول اللہ ﷺ تمر به فيقول: ’’كيف أمسيت وكيف أصبحت؟‘‘ فيخبره
( غزوۂ خندق میں جب حضرت سعدؓ تیر سے زخمی ہو گئے، تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفید ہ کے خیمے میں منتقل کر دیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کر سکوں۔ نبی کریمﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعد ؓکا حال دریافت فرماتے کہ صبح طبیعت کیسی تھی اور شام کیسی گزری؟ تو سعدؓ آپ ﷺ کو اپنا حال بتاتے ۔)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ غزوات میں ام سلیمؓ اور انصار کی عور تیں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہوتی تھیں، جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ام عطیہ ؓفرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں نبی کریم صلی ﷺ کے ہمراہ رہی۔ میں مجاہدین کے لیے کھانا بناتی،زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے انصار کی عورتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔ درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے، بلکہ وہ ضرورت پڑنے پر مردوں کا علاج بھی کرسکتی ہے ۔
زراعت و کاشتکاری
زراعت و کاشتکاری ،معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔ روز اول سے ابتدائی معاشی سرگرمیوں میں زراعت و کاشتکاری ہی رہی ہے نبی کریم ﷺ کو یہ گوارہ نہ تھا کہ زمین کا کوئی قطعہ یو نہی خالی پڑار ہے اور اس سے پیداوار حاصل نہ کی جائے، اس لیے کہ زمین اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کی قدر اسی
میں ہے کہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور جس قدراس سے فوائد اٹھائے جاسکتے ہوں، اٹھائے جائیں ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اس کے لیے ہے۔
دوسری جگہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اول اسے خود کاشت کرنی چاہیے، اگر وہ خود کاشت نہیں کر سکتا تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔
حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہو جائے گا۔
موجودہ زمانے میں بھی خواتین بہترین قسم کی تجارت و دیگر معاشی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں ۔
کاروبار کی نگرانی
عہد رسالت میں عور تیں نہ صرف یہ کہ اپنے کاروبار میں خود حصہ لیتی تھیں اور بطور کار کن خود ہی کام کرتی تھیں ،بلکہ اس بات کے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ وہ خود کاروبار کی ادارت اور نگرانی کر تیں اور کام کاج کوئی اور کر تا۔ امام بخاریؒنے حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت نے آپ ﷺ سے یہ عرض کیا کہ کیا میں آپ کے لیےایک منبر نہ بنوادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اگر تم چاہو تو بے شک بنوا دو،چنانچہ اس عورت نے منبر بنوا کر دیا۔ جمعہ کے روز آپ ﷺ اس پر تشریف فرما ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے ۔
حضرت خدیجہؓ کی تجارت بھی کچھ اس طرح کی تھی کہ وہ اپنامال مضاربت پر دے کے خود کاروبار کی نگرانی کر تیں تھیں اور منافع مضار بین اور اپنے ما بین تقسیم کر لیتی تھیں۔ آپ نے نبی کریم ﷺ کو بھی مضاربت کی بنیاد پر مال دیا تھا، جسے آپ ﷺ نے فروخت کیا تو دو گنا منافع ہوا تھا۔
خولہ بنت ثعلبہ ؓکے خاوند نے ان سے ظہار کیا۔ وہ دونوں رسول اکرمﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے کی غرض سے تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا جب تک کوئی حکم نہیں آجاتا تم اپنی بیوی سے دور رہو۔ حضرت خولہ نے عرض کیا:’’يا رسول الله !ما له من شيء وما يتفق عليه إلا أنا‘‘( میرے خاوند کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ ان پر تو میں ہی خرچ کرتی ہوں ۔)
وہ خواتین جو تجارت کی شوقین ہیں تاہم معاشی سرگرمیوںمیں کیسے حصہ لیں؟ اس کے لیے یہاں موجودہ زمانے کے کچھ اسٹارٹ اپس کا ذکر کیا جارہا ہے،ہمیں امید ہے کہ ہماری خواتین کے لیے یہ نہایت کارآمد رہیں گے ۔
موجودہ دور کی خواتین کے لیے مختلف ذرائع معاش کی تجاویز
درج بالا واقعات کی روشنی میں خواتین گھریلو دستکاری کو احسن طریقے سے فروغ دے سکتی ہیں؛ جن میں سلائی کڑھائی، ملبوسات پر فینسی کام، قالین بافی، کھانے پینے کی اشیاء کے خام مال کی تیاری ، چھوٹے پیمانے پر مختلف اشیاء کی پیکنگ، کھیلوں کے سامان کی تیاری و غیر ہ شامل ہیں۔ یہ کام وہ بذات خود بھی سر انجام دے سکتی ہیں اور اگر وہ ملازمین کے ذریعےکروانا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔مثال کے طور پر ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس میں فیشن ڈیزائینگ ، ٹیلرنگ اور کمپیوٹر ایپلی کیشنز کے تین سے آٹھ ماہ تک کے کورسز مفت کروائے جاتے ہیں اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جا تا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ ان اقدامات سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے گھر وں میں کمپوٹر کورسز،چھوٹے پیمانے پر سافٹ ویئر کی تیاری ،ویڈیو ایڈیٹنگ اورویب ڈیزائننگ کر کے اپنا معیار زندگی بلند کر یں۔یہاں بالکل نئے اسٹارٹ اپس کے کچھ نمونے آپ کی رہنمائی کے لیے ہم بیان کررہے ہیں ۔
خواتین کی کارڈرائیونگ
شہروں میں کار ڈرائیونگ ،جاب کرنے والی خواتین کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے، اسی طرح بچوں کو اسکول سے پک اینڈ ڈراپ کرنا، آؤٹنگ،شاپنگ،اور دوسری ضروریات کے لیے جانا۔ ہندوستان کےماحول میں خواتین کا کار ڈرائیو کرناعام ہوتا جارہا ہے ۔مسئلہ یہ ہےکہ خواتین کارڈرائیونگ سیکھنا چاہے تو مردوں سے کیسے سیکھیں؟ سکھانے والی خاتون میسر ہوتو سہولت ہو۔
ایک خاتون اپنے معاشی تگ ودو کی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں :
’’ Actually میری سہیلی کو کار سیکھنی تھی۔ اس کے شوہر کا خیال تھا کہ کار سیکھ لو، مگر کسی خاتون سے سیکھو۔ مجھے Already گاڑی چلانی آتی تھی، تو میں نے اس سے کہا کہ میں سکھا دیتی ہوں۔اس کے گھر پر اس وقت سب مصروف تھے تو کسی کے پاس اسے کار سکھانے کے لیے وقت بھی نہیں تھا۔ میں نے اسے سکھادیا۔ اس کے بعد اس کی بڑی بھابھی نے مجھ سے خواہش ظاہرکی ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ نے اسے سکھایا ہے تو مجھے بھی سکھا دیجیے۔ یوں ایک سے دو ،دو سے تین ہوئے اور میں سکھانے لگی۔ بس یہیں سے میرے بزنس کا آغازہوا تھا ۔ابتداء میں کوئی کلیئر آئیڈیا نہیں تھا۔پھر میں نے RTO میں جاکر معلومات حاصل کیں۔ دوسرے جو Driving Schools تھے، ان کےبارے میں، ان کے طریقوں کے بارے میں ساری معلومات حاصل کیں۔ RTO کے Officers نے مجھے پوری طرح سے تسلی دی۔ ساری معلومات دیں، جیسے کہ فارم کیسے سبمٹ کیا جائے؟ ایجوکیشن کیا ہونی چاہیے؟ ایکسپریئنس کیسا ہونا چاہیے؟ وغیرہ۔یہ ساری چیزیں مجھے بتائیں، اور میں نے اس طرح بزنس کا Startup کیا۔
(1) Motor Mechanicalمکمل ہونا چاہیے۔سب سے پہلےضروری ہے، کار چلانے کا ایکسپیریئنس اور Transport لائسنس۔ لائسنس پانچ سال کا ہونا چاہیے۔مختلف شہروں میںMotor Mechanical کے انسٹیٹیوٹس ہیں۔ وہاں کا سرٹیفیکیٹ ہونا چاہیے۔وہاں پر جو Retired Officer ہوتے ہیں وہ Training دیتے ہیں۔ آپ کو وہ ورکشاپ اور ٹریننگ مکمل کرنی چاہیے۔
(3) کار اپنی ہونی چاہیے۔Driving School کی جو عمارت ہے،اس کا Completion Letter چاہیے۔Office میں پورا Set-up ہونا چاہیے۔ بتایا جاتا ہے کہ کتنے PC چاہئیں۔ یہ سب چیزیں Complete کر سکتی ہیں۔Student کےبیٹھنے کے لیے Desk ہونے چاہئیں۔Learning License کے لیے PC ہونی چاہیے،جو معلومات ہمیں Students کو دینی ہیں،وہ ہمیں PC پر بتانی پڑتی ہیں۔RTO کے کچھ ضابطے، قوانین و قواعد ہیں۔ اس کے YouTube پر بہت سارے ویڈیوز ہیں، وہ ضوابط بتانے پڑتے ہیں۔
(4) Office کےسیٹ اپ میں آپ کا ایک سے ڈیڑھ لاکھ خرچ آجاتا ہے۔ کیونکہ اس میں PC رہتے ہیں۔ Professor کے لیے Cabin اور Chair,Table,Laptopچاہیے۔آپ کو Camera چاہیے، جو آپ کے Office کی نگرانی کرےگا۔Cars میں آپ کے پانچ سے چھ لاکھ روپے چلے جاتے ہیں۔
(5) ہمیں پہلے RTO میں فارم پُر کرنا ہوتا ہے کہ ہم Driving School شروع کر رہے ہیں، پھر وہاں سے اجازت ملتی ہے۔پھر Car کو ہمیں Dual Control کروانا پڑتا ہے۔Dual Control کروانے کے لیے RTO سے ہی Permission Letter لینا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ RTO کے کچھ ورکشاپس ہوتے ہیں، وہ مکمل کرنے ہوتے ہیں۔Car Learner کے Side پہ جو Trainer Seat ہوتی ہیں، ان کے پیروں کے نیچے Clutch اور Brakes کی System کرکے ملتی ہیں۔اس کے علاوہ Office کے سب Documents آپ کے Education اور Experience کے Documents ہمیں RTO میں Submit کرنا پڑتا ہے۔
(6) کار سیکھنا آج کے لیے ایک ضرورت بن چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین جو سرکاری دفتروں میں کام کر رہی ہیں، ان کے علاوہ جو ٹیچرز ہیں، جن کے اسکول شہر سے باہر ہیں۔ اگر ان کے پاس کار نہ ہو تو انہیں آنے جانے میں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جو خواتین ڈاکٹر ہیں، یا جن کے گھر شہر سے دور ہیں، انہیں روزانہ سفر کرنا ہوتا ہے، اور اگر وہ کار سیکھ لیں۔ تو یہ ان کے لیے آسانی ہے، اور بعض اوقات لوگ یہ دھیان بھی نہیں دیتے کہ کون کار چلا رہا ہے۔ اگر آپ کو کار چلانی آتی ہے توموسم کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔میں کار پر اتنا زور اس لیے دے رہی ہوں کیوں کہ Two Wheeler پر اتنے دور کا سفر ممکن نہیں ہے اور اس میںخواتین خود کو محفوظ بھی سمجھتی ہیں۔ہم بہت ساری ایسی خواتین کو دیکھتے ہیں، جو خاتون خانہ (Home Maker) ہیں،جنہیں اپنے بچوں کی Parent Teacher Meeting میں لازماً حاضر ہونا پڑتا ہے۔یعنی کار سیکھنا اس وقت خواتین کی ضرورت بن چکی ہے،اور رہی Experience کی بات ،تو خواتین ہی اگر خواتین کو سکھائیں تو خواتین زیادہ Comfortable محسوس کرتی ہیں۔بہت ساری Family کی Requirement رہتی ہیں کہ کوئی کورس اگر خاتون سکھا رہی ہے تو وہ %100 اس کورس کو سیکھنے کے لیے اجازت دے دیتے ہیں۔
(7)وہ Age پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر ہم 30 یا 40 کے اندر سیکھتے ہیں تو days 30کی کلاس میں خواتین سیکھ جاتی ہیں،اور انہیں Confidence آجاتا ہے۔وہی اگر ہم 40 سال کے بعد کار سیکھتے ہیں، تو تھوڑا سا ہمارا Confidence کم ہو جاتا ہے،تو 30 دن میں ہمیں Perfect گاڑی چلانی نہیں آتی۔ جس کے لیے Car Learner کچھ دن گھر پر پریکٹس کر لیتے ہیں یا کلاس کا Time Period بڑھا دیتے ہیں۔بہرحال Practice بہت ضروری ہے۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر والوں پر یہ سوچ غالب آجاتی ہے کہ خاتون Perfectly گاڑی نہیں چلا سکتیں۔ یہ سوچ بھی خواتین کا Confidence ختم کردیتی ہے۔یا گھر کے افراد ایک ضد یا خواتین کی ضرورت کی وجہ سے انہیں گاڑی تو سکھا دیتے ہیں ،لیکن انہیں Practice کے لیے وقت اور گاڑی نہیں دیتے۔
(8) میرا یہ سفر Two Wheeler سکھانے سے شروع ہوا تھا۔ تب میرے پاس دو Scooty تھی۔ لیکن ساتھ ہی میں نے RTO سے Permission لے کر Four Wheeler سکھانا بھی شروع کیا۔ Already میری بہت ساری خواتین سے جان پہچان ہو چکی تھی۔ جس کی وجہ سے سب کو میری Driving School کے بارے میں معلومات تھیں۔ خواتین کی Requirement کےحساب سے میں نے خواتین کے لئے Car Driving School شروع کیا۔پہلے میرے پاس صرف ایک کار تھی۔ آج میرے پاس پانچ کاریں ہیں۔ پانچوں کاروں پر سیکھنا سکھانا شروع ہے۔خواتین کو میں بذات خود Training دیتی ہوں۔ Gents کو میرے شوہر Training دیتے ہیں۔ہمارے پاس اور بھی Trainers موجود ہیں۔صبح 7 سے 12 بجے تک خواتین کا وقت ہے، اور دوپہر 3 تک میرا آفس کا وقت ہوتا ہے۔
(9) Monthly 70 سے 80 لوگ ہمارے پاس سیکھتے ہیں۔ جن میں سے 25 سے 30 لوگ بہت کم وقت میں سیکھ جاتے ہیں۔آج کل لڑکیاں بہت سیکھ رہی ہیں۔ جب بھی اسکول کی تعطیلات ہوتی ہیں تو بچیاں بہت زیادہ سیکھتی ہیں۔
(10) Driving School کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے، Admission کے وقت Learning License Form پُر کیا جاتا ہے۔ RTO کے ضوابط اور قوانین کے مطابق، گاڑی کیسے چلانی ہے؟ 18 سال کے بعد بھی ہم License کے لیے Form پُر کر سکتے ہیں۔اسی وقت آپ کا RTO کے مطابق Exam لیا جاتا ہے۔ Permanent License میں RTO کیسے سوالات پوچھیں گے اس کے لیے ہم نے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ جس میں تمام ہی سوالات و جوابات کو Cover کیا گیا ہے۔ تو وہ کتاب ہم Students کو Provide کرواتے ہیں۔پھر RTO میں Date لےکر Learning License بن جاتا ہے۔ اس کے بعد Car Training شروع ہوجاتی ہے۔ Learning License تیس دن کے لیے Valid رہتا ہے۔اس کے بعد RTO سے آن لائن Permanent License کے لیے ایک Date مل جاتی ہے۔ جس دن Exam ہونا ہوتا ہے،اس دن RTO میں جاکر کے Test دینا ہوتا ہے۔اس وقت ساتھTrainer نہیں ہوتا ہے۔ RTO Officers ساتھ ہوتے ہیں۔وہی مختلف Command دیتے ہیں، جنہیں Follow کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد Result بتایا جاتا ہے۔ اگر وہاں ٹیسٹ میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،تو تقریباً بیس دن کے درمیان License آدھار کارڈ کے ایڈریس پر آ جاتا ہے۔
(11) جی ہاں، ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جو گاڑی سیکھ لیتے ہیں لیکن License بنانے میں کوتاہی کرتے ہیں۔یہ کوتاہی کرنا بہت غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ License لازماً بنانا چاہیے۔جیسے ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو میڈیکل لازماً لیتے ہیں، ایسا نہیں کرتے کہ ڈاکٹر کو دکھاتے ہی ہماری طبیعت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ مطلب ہمیں کار چلانی آگئی اور ہم کار چلا رہے ہیں تو یہ کار چلانا License کے بغیر ٹھیک نہیں ہے۔Legal License کی Process کرنا Best ہے۔
(12) جو 30 دن کی Training ہے، اس میں ہی آپ کو سب سکھایا جاتا ہے ،جیسے Engine چیک کرنا وغیرہ۔جو بھی چھوٹی چھوٹی معلومات ہوتی ہیں۔ عام معلومات جو ہر کسی کو معلوم ہونی چاہئیں،وہ ساری معلومات بتائی جاتی ہیں۔اور کوئی بھی Minor Problem اگر گاڑی میں آ جاتا ہے تو صرف کیسے ٹھیک کیا جائے، اس کی بھی Training دی جاتی ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ گاڑی چلاتے وقت بے احتیاطی سے بچنا چاہیے۔ یہ ساری چیزیں Driving School میں آپ کو سکھایا جاتا ہے۔
(13) میں وہی کہوں گی کہ جن کو بہت اچھی طرح کار چلانی آتی ہے۔ یا جن کے دل میں ایسا خیال ہے کہ مجھے کچھ الگ کرنا ہے۔ تو میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ اس فیلڈ میں آئیے۔یہ بہت اچھا بزنس بھی ہیں۔ اور ایک نئی فیلڈ بھی ہے۔‘‘
عبایا بیچنے سے فیکٹری تک کا سفر
ایک دوست کے مشورہ پرمیں نےعبایا بیچنا شروع کیا تھا۔ میں اس خاتون سے اپنی فیملی تنازعات کے سلسلے میں کاؤنسلنگ کے لیے رجوع کرنے گئی تھی۔ وہ میرے بہت تکلیف دہ دن تھے ۔میری دوست نے عبایا بیچنے کا مجھے آئیڈیا دیا۔ میں نےعبایا خرید کر بیچنے شروع کیے۔ مجھے اس سے زیادہ منافع نہیں ملتا تھا، لیکن یہ آئیڈیا آگیا کہ میں کپڑا خرید کر سلوا سکتی ہوں، میرے ذہن میں ڈیزائن ہوتے اور میں ابتداء میں دو خواتین سے سلوانے لگی ۔جب سلے ہوئے عبایا کو میں نےخوبصورت لیبل لگا کر فروخت کرنا شروع کیا تو نسبتاً آمدنی زیادہ ہوئی۔ یہی میرے زندگی کی اچھی شروعات تھی۔ اب مجھے اسے بہترین اور تاریخی شروعات میں تبدیل کرنا تھا۔ میںنے سلنے کے لیے کپڑا آرڈر کرنا شروع کیا۔ مشینوں کی تعداد بڑھادی۔ اپنے ہی گھر کے تہہ خانے میں عبایا تیار کرنے کا سیٹ اپ لگوا دیا ۔جدید مارکیٹنگ میں کسٹمائز کا اعلان لوگوں کو زیادہ متوجہ کرتا ہے ۔سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ ایڈ کے ساتھ ساتھ کسٹمائز کی سہولت نے خواتین کو متوجہ کیا، اور آرڈر زیادہ آنے لگے۔آج دس سال کے عرصےمیں عبایا بیچنے کی ابتداء نے اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ میرے پاس تین سو خواتین سلائی کرنے دن بھر آتی ہیں ۔عبایا کے آرڈرز بھی ہیں ۔میرے گھر کے تنازعات تو کب کے ہوا گئے۔ اب صرف ترقی اور خوشحالی کاراج ہے، سچ ہے اللہ جسے چاہتا ہے بے حد وحساب دولت سے نوازتا ہے۔
میس چلانے والی کامیاب خاتون
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے شوہر کا ایکسڈینٹ ہوگیا، اور وہ بستر سے جالگے۔ میرے لیے اچانک افتاد تھی۔معاشی تنگی اور تین چھوٹے بچے ۔ میں نے دیکھا کہ خوشحالی میں سبھی رشتے دار آپ کے قریب رہتے ہیں ،لیکن جوں ہی پریشانیاں بڑھتی ہیں، سبھی رشتے اور تعلقات آپ سے کٹ جاتے ہیں۔میں ذہنی طور پر پریشان رہنے لگی تھی، کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ تب میں نے اپنے شہر کے دور دراز سے تعلیم حاصل کرنے والے دوتین طلبہ کو ٹفن تیار کرکے دینے کا وعدہ کیا ۔میری کوشش ہوتی کہ صفائی کا اہتما م کروں، ان طلبہ سے انسیت سی ہوگئی اور میں نے انہیںگھر جیسا کھانا فراہم کیا ۔
بزنس میں آپ کو اپنے گاہک کا بہی خواہ ہونا چاہیے ،تبھی آپ کی چیزوں کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ان طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو متعارف کروایا۔ چند ماہ میں چالیس ڈبے تیار کرنے لگی، اور آج دس سال ہوتے ہوتے میرے گھر میں کئی ملازم اور ملازمائیں ہیں۔پورے شہر کے طلبہ و طالبات اورمسافرومزدور کے لیے ٹفن تیار ہوتا ہے۔ اب ایک انٹرپرینور شپ شعبہ بن چکا ہے ۔دو کونٹل کھانا دن بھر میں تیار ہوتا ہے.میرے گھر کی خوشحالی میری کڑی محنت، لگن اور ایمانداری کا نتیجہ ہے ۔میرا اسٹارٹ اپ تو زیرو سے اسٹارٹ ہوا ،گھر ہی کے موجود راشن سے دو طلبہ کے ٹفن بنے تھے، رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. ڈاکٹر. ادعیہ مفیض خان

    جزاک اللہ خیرا بہت مفید معلومات فراہم کی آپ نے

    Reply
  2. Sk Naser Mohammad

    Good information. Jazakallah khair

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر٢٠٢٢