۲۰۲۲ ستمبر
عالمی امن کا ذکر آتے ہی دنیا کی وہ شبہیہ نظروں کے سامنے ابھرتی ہے جس کو دیکھ کر دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اس وقت عالمی امن کا خواب شاید نامکمل اور ادھورارہ جانے والا خواب ہوگا۔
یوں تو امن و سلامتی اور Peace ڈکشنری کے مطابق لاطینی زبان سے ماخوذ لفظ ہے، اور فرانسیسی زبان کے ذریعہ انگریزی میں داخل ہوا اس کے معنی Quit اور Calm کے یعنی سکون ، آرام وآسودگی کےہیں۔ لفظ امن (Peace) اپنے معنی اور مفہوم میں بہت جامع اور کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔
مشہور انگریزی لغت کالنس(Collins)کے مطابق ’’جہاں جنگ نہ ہورہی ہو ،امن اس وقفہ کا نام ہے۔‘‘
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ’’امن کے معنی جنگ سے آزادی، جارحیت کا خاتمہ ہے۔‘‘
ڈکشنری آف کیمبرج میں ’’امن و عدم تشدد جنگ سے آزادی کا نام ہے، جبکہ لوگ بغیر کسی نااتفاقی کے خوشی خوشی ساتھ میں رہتے اور کام کرتے ہوں۔‘‘
رینڈم میں ’’امن اس عام حالت کا نام ہے، جس میں کوئی ملک یا ملکوں کا گروپ یا پوری دنیا جنگ لڑنے سے باز رہنے کا معاہدہ کرے۔‘‘
ویکی پیڈیا کے مطابق امن و شانتی اور Peace وہ چیز ہے ،جو لوگوں کے درمیان امن و سکون،مساوات ، بھائی چارہ اور خوشی پیدا کرے۔ امن و سکون وہ خیال ہے جہاں بغیر تشدد کے بلا کسی ڈر اور خوف کے تصور کے، لوگ جی سکیںاور ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
یہ تھی لغات کے مطابق کی تشریحات ۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ انسانی حقوق اور عزت و شرف کی بنیاد کیا ہے؟ عالمی امن کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی امن وہ ہے جہاں پوری دنیا میں تمام انسانوں کو برابر انسانی حقوق حاصل ہوں۔ بحیثیت انسان انہیں بنیادی حقوق میں کم از کم روٹی ، کپڑا ، مکان، علاج و معالجہ، دوائیاں ، تعلیم و ٹیکنالوجی کا فائدہ ، معاش کا ذریعہ اور دیگر بنیادی ضروری سہولتیں حاصل ہو رہی ہوں۔ ظلم و زیادتی نا انصافی کا شکار وہ نہ ہوں۔ ان کے لیے عدالتوں کا نظام موجود ہو اور وہاں ہر ایک کو برابر انصاف ملنے کی امید ہو۔
ذات برادری ، رنگ ونسل کے نام پر کالے کو گورے پر، بڑے کو چھوٹے پرکمزورکوطاقتور پر عبور نہ حاصل ہو۔ ذات برادری، قوم پرستی، علاقائیت کی بنیاد پر کوئی ڈر اور خوف نہ ہو۔تکریم انسانیت اور وحدت بنی آدم کا لحاظ رکھا جائے ۔ انسانی عزت اور شرف کو قائم رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں ۔ سماج حیوانی اور وحشیانہ خصائل سے پاک ہو ۔ خونریزی اور سفاکی کا دور دور تک گزر نہ ہو۔ جنگ براۓ جنگ نہ ہو، بلکہ جنگ براۓ امن و سکون ہو۔ قاتلوں اور سفاکوں کو انسانیت کا دشمن سمجھا جائے ۔ دنیا کو یہ بات یاد رکھنی چا ہیے کہ انسانیت سے اہم تر کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا، کسی کو ناحق تکلیف دینا اور اس کے وقار کو مجروح کرنا انسانیت کے خلاف ہے ۔ قرآن کی اسی تعلیم کے مطابق
مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ وَمَنۡ اَحۡيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحۡيَا النَّاسَ جَمِيۡعًا ‌ؕ (المائدہ: 32)
ترجمہ :کہ جس نے کسی ایک انسان کو نا حق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک جان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا۔
یہی سوچ اور فکر لوگوں کے اندر بیدار کی جائے تو شاید دنیا میں امن وسکون بحال ہو سکے گا، ور نہ تمام ممالک کے مضبوط عدالتی نظام کے باوجود اقوام متحدہ کی موجودگی میں دنیا انصاف کے لیے ترس رہی ہے ۔ اب امن کی راہ میں رکاوٹ کی اہم وجوہات کا ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔
اول- استعماریت عالمی امن کے لئے خطرہ
استعماریت (Imperialism) کا تسلط دنیا میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔ لہٰذا، ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں اپنے اثرات کو مضبوط کرنے اور اپنی من مانی کرنے کی خاطر کچھ طاقتور ممالک قوت کے بل بوتے پر قابض ہو چکے ہیں ،اور غریب و کمزور ممالک کا بیڑہ غرق کرنے کے درپے ہیں ۔ انہوں نے ان ممالک کے تمام ذرائع وسائل اور ان کے معاشی اور اقتصادی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ مادہ پرستی اور دولت کی ہوس، لوگوں پر اپنی حکمرانی مسلط کرنے کے جنون نے انہیں خود غرض و بے حس بنادیا ہے ، اور انسان انسان سے، قومیں قوموں سے ،ملک ملک سے بر سر پیکار ہیں ۔ انہوں نے لوگوں کے شہری حقوق اور ان کے انسانی حقوق غصب کر لیے ہیں ۔ ہر طرف لاقانونیت اور نا انصافی کا ایسا بازار گرم ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ایک بار پھر عالمی جنگ کی طرف دھکیلی جاچکی ہے ۔ اس کی شروعات تو پچھلی چند دہائیوں سے مغربی استعماریت کے ذریعہ ہو چکی ہے ۔ امریکہ کینیڈا ،فرانس، برطانیہ ،جرمنی اور دیگرسامراجی ممالک کمزور ممالک (خصوصا ًمسلم ممالک) کو اپنے نشانہ پر لے چکے ہیں۔ وہ وہاں اپنی فوجیں وقتاً فوقتاً اتارتے اور ہٹاتے رہتے ہیں ،گویا وہ اپنا رعب قائم کرکے انہیں ڈرا کر کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ اس کی زد میں عراق،شام، لیبیا اور فلسطین جیسے ممالک ہیں ۔ان کے امن و سکون کو غارت کرکے ان کے تمام حقوق کو چھین لیا گیا ہے ۔ ان کےتمام ذرائع وسائل پر قبضہ کر کے انہیں اپنے سامنے سےگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کمزوروں، بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں تک کو نہیں بخشا جارہا ہے۔
روزانہ سیکڑوں لوگ اپنی جان کی بازی لگا کر جام شہادت نوش کررہے ہیں۔
یہاں کا امن و سکون بالکل بکھر چکا ہے۔ ان کا قصور یہ ہےکہ وہ ان استعماری طاقتوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے ۔ انہوں نے ان تمام ممالک کے خلاف یہ پروپیگنڈہ بھی کیا کہ یہ ممالک امن کی راہ میں رکاوٹ اور دنیا میں دہشت پھیلانے والے ہیں۔ یہ دہشت گردی کی سرپرستی کررہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کےاتحادیوں اور حامیوں نے اپنی فوجوں کے ذریعہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امن کی بحالی کی غلط بیانی کرکے پہلے عراق پھر افغانستان ، شام اور لیبیا پر حملہ کرکے نیٹو فوج کے ذریعہ ان تمام ممالک میں قہر ڈھایا ،ظلم کے پہاڑ توڑے۔‌انہوں نے ترکی پر بھی حملہ کرکے وہاں کی نئی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے پوری ٹیم تیار کی، اور بڑی تعداد میں انہیں اسلحہ فراہم کیا، لیکن ترکی کی فوجی طاقت اور عوام کے اتحاد نےانہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ لہذا جن ممالک کی عسکری طاقتیں کمزور تھیں ،وہاں انہیں کامیابی ملی اور لیبیا ،شام ، عراق ، افغانستان وغیرہ اس کی لپیٹ میں آنے سے نہیں بچ سکے۔
ابھی حالیہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بھی انہیں استعماری اور سامراجی طاقتوں کا رچا ہوا کھیل ہے ،جہاں روس کی سرحدوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خواہش نے جنگ کو مسلسل 6 ماہ سے جاری رکھا ہے ۔اس کی بھی قیادت اقوام متحدہ کا حامی امریکہ کر رہا ہے ۔اب تک دونوں جانب سے ہزاروں لوگ اس جنگ میں مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں لوگ یوکرین سے ہجرت کر کے دوسرےملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یورپ اور افریقہ میں غذائی اوردیگرخوردنی اشیاء کی قلت ہے، مہنگائی بھی بڑھی ہوئی ہے۔ اس طرح سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ استعماری طاقتیں اور ان کے حامیوں نے کس طرح امن و سکون کو نقصان پہنچایا ہے۔
غالباً 1970 ءمیں اسی طرح کوریا اور ویتنام میں بھی تباہی آئی تھی۔ سلطنتوں اور حکومتوں کے اختیارات کو بڑھانے اور ایک دوسرے پر غاصبانہ قبضے کے شوق نے انہیں بالکل اندھا کردیا۔ٹھیک اسی طرح جیسا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران علاقائی توسیعی ایجنڈے کے تحت دنیا میں تباہی مچی تھی اور اس میں تمام ممالک بشمول ، جرمنی ،فرانس، انگلینڈ ،اٹلی، امریکہ اور روس کے ساتھ ساتھ ترکی بھی شامل تھا۔ پہلی عالمی جنگ جرمنی میں برپا ہوئی اس میں 5 کروڑ لوگ مارے گئے۔ اس وقت بھی دنیا کی تمام بڑی استعماری طاقتیں اس میں شامل تھیں۔ ایک طرف جرمنی،اٹلی اور جاپان؛ دوسری جانب امریکہ، انگلینڈ ،فرانس اور روس برسر پیکار تھے۔ دوسری عالمی جنگ 8 سال تک 1938 ءسے 1946 ءتک جاری رہی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ استعماری طاقتیں عالمی امن کے لیے ہمیشہ خطرہ رہی ہیں۔
دوم- جارح قوم پرستی اور عالمی امن
دوسری بڑی اور اہم وجہ عالمی امن کے لیے جارح قوم پرستی بھی رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں استعماریت (Imperialism) کے ساتھ ساتھ قوم پرستی کے احساس نے بھی جرمنوں کے اندر کلیدی کردار ادا کیا۔
اسی طرح عربوں کے اندر خلافت عثمانیہ کے زوال کی وجہ ان کا قوم پرستانہ نفرت کا جذبہ اہم وجہ بنا۔ لہٰذا، ان کی اس بنیاد کی وجہ سے ترک خلافت کا خاتمہ ہوگیا اور فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا گیا۔‌1918 ءمیں اسرائیل کو قائم کرکے ارض فلسطین پر ان کا جینادو بھر کردیا گیا،اور آج تک یہودی قومیت کے زہر نے وہاں بوڑھوں، بچوں ،خواتین پر قہر ڈھا رکھا ہے ۔ لہٰذا، ان کی زندگی عذاب ہوچکی ہے۔
اسی طرح مذہبی قوم پرستی کے جنون نے جنوبی ایشیا میں امن و سکون کی تباہی و بر بادی میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ 1947 ءمیں تقسیم ہند کے دوران ہونے والی خانہ جنگی اس کی زندہ مثال ہے ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے اور ستائے گئے بے گھر ہوئے، اپنوں سے بچھڑ گئے۔
1971ء میں پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش بنا تو اس وقت بھی لوگوں کو ظلم و ستم کا شکار بننا پڑا۔ چند سال پہلے میانمار (برما) میں بدھ قوم پرستی نے مسلمانوں پر کیا کیا ستم ڈھائے، تقریباً 10 لاکھ برمی مسلمان پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اسی طرح سری لنکا میں تمل قوم پرستی نے 1983 ءسے 2009 ءتک خانہ جنگی مچا رکھی تھی ۔ ان تمام مثالوں سمیت پوری دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں اور دیکھیں تو کتنی مثالیں اور ملیں گی جو قوم پرستی کی زندہ مثال ہیں۔
جس کو دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دنیا میں مذہب کی بنیا د پر ملک کی سرحدوں کی بنیاد پر پنپنے والی جارح قوم پرستی اور استعماریت نے مل کر اس طرح کا ماحول بنادیا ہے کہ امن وسکون حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔
انیسویں صدی کی بات کی جائے تو غلاموں کی تجارت کی بات بھی آتی ہے۔ افریقہ جیسے غریب ممالک سے مزدوروں کو زبردستی امریکہ ،انگلینڈ، فرانس کی کالونیوں میں منتقل کر کے ان سے جبری مشقت کرانے کے واقعات بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے مختلف حصوں سے انگریزوں نے لاکھوں لوگوں کو ماریشس ، ملیشیا اور دیگر ممالک میں بھیج کر ان سے جبری مشقت کرائی۔
پھر آسٹریلیا اور امریکہ کینیڈا میں لاکھوں مقامی باشندوں کو ( آدی واسی) وہاں کے آبائی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ صرف اپنی حکومت اور اپنی سلطنت کو بڑھانے کے لئے اور اپنی تانا شاہی کو برقرار رکھنے کے لئے یہ کام کیا گیا۔
بہرحال ،ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں استعماری طاقتیں کس طرح سے دنیا کا امن وسکون ختم کیے جارہی ہیں۔
اب دنیا میں امن و سکون بر قرار رکھنے اور اسے واپس لانے کے لئے جدو جہد کرنا،اس موضوع پر غوروفکر کرنا لوگوں کو آمادہ کرنا ایک خام خیالی ہے ۔
امن کے تعلق سے اسلام پر نگاہ ڈالیں تو پہلی ہی نظر میں ہم اس سے متعارف ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ اسلام کس طرح کا تصور امن وسلامتی پیش کرتا ہے ۔
امن عالم اور اسلام / اسلام کا تصور امن
اسلام اور ایمان یعنی ’’مسلم ‘‘اور ’’امن ‘‘ان دونوں الفاظ کی خوبصورت لڑی سے یہ الفاظ مزین ہیں،اسلام کا ماننے والا مسلم اور امن میں داخل ہونے والا ہے اور اسلام میں داخل ہوکر امن و سلامتی کا پیرو کار مومن و مسلم ہوتا ہے ۔ تو اس طرح سے سلامتی اور امن کا نام ہی اسلام اور ایمان ہے۔ اسلام میں داخل ہونے والا اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے اس لیے وہ مومن بن جاتا ہے ۔ اسلام کی پوری تعلیم اس بات پر اور اس بنیاد پر قائم ہے کہ وہ مومن ہو ہی نہیں سکتا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ نہ ہوں۔
یہ حدیث ہے:
المؤمن من امنه الناس علی اموالہم و انفسھم
(مومن وہ ہے جس سے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں ہو۔)
قرآن میں ارشاد ہے:
وَلَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ اِنَّ اللٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞
(القصص: 77)
ترجمہ: اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیوں کہ اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اسلام فساد، ظلم و زیادتی پھیلانے والے اور امن کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو پسند نہیں کرتا ،حتیٰ کہ انہیں اسلام سے خارج سمجھتا ہے ۔
رسول ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام ٹھہرا لیا ہے، تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
( مسلم، ابوداؤد)
یہ بھی فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو بیچنے خریدنے اور تقاضا کرنے میں نرمی کرتا ہے ۔‘‘ (بخاری)
آج دنیا کا لین دین کا نظام ، معیشت کا نظام اس قدر سودی قوانین سے بندھا ہوا ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر بنتا جا رہا ہے۔ اشیاء کی خرید و فروخت ہو ،سامان تجارت، مشینوں کا کاروبار ہو یا اسلحہ کا لین دین سب کرپشن سے گِھر چکا ہے۔ لوگوں کو مقروض کر کے انہیں اس طرح اپنے لیے تیار کیا جا رہا ہے کہ اس جال سے باہر نکلنا مشکل ہے۔
اسلام’’ الخلق عیال اللہ‘‘ (تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔)اس بات کی تعلیم دیتا ہے اور سب سے زیادہ بہتر اسے بناتا ہے جو اس کی مخلوق سے محبت کرے اور اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرے ،اس طرح نا حق کسی کی جان لینے سے منع کیا اور کہا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک تعالیٰ سب سے پہلے جن معاملات کا فیصلہ فرمائے گا ،وہ قتل کے معاملات ہونگے ۔
(بُخاری مسلم)
اسی طرح سے دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں مثالِ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارے سامنے ہیں۔جس کو اسلام پیش کرتا ہے۔اور وہ امن و امان قائم کرنے،زمین پر سکون و چین کو برقرار رکھنے کے لیے بتائی گئی ہیں ۔انہیں اسلامی اسٹیٹ کے ذریعہ قائم کر کے دنیا کے سامنے اُس کی مثالِ پیش کی گئی۔غلاموں کے ساتھ کیا سلوک ہو؟ آقا و غلام کا کیا رشتہ ہو؟ اورغلامی کےچلن کو کس طرح ختم کیا گیا؟رعایا اور عوام کے ساتھ انصاف کیسے قائم ہو؟ اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا حاکم اگر انصاف کرتے وقت اپنی اولاد کو بھی سزاوار پاتا تو اسکو بھی نہیں بخشتا تھا۔اسلام نے اخلاقی قدروں کی پاسداری اور انسانی جان و مال کی حفاظت اس طرح سکھائی کی جنگ اگر لڑی بھی جائے اور ناگزیر ہو تو اُس کے بھی اصول اور آداب بتائے۔کمزور،نہتے ،بچّے ،بوڑھے ،عورتیں اور جو جنگ میں شریک نہ ہو ۔ اُن پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا،قیدی کے بھی حقوق بتائے۔حتٰی کے فتح کا جشن بھی ایسا ہو کہ اُس میں کسی کو کوئی نقصان نہ ہو،سب کو امان حاصل ہو۔
ہری بھری کھیتی، مویشی جانور سب کی حفاظت کا طریقہ بتا دیا گیا ۔دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک ہو، یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرکے بتا دیا کہ’’ آج سب کو امان ہے، آج سب میرے پاس محفوظ ہیں۔کسی کو کوئی ڈر نہیں۔‘‘ اس طرح اسلام امن و سلامتی کا ایسا پیغام عمل پیش کرتا ہےکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کسی مسلم حکمران نے اپنے دور حکومت میں کسی غیر مسلم کو پریشان نہیں کیا ۔سب کو بحیثیت انسان تمام شہری حقوق حاصل تھے ،مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، اگر تعصب سے پاک ہو کر پڑھا جاۓتو آج بہت سے فتنوں کا سدباب ہو سکتا ہے ۔ امن و سکون قائم کرنے کے سلسلے میں سید قطب شہید کے ایک اقتباس پر مضمون مکمل ہوتا ہے:
’’امن وسلامتی کو قائم رکھنے میں انسانی فیاضی ایک عنصر ہے،آج دنیا اور اس پرغالب تہذیبیں سب اس عنصر سے خالی ہیں، آج کی دنیا کو مذہبی ،نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھا ہے ۔ان مذموم تعصبات کے باعث انسانیت آج ایک ڈھے جانے والے گڑھے کے کنارے کھڑی ہے۔ اس میں انسانی رواداری، حقیقی عدل و انصاف مفقود ہے۔ اس کےجلو میں حسد و بغض اور اقتصادی و غیر اقتصادی لالچ رواں دواں ہے۔ ان اختلافات نے انسانی زندگی کو جنگ و صلح دونوں میدانوں میں جہنم بنا کر رکھا ہے۔
دنیا آج ایک ایسے خوف میں مبتلا ہے جس میں امن کی کوئی صورت نہیں ۔ایسے کینےاورحسد کا شکار ہےجس میں امن و سلامتی کا کوئی وجود نہیں اور ایسی تاریکی میں کھو گئی ہے کی روشنی کی کوئی کِرن نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود تم ان مایوس تہذیبوں کو فخر و غرور میں مبتلا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے پاؤگے۔ حالانکہ یہ انسانیت کو جنگ پر جنگ بد بختی پر بدبختی، اور مصیبت پر مصیبت بخش رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ آج انہیںلوہے، آگ اور بخار کی قوتوں پر کنٹرول حاصل ہے، وہ ایٹم بم اور ہائٹروجن، بم بنا سکتی ہیں۔ مگرآہ! محبت کے ذروں میں سے ایک ذرہ اور رواداری کے عناصر میں سے ایک عنصر انکے قبضہ میں نہیں، نہ انسانیت کی طاقتوں میں سے وہ کسی طاقت پر دست رس رکھتی ہیں۔
یہ ایک روحانی کیفیت ہے جو روحانی تاریکی اور زوال کے دور میں انسانی
روح پر طاری ہوتی ہے ۔ کوئی ایسا مرہم موجود نہیں جو اسے شفا دے سکے، کوئی ایسی روشنی کی کرن نہیں جو اس کےمخفی گوشوں کو روشن کر سکے۔ صرف ایک علاج ہے وہ یہ کہ اسلام انسانیت کی رہنمائی ایک مرتبہ پھر انجام دے۔ اسے انسانی رواداری کی طرف پھیر دے ۔ اور اس کی ایجادات و علوم ، رحمت و حضارت اور امن و سلامتی کے آلے میں تبدیل کردے۔‘‘
(بحوالہ: امن عالم اور اسلام،از:سید قطب شہید)

ویڈیو :

آڈیو:

audio link
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر