ھادیہ کا شمارہ نمبر اکیس آپ کے سامنے ہے۔ اس شمارے کی کور اسٹوری خواتین کی معاشی سرگرمیوں سے متعلق ہے ۔بلاشبہ اللہ رب العالمین نے ہر فرد کو مختلف اور ان گنت صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا، ہر فرد اپنے آپ میں اس نظام کائنات کا قیمتی اثاثہ ہے ۔خواتین کی خوابیدہ صلاحیتوں کے جوہر ان کے گھر کے انتظامی امور اور خاندان کی تنظیم سے واضح ہوتے ہیں، تاہم بدلتے زمانے کے ساتھ پر تعیش زندگی نے خواتین کو کئی ایک پرمشقت کاموں سے بری کردیا ہے، بہت سہولت کے ساتھ وہ اہم ترین کام انجام دیتی ہیں ۔
بچوں کی تربیت کی ذمہ داری پہلے صرف خاندانوں میں ہوا کرتی تھی، لیکن اب اسکولی نظام ہے، جہاں بچے اپنے دن کا بڑا وقت گزار لیتے ہیں ۔بدلے میں خواتین کے پاس بچوں کے بچپن کی نگہداشت کے بعد جوں ہی اسکول جانے لگتے ہیں، فارغ وقت بچتا ہے ۔
اس وقت کو کارآمد بنانے کے لیےتعمیری کام وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ جہاں تجارتی معاملات میں اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے ،وہیں کچھ بہنیں تجارت کا مزاج نہیں رکھتیں، وہ علمی امورو فنون لطیفہ اور تصنیف و تالیف کے کام میں اپنے وقت لگانا چاہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ دلچسپی کا تعین کریں اور چند ایک اسکلز سیکھیں ۔آج کل خواتین کی سیکھنے کے لیے بہت سی سہولتیں موجود ہیں ۔
ان کے لیے بھی کچھ تجاویز ومشورے ذیل میں دیے جارہے ہیں :
(1) تدریس کے شعبے میں اہلیت رکھنے والی بہنیں جاب نہ ملنے سے پریشان ہیں، بلکہ مایوس بھی ہیں کہ وہ قابلیت اور اہلیت کے باوجود جاب لیس ہیں۔انہیں چاہیے کہ آن لائن زوم وغیرہ پر تدریسی فرائض انجام دیں ۔کچھ بہنیں جنہیں ہم جانتے ہیں، وہ بچوں کو تفاسیر پڑھاتی ہیں ۔ بچوں کو کارٹون کے ذریعہ قرآنی سورتوں کے واقعات پڑھائے جاسکتے ہیں ۔
(2) کاؤنسلنگ کورسیز آن لائن کروائے جارہے ہیں۔ آپ کاؤنسلنگ کورس کرنے کو ترجیح دیں ۔انسانی زندگی مادی دوڑ دھوپ کی وجہ جس قدر مشکلات اور نفسیاتی امراض کا شکار ہے، ہم اندازہ نہیں کرسکتے ۔شوہر بیوی کے درمیان تنازعات، بچوں میں تعلیمی مسابقت کا دباؤ، بزرگوں میں بڑھتی کمزوری اور جھنجلاہٹ، معاشی تنگی کی وجہ سے خاندانی چپقلش، نفسیاتی تناؤ کی کیفیت سے نکالنے میں ان کورسیز کے ذریعہ مہارت پیدا کرکے دوسروں کا تعاون کیا جاسکتا ہے ۔
(3) زبان میں مہارت پیدا کرکے ایڈیٹنگ ،پروف ریڈنگ یا اسکرپٹ رائٹنگ اورترجمہ نگاری کے کورسیز کے ذریعہ خواتین مہارت پیدا کرسکتی ہیں ۔
(4) علم وادب اور فنون لطیفہ کو سوشل میڈیائی دور میں بہت اہمیت حاصل ہے ،شعر وادب کے میدان میںخواتین ادب اسلامی سے جڑ کر صلاحیتوں کو نکھار سکتی ہیں ۔
اس حوالے سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے پروفیسر فروغ احمد کی کتاب ’’سواءالسبیل ‘‘کے دیباچے میں لکھا ہے، جسے محترم نجات اللہ صدیقی صاحب نے ’’ اسلام اور فنون لطیفہ میں‘‘ نقل کیا ہے :
’’ بنی نوع انسان جس المناک اضطراب میں مبتلا ہے، اس کا اصل سبب اعتدال کی سیدھی راہ سے اس کا بھٹک جانا ہے ۔اس حالت میں جن لوگوں کو سواء السبیل کی معرفت حاصل ہے، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اٹھیں اور قوت کے ساتھ عالم انسانی کو اس کج روی سے روک کر سیدھی راہ پر چلائیں ۔ اپنی ادیبانہ صلاحیت کو انسانیت کے بھٹکانے میں نہیں، بلکہ راہ راست پر لانے میں استعمال کریں ۔کوئی شعر و ادب اپنی لفظی و معنوی خوبیوں کی بنا پر قابل قدرنہیں ہے ۔ وہ اگر زندگی کی صلاح وفلاح کے لیے نہیں کام کرتا تو ذہن کی عیاشی اور ار باب نشاط کی عشوہ گری ہے، اور اگر زندگی کو بگاڑنے کے لیے کام کرتا ہے تو میٹھا زہر ہے ۔ قدر کے قابل وہ صرف اسی وقت ہوتاہے، جب اس کا حسن زندگی کے جمال میں اضافہ کا موجب ہورہا ہے ۔‘‘
گویا اپنی ادبی کوششوں کو ہم دین کی سربلندی کے جلا بخشیں تو یہ بھی اپنے وقت کا تعمیری مقصد میں صرف ہونا قرار پائے گا ۔
(5) بامقصد اور اصلاحی افسانے لکھنے میں بھی اپنے وقت کو لگایا جاسکتا ہے ،جس طرح کے آپ افسانے پڑھیںگی، اسی طرز پر لکھنے کی عادت بنتی جائے گی ۔جن لوگوں نے تعمیری افسانوں کے ذریعہ اپنی فکر کے مقصد کو آگے بڑھا ہے ان کے افسانے پڑھ کر اسی طرز پر لکھا جاسکتا ہے ۔
عبدالحلیم شرر، علامہ راشد الخیری، ڈپٹی نذیر احمد، آل احمد سرور، پطرس بخاری،اے حمید، انتظار حسین، مائل خیر آبادی ، قرۃ العین حیدر کے افسانے پڑھ کر افسانے کے میدان میں فنی مہارت پیدا کی جاسکتی ہے ۔
(6) افسانے کے علاوہ شارٹ اسٹوری، مائیکرو فکشن، فلیش فکشن ، اسکرپٹ رائٹنگ پر بھی کورسیز کیے جاسکتے ہیں۔ افسانچے کے میدان میں بہت ترقی ہوئی، مصروف ترین دور میں لوگ طوالت سے کترانے لگے ہیں ،بہت کم وقت میں تعمیری ،جامع اور اچھا پیغام دیا جاسکتا ہے ۔مختصر افسانچہ، مائیکروفکشن اور اسے میکروف بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے مختصر افسانہ ہیمنگوے(Hemingway) کا یہ افسانہ ہے :
‘‘.For sale: baby shoes, never worn’’
یہ ایک مختصر ایوارڈ یافتہ افسانہ ہے، جو بیک وقت مختصر بھی ہےاور قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔مختصر لفظوں میں اپنی بات بیان کرنا ایک خوبی ہے ۔خواتین اس میںمہارت حاصل کرکے اسلام کے پیغام کو مختصر الفاظ میں بیان کرسکتی ہیں ۔
(7)سائیلنٹ فکشن بھی موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی صنف ہے۔ آپ نے سوشل میڈیا پر جہیز کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر کھنچتی ہوئی دلہن دیکھا ہوگا؛ یہ بھی خاموش افسانچے کی مثال ہے، بغیر ڈائیلاگ کے صرف خاموش ویڈیو سے بھی اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے ۔
(8)ا سکرپٹ رائٹنگ بھی پیغام رسانی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہماری خواتین اپنی مہارت سے کسی افسانے، ناول یا اسٹوری کو مکالمے میں تبدیل کرسکتی ہیں۔
(9) کیلی گرافی اور پینٹنگ بھی خواتین کے لیے نہایت دلچسپ شعبےہیں۔ایرانی طالبات قرآن کی آیات کی کیلی گرافی کرکے قرانی آیات کی ترویج میں اپنا حصہ لیتی ہیں۔
(10) کوکنگ، خواتین کے دلچسپی کا شعبہ ہے ۔علم امورِ خانہ داری پہلے مدارس کا ایک مضمون ہوا کرتا تھا۔ اب گھریلو زندگی کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ گھریلو ٹپس اورکوکنک چینل کے ذریعہ سلیقہ مندی کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
ان تمام امور پر کڑی محنت اور مہارت درکار ہے،تاہم یہ سب سے اہم ہے کہ ہر فرد کے پاس تعمیری کام ہو۔ انسانیت کی فلاح وبہبودی میں خود کو لگا سکتا ہے ۔یہ مذکورہ بالا تخلیقی صلاحیتیں خواتین کے لیے تعمیری بھی ہیں،اور ان کے پیچھے فکر بھی صالح ہے ۔
سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہاں میک اپ آرٹسٹ، ہیئر آرٹسٹ،برائیڈل آرٹسٹ ؛یہ کورسیز بھی متعارف کروائے جاسکتے تھے، تاہم یہ کورسیز کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں سیکھا جاسکتا ہے، لیکن خواتین میں میک اپ کا بڑھتا رجحان تعمیری کام سے روکتا ہے۔
نومبر٢٠٢٢
زمرہ : ادراك
Comments From Facebook
1 Comment
Submit a Comment
نومبر٢٠٢٢
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
فنون لطیفہ خواتین ماشاءاللہ بہت اچھا لگا اس سے بہت سارے کورس کی معلوم ہوئ اللہ ہادیہ کے تمام لوگوں کو جزا عطا فرمائیں ھا دیہ سے اچھی معلومات فراہم ہو رہی ہے