۲۰۲۲ ستمبر
ابھی بھی وہ وقت مجھے اچھی طرح ذہن نشین ہے جب تمہارے ننھے ننھے مبارک قدموں کے نشان ہماری دہلیز پر پڑے، تمہیں کیا پتہ کہ اُس وقت تم کتنے چھوٹے تھے ، کتنے معصوم تھے اور کتنے بھولے لگ رہے تھے۔ اپنی بے گناہ سی چمکیلی آنکھوں سے تمہارا مجھے دیکھنا دل کو بھا گیا، کیونکہ آنکھوں پر ترس کھانا میری فطرت نہیں ،بلکہ ہمدردی یا یوں سمجھو مجبوری ہے پھر چاہے وہ محبوب کا محبت بھری آنکھوں سے دیکھنا یا امی کی خطرناک آنکھوں کا وقتاً فوقتاً سا مناہونا۔ خیر، پھر تم تو ٹھہرے یتیم مسکین ،اور یہی وجہ بھی تھی کہ تم نے آسانی سے بلا جھجک ، بے خوف گھر میں اپنی جگہ بنا لیا۔
وقت گزرتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمہارے اندر پُھرتی آنا شروع ہو گئی۔ پھر کیا تھا گھر کے چاروں کونوں میں بلا تکلف اِدھر اُدھر گھومنے لگے، کچن سے لے کر حجرے تک آزادی کے ساتھ سیر کرنے لگے، موقع کو غنیمت سمجھ کر بہت سی نعمتوں پر بغیر اجازت ہاتھ صاف کرنے لگے۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ تم گھر کے ایک عام فرد کم ،مالک زیادہ ہو۔ چلو تمہاری یہ سب حرکتیں اچھی لگتی تھیں، کیونکہ وہ تمہاری شرارتوں کے دن تھے اور تمہارے کھیلنے کودنے کی عُمر بھی تھی۔
لیکن…
آہستہ آہستہ تم بڑے ہوتے گئے اور بگڑنے والی جوانی کی عُمر کو پہنچے ، مہمانوں سے میزبان تک تو ٹھیک تھا، لیکن تُم نے ہماری سادگی ، مہمان نوازی ، عزت افزائی کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اُٹھا لیا۔ تم نے اپنا قبیلہ چھوڑ کر ہمارے گھر کی طرف ہجرت تو کرلی، اِسے اپنا مسکن ہی بنا لیا۔ گول گول آنکھیں ، لمبی لمبی مونچھیں لے کر کسی ڈھیٹ کی طرح رہزنی پر اُتر آئے۔ راجوں مہاراجوں کی طرح تخت پر براجمان ہو گئے۔ کل تک تمہاری جو معصوم شکل تھی ،آج اس نے سیاست کا روپ دھار لیا۔ تم نے اپنی طاقت کے زور پر لوگوں کو ناکوں چنے چبوانا شروع کر دیا۔
ہم بچارے عوام اپنے ملک کے سربراہ اعظم کی بے تُکی گندی سیاست سے پریشان تھے ہی کہ تم نے بھی کمر توڑنی شروع کر دی۔ کبھی چھتیس انچ کا سینہ پُھلائے گندم کی کوٹھی میں شکم سیر ہوتے دکھتے تو کبھی کچن کے نعمت خانہ کی نعمتوں کو باپ دادا کی وراثت سمجھ کر چٹ کرتے نطر آتے اور پھر الزام ہمارے سر ایسے آتا، جیسے سماج میں امیروں کے کالے کرتوت غریبوں کے سر باندھ دیئے جائیں۔ حتی کہ تم ہر جگہ اپنی سیاسی مکاریاں دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔
بہرحال ،یتیم سمجھ کر کھانے پینے تک تو معاملہ ٹھیک تھا۔ لیکن وہ سیاہ دن کبھی نہیں بھولیں گےجب تم نے جلے پر نمک چھڑکنے میں اس وقت کوئی کسر نہیں چھوڑی ،جب تم نے برسوں کی محنت سے تیار کی ہوئی لائبریری میں گھسنے کی جسارت کی۔ تم نے اُس کا ایسا معائنہ شروع کیا جیسے بزرگ چشمہ لگا کر سرہانے رکھی روپے کی تھیلی کا کرتے ہیں۔ تم کتابوں کے درمیان بیٹھ کر خود کو مستقبل کا مصنف تصور کرنے لگے۔ دُم ہلاتے کہیں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تفہیم پر مترجم بنے بیٹھے رہتے ، کہیں حدیث کی کتابوں کے ساتھ ورد کرتے محدث کی طرح دکھتے، کہیں ابنِ صفی کے ناول پر حمید اور فریدی کا کردار نبھاتے نظر آتے، کہیں غالب اور میر کےدیوان پر شاعری کی محفل جماتے نظر آتے، اور تو اور بے ادبی کی حد اُس دن تم نے پار کی جب تم نے آداب زندگی کو کترنے کی جدوجہد کی۔ افسوس کہ تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ غرض یہ کہ تم نے کوئی بھی کتاب بغیر ریسرچ کیے نہیں چھوڑی۔
جب برداشت اور صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو ہم نے تمہارے قتل کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ جس کی خبر شاید تم تک پہنچ گئی تھی اور پھر تم دن میں کم نظر آنے لگے تو ہمیں لگا کہ تم شاید خالہ بلّی کا لقمۂ اجل بن چکے ہو یا موت کے خوف سے کہیں منہ چھپانے کی کوشش میں اپنا نیا ٹھکانہ تلاش کرنے لگے ہو۔ ابھی ہم اسی خوش فہمی میں غرق رہتے کہ تم اُسی وقت ہماری خوشی کو کافور کرنے کے لیے کندھا اچکاتے سیاسی مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے گھستے چلے آتے: ’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ؟‘‘
پھر کیا تھا۔ ہم نے بھی ہار نہیں مانی۔ سننے میں آیا تھا کہ جہاں بازاروں میں جنم دن کا کیک دستیاب ہے وہیں تمہارے مَرن دن کا کیک بھی بآسانی فراہم ہے۔ ہم نے اسے خریدا اور اسے تمہاری مانوس جگہوں پر تھوڑا تھوڑا کر کے سلیقے سے رکھ دیا۔ یوں تاریخ نے گویا اپنے آپ کو دہرایا، جس زہر کے پیالے کو سقراط نے جان بوجھ کر پیا اُس زہر کے کیک کو تم نے دھوکے سے کھا لیا اور تمہاری چالاکی پر ہمارا غلبہ ایسے ہوا جیسے کفر پر اسلام کا۔ پھر تم اپنے بھلے کرتوتوں کے ساتھ ہمیشگی کی میٹھی نیند سو گئے۔
آہ!تم تو چلے گئے مگر دُکھی کر گئے۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے جنازے کے وقت خواجہ حسن نظامی صاحب کی انشاء پردازی کا شاہ کار: ’’جھینگر کا جنازہ‘‘ کتنا یاد آیا کہ:
’’چوہے کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘
خیر، تمہارا اور ہمارا ایک لمبے وقت کا ساتھ تھا، اس لیے ہم نے اپنا قیمتی وقت تمہارے خراجِ عقیدت میں صرف کرتے ہوئے تمہارے عظیم کارناموں کو خط کےذریعہ سطر بند کر ڈالا۔ آخر کیوں قلمبند نہ کرتے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان منگولوں والی جنگیں جو برپا تھیں۔
Comments From Facebook

6 Comments

  1. سمیہ شیخ ناگپور

    ہائے بڑی خوب صورت تحریر ….?واللہ مزا آگیا پڑھنے میں….? جنم دن کے کیک اور مرن دن کے کیک پر تو ہنسی چھوٹ گئی ….? بڑی خوبصورتی سے سیاست کو بھی چھیڑ ڈالا…?

    Reply
  2. اریشہ تقدیس

    واہ۔۔۔کیا انداز بیان ہے۔۔۔۔آپ کے دیگر مضامین کا انتظار رہیگا۔۔۔

    Reply
    • امّ ہانیہ

      اردو ادب میں بہت عرصہ بعد مزاح سے لبریز طنزیہ تحریر سامنے آئی ہے۔ بھگو بھگو کے مارنے والا انداز۔۔۔۔اُداس چہروں پر مسکراہٹ بکھیر نے والا اندا ۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔ ۔

      Reply
  3. شیبا آفرین

    السلام علیکم
    ماشاء اللہ کیا خوب آپ نے تحریر کیا بہت ہی دلچسپ آپ نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا طنزومزاح کے ذریعے آپ نے موصوف کے کارناموں کو اجاگر کیا
    اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو اٰمین

    Reply
  4. عبدالعزیز شیخ

    مزیدار مزاح ، عمدہ تحریر ?

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر