۲۰۲۲ ستمبر
سوال :
والدین ہمارے مستقبل کے لیے جو فیصلے کرتے ہیں ان کی اپنی دانست میں وہ بہترین ہوتے ہیں، تاہم جدید ذرائع نے بچوں کے سوشل روابط کو اب اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اپنے لیے منتخب کیے گئے ساتھی کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے جان لیتے ہیں کہ مزاجی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ لڑکے کی سوشل سائٹس پر فحش سرگرمیاں اس کی غیر سنجیدگی کو واضح کرتی ہیں۔ والدہ سے اس کا ذکر کیا۔ ان کے نزدیک لڑکے کی یہ بات نارمل ہے۔ والد سے بات کریں تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ وہ بہتر فیصلے پر ہیں۔ اس عمر میں لڑکے غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ اس سے رشتہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
میں ایک تحریکی مزاج کی لڑکی ہوں۔ اس اعتبار سے والدین کی پسند کو قبول کرنے میں میری تحقیق مانع ہے۔ ایسی صورت میں اس رشتے کو قبول کرنے سے میں صاف انکار کردوں، یا والدین کی پسند کو قبول کرلوں؟ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
اولاد کے تعلق سے والدین کے فرائض میں سے ہے کہ ان کی بہتر طریقے سے پرورش کریں، ان کے لیے ضروریاتِ زندگی فراہم کریں، ان کی تعلیم و تربیت کا نظم کریںاور وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا نکاح کردیں۔ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہے، لیکن احادیث نبویؐ میں خاص طور پر لڑکیوں کے معاملے میں یہ تاکید صراحت کے ساتھ آئی ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن عَالَ جَارِیَتَینِ حَتّٰی تَبلُغَا جَائَ یَومَ القِیَامَۃِ أنَا وَہُوَ کَہَاتَینِ، وَضَمَّ أصَابِعَہٗ ﷺ(مسلم:۲۶۳۱)
’’جس شخص نے دو بچیوں کی ان کے جوانی کو پہنچنے تک پرورش کی، قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح
ہوں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے آپؐنے اپنی انگلیوں کو ملایا۔
بعض احادیث میں والدین کے ذریعے لڑکیوں کا نکاح کرائے جانے کی بھی صراحت کی ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ فَلَہُ الْجَنَّۃ
(ابو داؤد :۵۱۴۷)
’’ جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کو ادب سکھایا، ان کا نکاح کر دیا اور ان کے ساتھ
حسنِ سلوک کیا، اس کے لیے جنت ہے۔‘‘
[اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا گیا ہے، لیکن اس کی بعض سندوں کو محدثین نے ’صحیح لغیرہ‘ کہا ہے۔]
رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ إِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِینَہُ وَخُلُقَہُ فَزَوِّجُوہُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِیضٌ(ترمذی: ۱۰۸۴، ابن ماجہ:۱۹۷۶)
’’جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص (تمھاری بیٹی سے نکاح کاپیغام دینے کے لیے) آئے جس کے دین
اور اخلاق پر تمھیں اطمینان ہو تو اس سے نکاح کردو، اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین مین فتنہ اور بڑا فساد روٗ نما ہوجائے گا۔‘‘
رشتہ طے کرتے وقت دین داری اور اخلاق کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہم آہنگی کے تمام پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کلچر، رہن سہن، سماجی مقام، معاشی حیثیت، ذریعۂ معاش، ملازمت، مزاج، اندازِ فکراور دیگر چیزوںکا جائزہ لے کر اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی ممکن ہے یا نہیں۔ محض معاشی آسودگی دیکھ کر نکاح کا فیصلہ کرلینے اور دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ بسا اوقات اچھا نہیں ہوتا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد شکوہ شکایات شروع ہوجاتی ہیں، جو بڑھتے بڑھتے تنازعات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور معاملہ علیٰحدگی تک جا پہنچتا ہے۔
نکاح کے معاملے میں ایک اور بات ملحوظ رکھنی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ رشتے کو منظور کرنے یا نہ کرنے کا آخری اختیار کس کے پاس ہے ؟ اس کا حق ماں باپ کو ہے یا لڑکی کو؟ ظاہر ہے، شریعت نے اس کا اختیار لڑکی کو دیا ہے، اسی لیے نکاح کے وقت اس کی مرضی معلوم کی جاتی ہے اور اس کی اجازت کے بعد ہی نکاح کی کارروائی انجام دی جاتی ہے۔
بعض والدین اس معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ وہ لڑکی کے لیے اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں وہ لڑکی کو شریک ِ مشورہ نہیں کرتے۔ رشتہ طے ہوجانے تک بھی اس کی مرضی معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور اپنا حکم سنا دیتے ہیں، چاہے وہ رشتہ لڑکی کو نا پسند ہی کیوں نہ ہو۔ بسا اوقات اس معاملے میں والدین اور لڑکی کے درمیان سرد جنگ جاری رہتی ہے۔ والدین جس رشتے کو پسند کر لیتے ہیں، لڑکی وہاں شادی کرنے پر تیار نہیں ہوتی اور لڑکی جس سے نکاح کرنا چاہتی ہے، والدین اسے منظوری نہیں دیتے۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ یا تو لڑکی اپنے ارمانوں کا خون کرکے والدین کی بے جا خواہش کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ، یا والدین سے بغاوت کرکے اپنے پسندیدہ لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے ، چاہے والدین اور اہل ِ خاندان کی عزّت خاک میں مل جائے اور رسوائی ان کے ہاتھ آئے۔
اس سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ والدین کو کوئی رشتہ فائنل کرنے سے قبل لازماً اپنی لڑکی سے اس کی مرضی معلوم کرنی چاہیے اور اگر وہ اس رشتے پر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہ کرے تو اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپنی چاہیے ۔ اسلام لڑکی کو اختیار دیتا ہے کہ والدین کی طرف سے تجویز کردہ کوئی رشتہ اسے پسند نہ ہو تو وہ اسے رد کرسکتی ہے ۔ عہد ِ نبوی میں پیش آنے والے بعض واقعات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
ایک لڑکی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:’’ میرے باپ نے میرا رشتہ اپنے بھتیجے کے ساتھ طے کردیا ہے، جب کہ یہ رشتہ مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘ آپؐنے اسے اختیار دیا اور فرمایا کہ اگر تمہیں یہ رشتہ پسند نہیں تو یہ نہیں ہوگا۔تب اس لڑکی نے کہا :’’ اے اللہ کے رسول ! جو کچھ میرے باپ نے کیا وہ مجھے منظور ہے۔ میں تو بس یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا عورتوں کو اپنے نکاح کے معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں۔‘‘
( نسائی:۳۲۶۹، ابن ماجہ:۱۸۷۴، احمد:۲۵۰۴۳)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اگر لڑکی کو کسی وجہ سے اس کے والدین کی طرف سے تجویز کردہ رشتہ پسند نہ ہو تو وہ اسے نامنظور کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔ والدین کو اسے اپنی اَنا کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ، بلکہ لڑکی سے ڈِسکس کرکے اس کی باتیں غور سے سننی چاہییں ۔وہ کب تک زندہ رہیں گے ؟ اور کب تک اپنی لڑکی کو سپورٹ فراہم کریں گے؟ لڑکی کو زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارنی ہے ۔ اگر ان کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں رہی تو اس کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہ سکے گی ، بلکہ اجیرن بن جائے گی۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر